اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے* تحریر:سرفرا احمد قاسمی جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک حیدرآباد

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 28 March 2020

*یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے* تحریر:سرفرا احمد قاسمی جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک حیدرآباد

*یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے*


تحریر:سرفرا احمد قاسمی
جنرل سکریٹری کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک حیدرآباد

sarfarazahmedqasmi@gmail.com
مبائل نمبر   8099695186

گذشتہ چند دنوں سےپوری دنیا عجیب وغریب پریشانیوں میں مبتلاہے ہرطرف ہاہاکارہے،پورا پوراملک لاک ڈاؤن کےنام پر ٹھپ ہے لوگوں کی جان کےتحفظ کےلیے دنیابھرکی حکومتیں جدوجہد کررہی ہیں لیکن ایسامعلوم ہوتاہے کہ انھیں مکمل طورپر کامیابی نہیں مل رہی اوراسی لیے وہ بےبس دکھائ دے رہے ہیں،ان میں بعض وہ ممالک کے حکمراں بھی ہیں جوخودکو"سوپر پاور"کہلاتے ہیں لیکن انھیں اب معلوم ہواکہ میرے علاوہ کوئ اور ہےجو حقیقی سوپر پاور ہے اورمیرایہ دعوی باطل ہے،اصل سوپر پاور توکوئ اور ہے جوپوری دنیااورکائنات کے نظام کو چلارہاہے،جن کےسامنے انسانیت کے سارے منصوبےفیل اورساری ٹیکنا لوجی بیکار ہے،ہرطرف افراتفری کاعالم ہے،کیا امیر کیاغریب،کیا بڑا اورکیاچھوٹاسب کے اوپرایک خوف طاری ہے،حکومتیں اپنی اپنی بساط کےمطابق کوششیں توکررہی ہیں مگر ان چیزوں سے وہ خود مطمئن نہیں،"کرونا وائرس"کایہ قہر اپنی رفتارکے ساتھ جاری ہے لیکن اسکوروکنے کی تمام تر تدبیریں ابھی تک ناکام ہیں،اس جان لیوا وائرس سے چین سمیت اب تک لاکھوں لوگ ہلاک ہوچکے ہیں لیکن سائنس داں اب تک اسکا علاج اوراسکی دوا تک دریافت  نہیں  کرسکے،علاج کے نام پربس سب کچھ ابھی ہوامیں چل رہاہے،صاحب معارف القرآن  اپنی شہرہ آفاق کتاب میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ"موجودہ زمانے میں انسان کو راحت پہونچانے اوراسکی ہر تکلیف کو دور کرنے کےلیے کیسے کیسے آلات اور سامان ایجاد کیے گئے ہیں  اور کئے جارہے ہیں کہ اب سے پچاس  سال پہلے کے انسان کو انکا وہم وگمان بھی نہ ہو سکتاتھا امراض کےعلاج کے لیے نئی نئی زود اثر دوائیں اور طرح طرح کے انجکشن،بڑے بڑے ماہر ڈاکٹر اور انکےلئے جابجا شفا خانوں کی بہتات کون نہیں جانتا کہ اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے کاانسان ان سب سے محروم تھا لیکن مجموعی حالات کا جائزہ لیا جائے تو ان آلات و سامان سے محروم انسان اتنا بیمار اور کمزور نہ تھا،جتنا آج کا انسان بیماریوں کا شکارہے،اسی طرح آج عام وباؤں کے لئے طرح طرح کے ٹیکے موجود ہیں،حوادث سے انسان کو بچانے کےلئے آگ بجھانے والے انجن اور مصیبت کے وقت فوری اطلاع اور فوری امداد کے ذرائع و سامان کی فراوانی ہے لیکن جیسے جیسے یہ مادی سامان بڑھتا جاتاہے انسان حوادث اورآفات کا پہلے سے زیادہ شکار ہوتا جاتا ہے،وجہ اسکے سوااور کچھ نہیں کہ پچھلے دور میں خالق کائنات سے غفلت اور کھلی نافرمانی اتنی نہ تھی جتنی اب ہے،پچھلے لوگ سامان راحت کو خدا تعالی کا عطیہ سمجھ کر شکر گذاری کے ساتھ استعمال کرتے تھے اورآج کا انسان بغاوت کے ساتھ استعمال کرنا چاہتا ہے اسلئے آلات اور سامان کی بہتات اسکو مصیبت سے نہیں بچا سکتی"
