اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: رنجور بلبلیں ہیں، افسردہ ہواچمن!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 20 May 2020

رنجور بلبلیں ہیں، افسردہ ہواچمن!

بر وفات مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری
   از قلم مفتی محمد نوراللہ قاسمی دربھنگوی
    __________________
     دیرسے بیٹھا ہوں ہاتھوں میں لیے اپنے قلم
کیا لکھوں، کیسے لکھوں، دل پر ہے طاری شامِ غم

          عالی مرتبت ، عالی صفات ، عالی مقام، نمونہ اسلاف ، فنا فی الله، زہد فی الدنیا کے عملی پیکر، جامع کمالات وصفات حمیدہ، استاذ الاساتذہ، حضرت شیخ الحدیث،  حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری نورالله مرقدہ، شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند بروز منگل  بتاریخ 19 مئی  25رمضان المبارک بوقت چاشت  ممبئی کے اسپتال میں اپنے تمام متعلقین کو روتا بلکتا چھوڑ کر مولائے حقیقی سے جاملے۔ ﴿إنَّا لِلہِ وَإنَّا إلَیْہِ رَاجِعُوْنَ﴾،”إنَّ لِلہِ مَا أَخَذَ، وَلَہ‘ مَا أَعْطٰی، وَکُلُّ شَيْءٍ عِنْدَہ‘ بِأَجَلٍ مُسَمّٰی، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ“۔
موت وحیات کا فلسفہ درحقیقت خالق کائنات کی قدرت کاملہ کے اظہار اور بندوں کی عاجزی کا غماز ہے، اسی سے مخلوقِ خدا کا فانی ہونا ثابت ہوتا ہے، خواہ وہ اپنے مقام ومرتبہ اور جاہ ومنصب میں کتنا ہی بڑا ہو، بہرصورت اس کو قضاوقدر کا فیصلہ قبول کرنا ہی ہے، اس دنیا میں جو بھی آنکھیں کھولتا ہے، وہ ایک نہ ایک دن بند بھی ضرور کرتا ہے، خدائی اعلان ہے: ”کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ“ (ہرنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے) ،یہ روزانہ کا معمول ہے نہ جانے کتنے لوگ ہرروز اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور دوسروں کی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے ؛لیکن جو لوگ حق شناس، خداترس اور عالم باعمل ہوتے ہیں، ان کی رحلت پر اپنوں کے ساتھ زمانہ بھی روتا ہے، زمین روتی ہے، آسمان روتا ہے، حضرت شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ کے انتقال پر ملال پر ہرکوئی زبانِ حال سے کہہ رہا ہے : ۔

      اے خطہٴ فردوس کے راہی تو پلٹ آ
      رحلت پہ تری غلغلہٴ آہ و فغاں ہے

مختصر سوانحی خاکہ:
نام: سعید احمد
والد کا نام : جناب یوسف صاحبؒ
جائے پیدائش : کالیڑہ، شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا
تاریخ پیدائش: ۱۹۴۰؁ ء کا آخر مطابق ۱۳۶۰؁ھ
ابتدائی تعلیم: مکتب (کالیڑہ) شمالی گجرات (پالنپور)، انڈیا
ثانوی تعلیم: مدرسہ سلم العلوم (پالنپور)، مظاہر العلوم (سہارنپور)
تکمیل: دار العلوم دیوبند، (دورۂ حدیث، ۱۳۸۲؁ھ موافق ۱۹۶۲؁ء )
موجودہ اہم ذمہ داریاں : شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند
حالیہ پتہ: محلہ اندرون کوٹلہ دیوبند ضلع سہارنپور، یوپی، انڈیا
حضرت والاتو جلالتِ شان ، علومرتبت ، فہم وفراست ، عظمت وعبقریت، زہدوتقویٰ اور علم وعمل کا پیکر مجسم تھے، اسی وجہ سے ان کے مداحوں اور ثناخوانوں کی ایک قطار نظر آتی ہے، ہرایک سچے دل سے ان کے تفوق کا قائل تھا، جو بھی ملتا گرویدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکا، ہرکوئی ان کا شیفتہ و دلدادہ تھا، اور یہ سمجھتا تھا کہ حضرت سب سے زیادہ مجھ سے محبت کا تعلق فرماتے ہیں، اپنے تمام شاگردوں کو حقیقی اولاد کی طرح بہتر مشورہ دیتے، ان کے پڑھانے کے لیے مناسب جگہوں کا انتخاب فرماتے، گرچہ قدرت کی فیاضی نے آپ کو بہت سی خصوصیات سے مالامال فرمایا تھا، لیکن ان تمام اوصاف میں حضرت کا مستجاب الدعوات ہونا ظاہر و باہر ہے ، اور دوسری بڑی خصوصیت جس میں کوئی دوسرا آپ کا شریک نہیں وہ ناچیز کے علم کے مطابق یہ ہے کہ ہندوستان میں مسندالہند حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی سے لے کر آج تک آپ کے علاوہ کوئی دوسرا بخاری شریف کا اتنے لمبے زمانہ تک درس دینے والا نہیں ملتا، چنانچہ آپ نے مسلسل ۶۶ سال تک اس اہم کتاب کا درس دیا۔

سادگی:آپ کی زندگی میں کوئی تکلف نہیں تھا، سادگی میں آپ کی مثال دی جاتی تھی، دنیاوی ٹھاٹ باٹ اور مصنوعی وضع سے دور کابھی واسطہ نہیں تھا، عیش نام کی کوئی چیز تھی ہی نہیں، بڑے بڑے مہمانوں کے لیے عام چادر ہی بچھی رہتی تھی، حضرت کے حجرہ کی زینت یہ شعر توہراس شخص کو یاد ہوگا جس نے بھی آپ کے کمرہ کی زیارت کی ہوگی۔

              ہم غریبوں کی یہی ہے کائنات           
              بوریا حاضر ہے شاہوں کے لیے
حضرت والا تو رخصت ہوگئے، لیکن وہ زبانوں ، دلوں اور تذکروں میں زندہ ہیں، آنکھوں سے اوجھل ہونے کے باوجود ان کی یاد ایک امت کو رُلارہی ہے اور بے چین کیے ہوئے ہے، وہ ذات جو گاوٴں ،شہراور مختلف محفلوں کی نورتھی، جودینی اداروں اور علمی درسگاہوں اور روحانی مجلسوں کی آبرو تھی ، جو حضور میں تھی، اب وہ غیاب میں ہے، سب اسے ڈھونڈ رہے ہیں اور باربار یہ کہہ رہے ہیں۔

     تیرے بغیر رونق دیوار و در کہاں         
 شام و سحر کا نام ہے شام و سحر کہاں


اور جب کوئی نایاب چیز کھوجائے تو حزن وملال اور رنج والم کا ہونا فطری بات ہے، اور اسی فطرت کی ترجمانی جگر مرادآبادی کے اس شعر میں نظر آتی ہے۔

    جان کر من جملہ خاصانِ میخانہ مجھے     
  مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے