جب سفینہ موج سے ٹکرا گیا!
تحریر: انس بجنوری
گاوں میں ایک صاحب مسلسل کئی دنوں سے انتہائی ذہنی پریشانی کا شکار تھے،کہنے لگے کہ مولانا صاحب! جب یہ ایک حقیقت ہے کہ "اللہ اپنے بندوں پر ستر ماوں سے زیادہ مہربان ہے" تو آخر ہم کمزوروں پر مسلسل ظلم کیوں کر رہا ہے؟جب کہ ہم مسلسل تسبیحات پڑھ رہے ہیں۔۔ کیا اللہ کو نظر نہیں آتا کہ اس کے بندے کمزور ہیں؟ آخر اللہ نے ہمارے اوپر ظالم بادشاہ کو کیوں مسلط کر رکھا ہے۔۔۔؟ جب وہ لوگ کافر ہیں اللہ کے باغی ہیں تو اللہ نے انھیں حکومت کیوں دی؟ یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات انھوں نے ایک سانس میں میرے سامنے رکھ دئے،ان کی زبان لڑکھڑا رہی تھی اور وہ واقعتا ذہنی اضطراب کا شکار تھے۔۔۔گویاکہ ان کی بات سے یہی لگ رہا تھا کہ:
کوئی بھی بات سن نہیں رہا کئی دن سے
میں تنگ آکے کسی دن خدا بدل دوں گا!
وہ ایک مخلص و سادہ مسلمان بوڑھے تھے،میری عادت یہ ہے کہ مسئلہ سن کر بھڑکتا نہیں، نہ جلی کٹی سناکر خاموش کرتا ہوں؛بلکہ کوشش کرتا ہوں کہ مطمئن کردوں ورنہ جہل کا اعتراف کرکے دیکھ کر جواب دینے کا کہہ دوں۔۔۔۔۔۔خیر! بلاشبہ یہ سوال آج کل تقریباً ہر دین دار مسلمان کی زبان پر ہے اور اس کے دل و دماغ کو پریشان کئے ہوئے ہے اور اسے سمجھ نہیں آتا کہ اگر مسلمان حق پر ہیں اور یقینا حق پر ہیں، تو ان کی مدد کیوں نہیں کی جاتی اور ان کے اعداء و مخالفین یہود و نصاریٰ اور کفار و مشرکین، جو یقینا باطل پر ہیں، کے خلاف اللہ تعالیٰ کا جوش انتقام حرکت میں کیوں نہیں آتا؟ اور ان کو تہس نہس کیوں نہیں کردیا جاتا؟ یا کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کو مسلمانوں پر فوقیت و برتری کیونکر حاصل ہے؟ اور ان کو اس قدر ڈھیل کیوں دی جارہی ہے؟ اس کے برعکس مسلمانوں کو روزبروز ذلت و ادبار کا سامنا کیونکر ہے؟ہمالہ کے کوہ سار غیرمسلموں کے ہاتھوں مسلمانوں کی اس عبرت ناک شکست کا براہِ راست مشاہدہ کر رہے ہیں۔ وہ حیران ہیں کہ پروردگارِ عالم اپنے نام لیواؤں کو کیوں رسوا ہونے دے رہا ہے؟ یہ لوگ اس کی ذات پر سچا ایمان رکھتے تھے۔ بلاشرکتِ غیرے اس کی عبادت کرتے تھے۔ اس کے احکام کوواجب الاطاعت سمجھتے تھے اور ان کے نفاذ کے لیے سرگرمِ عمل تھے۔ ان کی پیشانیوں پر سجدوں کے نشان اور ان کی آنکھوں میں شہادت کی طلب نظر آتی تھی۔ یہ لوگ دنیا کی لذتوں سے بے پروا اور آسایشوں سے کنارہ کش تھے۔یہ اسبابِ دنیا پر نہیں ، بلکہ ذاتِ باری پر بھروسا رکھتے تھے ۔ یہ مردانِ خدا صرف ایمان ہی میں قوی نہیں تھے، بلکہ شجاعت اور بہادری میں بھی ان کا ثانی کم ہی نظر آتا تھا۔ آج غلبۂ اسلام کے یہ علم بردار ، یہ خدائی فوج دار ، یہ سچے جذبوں کے امین ، یہ بوریا نشین، غیر مسلموں کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں۔ان کے گھر برباد ہو رہے ہیں ، ان کے خاندان اجڑ رہے ہیں، ان کی عورتیں بے درہو رہی ہیں، ان کے بچے بھکاری بن رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس خداوند عالم کے سامنے ہو رہا ہے جس کے اذن کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہلتا۔۔آخر ایسا کیوں؟ کس لیے؟؟
میں نے عرض کیا کہ دراصل انسان کو جو ناگوار حالات پیش آتے ہیں یہ شامت اعمال اور گناہ گاری کی وجہ سے سر پڑتے ہیں۔۔قرآن بھی یہی کہتا ہے۔۔نیز تقدیر و تدبیر دو الگ الگ چیزیں ہیں،تدبیر ہمارے اختیار میں ہے جب کہ تقدیر تو اللہ کی ملکیت ہے۔۔اسی لیے اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق جب کوئی کام کرلیا تو اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کردو۔۔جہاں تک دنیا کی سختیوں کا تعلق ہے،تو یہ اہل ایمان پر عذاب نہیں،بل کہ سراپا رحمت ہے،حضرات اہل علم اس کو خوب سمجھتے ہیں،جب کہ بہت سے کم عقل لوگ اس حقائق نہیں سمجھتے اور حرف شکایت زبان پر لے آتے ہیں۔۔۔حضرت ایوب علیہ السلام نبی ہونے کے باوجود کتنے مصائب سے دوچار ہوئے،کتنی اذیت ناک زندگی کاٹی؛لیکن کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں آیا،بل کہ شیطان کے اعتراض پر فرمایا: الحمد للہ بہ مصیبتے گرفتارم نہ بہ معصیتے!" کہ اب بھی اللہ کا شکر ہے کہ میں مصیبت میں گرفتار ہوں کسی گناہ میں نہیں۔۔۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے،ترمذی کی روایت ہے کہ "جب اہل مصائب کو ان کی تکالیف و مصائب کا اجر قیامت کے دن دیا جاے گا تو لوگ تمنا کریں گے کہ کاش یہ اجر ہمیں عطا کیا جاتا،خواہ دنیا میں ہمارے جسم قینچیوں سے کاٹے جاتے"
لہذا ہمیں دنیا کے مصائب و آلام سے گھبرانا نہیں چاہیے؛ بل کہ بارگاہ صمدیت میں سجدہ ریز ہوکر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے۔۔ان مصیبتوں سے ہی یہ حقیقت کھلتی ہے کہ ہم بندے ہیں؛ خدا نہیں،کیونکہ اگر زندگی پر سنگین حالات طاری نہ ہوتے تو یہ دنیا "انا ربکم الاعلی" کا نعرہ لگانے والے فرعونوں سے بھری ہوتی۔۔۔یہی مصائب و آلام ہیں جو ہمیں جادہء عبدیت پر قائم رکھتے ہیں اور ہماری غفلت و مستی کے لیے تازیانہ عبرت بن جاتے ہیں اور پھر خدا ان زلزلوں،وباوں اور یورشوں کے ذریعے امتحان لیتا ہے کہ کون حقیقی مومن ہے اور کون محض زبان سے دعوی کرنے والا ۔۔۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اسی کو کہا ہے:
یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!