از قلم: محمد زبیر احمد قاسمی کڑم
________________
رمضان المبارک ہزاروں برکتوں اور رحمتوں کو اپنے دامن میں لئے ہم پر سایہ فگن ہے اور یہ بابرکت مہینہ ایمان و تقوی کا مہینہ ہے ہر بندہ مومن اپنی اپنی ہمت اور ظرف کے مطابق اس کی برکتوں اور رحمتوں سے لطف اندوز ہو گا جس شخص کے دل میں ایمان کی معمولی رمق بھی باقی ہو اس مہینے میں معمولی ایمانی صلاحیتیں بھی ابھر کر سامنے آجاتی ہیں اب صرف چند ہی
دن باقی رہ چکے ہیں ایک دفعہ پھر رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہونے والا ہے اور اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سیراب کرنے کے لئے برس رہی ہوگی اس ماہ مبارک کی عظمت وبرکت کا کیا ٹھکانا جسے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہرعظیم اور شہر مبارک کہہ کر پکارا ہو یعنی بڑی عظمت والا اور بڑی برکت والا مہینہ ہے نہ ہمارا تصور اس ماہ کی عظمت کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے نہ ہماری زبان اس کی برکتوں کا احاطہ کر سکتی ہے
:*:، رمضان المبارک کی آمد پر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ استقبالیہ، :*:
شعبان کی آخری تاریخ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف کے متعلق جو بیان فرمایا اور رمضان کے فضائل سے متعلق حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی چند جامع احادیث سب سے پہلے اس کو پڑھ لے تاکہ اس ماہ مبارک کی اہمیت اور اس کی فضیلت اور اس میں کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوجائے-
(1) اے لوگوں تمہارے اوپر ایک بہت بڑا مہینہ سایہ ڈالنے والا ہے بہت برکتوں والا ہے اس ماہ مبارک میں ایک رات( شب قدر) ایسے مرتبہ والی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے
(2) اللہ تبارک و تعالی نے اس ماہ مبارک کے روزے (مسلمانوں پر) فرض فرمائے اور اس کی رات کےقیام (تراویح) کو باعث ثواب کردیا
(3) جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے ذریعے اللہ تبارک و تعالی کا قرب حاصل کرے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں کوئی فرض ادا کر ے
(4) اور جو شخص اس ماہ مبارک میں کوئی ایک فرض ادا کرے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کئے
(5) اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ ماہ مبارک باہمی رواداری اور غم خواری کا ہے اس مہینہ کی برکت سے مومن کے رزق میں زیادتی ہوتی ہے
(6) جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہوگا مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائےگا
(7) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزے دار کو افطار کرائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اگر کوئی شخص ایک روزہ دار کا روزہ صرف ایک کھجور یا پانی یا دودھ کے گھونٹ سے ہی کھلوا دے گا تب بھی اللہ تبارک و تعالی اس کو اتنا ہی ثواب عطا فرمائے گا (مطلب یہ ہے کہ روزہ دار کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا اور افطار کرانے والے کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا
(8) اور اس مہینے کا ابتدائی حصہ (پہلا عشرہ) رحمت کا ہے اور دوسرا حصہ (دوسرا عشرہ) مغفرت کا ہے اور آخری حصہ (تیسرا عشرہ) دوزخ سے آزادی کا ہے-
(9) اور جو شخص اپنے خادم ملازم سے اس مہینہ میں کام ہلکا لے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا اور جہنم سے آزاد کردے گا-
(10) اور تم رمضان المبارک میں چار کام زیادہ کرو دو کاموں سے تم اپنے پروردگار کو راضی کرو اور دو کام ایسے کرو جن سے تمہیں چھٹکارا نہیں (یعنی ان کاموں کی تمہیں ضرورت ہے) پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے پروردگار کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور جن دو باتوں کے بغیر تمہیں کوئی چارہ نہیں وہ جنت کی طلب اور دوزخ سے پناہ مانگنا ہے
(11) اور جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے گا (قیامت کے دن) اللہ تبارک وتعالی اس کو میرے حوض کوثر سے ایسا پانی پلائے گا کہ اس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی -
. . . . . . . . . . . . (بیہقی)
دوسرا خطبہ
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے ارشاد فرمایا لوگوں ماہ رمضان آگیا یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے اللہ تبارک و تعالی اس میں اپنے خاص فضل و کرم سے تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی خاص رحمتیں نازل فرماتے ہیں خطاؤں کو معاف کرتے ہیں دعائیں قبول کرتے ہیں اس مہینہ میں طاعات حسنات اور عبادت کی طرف تمہاری رغبت اور مسابقت کو دیکھتے ہیں اور مسرت و فخر کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھی دکھاتے ہیں بس آئے لوگوں' ان مبارک دنوں میں اللہ پاک کو اپنی طرف سے نیکیاں ہی دکھاؤ (یعنی عبادات و حسنات کثرت سے کرو) بلاشبہ وہ شخص بہت بڑا بد نصیب ہے جو رحمتوں کے اس مہینے میں بھی اللہ جل شانہ کی اس رحمت سے محروم رہے - (طبرانی)
اس مبارک مہینے کو حق تعالیٰ شانہ نے اپنا مہینہ فرمایا ہے گویا اس ماہ مبارک میں اللہ تبارک و تعالی انسانوں کو اپنا بندہ بنانا چاہتے ہیں اور انسان کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جوڑ لیں اس ماہ مبارک میں رحمت خداوندی کا دریا موجزن ہوتا ہے اوپر کے حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ سے آزادی کا ہے یہ نورانیت میں اضافہ روحانیت میں ترقی اجروثواب میں زیادتی اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے اس میں کسی سائل کو خالی ہات کسی امیدوار کو ناامید اور کسی طالب کو ناکام و مراد نہیں رکھا جاتا، بلکہ ہر شخص کے لیے اس مہینے میں اللہ حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے رحمت و بخشش کی صدائیں عام ہوتی ہے اللہ کے مقبول بندے سال بھر سے ماہ مبارک کی آمد کے لئے چشم براہ رہتے ہیں اور جو شخص ان بابرکت اوقات میں بھی رجوع الی اللہ کی دولت سے محروم رہے اور دریائے رحمت کی طغیانی کے باوجود حصول رحمت کے لیے اپنا دامن نہ پھیلائے اس سے بڑھ کر اور کون محروم ہوسکتا ہے، ہمارے اندر یہ غلط فہمی ہے کہ عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان المبارک کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ اس میں روزے رکھے جاتے ہیں اور رات کے وقت تراویح پڑھی جاتی ہے بس اس کے علاوہ اور کوئی خصوصیت نہیں اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں عبادتیں اس مہینے کی بڑی اہم عبادات میں سے ہے لیکن بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت رمضان المبارک ہم سے اس سے زیادہ کا مطالبہ کرتا ہے اور قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا میں نے جنات اور انسانوں کو صرف ایک کام کے لئے پیدا کیا ہے وہ یہ ہے کہ میری عبادت کریں اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کی تخلیق کا بنیادی مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں-:
:*:کیا فرشتے کافی نہیں تھے :*:
یہاں بعض لوگوں کو خاص کرنئ روشنی کے لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت تھا تو اس کام کے لیے انسانوں کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی یہ کام تو فرشتے پہلے ہی سے بہت اچھی طرح انجام دے رہے تھے اور وہ اللہ تبارک وتعالی علی کی عبادت تسبیح و تقدس میں لگے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا اور فرشتوں کو بتایا کہ میں اس طرح کا ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں تو فرشتوں نے بے ساختہ یہ کہا کہ آپ ایک ایسے انسان کو پیدا کر رہے ہیں جو زمین میں فساد مچائے گا اور خوں ریزی کریگا اور عبادت تسبیح و تقدیس ہم انجام دے رہے ہیں اسی طرح آج بھی اعتراض کرنے والے اعتراض کر رہے ہیں اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہوتا تو اس کے لئے انسان کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی یہ کام تو فرشتے پہلے ہی سے انجام دے رہے ہیں
:*:فرشتوں کا کوئی کمال نہیں :*:
بے شک اللہ تبارک و تعالی کے فرشتے اللہ کی عبادت کر رہے ہیں لیکن ان کی عبادت بالکل مختلف نوعیت کی تھی اس لئے کہ فرشتے جو عبادت کر رہے تھے ان کے مزاج میں اس کے خلاف کرنے کا امکان ہی نہیں تھا اگر وہ چاہیں کہ عبادت نہ کریں تو ان کے اندر عبادت چھوڑنے کی صلاحیت ہی نہیں اللہ تبارک و تعالی نے ان کے اندر سے گناہ کرنے کا امکان ہی ختم فرما دیا اور نہ انہیں بھوک لگتی ہے نہ ان کو پیاس لگتی ہے نہ ان کے اندر شہوانی تقاضہ پیدا ہوتا ہے ہے حتی کہ ان کے دل میں گناہ کا وسوسہ بھی نہیں گرتا، گناہ کی خواہش اور گناہ پر اقدام تو دور کی بات ہے، اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی نے ان کی عبادت پر کوئی اجر ثواب نہیں رکھا کیونکہ اگر فرشتے گناہ نہیں کر رہے ہیں تو اس میں ان کا کوئی کمال نہیں جب کوئی کمال نہیں تو پھر جنت والا اجر ثواب بھی مرتب نہیں ہوگا
:*: نابینا کا بچنا کمال نہیں :*:
مثلا ایک شخص بینائی سے محروم ہے جس کی وجہ سے ساری عمر اس نے نہ کبھی فلم دیکھی نہ کبھی ٹی وی دیکھا نہ کبھی غیر محرم پر نگاہ ڈالی بتائے کہ ان گناہوں کے نہ کرنے میں اس کا کیا کمال ظاہر ہوا؟ اس لیے کہ اس کے اندر ان گناہوں کے کرنے کی صلاحیت ہی نہیں لیکن ایک دوسرا شخص جس کی بینائی بالکل ٹھیک ہے جو چیز چاہیے دیکھ سکتا ہے لیکن دیکھنے کی صلاحیت موجود ہونے کے باوجود جب کسی غیر محرم کی طرف دیکھنے کا تقاضہ دل میں پیدا ہوتا ہے وہ فوراً صرف اللہ کے خوف سے نگاہ نیچے کر لیتا ہے اب بظاہر دونوں گناہوں سے بچ رہے ہیں لیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے پہلا شخص بھی گناہ سے بچ رہا ہے اور دوسرا شخص بھی گناہ سے بچ رہا ہے لیکن پہلے شخص کا گناہ سے بچنا کوئی کمال نہیں اور دوسرے شخص کا گناہ سے بچنا کمال ہے
:*: یہ عبادت فرشتوں کے بس میں نہیں ہے :*:
لہذا اگر ملائکا صبح سے شام تک کھانا نہ کھائیں تو یہ کوئی کمال نہیں اسلئے کہ انہیں بھوک ہی نہیں لگتی اور انہیں کھانے کی حاجت ہی نہیں لہذا ان کے نہ کھانے پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں لیکن انسان ان تمام حاجتوں کو لے کر پیدا ہوا ہے لہٰذا کوئی انسان کتنے ہی بڑے سے بڑے مقام پر پہنچ جائے حتی کہ سب سے اعلی مقام یعنی نبوت پر پہنچ جائے تب بھی وہ کھانے پینے سے مستغنی نہیں ہو سکتا چنانچہ کفار نے انبیاء پر یہی اعتراض کیا کہ یہ رسول کیسے ہیں جو کھانا بھی کھاتے ہیں اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی ہیں تو کھانے کا تقاضہ انبیاء کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے اب اگر انسان کو بھوک لگ رہی ہے لیکن اللہ کے حکم کی وجہ سے کھانا نہیں کھا رہا ہے تو یہ کمال کی بات ہے اس لیے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایسی مخلوق پیدا کر رہا ہوں جس کو بھوک بھی لگے گی پیاس بھی لگے گی اور اس کے اندر شہوانی تقاضے بھی پیدا ہوں گے اور گناہ کے کرنے کے داعیے بھی ان کے اندر پیدا ہوں گے لیکن جب گناہ کا داعیہ پیدا ہوگا، اس وقت وہ مجھے یاد کرلے گا اور مجھے یاد کرکے اپنے نفس کو اس گناہ سے بچا لے گا اس کی عبادت اور گناہ سے بچنا ہمارے یہاں قدروقیمت رکھتا ہے اور جس کا اجر ثواب اور بدلہ دینے کے لیے ہم نے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس کی صفت عرضها السموات والأرض ہے اس لئے کہ اس کے دل میں داعیہ اور تقاضہ ہو رہا ہے اور خواہشات پیدا ہورہی ہیں اور گناہ کے محرکات سامنے آرہے ہیں لیکن یہ انسان ہمارے خوف اور ہماری عظمت کے تصور سے اپنی آنکھ کو گناہ سے بچا لیتا ہے اپنے کان کو گناہ سے بچالیتا ہے اپنی زبان کو گناہوں سے بچا لیتا ہے اور گناہوں کی طرف اٹھتے ہوئے قدموں کو روک لیتا ہے تاکہ میرا اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے یہ عبادت فرشتوں کے بس میں نہیں تھی اس عبادت کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس لیے اب آنے والے ماہ مبارک میں صرف روزے اور تراویح پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہوہ ہے اللہ کی عبادت کرنے کے لئے اس لئے اللہ کی عبادت کا خوب اہتمام فرمائیں -
:*: ماہ مبارک میں اصل مقصد کی طرف آ جاؤ :*:
اللہ تبارک وتعالی جانتے تھے کہ جب یہ انسان دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں لگے گا تو رفتہ رفتہ اس کے دل پر غفلت کے پردے پڑ جایا کریں گے اور دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں کھو جائے گا تو اس غفلت کو دور کرنے کے لیے وقت فوقتاً کچھ اوقات مقرر فرما دیئے ہیں ان میں سے ایک رمضان المبارک کا مہینہ ہے اس لئے کہ سال کے گیارہ مہینے تو آپ تجارت میں، زراعت میں، مزدوری میں، اور دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں کھانے کمانے اور ہنسنے بولنے میں لگے رہے اور اس کے نتیجے میں دلوں پر غفلت کا پردہ پڑھنے لگتا ہے اسلئے ایک مہینہ اللہ تبارک و تعالی نے اس کام کے لیے مقرر فرما دیا یا کہ اس مہینے میں تم اپنے اصل مقصد تخلیق یعنی عبادت کی طرف لوٹ کر آؤ جس کے لیے تمہیں پیدا کیا گیا ہے آنے والے ماہ مبارک میں اللہ تبارک و تعالی کی عبادت میں لگو آنے والے ماہ مبارک میں اس مقصد تخلیق میں لگو-
:*: آنے والے ماہ مبارک کو فارغ کرلیں :*:
لہذا صرف روزے رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس مہینے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس مہینے میں دوسرے کاموں دھندوں سے فارغ کرنے، اس لئے کہ گیارہ مہینے تک زندگی کے دوسرے کام دھندوں میں لگے رہے لیکن یہ مہینہ انسان کے لئے اس کی اصل مقصد تخلیق کی طرف لوٹنے کا مہینہ ہے اس لیے اس مہینے کے تمام اوقات ورنہ کم از کم اکثر اوقات یا جتنا زیادہ سے زیادہ ہوسکے اللہ کی عبادت میں صرف کرے اور اس کے لیے انسان کو پہلے سے تیار ہونا چاہیے اور اس کا پہلے سے پروگرام بنانا چاہیے- آنے والے ماہ مبارک میں ایک مومن کو کیا کرنا چاہیے؟ آنے والے ماہ مبارک میں ایک مؤمن کا لائحہ عمل یہ ہونا چاہئے -
:*: رمضان المبارک کے پانچ خصوصی اعمال:*:
(1) روزہ تراویح تلاوت قرآن کریم ذکر الہی دعا و استغفار کا خصوصی اہتمام کیا جائے اس سراپا نور مہینےمیں جس قدر نورانی اعمال کئے جائیں گے اسی قدر روح میں لطافت بالیدگی اور قلمی نورانیت پیدا ہوگی
*. روزہ کا مقصد تقوی کی شمع روشن کرنا. *
اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے - اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے پچھلی امتوں پر فرض کیے گئے، کیوں روزے فرض کئے گئے؟ تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو یعنی روزہ اصل میں اس لئے تمہارے ذمہ شروع کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے تمہارے دل میں تقوی کی شمع روشن ہو روزے سے تقوی کس طرح پیدا ہوتا ہے-
:*: روزہ تقوی کی سیڑھی ہے:*:
بعض علماء کرام نے فرمایا کہ روزے سے تقویٰ اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی قوت حیوانیہ ہر قوت بہیمیہ کو توڑتا ہے جب آدمی بھوکا رہے گا تو اس کی وجہ سے اس کی حیوانی خواہشات اور حیوانیت تقاضے کچلے جائیں گے جس کے نتیجے میں گناہوں پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سست پڑ جائے گا
لیکن حضرت حکیم الامت قدس سرہٗ (اللہ تبارک و تعالی ان کے درجات بلند فرمائے آمین) نے فرمایا صرف قوت بہیمیہ توڑنے کی بات نہیں ہے بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ جب آدمی صحیح طریقے سے روزے رکھے گا تو یہ روزہ خود تقوی کی ایک عظیم الشان سیڑھی ہے اس لئے کہ تقوی کے کیا معنی ہے؟ تقوی کے معنی یہ ہے اللہ کی عظمت کے استحضار سے اس کے گناہوں سے بچنا. یعنی یہ سوچ کر کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ مجھے دیکھ رہے ہیں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر مجھے جواب دینا ہے اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اس تصور کے بعد جب انسان گناہوں کو چھوڑتا ہےتو اسی کا نام تقویٰ ہے،
جیساکہ اللہ تبارک وتعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں
جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھے اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور کھڑا ہونا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ہوائے نفس اور خواہشات سے روکتا ہے ،تو یہی تقویٰ ہے-
:*: روزہ اور تراویح سے ایک قدم آگے::*:
جب رمضان المبارک کو دوسرے مشاغل سے فارغ کر لیا تو اب اس فارغ وقت کو کس کام میں صرف کرے؟ جہاں تک تراویح کا معاملہ ہے اس سے بھی ہر شخص واقف ہے لیکن ایک پہلو کی طرف خاص طور پر توجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ الحمدللہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے اس کے دل میں رمضان کا ایک احترام اور اس کا تقدس ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں اللہ تبارک و تعالی کی عبادت کچھ زیادہ کرے اور کچھ نوافل زیادہ پڑھے جو لوگ عام دنوں میں پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں وہ لوگ بھی تراویح جیسی لمبی نماز میں روزانہ شریک ہوتے ہیں یہ سب الحمداللہ اس ماہ کی برکت ہے لوگ عبادت میں نماز میں ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن میں مشغول ہوتے ہیں اور ہم لوگوں کو ان سب چیزوں میں مشغول ہونا بھی چاہیے خاص کر روزہ اور تراویح کے ساتھ ساتھ ذکر الہی دعا و استغفار کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے اس ماہ مبارک میں جس قدر نورانی اعمال کریں گے اسی قدر روح میں لطافت اور قلب میں نورانیت پیدا ہوگی -
(2) اس ماہ مبارک میں جھوٹ بہتان غیبت حرام خوری اور دیگر تمام آلودگیوں سے پرہیز کرنے کا پورا اہتمام کیا جائے حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے. جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور غلط کام کرنے سے پرہیز نہ کرے اللہ تبارک و تعالی کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں- ایک اور حدیث میں ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا نعوذباللہ روزہ کی حالت میں کان کی آنکھوں کی پیٹ کی شرمگاہ کی اور دیگر اعضا کی حفاظت لازم ہے اللہ کے بندے اس مہینے میں اپنے نفس کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے ہیں کہ سارا سال تو نے اپنی من مانیاں کی ہے چند دنوں کے لیے یے اگر حق تعالیٰ شانہ کے حکموں کا پابند ہوجائے اور اپنی خواہشوں اور لذتوں کو ترک کردے تو تیرا کیا نقصان ہے؟ الغرض اس مہینے میں گناہوں کا ترک کرنا لازم اور ضروری ہے اگر ذرا سی ہمت سے کام لیا جائے تو ان چند دنوں میں گناہوں کا چھوڑنا بہت آسان ہے-
(3) جہاں گناہوں سے پرہیز لازم ہیں وہاں بے فائدہ اور لایعنی مشاغل سے بھی احتراز کرنا چاہئے کیونکہ یہ بے مقصد کے مشغلے انسان کو مقصد سے ہٹا دیتے ہیں بہت سے لوگ کھیل کود. شطرنج. تفریح و تماشا. فیس بک. واٹس ایپ. اور فلم بینی وغیرہ وغیرہ میں ماہ مبارک کے بابرکت اوقات کو ضائع کر دیتے ہیں ان کی حالت بہت ہی لائق رحم ہے-
(4) ماہ رمضان میں قلب کا تصفیہ بھی بہت ضروری ہے جس دل میں کینہ. حسد. عداوت کا کھوٹ اور میل جمع ہو اس پر اس ماہ مبارک کے انوار کی تجلی کماحقہٗ نہیں ہوسکتی. یہی وجہ ہے کے بعض احادیث کے مطابق رمضان المبارک کی راتوں میں سب لوگوں کی بخشش ہو جاتی ہے مگر ایسے دو شخص جو ایک دوسرے سے کینہ و عداوت رکھتے ہوں ان کی بخشش نہیں ہوتی اس لئے تقاضائے بشریت کی بنا پر جو آپس میں رنجش ہو جاتی ہے ان سے دل کو صاف کرلینا چاہئے اور اس ماہ مبارک میں کسی دوسرے مسلمان سے کینہ و عداوت نہیں رکھنی چاہئے -
(5) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ مبارک کو ہمدردی و غمخواری کا مہینہ فرمایا ہے اس لیے اس مہینے میں جودوسخا اور عطاوبخشش عام ہونی چاہیئے جن لوگوں کو اللہ تبارک و تعالی نے استطاعت عطا فرمائی ہے وہ اس مہینے میں تنگدستوں اور محتاجوں کی بطور خاص نگہداشت کریں-
(6) اس ماہ مبارک میں ملازمین اور نوکر پیشہ لوگوں کا کام ہلکا کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے اس لئے سرکاری ملازمین کے کام میں اس قدر تخفیف کرنا لازم ہے کہ ان کے لئیے روزہ کے ساتھ کام کرنا دشوار نہ رہے
(7) ہمارے معاشرے میں یہ بری رسم رائج ہے ہے کہ رمضان المبارک میں میں اشیاء صرف کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اوردوکاندار اس مہینے میں من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں، اور ماہ مبارک کو کمائی کا خاص موسم سمجھتے ہیں یہ ذہنیت اسلامی روح کے یکسر خلاف ہے اس کے برعکس ہونا یہ چاہئیے کہ اس ماہ مبارک کے طفیل قیمتیں کم ہو جائیں اور دوکاندار کم سے کم منافع پر قناعت کریں وہ اس مہینے میں خریداروں سے جس قدر رعایت کریں گے وہ بھی صدقے میں شمار ہوگی اور اس کی بدولت ان کے کاروبار میں بھی برکت ہوگی ماہ مبارک میں روزمرہ کے استعمال کی چیزیں ارزاں کرنا بھی احترام رمضان کا ایک شعبہ ہے جس کا اہتمام بڑے دوکانداروں کو کرنا چاہئے اور انہیں رمضان المبارک میں قیمتوں میں تخفیف کا اعلان بھی کرنا چاہئے اور اس کا عملی نمونہ بھی پیش کرنا چاہیے -
حضراتِ عارفین اور اہل تجربہ کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے معمولات و مشاغل پورے سال کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں جو شخص رمضان المبارک میں سدھر گیا وہ انشاءاللہ پورے سال سدھرا رہے گا اور جو شخص اس ماہ مبارک میں غلط روی سے باز نہ آیا اس کو آئندہ بھی توفیق نہیں ہوگی حق تعالیٰ شانہٗ اس سال کے ماہ رمضان کو ہمارے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے خیر و سعادت کا موجب بنائیں اللہ تبارک و تعالی اس وبائی مرض کو جلد از جلد ختم کر دے-- آمین
________________
رمضان المبارک ہزاروں برکتوں اور رحمتوں کو اپنے دامن میں لئے ہم پر سایہ فگن ہے اور یہ بابرکت مہینہ ایمان و تقوی کا مہینہ ہے ہر بندہ مومن اپنی اپنی ہمت اور ظرف کے مطابق اس کی برکتوں اور رحمتوں سے لطف اندوز ہو گا جس شخص کے دل میں ایمان کی معمولی رمق بھی باقی ہو اس مہینے میں معمولی ایمانی صلاحیتیں بھی ابھر کر سامنے آجاتی ہیں اب صرف چند ہی
دن باقی رہ چکے ہیں ایک دفعہ پھر رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے اوپر سایہ فگن ہونے والا ہے اور اس کی رحمتوں کی بارش ہماری زندگیوں کو سیراب کرنے کے لئے برس رہی ہوگی اس ماہ مبارک کی عظمت وبرکت کا کیا ٹھکانا جسے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہرعظیم اور شہر مبارک کہہ کر پکارا ہو یعنی بڑی عظمت والا اور بڑی برکت والا مہینہ ہے نہ ہمارا تصور اس ماہ کی عظمت کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے نہ ہماری زبان اس کی برکتوں کا احاطہ کر سکتی ہے
:*:، رمضان المبارک کی آمد پر سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ استقبالیہ، :*:
شعبان کی آخری تاریخ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف کے متعلق جو بیان فرمایا اور رمضان کے فضائل سے متعلق حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی چند جامع احادیث سب سے پہلے اس کو پڑھ لے تاکہ اس ماہ مبارک کی اہمیت اور اس کی فضیلت اور اس میں کچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوجائے-
(1) اے لوگوں تمہارے اوپر ایک بہت بڑا مہینہ سایہ ڈالنے والا ہے بہت برکتوں والا ہے اس ماہ مبارک میں ایک رات( شب قدر) ایسے مرتبہ والی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے
(2) اللہ تبارک و تعالی نے اس ماہ مبارک کے روزے (مسلمانوں پر) فرض فرمائے اور اس کی رات کےقیام (تراویح) کو باعث ثواب کردیا
(3) جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے ذریعے اللہ تبارک و تعالی کا قرب حاصل کرے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں کوئی فرض ادا کر ے
(4) اور جو شخص اس ماہ مبارک میں کوئی ایک فرض ادا کرے وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرض ادا کئے
(5) اور یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ ماہ مبارک باہمی رواداری اور غم خواری کا ہے اس مہینہ کی برکت سے مومن کے رزق میں زیادتی ہوتی ہے
(6) جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہونے اور دوزخ سے نجات کا ذریعہ ہوگا مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائےگا
(7) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزے دار کو افطار کرائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اگر کوئی شخص ایک روزہ دار کا روزہ صرف ایک کھجور یا پانی یا دودھ کے گھونٹ سے ہی کھلوا دے گا تب بھی اللہ تبارک و تعالی اس کو اتنا ہی ثواب عطا فرمائے گا (مطلب یہ ہے کہ روزہ دار کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا اور افطار کرانے والے کو بھی پورا پورا ثواب ملے گا
(8) اور اس مہینے کا ابتدائی حصہ (پہلا عشرہ) رحمت کا ہے اور دوسرا حصہ (دوسرا عشرہ) مغفرت کا ہے اور آخری حصہ (تیسرا عشرہ) دوزخ سے آزادی کا ہے-
(9) اور جو شخص اپنے خادم ملازم سے اس مہینہ میں کام ہلکا لے اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا اور جہنم سے آزاد کردے گا-
(10) اور تم رمضان المبارک میں چار کام زیادہ کرو دو کاموں سے تم اپنے پروردگار کو راضی کرو اور دو کام ایسے کرو جن سے تمہیں چھٹکارا نہیں (یعنی ان کاموں کی تمہیں ضرورت ہے) پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے پروردگار کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور جن دو باتوں کے بغیر تمہیں کوئی چارہ نہیں وہ جنت کی طلب اور دوزخ سے پناہ مانگنا ہے
(11) اور جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے گا (قیامت کے دن) اللہ تبارک وتعالی اس کو میرے حوض کوثر سے ایسا پانی پلائے گا کہ اس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی -
. . . . . . . . . . . . (بیہقی)
دوسرا خطبہ
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے ارشاد فرمایا لوگوں ماہ رمضان آگیا یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے اللہ تبارک و تعالی اس میں اپنے خاص فضل و کرم سے تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی خاص رحمتیں نازل فرماتے ہیں خطاؤں کو معاف کرتے ہیں دعائیں قبول کرتے ہیں اس مہینہ میں طاعات حسنات اور عبادت کی طرف تمہاری رغبت اور مسابقت کو دیکھتے ہیں اور مسرت و فخر کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھی دکھاتے ہیں بس آئے لوگوں' ان مبارک دنوں میں اللہ پاک کو اپنی طرف سے نیکیاں ہی دکھاؤ (یعنی عبادات و حسنات کثرت سے کرو) بلاشبہ وہ شخص بہت بڑا بد نصیب ہے جو رحمتوں کے اس مہینے میں بھی اللہ جل شانہ کی اس رحمت سے محروم رہے - (طبرانی)