اگے کچھ سطروں کے بعد لکھتے ہیں کہ"مومن کا کام یہ ہے کہ اپنے تمام مصائب اور تکلیفوں کے دور کرنے کےلئے مادی سامان اور تدبیروں سے زیادہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے ورنہ انجام وہی ہوگا جو روز مشاہدہ میں آرہاہے کہ ہر تدبیر مجوعی حیثیت سے الٹی پڑتی ہے،سیلابوں کورو کنے اور انکے نقصانات سے بچنے کی ہزار تدبیریں کی جاتی ہیں مگروہ آتے ہیں اور بار بار آتے ہیں،امراض کے علاج کی نئی نئی تدبیریں کی جاتی ہیں مگر امراض روز بروز بڑھتے جاتے ہیں،اشیاء کی گرانی رفع کرنے کےلیے ہزاروں تدبیریں کی جاتی ہیں اور وہ سطحی طور پر مؤثر بھی معلوم ہو تی ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے نتیجہ یہ ہے کہ گرانی روز بروز بڑھتی جاتی ہے،چوری،ڈکیٹی،اغوا،رشوت ستانی،چور بازاری وغیرہ کو روکنے کےلئے کتنی مادی تدبیریں  آج ہر حکومت استعمال کررہی ہے مگر حساب لگائیے تو ہرروز ان جرائم میں اضافہ ہورہا ہے،کاش آج کا انسان صرف شخصی،سطحی اورسرسری نفع نقصان کی سطح سے ذرا بلند ہوکر حالات کا جائزہ لے تواسکو ثابت ہوگا کہ مجموعی حیثیت سے ہماری مادی تدبیریں سب ناکام ہیں بلکہ ہمارے مصائب میں اضافہ کررہی ہیں پھراس قرآنی علاج پر نظر کرے کہ مصائب سے بچنے کی صرف ایک ہی راہ ہےکہ خالق کائنات کی طرف رجوع کیا جائےمادی تدبیروں کو بھی اسی کی عطاکی ہوئ نعمت کے طور پراستعمال کیا جائےاسکے سواسلامتی کی کوئ صورت نہیں"(جلد 3ص 356)
درج بالا عبارتوں میں آج کےموجودہ حالات کی بہترین عکاسی کی گئی ہےجسکو باربار پڑھنے اوراس پرغور کرنے کی ضرورت ہے،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پہلے زمانے میں جب کفار ومشرکین کسی مصیبت میں گھر جاتے تو وہ لوگ ایسے وقت میں عموما اپنے بتوں اور معبودوں کو چھوڑکر اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے اوراسکو پکارتے تھے کبھی علانیہ طور پراپنی ذلت وعاجزی کااعتراف کرتے اور کبھی دل دل میں اسکا اعتراف کرتے تھے کہ اس مصیبت سے تو سوائے خدا تعالی کے اور کوئی نہیں بچا سکتا، اورساتھ ہی وہ اللہ تعالی سے وعدہ بھی کرتے کہ اگراللہ تعالی نے ہمیں اس مصیبت اور تکلیف سے نجات دیدی تو ہم شکرو حق شناسی کو اپنا شیوہ بنا لیں گے،قرآن نےکفار کےان واقعات اورعادات کاتذکرہ بڑی دلنشیں انداز میں کیاہےجسکی تفصیل کےلئے سورہ انعام کی تفسیر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں،چین،امریکہ،اٹلی فرانس اوراسپین وغیرہ میں آج کرونا وائرس کی وجہ سے لاکھوں لوگ کہیں مساجد میں نماز اداکررہے ہیں اور کہیں سجدوں میں گڑگڑاکر اس مصیبت سے نجات کی دعاء کررہے ہیں،کہیں ایوان میں قرآنی آیات کی تلاوت کی جارہی ہے اور کہیں پورے شہر کی گلیاں اذانوں کی آواز سے گونج رہی ہیں یہ صرف اسلیے ہورہاہے کہ اللہ تعالی کسی  بھی طرح لوگوں کواس مہلک وبا سے نجات دیدے، کیایہ مقام عبرت نہیں ہے؟کیا ان حالات واقعات سے ہمیں عبرت حاصل نہیں کرنا چاہیے؟افسوس اس بات کاہے کہ ان ساری چیزوں کو دیکھنے اور سننے کے باوجود کچھ لوگ اسے ابھی تک، تماشا اور مذاق سمجھ رہے ہیں حالانکہ یہ کوئ تماشاہے اورنہ ہی کوئ کھیل،یہ صرف بیماری اور وبا نہیں بلکہ اللہ کاعذاب ہے،دنیوی مصائب اور حوادث عموما انسانوں کےاعمال بد کانتیجہ اور آخرت کی سزاکا ہلکا سانمونہ ہوتے ہیں، اوراس لحاظ سے یہ مصائب مسلمانوں کےلیے ایک طرح کی رحمت ہوتے ہیں کہ انکے ذریعے غافل انسانوں کو چونکایا جاتاہے،تاکہ وہ اب بھی اپنے اعمال بد کاجائزہ لیکر ان سے باز آنے کی فکر میں لگ جائیں،ایک جگہ قرآن میں ہےکہ"اورہم لوگوں کو تھوڑاساعذاب قریب دنیا میں چکھا دیتے ہیں آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے تاکہ وہ اپنی غفلت اور برائیوں سے باز آجائیں"
اور ایک حدیث میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ"قسم ہے اس ذات کی جسکے قبضے میں میری جان ہےکہ کسی انسان کو جوکسی لکڑی سے معمولی خراش لگتی ہے یاقدم کو کہیں لغزش ہوجاتی ہےیا کسی رگ میں خلش ہوجاتی ہے یہ سب کسی گناہ کا اثر ہوتاہے اور جو گناہ اللہ تعالی معاف فرمادیتے ہیں وہ بہت ہیں"
امام بیضاویؒ اس حدیث کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ مراداس سے یہ ہے کہ مجرموں اور گناہ گاروں کو جوامراض اورآفات پیش آتے ہیں وہ سب گناہوں کے آثار ہوتے ہیں اور جولوگ گناہوں سےمعصوم یامحفوظ ہیں انکے امراض اورآفات انکے صبراستقلال کےامتحان اور جنت کے بلند درجات عطاکرنے کےلئے ہوتے ہیں"(معارف القرآن،جلد3)
یہ بات قابل غور ہےکہ اللہ تعالی ہرچیز پرقادر ہےوہ اس پربھی قادر ہے کہ کوئ عذاب،کوئ مصیبت اوربڑی سے بڑی آفت کوٹال بھی سکتاہے اسی طرح اسکواس پرقدرت حاصل ہےکہ جب کسی فردیاجماعت کو اسکی سرکشی اور عذاب میں مبتلا کرنا چاہے تو ہرقسم کاعذاب اسکےلیے آسان اورسہل ہے،کسی مجرم کوسزا دینے کےلیے دنیوی حکمرانوں کی طرح اسکونہ کسی پولس اورنہ فوج کی ضرورت ہےاورنہ کسی مددگار کی حاجت،قرآن میں ایک جگہ فرمایاگیا"اللہ تعالی اس پربھی قادر ہے کہ بھیج دے تم پر کوئ عذاب تمہارے اوپرسے یاتمہارے پاؤں تلے سےیا تمہیں مختلف پارٹیوں میں بانٹ کر آپس میں بھڑا دےاور ایک کو دوسرے کےہاتھ سےعذاب میں ہلاک کردے"
اس آیت کے ضمن میں علماء نے لکھا ہے کہ عذاب الہی کی عام طورپر  تین قسمیں جسکے ذریعے دنیا میں عذاب نازل ہوتاہے،ایک وہ ہے جواوپر سے آتاہے،اور دوسرے وہ جو نیچے سےآئے اور تیسرےوہ جو اپنے اندر سے پھوٹ پڑے،حضرات مفسرین فرماتے ہیں کہ اوپرسے عذاب آنے کی مثالیں پچھلی امتوں میں بہت سی گذرچکی ہیں،جیسے قوم نوحؑ پر بارش کاسخت سیلاب آیا اور قوم عاد پرہوا کا طوفان مسلط ہوا اور قوم لوطؑ پراوپر سے پتھر برسائے گئے،آل فرعون پر خون اور مینڈک وغیرہ برسائے گئے،اصحاب فیل نے جب مکہ پر چڑھائی کی توپرندوں کے ذریعے ان پرایسی کنکریں برسائی گئیں جن سے وہ سب کےسب کھائے ہوئے بھوسہ کی طرح ہوکر رہ گئے،اسی طرح نیچے سے آنےوالے عذاب کی بھی پچھلی قوموں میں مختلف صورتیں گذرچکی ہیں،قوم نوح ؑ پر اوپرکا عذاب طوفان بارش کےساتھ اورنیچے کاعذاب زمین کا پانی ابلنا شروع ہوگیا غرض اوپر اور نیچے کےدونوں عذاب میں بیک وقت گرفتار ہوگئے،اور قوم فرعون پاؤں تلے کے عذاب میں غرق کی گئی،قارون بھی مع اپنے خزانوں کےاسی عذاب میں گرفتار ہوا اور زمین کے اندر دھنسا دیاگیا"(معارف القرآن جلد3 ص 359)
احادیث شریفہ کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالی دنیا میں مختلف طریقے سے اپناعذاب نازل کرتارہاہے کبھی کسی بیماری کی شکل میں اورکبھی اورچیز کی شکل میں،بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے کہ"اس بیماری (طاعون)کے ذریعے اللہ تعالی نے تم سے پہلی قوموں میں عذاب نازل فرمایاہے سوجب تم یہ سنو کہ کسی شہر میں طاعون وغیرہ کوئ وبائی مرض پھیل رہاہے تووہاں نہ جاؤ اور اگرکسی بستی میں یہ مرض پھیل جائے اورتم وہاں موجود ہوتو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو"(بخاری ومسلم)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے(طاعونی گلٹی کے)درد کاذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ"یہ ایک عذاب ہےجسکے ذریعہ بعض امتوں کو عذاب دیاگیاتھا پھراسکا کچھ بقیہ رہ گیا اب اسکا حال یہ ہے کہ کبھی وہ چلاجاتاہے پھر آجاتاہے، تو جوشخص یہ سنے کہ  فلاں خطہ زمین میں یہ عذاب آیا ہواہے تو وہ وہاں نہ جائے اور جووہاں پہلے سے موجود ہو تواس بیماری کی وجہ سے وہاں سے نہ نکلے"(بخاری)
