اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *بحث ومباحثہ کے اصوال وآداب* ✍🏻 از قلم : حضرت مولانا مفتی محمد سجاد حسین صاحب قاسمی استاذ دارالعلوم وقف دیوبند

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 22 April 2020

*بحث ومباحثہ کے اصوال وآداب* ✍🏻 از قلم : حضرت مولانا مفتی محمد سجاد حسین صاحب قاسمی استاذ دارالعلوم وقف دیوبند

*بحث ومباحثہ کے اصوال وآداب*
✍🏻 از قلم : حضرت مولانا مفتی محمد سجاد حسین صاحب قاسمی
استاذ دارالعلوم وقف دیوبند   

خلاَّقِ کون ومکان ،مالک عرش وفرش نے انسان کوکچھ اس طرح پیدا کیاہے کہ وہ جہان رنگ وبوکی دیگر مخلوقات سے یکسر مختلف اور بالکل ممتازہے۔ یوں تو انسان اور دوسری اشیائے عالم کے مابین حدِّفاصل بنی نوع انسان کے بے شمار اوصاف وکمالات اور ان گنت خصائص وامتیازات بہ طور نمونہ کے پیش کیے جاسکتے ہیں؛ لیکن ان تمام چیزوں میں سب سے زیادہ نمایاں اورسب سے زیادہ جلی حضرت انسان کا وہ عظیم ہنر اور جوہر ہے، جسے دنیا قوت گویائی اور زبان وبیان کے نام سے جانتی ہے۔ صانعِ عالم نے انسان کے جبڑوں میں ایک گوشت کی ایسی مشین لگائی ہے، جو عقل کی ہری بھری اور سرسزوشاداب کیاریوں ،دماغ کے جواہر پاروں، قلب کے حسین وجمیل احساسات وتاثرات اور جذبات وخیالات کے باغیچوں کاسیرکراتی ہے۔ قوت گویائی ہی ایک ایسا ترجمان اور نقیب ہے، جو اجنبیوں اور بے گانوں کو اپنا اسیر بناتاہے، دوریوں کی وسیع وعریض خلیج کو پاٹتاہے، دلوں کے مقفل دروازوں پر دستک دیتاہے اور غیروں کو اپنا ہم نوا اورہم خیال بنا لیتاہے۔ قوت گویائی کی ایک رنگ بہ رنگی اور لچک دار شاخ ’’بحث ومباحثہ‘‘ بہ الفاظ دیگر’’اَلْحِوَارُوَالنِّقَاشُ‘‘ یا روشن خیال مفکرین اوردانش وروں کی اصطلاح میں ’’DEBATE‘‘ہے، جو انسانوں کی تخلیق سے قبل ہی جذب ومستی میں جھوم چکی تھی۔ جیساکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا دل چسپ اورتاریخی مکالمہ، جسے قرآن کریم نے بڑے ہی البیلے اور سحر انگیز انداز میں پیش کیاہے، جس سے اس فن کی تاریخ پر روشنی پڑتی ہے۔
فی الجملہ!بحث ومباحثہ ایک ایساشیریں وشفاف چشمہ حیواں ہے، جس کی شیرینی اور لطافت سے انسان ابتدائے آفرینش سے ہی لطف اندوز ہوتارہاہے؛ بل کہ اس کی شرست اورخمیر میں بحث ومباحثہ کا ایساحسین آمیزہ گھول دیا گیا ہے، جس سے اس کا حسن وجمال اور دوبالا ہوگیا ہے؛ کیوں کہ حضرت انسان کو خداوند قدوس نے عقل کی بیش بہا اور بیش قیمت دولت سے سرفراز فرمایاہے اور ہرایک فرد بشر کوفکروتدبراور فہم وبصیرت سے مالا مال کیا ہے؛ البتہ عقل کی قوت، دماغ کی نکتہ آفرینی، فکر کی وسعت، سوچ کی بلندی اور فہم کی پختگی میںنمایاں فرق بھی رکھاہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ایک ماں باپ سے پیداشدہ انسان، ایک ہی ماحول میں پروان چڑھنے والا خاکی پیکر، ایک ہی آب وہوا میں سانس لینے والابشراور ایک ہی علاقہ اور خطہ میں بسنے والاحیون ناطق جو رنگ وروپ ،جسم وجثہ اور زبان وبیان میں یکسان؛ لیکن فکر ونظر،فہم وفراست اور سوچ وسمجھ میں دوسرے سے یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ انسانی کنبہ کا ایک فرد مثبت سوچ کا حامل ہوتاہے، تودوسرامنفی فکر کاحامی نظر آتا ہے۔ ایک تعمیری نظریہ کا علمبردار، تو دوسراتخریبی خیال کا پرستار، ایک اصلاحی ذہن کا مالک، تو دوسرا فسادی دماغ کا حامل ہوتاہے۔ ایک کے دماغ میں خیرکی کلیاں چٹکتی ہیں، تودوسر ے کے دماغ میں شر کے شرارے فروزاں ہوتے ہیں۔ ایک شخص کے دماغ میں امت کی فلاح وبہبود کے نت نئے مؤثر اور سنہرے طریق ہائے کارپنپتے ہیں، تودوسرے کے شوریدہ اور مفلوج دماغ میں امت کی تباہی وبربادی کے شیطانی حیلے اور ہتھکنڈے سانپ کی طرح رولتے ہیں۔ الغرض! جب انسان کی عقل ، اس کے دماغ اور طبیعت میں اس قدر اختلاف ہے، تو افکار ونظریات کا یکساں نہ ہونا چنداں جائے تعجب نہیں ہے۔ چناچہ علم وتحقیق کی دنیا میں اختلاف رائے ناگزیر ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ اصحابِ علم اور اہل نظر علمی مسائل پر ایک ہی طرح سوچیں اور ان کی فکری اور تحقیقی پرواز ایک ہی منزل پر فروکش ہو۔ اوریہ ایک حقیقت ہے کہ وہ معاشرہ جس میں فکر ونظر کی آزادی نہ ہو، جہاں اختلاف رائے اور تنقید کی اجازت نہ ہو، جہاں سب لوگ ایک ہی رائے کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہوں، جہاں بحث وتحقیق کی سطح پر بھی اختلاف رائے کو بغاوت اور سوئے ادب سمجھاجاتاہو؛ وہاں علم کے فروغ کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیں اور فکری جکڑبندی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اختلاف رائے اور مثبت تنقید کا احترام ہمیشہ کیا گیا ہے اورکیاجاتارہے گا۔ شرط صرف یہ ہے کہ تنقید صحت مند، مثبت، مخلصانہ، منصفانہ اور فاضلانہ ہو؛ نیز اس میں ذاتی مفاد کا کوئی عمل دخل نہ ہو، اوراصلاح پیش نظر ہو؛ اسی لیے شریعت کے اَن گنت مسائل ہیں، جن میں امت کی شہرہ ٔ آفاق اور باکمال شخصیات کا اختلاف ہواہے اور کسی نے ان پرنکیر نہیں کی ہے۔
الحاصل! جب اختلاف ایک فطر ی امر ہے اور اسی سے اس دنیائے رنگ وبو کی بوقلمونی اور رعنائی باقی ہے، توپھرکیا اس اختلاف کو حل کرنے کی کوئی سنجید ہ اور پر اثر صورت بھی ہے، جس سے اختلاف ختم ہو، ا ور اتحادفکر قائم ہو، عوام الناس کے دلوں کے شکوک وشبہات رفع ہوں اور صحیح سوچ وفکر ان کے قلوب میں جگہ لیں۔ جی ہاں! ایک قدیم اور مقبول طریقہ ’’بحث ومباحثہ ‘‘ لوگوں کے مابین رائج رہاہے۔ جس میں لوگ اپنے نظریات وخیالات ، افکار وآرا ء پیش کرتے ہیں اور اس کودلائل وبراہین سے مبرہن کرتے ہیں۔ پھر دوسرے حضرات جن کو پیش کردہ آراء وافکار سے اتفاق نہیں ہے، وہ اس کی تردید بھی کرتے ہیںاور اپنی رائے کی درستگی اورعمدگی پر ترجیحی دلائل بھی ذکرکرتے ہیں۔ یہ مباحثہ سیاسی، سماجی، دینی، مذہبی، اخلاقی، اصلاحی، ثقافتی اور ادبی موضوعات پر منعقد کیے جاتے ہیں اور اس پر گرم جوش علمی وتحقیقی بحثیں ہوتی ہیں۔ کبھی یہ مباحثہ کسی خاص مقام پر ہوتاہے اورکبھی عمومی میدان میں؛ جہاں ہر ایک کو شرکت کی اجازت ہوتی ہے۔ اور بحث ومباحثہ سے فکر کی ایک نئی سمت اور سوچ کا ایک نیا رخ اپنا نے کا موقع ملتاہے؛ لیکن آج کے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں ہر روز نئی تحقیقات، نادر اکتشافات، محیر العقول حقائق اور سننی خیز معلومات؛ علمی وفکری منظرنامے پر رونما ہوررہی ہیں، جس سے انسان کی عقلیں دنگ اور آنکھیں خیرہ ہیں۔ مزید براں برق رفتار ٹکنالوجی کا دور، جس میں انڑنیٹ کی کرم فرمائی اور سافٹ ویرز کی ذرہ نوازی نے جہاں ہرچیر کے اندر جدت ونیاپن کا رنگ بھرا ہے، وہیں مباحثہ کی دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کیا  ہے۔ دور قدیم میں ایک ملک کے گوشے میں رہنے والے لوگ مباحثہ سے مسفید ہوتے تھے اور پھر اس مباحثہ کو کتابی شکل دی جاتی تھی، پھر دنیا کے دوسرے ممالک کے لوگ معلومات افزا، اور بصیرت افروز مباحثوں سے بہرہ ور ہوتے تھے؛ لیکن جس دور میں ہم سانس لے رہے ہیں، اس میں تو سار اکما ل انگلی کا ہے، جدھر پھیریے معلومات کاسمندر ابل پڑتاہے، اگر انگلی ہلانے پر طبیعت آمادہ نہ ہو، تو زبان کوحرکت دیجیے اور صوتی لہر اسکرین کی طرف منتقل کیجیے اور پھر مناظرے، محاکمے، مباحثے اورمناقشے سنتے رہیے۔ ایک مرتبہ بٹن دبایئے اور سمندورں کی لہروں، صحراؤں کی وسعتوں اور فضاؤں کی بلندیوں کو یک لخت طے کرتے ہوئے، مختلف ملکوں میں ہورہے علمی، ادبی اور سیاسی مباحثوں میں شریک ہوجائیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مباحثہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میںحیات انسانی کا لازمہ بن چکا ہے۔ مباحثہ کے اصول وضوابط پرمختلف روشن خیال مفکرین نے خامہ فرسائی کی ہے اور اپنے اپنے انداز سے اس کے مناہج اور آداب پر روشنی ڈالی ہے۔
پہلا اصول یہ ہے کہ: بحث ومباحثہ کی لغوی واصطلاحی تعریفات کی جانکاری ہو۔ مزید برآں ’’جدل‘‘، ’’مناظرہ‘‘، ’’مناقشہ ‘‘ کے مابین باریک اور نازک فروق سے بھی آگاہی حاصل ہو۔ اسی طرح حوار کے موضوع، ارکان، وسائل ونتائج، حوار کی مختلف قسموں اور صورتوں پر بھی سیر حاصل اور تشفی بخش معلومات ہوں۔
دوسرا اصول یہ ہے کہ: اس میں بحث ومباحثہ کی افادیت واہمیت اس کی راہ میں پیش آمدہ رکاوٹوں اور دشواریوں پر محققانہ اور مبصرانہ نظر رکھتا ہو، ان کا تشفی بخش اور عملی حل بھی پیش کرنے پر قادر ہو۔ نیز حوار کے اہدا ف ومقاصد اوراغراض پر بھی وقیع اور قیمتی معلومات مہیا ہوں۔
تیسرا اصول یہ ہے کہ: حوار کے آداب واصول پر ایک جامع ومانع بحث کرتے ہوئے اس کو امثلہ سے منقح کرنے کی بہتریں سعی وکوشش بھی قادر ہو۔
چوتھا اصول یہ ہے کہ: حوار کی ہنرمندیوں اور مہارتوں پر معلومات افزا اور بصیرت افروز تحقیقی مواد سے لیس اور آراستہ وپیراستہ ہو۔
پانچواں اصول یہ ہے کہ: حوار سے حاصل شدہ ثمرات کے درک وادراک کا شعور اور اس کے نتائج اخذ کرنے کا ملکہ رکھتا ہو۔
چھٹا اصول یہ ہے کہ: ایک اسلامی باحث اور اسکالر کے لیے ضروری اور ناگزیر ہے کہ وہ اسلامی اصول ومسلمات اور خواصِ شریعت اور قوانینِ تشریعی سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ، قرآنی محادثات، قصے اور بحث ومباحثے؛ نیز احادیث مبارکہ سے بحث ومباحثہ کے نمونے بھی ذکر نے پر قادر ہو۔
یہ چند اہم اور بنیادی اصول وآداب ہیں، جن سے آگاہی اور واقفیت کے بغیر بحث ومباحثہ اور ڈیبیٹ میں شرکت، سوائے جگ ہنسائی اور اپنی عزت اپنے ہی ہاتھوں دائو پر لگانے کے مترادف ہے۔ آج کل عالمی اور بین الاقوامی طور پر جو مباحثے اور ڈبیٹس نشر کیے جارہے ہیں،
واقف کار حضرات سے یہ حقائق پوشیدہ نہیں ہیں۔