اس مبارک مہینے کو حق تعالیٰ شانہ نے اپنا مہینہ فرمایا ہے گویا اس ماہ مبارک میں اللہ تبارک و تعالی انسانوں کو اپنا بندہ بنانا چاہتے ہیں اور انسان کو اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک سے ٹوٹا ہوا رشتہ دوبارہ جوڑ لیں اس ماہ مبارک میں رحمت خداوندی کا دریا موجزن ہوتا ہے اوپر کے حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت دوسرا بخشش اور تیسرا دوزخ سے آزادی کا ہے یہ نورانیت میں اضافہ روحانیت میں ترقی اجروثواب میں زیادتی اور دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے اس میں کسی سائل کو خالی ہات کسی امیدوار کو ناامید اور کسی طالب کو ناکام و مراد نہیں رکھا جاتا، بلکہ ہر شخص کے لیے اس مہینے میں اللہ حق تعالیٰ شانہ کی جانب سے رحمت و بخشش کی صدائیں عام ہوتی ہے اللہ کے مقبول بندے سال بھر سے ماہ مبارک کی آمد کے لئے چشم براہ رہتے ہیں اور جو شخص ان بابرکت اوقات میں بھی رجوع الی اللہ کی دولت سے محروم رہے اور دریائے رحمت کی طغیانی کے باوجود حصول رحمت کے لیے اپنا دامن نہ پھیلائے اس سے بڑھ کر اور کون محروم ہوسکتا ہے، ہمارے اندر یہ غلط فہمی ہے کہ عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان المبارک کی خصوصیت صرف یہ ہے کہ اس میں روزے رکھے جاتے ہیں اور رات کے وقت تراویح پڑھی جاتی ہے بس اس کے علاوہ اور کوئی خصوصیت نہیں اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں عبادتیں اس مہینے کی بڑی اہم عبادات میں سے ہے لیکن بات صرف یہاں تک ختم نہیں ہوتی بلکہ درحقیقت رمضان المبارک ہم سے اس سے زیادہ کا مطالبہ کرتا ہے اور قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے ارشاد فرمایا میں نے جنات اور انسانوں کو صرف ایک کام کے لئے پیدا کیا ہے وہ یہ ہے کہ میری عبادت کریں اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کی تخلیق کا بنیادی مقصد یہ بتایا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں-:
:*:کیا فرشتے کافی نہیں تھے :*:
یہاں بعض لوگوں کو خاص کرنئ روشنی کے لوگوں کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت تھا تو اس کام کے لیے انسانوں کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی یہ کام تو فرشتے پہلے ہی سے بہت اچھی طرح انجام دے رہے تھے اور وہ اللہ تبارک وتعالی علی کی عبادت تسبیح و تقدس میں لگے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تبارک و تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا اور فرشتوں کو بتایا کہ میں اس طرح کا ایک انسان پیدا کرنے والا ہوں تو فرشتوں نے بے ساختہ یہ کہا کہ آپ ایک ایسے انسان کو پیدا کر رہے ہیں جو زمین میں فساد مچائے گا اور خوں ریزی کریگا اور عبادت تسبیح و تقدیس ہم انجام دے رہے ہیں اسی طرح آج بھی اعتراض کرنے والے اعتراض کر رہے ہیں اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہوتا تو اس کے لئے انسان کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں تھی یہ کام تو فرشتے پہلے ہی سے انجام دے رہے ہیں
:*:فرشتوں کا کوئی کمال نہیں :*:
بے شک اللہ تبارک و تعالی کے فرشتے اللہ کی عبادت کر رہے ہیں لیکن ان کی عبادت بالکل مختلف نوعیت کی تھی اس لئے کہ فرشتے جو عبادت کر رہے تھے ان کے مزاج میں اس کے خلاف کرنے کا امکان ہی نہیں تھا اگر وہ چاہیں کہ عبادت نہ کریں تو ان کے اندر عبادت چھوڑنے کی صلاحیت ہی نہیں اللہ تبارک و تعالی نے ان کے اندر سے گناہ کرنے کا امکان ہی ختم فرما دیا اور نہ انہیں بھوک لگتی ہے نہ ان کو پیاس لگتی ہے نہ ان کے اندر شہوانی تقاضہ پیدا ہوتا ہے ہے حتی کہ ان کے دل میں گناہ کا وسوسہ بھی نہیں گرتا، گناہ کی خواہش اور گناہ پر اقدام تو دور کی بات ہے، اس لئے کہ اللہ تبارک وتعالی نے ان کی عبادت پر کوئی اجر ثواب نہیں رکھا کیونکہ اگر فرشتے گناہ نہیں کر رہے ہیں تو اس میں ان کا کوئی کمال نہیں جب کوئی کمال نہیں تو پھر جنت والا اجر ثواب بھی مرتب نہیں ہوگا
:*: نابینا کا بچنا کمال نہیں :*:
مثلا ایک شخص بینائی سے محروم ہے جس کی وجہ سے ساری عمر اس نے نہ کبھی فلم دیکھی نہ کبھی ٹی وی دیکھا نہ کبھی غیر محرم پر نگاہ ڈالی بتائے کہ ان گناہوں کے نہ کرنے میں اس کا کیا کمال ظاہر ہوا؟ اس لیے کہ اس کے اندر ان گناہوں کے کرنے کی صلاحیت ہی نہیں لیکن ایک دوسرا شخص جس کی بینائی بالکل ٹھیک ہے جو چیز چاہیے دیکھ سکتا ہے لیکن دیکھنے کی صلاحیت موجود ہونے کے باوجود جب کسی غیر محرم کی طرف دیکھنے کا تقاضہ دل میں پیدا ہوتا ہے وہ فوراً صرف اللہ کے خوف سے نگاہ نیچے کر لیتا ہے اب بظاہر دونوں گناہوں سے بچ رہے ہیں لیکن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے پہلا شخص بھی گناہ سے بچ رہا ہے اور دوسرا شخص بھی گناہ سے بچ رہا ہے لیکن پہلے شخص کا گناہ سے بچنا کوئی کمال نہیں اور دوسرے شخص کا گناہ سے بچنا کمال ہے
:*: یہ عبادت فرشتوں کے بس میں نہیں ہے :*:
لہذا اگر ملائکا صبح سے شام تک کھانا نہ کھائیں تو یہ کوئی کمال نہیں اسلئے کہ انہیں بھوک ہی نہیں لگتی اور انہیں کھانے کی حاجت ہی نہیں لہذا ان کے نہ کھانے پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں لیکن انسان ان تمام حاجتوں کو لے کر پیدا ہوا ہے لہٰذا کوئی انسان کتنے ہی بڑے سے بڑے مقام پر پہنچ جائے حتی کہ سب سے اعلی مقام یعنی نبوت پر پہنچ جائے تب بھی وہ کھانے پینے سے مستغنی نہیں ہو سکتا چنانچہ کفار نے انبیاء پر یہی اعتراض کیا کہ یہ رسول کیسے ہیں جو کھانا بھی کھاتے ہیں اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی ہیں تو کھانے کا تقاضہ انبیاء کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے اب اگر انسان کو بھوک لگ رہی ہے لیکن اللہ کے حکم کی وجہ سے کھانا نہیں کھا رہا ہے تو یہ کمال کی بات ہے اس لیے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایسی مخلوق پیدا کر رہا ہوں جس کو بھوک بھی لگے گی پیاس بھی لگے گی اور اس کے اندر شہوانی تقاضے بھی پیدا ہوں گے اور گناہ کے کرنے کے داعیے بھی ان کے اندر پیدا ہوں گے لیکن جب گناہ کا داعیہ پیدا ہوگا، اس وقت وہ مجھے یاد کرلے گا اور مجھے یاد کرکے اپنے نفس کو اس گناہ سے بچا لے گا اس کی عبادت اور گناہ سے بچنا ہمارے یہاں قدروقیمت رکھتا ہے اور جس کا اجر ثواب اور بدلہ دینے کے لیے ہم نے ایسی جنت تیار کر رکھی ہے جس کی صفت عرضها السموات والأرض ہے اس لئے کہ اس کے دل میں داعیہ اور تقاضہ ہو رہا ہے اور خواہشات پیدا ہورہی ہیں اور گناہ کے محرکات سامنے آرہے ہیں لیکن یہ انسان ہمارے خوف اور ہماری عظمت کے تصور سے اپنی آنکھ کو گناہ سے بچا لیتا ہے اپنے کان کو گناہ سے بچالیتا ہے اپنی زبان کو گناہوں سے بچا لیتا ہے اور گناہوں کی طرف اٹھتے ہوئے قدموں کو روک لیتا ہے تاکہ میرا اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے یہ عبادت فرشتوں کے بس میں نہیں تھی اس عبادت کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے اس لیے اب آنے والے ماہ مبارک میں صرف روزے اور تراویح پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ جس مقصد کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہوہ ہے اللہ کی عبادت کرنے کے لئے اس لئے اللہ کی عبادت کا خوب اہتمام فرمائیں -
:*: ماہ مبارک میں اصل مقصد کی طرف آ جاؤ :*:
اللہ تبارک وتعالی جانتے تھے کہ جب یہ انسان دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں لگے گا تو رفتہ رفتہ اس کے دل پر غفلت کے پردے پڑ جایا کریں گے اور دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں کھو جائے گا تو اس غفلت کو دور کرنے کے لیے وقت فوقتاً کچھ اوقات مقرر فرما دیئے ہیں ان میں سے ایک رمضان المبارک کا مہینہ ہے اس لئے کہ سال کے گیارہ مہینے تو آپ تجارت میں، زراعت میں، مزدوری میں، اور دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں کھانے کمانے اور ہنسنے بولنے میں لگے رہے اور اس کے نتیجے میں دلوں پر غفلت کا پردہ پڑھنے لگتا ہے اسلئے ایک مہینہ اللہ تبارک و تعالی نے اس کام کے لیے مقرر فرما دیا یا کہ اس مہینے میں تم اپنے اصل مقصد تخلیق یعنی عبادت کی طرف لوٹ کر آؤ جس کے لیے تمہیں پیدا کیا گیا ہے آنے والے ماہ مبارک میں اللہ تبارک و تعالی کی عبادت میں لگو آنے والے ماہ مبارک میں اس مقصد تخلیق میں لگو-
:*: آنے والے ماہ مبارک کو فارغ کرلیں :*:
لہذا صرف روزے رکھنے اور تراویح پڑھنے کی حد تک بات ختم نہیں ہوتی بلکہ اس مہینے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس مہینے میں دوسرے کاموں دھندوں سے فارغ کرنے، اس لئے کہ گیارہ مہینے تک زندگی کے دوسرے کام دھندوں میں لگے رہے لیکن یہ مہینہ انسان کے لئے اس کی اصل مقصد تخلیق کی طرف لوٹنے کا مہینہ ہے اس لیے اس مہینے کے تمام اوقات ورنہ کم از کم اکثر اوقات یا جتنا زیادہ سے زیادہ ہوسکے اللہ کی عبادت میں صرف کرے اور اس کے لیے انسان کو پہلے سے تیار ہونا چاہیے اور اس کا پہلے سے پروگرام بنانا چاہیے- آنے والے ماہ مبارک میں ایک مومن کو کیا کرنا چاہیے؟ آنے والے ماہ مبارک میں ایک مؤمن کا لائحہ عمل یہ ہونا چاہئے -
:*: رمضان المبارک کے پانچ خصوصی اعمال:*:
(1) روزہ تراویح تلاوت قرآن کریم ذکر الہی دعا و استغفار کا خصوصی اہتمام کیا جائے اس سراپا نور مہینےمیں جس قدر نورانی اعمال کئے جائیں گے اسی قدر روح میں لطافت بالیدگی اور قلمی نورانیت پیدا ہوگی
*. روزہ کا مقصد تقوی کی شمع روشن کرنا. *
اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے - اے ایمان والوں! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے پچھلی امتوں پر فرض کیے گئے، کیوں روزے فرض کئے گئے؟ تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو یعنی روزہ اصل میں اس لئے تمہارے ذمہ شروع کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے تمہارے دل میں تقوی کی شمع روشن ہو روزے سے تقوی کس طرح پیدا ہوتا ہے-
:*: روزہ تقوی کی سیڑھی ہے:*:
بعض علماء کرام نے فرمایا کہ روزے سے تقویٰ اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی قوت حیوانیہ ہر قوت بہیمیہ کو توڑتا ہے جب آدمی بھوکا رہے گا تو اس کی وجہ سے اس کی حیوانی خواہشات اور حیوانیت تقاضے کچلے جائیں گے جس کے نتیجے میں گناہوں پر اقدام کرنے کا داعیہ اور جذبہ سست پڑ جائے گا
لیکن حضرت حکیم الامت قدس سرہٗ (اللہ تبارک و تعالی ان کے درجات بلند فرمائے آمین) نے فرمایا صرف قوت بہیمیہ توڑنے کی بات نہیں ہے بلکہ بات دراصل یہ ہے کہ جب آدمی صحیح طریقے سے روزے رکھے گا تو یہ روزہ خود تقوی کی ایک عظیم الشان سیڑھی ہے اس لئے کہ تقوی کے کیا معنی ہے؟ تقوی کے معنی یہ ہے اللہ کی عظمت کے استحضار سے اس کے گناہوں سے بچنا. یعنی یہ سوچ کر کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ مجھے دیکھ رہے ہیں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر مجھے جواب دینا ہے اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے اس تصور کے بعد جب انسان گناہوں کو چھوڑتا ہےتو اسی کا نام تقویٰ ہے،
جیساکہ اللہ تبارک وتعالی قرآن پاک میں ارشاد فرماتے ہیں
جو شخص اس بات سے ڈرتا ہے کہ مجھے اللہ کے دربار میں حاضر ہونا ہے اور کھڑا ہونا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو ہوائے نفس اور خواہشات سے روکتا ہے ،تو یہی تقویٰ ہے-
