*استاذ محترم "مولانا طاہر مدنی صاحب" بغیر کسی کو اطلاع دیئے آپ کہاں چلے گئے ہیں؟؟؟؟*
*از قلم :- ابو حمزہ فلاحی* ۔
مولانا لوگ مجھے پاگل سمجھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اسکا دماغی توازن درست نہیں ہے یہ اپنا دماغی توازن کھو چکا ہے، مولانا جب جب میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو بس انکا یہی ایک جواب ہی ہوتا ہے کہ دماغی توازن میرا کھو چکا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے، مولانا لوگ کہہ رہے ہیں کہ کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس جا کر اچھے سے اپنا علاج کروا لو۔ مجبورا میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا تو ڈاکٹر صاحب بھی کہہ رہے ہیں کہ کوئ بات نہیں ہے سب ٹھیک ہے، ہاں لیکن ایک ایسی بیماری ہے جسکا علاج ہمارے پاس نہیں ہے، ہمارے پاس کیا دنیوی کسی ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب ایسی کون سی بیماری ہے جسکا علاج کسی کے پاس نہیں ہے، ڈاکٹر صاحب بھی کچھ جواب نہیں دے رہے ہیں، کافی اصرار کرنے کے بعد آپ نے بتایا کہ اسکا علاج صرف اور صرف مولانا ہی کے پاس ہے۔ مولانا اب آپ ہی بتائیے نا مجھے کچھ نہیں ہوا ہے نا، میں بالکل ہوش میں ہوں نا، ان لوگوں کو بتا دیجیئے اور ہاں ڈاکٹر صاحب کو بھی بتا دیجیئے کہ میں بالکل صحیح ہوں، مجھے کوئ ایسی ویسی بیماری نہیں ہے۔ مولانا آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے ہیں، مولانا دیکھیئے نا میں بالکل ہوش میں کہہ رہا ہوں نا کہ آپ کہاں چلے گئے ہیں کسی کو بھی اطلاع نہیں کی پورا گاؤں ماتم بن گیا ہے، حتی کہ جانور، چرند ، پرند سب رو رہے ہیں، اور اس شاخ سے اس شاخ ایک ڈالی سے دوسری ڈالی پر بے چینی کے عالم میں چکر کاٹ رہے ہیں، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے، گاؤں سے بالکل رونق ہی ختم ہو گئ ہے، بوڑھے، جوان، بچے، مرد، عورت سب آپکو ڈھونڈھ رہے ہیں، مائیں اپنے اپنے دروازے پر بیٹھی ہیں اور بہنیں اپنی اپنی کھڑکیوں سے جھانک رہی ہیں، بوڑھے، جوان بچے سب آپکو گلی گلی کوچہ کوچہ ڈھونڈھ رہے ہیں، کچھ لوگ گاؤں کے باہری گیٹ پر آپ کے منتظر ہیں کہ مولانا ابھی ادھر ہی سے آئیں گے، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نہیں ادھر سے آئیں گے ،کچھ لوگ کہہ رہے ہیں نہیں اسطرف سے آئیں گے۔ مائیں اور بہنیں آپس میں جھگڑ رہی ہیں، کہہ رہی ہیں کہ مولانا ہمارے گھر کے سامنے سے جائیں گے تو ہم ان کو اپنے گھر سے آگے بڑھنے نہیں دیں گے، ان کو گھر میں بلا کر ان کی پسند کا کھانا کھلائیں گے، اور ساتھ میں میٹھا بھی کھلائیں گے، اور ان سے پوری سفر کی روداد سنیں گے، اور ان کو محبت بھرے انداز میں ڈانٹ پھٹکار بھی کریں گے کہ آپ کہاں چلے گئے تھے، کم از کم ماؤں اور بہنوں کو تو بتا دینا چاہیئے تھا، کیا آپ کو ہم سے پیار نہیں ہے، ہمارا پریشانی کے عالم میں دم گھٹا جا رہا تھا۔ کچھ مائیں اور بہنیں کہہ رہی ہیں کہ نہیں نہیں تم کو مولانا کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، تم مولانا کو میٹھا کھلانے کی بات کر رہی ہو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مولانا شوگر کے مریض ہیں، میں انکو شوگر فری چائے پلاؤں گی، اس لیئے مولانا تمہارے گھر کی طرف سے نہیں میرے گھر کی طرف سے آئیں گے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مولانا چائے کے بہت زیادہ شوقین ہیں تم کو معلوم نہیں کہ مولانا کا روز کا معمول تھا کہ جامعہ میں عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد جامعہ کی کینٹن کے باہر عبید جو کینٹن میں کام کرنے والا ہے بینچ لگا دیتا تھا کہ مولانا ابھی چائے پینے آئیں گے، اگر کسے دن نہیں لگا پاتا تو جامعہ کے بچے مولانا کو دیکھ کر دوڑ پڑتے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے کہ میں بینچ لگاؤں گا، چنانچہ مولانا جب بینچ پر بیٹھ جاتے تو کینٹن والے حافظی گرم گرم مولانا کے لیئے شوگر فری چائے بناتے اور جب مولانا چائے پیتے تو اس دوران اگر کوئ بھی طالب علم آپ کے پاس آتا تو مولانا بلا تکلف اس کو چائے پلانے کے لیئے اپنے پاس بلاتے، کچھ لڑکے مولانا کی محبت اور برکت سمجھ کر چلے جاتے ،کچھ بچے معذرت کر لیتے کہ مولانا دل نہیں کر رہا ہے یا چائے پی چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا بتائیے نا ان لوگوں کو کہ میں بالکل ہوش میں کہہ رہا ہوں کہ آج جمعہ کا دن ہے، اور آپ جامعہ کے امام و خطیب بھی ہیں، شاید یہی وجہ ہیکہ جامعہ کے منبر و محراب بھی آپ کی عدم موجودگی میں رو رہے ہیں، دیکھیئے نا ان کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہو گئے ہیں، اور وہ چینخ چینخ کر لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ آج مولانا کیوں نہیں آئے میرے اوپر چڑھ کر خطبہ دینے کے لیئے؟ تم لوگ بول کیوں نہیں رہے ہو؟ سارے لوگ اپنی گردن کو جھکائے ہوئے خاموش کیوں کھڑے ہو؟ میں جانتا ہوں تم لوگ مجھکو پریشان کر رہے ہو نا، ہاں میں جانتا ہوں کہ تم لوگ مجھکو پریشان ہی کر رہے ہو، مت بتاؤ مت بتاؤ ٹھیک ہے ،مولانا جب آئیں گا نا تب میں ان سے تمہاری شکایت کروں گا، اور وہ پھر میرے اوپر چڑھ کر خطبہ دیں گے اور تم لوگوں کو ڈانٹ پھٹکار پڑے گی، تب میں بھی تم پر خوب ہنسوں گا، اور خوب مزے لے لے کر ہنسوں گا۔ ارے اب تو بتا دو کیوں کوئ کچھ جواب ہی نہیں دے رہا ہے، شاید ان کو بھی مولانا کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے، اسی لیئے تو وہ جواب نہیں دے پا رہے ہیں، ابھی منبر و محراب لوگوں سے مخاطب ہی ہیں کہ پیچھے سے ایک صدا آتی ہے اور پوری مسجد سناٹے میں تبدیل ہو جاتی ہے، ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے، اور اتنی خاموشی کہ اگر سوئ بھی گرے تو اسکی آواز مسجد میں گونج جائے، آخر وہ صدا کیا تھی؟ وہ صدا یہی تھی کہ مولانا کا پتا چل گیا ہے، مولانا یوسف علیہ السلام کے گھر گئے ہوئے ہیں۔
یوسف علیہ السلام کے گھر ؟منبر و محراب نے سوال کیا۔
لوگوں نے کہا ہاں یوسف علیہ السلام کے گھر۔
ارے کس نے ان کو بھیجا ہے؟ منبر و محراب نے پوچھا۔
لوگوں نے کہا یہ بھی کوئ پوچھنے کی چیز ہے، آپ ہی بتائیے یوسف علیہ السلام جب اپنے گھر گئے تھے تو سب سے پہلے ان کو کس نے بھیجا تھا؟
منبر و محراب نے جواب دیا ان کے سوتیلے بھائیوں نے۔
لوگوں نے کہا کہ مولانا کو بھی ان سے سوتیلا رویہ رکھنے والے بھائیوں نے ہی بھیجا ہے۔
منبر و محراب نے سوال کیا مولانا کو کس نے بھیجا ہے پتا چلا؟
لوگوں نے کہا کہ جب یوسف علیہ السلام جیل سے یعنی اپنے گھر سے باہر آئے تھے اور مملکت مصر کے وزیر اور ذمہ دار بنے تھے تب نا لوگوں کو معلوم چلا تھا کہ کس نے ان کو یہاں تک پہونچایا تھا۔
آپ نے دیکھا نہیں کیا مولانا جب جیل جا رہے تھے تو ہنس ریے تھے، ان کے چہرے پر خوشی و شادمانی تھی، یعنی آپکو معلوم ہے کہ یوسف علیہ السلام کے گھر جا کر آنے کے بعد ہی مملکت کا وزیر اور ذمہ دار بنا جا سکتا ہے۔ کیا آپ نے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی کا مطالعہ نہیں کیا ہے آپ ﷺ بھی شعب ابی طالب میں تین سال کے لیئے یوسف علیہ السلام کے گھر گئے تھے۔ اس کے بعد ہی مدینہ جیسی عظیم الشان ریاست ملی تھی، اور اس کے بعد ہی سارے دلال اور منافق مدینہ کا پتا چلا تھا۔ اسی لیئے ہمیں بھی اپنے رب سے پوری امید ہیکہ مولانا بھی جب باہر آئیں گے تب جا کر اپنے اندر کے دلال اور منافقوں کا پردہ فاش ان شاء اللہ ہو گا۔
یاد رکھنا منافقوں! منافقت دیرپا نہیں ہوتی ہے، ان شاء اللہ جلد ہی کھل کر سامنے آ جائے گی، اور تم لوگ بھی یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں کی طرح مولانا کے آگے خود کو سرنڈر ان شاء اللہ کرو گے۔ منافقوں تم نے اس ہستی کا دل دکھایا ہے جس نے اپنے خطیبانہ زور بیان اور اپنے مخلصانہ اعمال سے ہزاروں مظلوم ماؤں اور بہنوں کا دل جیتا ہے۔
اللہ رب العزت مولانا اور ان کے تمام اسیر ساتھیوں کو اس ظلم بھرے اذیتناک کانٹوں سے لیس راہ میں صبرواستقامت عطا فرمائے۔ اور مولانا کی گرفتاری ملت اسلامیہ کی بیداری کا سبب بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔
ارے وہ ہوگا منافق تمہارا یار نہیں ہے
ہر ایک بات پہ جو ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔
سوال ہی نہ تھا دشمن کی فتحیابی کا
ہماری صف میں اگر منافق نہ ہوتے۔
*از قلم :- ابو حمزہ فلاحی* ۔
مولانا لوگ مجھے پاگل سمجھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اسکا دماغی توازن درست نہیں ہے یہ اپنا دماغی توازن کھو چکا ہے، مولانا جب جب میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تو بس انکا یہی ایک جواب ہی ہوتا ہے کہ دماغی توازن میرا کھو چکا ہے، کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے، مولانا لوگ کہہ رہے ہیں کہ کسی اچھے ڈاکٹر کے پاس جا کر اچھے سے اپنا علاج کروا لو۔ مجبورا میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا تو ڈاکٹر صاحب بھی کہہ رہے ہیں کہ کوئ بات نہیں ہے سب ٹھیک ہے، ہاں لیکن ایک ایسی بیماری ہے جسکا علاج ہمارے پاس نہیں ہے، ہمارے پاس کیا دنیوی کسی ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں ہے۔ میں نے کہا ڈاکٹر صاحب ایسی کون سی بیماری ہے جسکا علاج کسی کے پاس نہیں ہے، ڈاکٹر صاحب بھی کچھ جواب نہیں دے رہے ہیں، کافی اصرار کرنے کے بعد آپ نے بتایا کہ اسکا علاج صرف اور صرف مولانا ہی کے پاس ہے۔ مولانا اب آپ ہی بتائیے نا مجھے کچھ نہیں ہوا ہے نا، میں بالکل ہوش میں ہوں نا، ان لوگوں کو بتا دیجیئے اور ہاں ڈاکٹر صاحب کو بھی بتا دیجیئے کہ میں بالکل صحیح ہوں، مجھے کوئ ایسی ویسی بیماری نہیں ہے۔ مولانا آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے ہیں، مولانا دیکھیئے نا میں بالکل ہوش میں کہہ رہا ہوں نا کہ آپ کہاں چلے گئے ہیں کسی کو بھی اطلاع نہیں کی پورا گاؤں ماتم بن گیا ہے، حتی کہ جانور، چرند ، پرند سب رو رہے ہیں، اور اس شاخ سے اس شاخ ایک ڈالی سے دوسری ڈالی پر بے چینی کے عالم میں چکر کاٹ رہے ہیں، ہر طرف سناٹا چھایا ہوا ہے، گاؤں سے بالکل رونق ہی ختم ہو گئ ہے، بوڑھے، جوان، بچے، مرد، عورت سب آپکو ڈھونڈھ رہے ہیں، مائیں اپنے اپنے دروازے پر بیٹھی ہیں اور بہنیں اپنی اپنی کھڑکیوں سے جھانک رہی ہیں، بوڑھے، جوان بچے سب آپکو گلی گلی کوچہ کوچہ ڈھونڈھ رہے ہیں، کچھ لوگ گاؤں کے باہری گیٹ پر آپ کے منتظر ہیں کہ مولانا ابھی ادھر ہی سے آئیں گے، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نہیں ادھر سے آئیں گے ،کچھ لوگ کہہ رہے ہیں نہیں اسطرف سے آئیں گے۔ مائیں اور بہنیں آپس میں جھگڑ رہی ہیں، کہہ رہی ہیں کہ مولانا ہمارے گھر کے سامنے سے جائیں گے تو ہم ان کو اپنے گھر سے آگے بڑھنے نہیں دیں گے، ان کو گھر میں بلا کر ان کی پسند کا کھانا کھلائیں گے، اور ساتھ میں میٹھا بھی کھلائیں گے، اور ان سے پوری سفر کی روداد سنیں گے، اور ان کو محبت بھرے انداز میں ڈانٹ پھٹکار بھی کریں گے کہ آپ کہاں چلے گئے تھے، کم از کم ماؤں اور بہنوں کو تو بتا دینا چاہیئے تھا، کیا آپ کو ہم سے پیار نہیں ہے، ہمارا پریشانی کے عالم میں دم گھٹا جا رہا تھا۔ کچھ مائیں اور بہنیں کہہ رہی ہیں کہ نہیں نہیں تم کو مولانا کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں، تم مولانا کو میٹھا کھلانے کی بات کر رہی ہو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مولانا شوگر کے مریض ہیں، میں انکو شوگر فری چائے پلاؤں گی، اس لیئے مولانا تمہارے گھر کی طرف سے نہیں میرے گھر کی طرف سے آئیں گے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ مولانا چائے کے بہت زیادہ شوقین ہیں تم کو معلوم نہیں کہ مولانا کا روز کا معمول تھا کہ جامعہ میں عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد جامعہ کی کینٹن کے باہر عبید جو کینٹن میں کام کرنے والا ہے بینچ لگا دیتا تھا کہ مولانا ابھی چائے پینے آئیں گے، اگر کسے دن نہیں لگا پاتا تو جامعہ کے بچے مولانا کو دیکھ کر دوڑ پڑتے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے کہ میں بینچ لگاؤں گا، چنانچہ مولانا جب بینچ پر بیٹھ جاتے تو کینٹن والے حافظی گرم گرم مولانا کے لیئے شوگر فری چائے بناتے اور جب مولانا چائے پیتے تو اس دوران اگر کوئ بھی طالب علم آپ کے پاس آتا تو مولانا بلا تکلف اس کو چائے پلانے کے لیئے اپنے پاس بلاتے، کچھ لڑکے مولانا کی محبت اور برکت سمجھ کر چلے جاتے ،کچھ بچے معذرت کر لیتے کہ مولانا دل نہیں کر رہا ہے یا چائے پی چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا بتائیے نا ان لوگوں کو کہ میں بالکل ہوش میں کہہ رہا ہوں کہ آج جمعہ کا دن ہے، اور آپ جامعہ کے امام و خطیب بھی ہیں، شاید یہی وجہ ہیکہ جامعہ کے منبر و محراب بھی آپ کی عدم موجودگی میں رو رہے ہیں، دیکھیئے نا ان کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہو گئے ہیں، اور وہ چینخ چینخ کر لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ آج مولانا کیوں نہیں آئے میرے اوپر چڑھ کر خطبہ دینے کے لیئے؟ تم لوگ بول کیوں نہیں رہے ہو؟ سارے لوگ اپنی گردن کو جھکائے ہوئے خاموش کیوں کھڑے ہو؟ میں جانتا ہوں تم لوگ مجھکو پریشان کر رہے ہو نا، ہاں میں جانتا ہوں کہ تم لوگ مجھکو پریشان ہی کر رہے ہو، مت بتاؤ مت بتاؤ ٹھیک ہے ،مولانا جب آئیں گا نا تب میں ان سے تمہاری شکایت کروں گا، اور وہ پھر میرے اوپر چڑھ کر خطبہ دیں گے اور تم لوگوں کو ڈانٹ پھٹکار پڑے گی، تب میں بھی تم پر خوب ہنسوں گا، اور خوب مزے لے لے کر ہنسوں گا۔ ارے اب تو بتا دو کیوں کوئ کچھ جواب ہی نہیں دے رہا ہے، شاید ان کو بھی مولانا کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے، اسی لیئے تو وہ جواب نہیں دے پا رہے ہیں، ابھی منبر و محراب لوگوں سے مخاطب ہی ہیں کہ پیچھے سے ایک صدا آتی ہے اور پوری مسجد سناٹے میں تبدیل ہو جاتی ہے، ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے، اور اتنی خاموشی کہ اگر سوئ بھی گرے تو اسکی آواز مسجد میں گونج جائے، آخر وہ صدا کیا تھی؟ وہ صدا یہی تھی کہ مولانا کا پتا چل گیا ہے، مولانا یوسف علیہ السلام کے گھر گئے ہوئے ہیں۔
یوسف علیہ السلام کے گھر ؟منبر و محراب نے سوال کیا۔
لوگوں نے کہا ہاں یوسف علیہ السلام کے گھر۔
ارے کس نے ان کو بھیجا ہے؟ منبر و محراب نے پوچھا۔
لوگوں نے کہا یہ بھی کوئ پوچھنے کی چیز ہے، آپ ہی بتائیے یوسف علیہ السلام جب اپنے گھر گئے تھے تو سب سے پہلے ان کو کس نے بھیجا تھا؟
منبر و محراب نے جواب دیا ان کے سوتیلے بھائیوں نے۔
لوگوں نے کہا کہ مولانا کو بھی ان سے سوتیلا رویہ رکھنے والے بھائیوں نے ہی بھیجا ہے۔
منبر و محراب نے سوال کیا مولانا کو کس نے بھیجا ہے پتا چلا؟
لوگوں نے کہا کہ جب یوسف علیہ السلام جیل سے یعنی اپنے گھر سے باہر آئے تھے اور مملکت مصر کے وزیر اور ذمہ دار بنے تھے تب نا لوگوں کو معلوم چلا تھا کہ کس نے ان کو یہاں تک پہونچایا تھا۔
آپ نے دیکھا نہیں کیا مولانا جب جیل جا رہے تھے تو ہنس ریے تھے، ان کے چہرے پر خوشی و شادمانی تھی، یعنی آپکو معلوم ہے کہ یوسف علیہ السلام کے گھر جا کر آنے کے بعد ہی مملکت کا وزیر اور ذمہ دار بنا جا سکتا ہے۔ کیا آپ نے اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی کا مطالعہ نہیں کیا ہے آپ ﷺ بھی شعب ابی طالب میں تین سال کے لیئے یوسف علیہ السلام کے گھر گئے تھے۔ اس کے بعد ہی مدینہ جیسی عظیم الشان ریاست ملی تھی، اور اس کے بعد ہی سارے دلال اور منافق مدینہ کا پتا چلا تھا۔ اسی لیئے ہمیں بھی اپنے رب سے پوری امید ہیکہ مولانا بھی جب باہر آئیں گے تب جا کر اپنے اندر کے دلال اور منافقوں کا پردہ فاش ان شاء اللہ ہو گا۔
یاد رکھنا منافقوں! منافقت دیرپا نہیں ہوتی ہے، ان شاء اللہ جلد ہی کھل کر سامنے آ جائے گی، اور تم لوگ بھی یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائیوں کی طرح مولانا کے آگے خود کو سرنڈر ان شاء اللہ کرو گے۔ منافقوں تم نے اس ہستی کا دل دکھایا ہے جس نے اپنے خطیبانہ زور بیان اور اپنے مخلصانہ اعمال سے ہزاروں مظلوم ماؤں اور بہنوں کا دل جیتا ہے۔
اللہ رب العزت مولانا اور ان کے تمام اسیر ساتھیوں کو اس ظلم بھرے اذیتناک کانٹوں سے لیس راہ میں صبرواستقامت عطا فرمائے۔ اور مولانا کی گرفتاری ملت اسلامیہ کی بیداری کا سبب بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔
ارے وہ ہوگا منافق تمہارا یار نہیں ہے
ہر ایک بات پہ جو ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔
سوال ہی نہ تھا دشمن کی فتحیابی کا
ہماری صف میں اگر منافق نہ ہوتے۔