علماء نے لکھا ہے کہ جن آفات ومصائب کو گناہوں کےسبب سے قراردیا ہے اس سے مراد وہ آفات و مصائب ہیں جو پوری دنیا پر یاپورے شہر یاپوری بستی پر عام ہوجائیں، عام انسان اورجانور بھی انکے اثر سے نہ بچ سکیں ایسے مصائب وآفات کاسبب عموما لوگوں میں گناہوں کی کثرت خصوصا علانیہ گناہ کرنا ہی ہوتاہے،شخصی اور انفرادی تکلیف و مصیبت میں یہ ضابطہ نہیں بلکہ وہ کبھی کسی انسان کی آزمائش کرنے کےلیے بھی بھیجی جاتی ہے،اور جب وہ اس آزمائش میں پورااترتاہے تو اسکے درجات آخرت بڑھ جاتے ہیں،یہ مصیبت درحقیقت اسکے لیے رحمت اور نعمت ہوتی ہے،اسلئے انفرادی طور پر کسی شخص کو مبتلائے مصیبت دیکھکر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بہت گناہ گار ہے اسی طرح کسی کو خوش عیش بعافیت دیکھکر یہ حکم نہیں لگایا جاسکتا کہ وہ بڑا نیک  صالح اور بزرگ ہے البتہ عام مصائب و آفات جیسے قحط،طوفان، وبائی امراض ،گرانی اشیائے ضرورت،چیزوں کی برکت ختم ہوجانا اسکااکثر اور بڑاسبب لوگوں کی علانیہ گناہ اور سرکشی ہوتی ہے،
ان تحریروں کا خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ"کروناوائرس"جسکے لپیٹ میں آج پوری دنیا ہے اوردنیابھرکے 150 سوسے ممالک اسکے شکار ہیں یہ ایک بلا اور مصیبت ہی نہیں بلکہ بھیانک عذاب ہےاور جن جگہوں پر عذاب نازل ہوتاہے اس سے ہمیں عبرت حاصل کرنا چاہئے،اوراللہ کی جانب کثرت سے رجوع کااہتمام،توبہ استغفار کےعلاوہ صدقہ و خیرات کی کثرت کرنی چاہیے،احتیاطی تدابیرپرسنجیدگی سے عمل آوری کرتے ہوئے اسکورفع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،قرآن کریم میں ایسی بہت سی بستیوں کاذکر ہے جسکوعذاب الہی نے نیست و نابود کردیا،پھروہ بستیاں اور وہ شہر ویران ہونے کے بعد دوبارہ آباد نہ ہوسکیں بجز چند بستیوں کےاس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے ان بستیوں اور انکے مکانات کو آنے والی نسلوں کے لئے عبرت کا سامان بنایاہے،یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب ان مقامات سے گذرتے تو آپ ﷺ کے اوپر ہیبت حق کا ایک خاص حال ہوتاتھا جس سے سرمبارک جھک جاتاتھا اور آپ ﷺاپنی سواری کو ان مقامات میں تیز کرکے جلد عبور کرنے کی سعی فرماتے،سرکار دوعالم ﷺ کے اس عمل نے ملت اسلامیہ کے لیے یہ سنت قائم کردی کہ جن مقامات پر اللہ کا عذاب آیا ہے انکو تماشا گاہ بنانا بڑی قساوت قلبی اور دلیری کی بات ہےبلکہ ان سے عبرت حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ ایسی جگہ کو دیکھ کر،سن کر اور وہاں پہنچ کر اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کا استحضار اور اسکے عذاب کا خوف دلوں پر طاری ہونا چا ہیے۔خواجہ عزیزا الحسن مجذوبؒ نے کیاہی خوب کہا ہےکہ
جہاں میں ہیں عبرت کے ہرسونمونے
مگر تجھکو اندھا کیا رنگ وبو نے
کبھی غورسے بھی یہ دیکھا ہے تو نے؟
جو معمور تھے وہ محل اب ہیں سونے
جگہ جی لگا نے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے
اللہ تعالی ہم سب کی اس مہلک وبا سے حفاظت فرمائے۔۔۔۔