:*: روزہ اور تراویح سے ایک قدم آگے::*:
جب رمضان المبارک کو دوسرے مشاغل سے فارغ کر لیا تو اب اس فارغ وقت کو کس کام میں صرف کرے؟ جہاں تک تراویح کا معاملہ ہے اس سے بھی ہر شخص واقف ہے لیکن ایک پہلو کی طرف خاص طور پر توجہ کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ الحمدللہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے اس کے دل میں رمضان کا ایک احترام اور اس کا تقدس ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں اللہ تبارک و تعالی کی عبادت کچھ زیادہ کرے اور کچھ نوافل زیادہ پڑھے جو لوگ عام دنوں میں پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کے لئے مسجد میں آنے سے کتراتے ہیں وہ لوگ بھی تراویح جیسی لمبی نماز میں روزانہ شریک ہوتے ہیں یہ سب الحمداللہ اس ماہ کی برکت ہے لوگ عبادت میں نماز میں ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن میں مشغول ہوتے ہیں اور ہم لوگوں کو ان سب چیزوں میں مشغول ہونا بھی چاہیے خاص کر روزہ اور تراویح کے ساتھ ساتھ ذکر الہی دعا و استغفار کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے اس ماہ مبارک میں جس قدر نورانی اعمال کریں گے اسی قدر روح میں لطافت اور قلب میں نورانیت پیدا ہوگی -
(2) اس ماہ مبارک میں جھوٹ بہتان غیبت حرام خوری اور دیگر تمام آلودگیوں سے پرہیز کرنے کا پورا اہتمام کیا جائے حدیث پاک میں فرمایا گیا ہے. جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنے اور غلط کام کرنے سے پرہیز نہ کرے اللہ تبارک و تعالی کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں- ایک اور حدیث میں ہے کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا نعوذباللہ روزہ کی حالت میں کان کی آنکھوں کی پیٹ کی شرمگاہ کی اور دیگر اعضا کی حفاظت لازم ہے اللہ کے بندے اس مہینے میں اپنے نفس کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے ہیں کہ سارا سال تو نے اپنی من مانیاں کی ہے چند دنوں کے لیے یے اگر حق تعالیٰ شانہ کے حکموں کا پابند ہوجائے اور اپنی خواہشوں اور لذتوں کو ترک کردے تو تیرا کیا نقصان ہے؟ الغرض اس مہینے میں گناہوں کا ترک کرنا لازم اور ضروری ہے اگر ذرا سی ہمت سے کام لیا جائے تو ان چند دنوں میں گناہوں کا چھوڑنا بہت آسان ہے-
(3) جہاں گناہوں سے پرہیز لازم ہیں وہاں بے فائدہ اور لایعنی مشاغل سے بھی احتراز کرنا چاہئے کیونکہ یہ بے مقصد کے مشغلے انسان کو مقصد سے ہٹا دیتے ہیں بہت سے لوگ کھیل کود. شطرنج. تفریح و تماشا. فیس بک. واٹس ایپ. اور فلم بینی وغیرہ وغیرہ میں ماہ مبارک کے بابرکت اوقات کو ضائع کر دیتے ہیں ان کی حالت بہت ہی لائق رحم ہے-
(4) ماہ رمضان میں قلب کا تصفیہ بھی بہت ضروری ہے جس دل میں کینہ. حسد. عداوت کا کھوٹ اور میل جمع ہو اس پر اس ماہ مبارک کے انوار کی تجلی کماحقہٗ نہیں ہوسکتی. یہی وجہ ہے کے بعض احادیث کے مطابق رمضان المبارک کی راتوں میں سب لوگوں کی بخشش ہو جاتی ہے مگر ایسے دو شخص جو ایک دوسرے سے کینہ و عداوت رکھتے ہوں ان کی بخشش نہیں ہوتی اس لئے تقاضائے بشریت کی بنا پر جو آپس میں رنجش ہو جاتی ہے ان سے دل کو صاف کرلینا چاہئے اور اس ماہ مبارک میں کسی دوسرے مسلمان سے کینہ و عداوت نہیں رکھنی چاہئے -
(5) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ مبارک کو ہمدردی و غمخواری کا مہینہ فرمایا ہے اس لیے اس مہینے میں جودوسخا اور عطاوبخشش عام ہونی چاہیئے جن لوگوں کو اللہ تبارک و تعالی نے استطاعت عطا فرمائی ہے وہ اس مہینے میں تنگدستوں اور محتاجوں کی بطور خاص نگہداشت کریں-
(6) اس ماہ مبارک میں ملازمین اور نوکر پیشہ لوگوں کا کام ہلکا کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے اس لئے سرکاری ملازمین کے کام میں اس قدر تخفیف کرنا لازم ہے کہ ان کے لئیے روزہ کے ساتھ کام کرنا دشوار نہ رہے
(7) ہمارے معاشرے میں یہ بری رسم رائج ہے ہے کہ رمضان المبارک میں میں اشیاء صرف کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اوردوکاندار اس مہینے میں من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں، اور ماہ مبارک کو کمائی کا خاص موسم سمجھتے ہیں یہ ذہنیت اسلامی روح کے یکسر خلاف ہے اس کے برعکس ہونا یہ چاہئیے کہ اس ماہ مبارک کے طفیل قیمتیں کم ہو جائیں اور دوکاندار کم سے کم منافع پر قناعت کریں وہ اس مہینے میں خریداروں سے جس قدر رعایت کریں گے وہ بھی صدقے میں شمار ہوگی اور اس کی بدولت ان کے کاروبار میں بھی برکت ہوگی ماہ مبارک میں روزمرہ کے استعمال کی چیزیں ارزاں کرنا بھی احترام رمضان کا ایک شعبہ ہے جس کا اہتمام بڑے دوکانداروں کو کرنا چاہئے اور انہیں رمضان المبارک میں قیمتوں میں تخفیف کا اعلان بھی کرنا چاہئے اور اس کا عملی نمونہ بھی پیش کرنا چاہیے -
حضراتِ عارفین اور اہل تجربہ کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک کے معمولات و مشاغل پورے سال کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں جو شخص رمضان المبارک میں سدھر گیا وہ انشاءاللہ پورے سال سدھرا رہے گا اور جو شخص اس ماہ مبارک میں غلط روی سے باز نہ آیا اس کو آئندہ بھی توفیق نہیں ہوگی حق تعالیٰ شانہٗ اس سال کے ماہ رمضان کو ہمارے لئے اور عام مسلمانوں کے لئے خیر و سعادت کا موجب بنائیں اللہ تبارک و تعالی اس وبائی مرض کو جلد از جلد ختم کر دے-- آمین