اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: لاک ڈاؤن ..... اور صدقۂ فطر کی اہمیت 🖊 ظفر امام

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 16 May 2020

لاک ڈاؤن ..... اور صدقۂ فطر کی اہمیت 🖊 ظفر امام

        لاک ڈاؤن ..... اور صدقۂ فطر کی اہمیت
                                          🖊 ظفر امام
   --------------------------------------------------------
      قسامِ ازل نے بنی نوعِ انسان کے مقسوم کو مختلف اور الگ الگ خانے میں بانٹ دیا ہے ، کسی کی قسمت میں مال و زر کی بہتات لکھا ہے تو کسی کی تقدیر میں نانِ شبینہ کے لئے تڑپنا اور پانی کے ایک گھونٹ کے لئے سسکنا بھی لکھا ہے، اور یہ اس کی حکمتِ بالغہ کی دقیق اور باریک باتیں ہیں جن کے پیچھے پڑنا عباد الرحمن کا شیوہ نہیں ، خدا کے نیک بندے ہر حال میں قضائے الہی پر شاداں و فرحاں رہتے ہیں ، ایسے موقع پر خدا کے بندوں کو چاہیے کہ وہ رضا بالقضا رہتے ہوئے اپنے رب کے ان احکام پر عمل کریں جو ان کی طرف سے وارد ہوئے ہیں؛
     امیری اور غریبی سے مرکب کائنات کے اس نظام کو بحسن و خوبی پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے لئے خداوندِ قدوس نے امیروں کو حکم دیا ہے کہ وہ غریبوں کی خبرگیری کریں ، اپنے مال میں غریبوں کا بھی حصہ لگائیں ، اور چونکہ مال کی محبت ایک فطری چیز ہے ، جس کی محبت میں گرفتار ہوکر انسان اس حکم کو استحسان سمجھ کر اس سے پہلو تہی کر سکتا تھا اس لئے کسی موقع پر اس حکم کو فرض قرار دیا گیا ہے اور کسی موقع پر واجب ، تاکہ امیر طبقہ چاہتے ہوئے بھی غریبوں کی امداد سے دست کش نہ ہوسکے؛
      امداد کی جو صورت امیروں پر فرض ہے وہ زکوٰۃ ہے اور جو صورت واجب ہے وہ صدقۂ فطر ہے ، ( ان کے علاوہ امداد کی اور بھی صورتیں ہیں جو بعض موقعوں پر نفل اور بعض موقعوں پروجوب کا درجہ رکھتی ہیں ) دونوں مقدارِ نصاب میں مشترک ہیں تاہم ان کے درمیان ایک بنیادی فرق یہ ہیکہ زکوۃ صرف اس نصاب ( ساڑھے باون تولہ چاندی ، ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی مقدار میں نقدی اور تجارت کا سامان ) پر فرض ہے جس پر سال گزرگیا ہو ، جبکہ صدقۂ فطر کے لئے یہ ضروری نہیں ، بلکہ حوائجِ اصلیہ ( ضرورت کے سامان ) کو چھوڑ کر اگر کسی کے پاس اتنی مالیت (خواہ ضرورت سے زائد گھر ، گاڑی اور کپڑے لتے ہی کیوں نہ ہوں)  موجود ہے کہ وہ مل ملاکر نصاب تک پہونچ سکتی ہے تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہوجائےگا خواہ اس پر سال گزرے یا نہ گزرے؛
       صدقۂ فطر ہر اس آدمی پر اپنی طرف سے ، اپنے نابالغ بچوں اور اپنے مملوک کی طرف سے ادا کرنا واجب ہے جو حوائجِ اصلیہ کو چھوڑ کر اتنی مالیت کا مالک ہو جس کی قیمت نصاب تک پہونچ جاتی ہو ، آدمی کا اپنی بیوی اور بالغ اولاد کی طرف سے ادا کرنا ضروری نہیں ، بیوی یا اولاد اگر خود صاحبِ نصاب ہوں تو اس کا وجوب ان کی گردن پر ہے، ہاں اگر کوئی اپنی مرضی سے ان کی طرف سے ادا کردے تو ادا ہوجائےگا؛
      احادیث میں اس صدقہ کی ادائیگی کی بےشمار تاکید آئی ہے ، چنانچہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:-
    فَرَضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم زَکَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيْرٍ، عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ، وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثٰی، وَالصَّغِيْرِ وَالْکَبِيْرِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ؛
   رسول اﷲ ﷺنے غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب مسلمانوں پر صدقۂ فطر کھجور یا جو کا ایک صاع فرض کیا ہے۔ (بخاری کتاب الزکاة، باب فرض صدقة الفطر، ۲/ ٥۴۷)
      اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ صدقہ بلا کسی امتیاز کے ہر فرد پر واجب ہے ، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، مرد ہو یا عورت آزاد ہو یا غلام ( غلام کی طرف سے اس کا مالک ادا کرےگا )
    ایک دوسری حدیث میں حضرتِ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صدقۂ فطر کے متعلق اس طرح مروی ہے :-
     عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍﷺ أَمَرَ صَارِخًا بِبَطَنِ مَکَّةَ یُنَادِي أَنَّ صَدَقَةَ الْفِطْرِ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ، ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی، حُرٍّ أَوْ مَمْلُوْکٍ، حَاضِرٍ أَوْ بَادٍ صَاعٌ مِنْ شَعِیْرٍ أَوْ تَمَرٍ {مستدرک حاکم}
حضرتِ ابن عباس سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ مکہ کی گلیوں میں یہ اعلان کرتا پھرے کہ ‘‘ صدقۂ فطر واجب ہے ہر مسلمان پر چاہے چھوٹا ہو یا بڑا مذکر ہو یا مؤنث آزاد ہو یا غلام شہری ہو یا قروی (دیہاتی) ایک صاع کھجور یا جو؛
     صدقۂ فطر کے ادا کرنے کی تاکید اس حدیث سے مزید بڑھ جاتی ہے جس میں فقیر کے اوپر بھی صدقۂ فطر کے ادا کرنے کو واجب قرار دیا گیا ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابی صعیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :-
    أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: أَدُّوْا صَاعًا مِنْ قَمْحٍ أَوْ صَاعًا مِنْ بُرٍّ عَنْ کُلِّ اثْنَیْنِ صَغِیْرٍ أَوْ کَبِیْرٍ حُرٍّ أَوْ مَمْلُوْکٍ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی غَنيٍّ أَوْ فَقِیْرٍ أَمَّا غَنِیُّکُمْ فَیُزَکِّیْهِ ﷲُ وَأَمَّا فَقِیْرُکُمْ فَیُرَدُّ عَلَیْهِ أَکْثَرُ مِمَّا یُعْطِیْ {مسند احمد ، بیہقی}
    رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک صاع گیہوں ہر چھوٹے بڑے ، آزاد غلام ، لڑکے لڑکی ، غنی اور فقیر کی طرف سے ادا کرو ، بہرحال جو غنی ادا کرے گا تو اللہ اسے پاک کرےگا اور جو فقیر ادا کرے گا اس کے ادا کرنے سے زیادہ اس کی طرف لوٹا دےگا؛
     اس حدیث کو مستدل بنا کر بعض حضرات نے غریب کے اوپر بھی صدقۂ فطر کو واجب قرار دیا ہے ، اور اپنے اوپر وارد اس سوال کا کہ ‘‘جب غریب پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے تو پھر وہ کسے ادا کرےگا ‘‘ یہ جواب دیا ہے کہ فقیر اپنے سے زیادہ فقیر کو صدقہ ادا کرےگا؛
    لیکن صحیح یہی ہیکہ فقیر {غیر صاحبِ نصاب} پر صدقۂ فطر واجب نہیں ، ہاں اگر وہ برضا و رغبت ادا کردے تو اللہ اس کو اس سے زیادہ لوٹادےگا ( خواہ دنیا میں خواہ آخرت میں ) جتنا وہ صدقہ کیا ہے؛
ان کے علاوہ اور بھی کئی ایسی مستند احادیث ہیں جن میں صدقۂ فطر کا تاکیدی حکم آیا ہے، یہ ساری احادیث اس بات کی کھلی وضاحت کرتی ہیں کہ صدقۂ فطر مالداروں پر واجب ہے ، اس میں کسی طرح کا پس و پیش یا لیت و لعل کرنا درست نہیں؛
    قَد اَفلَحَ مَن تَزَکیّٰ وَذَکَرَاسمَ رَبِّہ فَصَلّی {یعنی جس نے پاکی حاصل کی اور خدا کا نام لیا پھر نماز پڑھی وہ کامیاب ہوگیا} اس آیت کی تفسیر کے متعلق آپﷺ سے پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ آیت صدقۂ فطر کے بارے میں نازل ہوئی ہے؛ { مفہوم حدیثِ عوف ، مسندِ بزار }   
    شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بعض سلف کہتے ہیں” تَزَکیّٰ“ یعنی زکوٰة سے ہے مراد یہاں صدقۃ الفطر ہے ، اور‘‘ذَکَرَ اسُمَ رَبِّہِ‘‘ سے مراد تکبیراتِ عید ہیں ، اور‘‘فَصَلّٰي‘‘ میں نمازِ عید کا ذکر ہے ، یعنی عید کے روز کا پروگرام یوں ہے، صدقة الفطر ، پھر تکبیریں ، پھر نماز {فوائد عثمانیؒ ، سورۃ الاعلی} حاصل یہ ہوا کہ تَزَکیّٰ سے مراد صدقۂ فطر ادا کرنا ہے ، کیونکہ اس سے تزکیۂ مال و قلب حاصل ہوتی ہے ، اور اللہ کا نام لینے سے مراد تکبیرِ تحریمہ اور تکبیراتِ زائدہ ہیں جو عید کی نماز میں کہی جاتی ہیں ، اور نماز سے مراد عید کی نماز ہے؛
  صدقۂ فطر کے ادا کرنے کا بہتر وقت یہ ہیکہ عید کی نماز سے پہلے ہی ادا کردے ، تاکہ صدقۂ فطر کے واجب کرنے کے پیچھے جو عظیم مقصد اور لطیف حکمت ( عید کے موقع پر غریبوں کی دلجوئی ) کارفرما ہے وہ باحسنِ وجوہ پوری ہوسکے ، احادیثِ شریفہ میں اس کی بھی تاکید آئی ہے، چنانچہ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :-
    أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ أَمَرَ بِإِخْرَاجِ زَکَاةِ الْفِطْرِ أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاةِ { مسلم }
      کہ رسولِ اکرم ﷺنے حکم دیا کہ صدقۂ فطر لوگوں کے نمازِ عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کیا جائے؛
   حضرت ابنِ عباس سے مروی حدیث کے ایک جز سے عید سے پہلے ادا کئے ہوئے صدقے اور مابعد عید ادا کئے ہوئے صدقے کی اہمیت کا فرق بخوبی معلوم ہوتا ہے ، جس میں نبئ اکرم ، ہادئ اعظم شہنشاہِ دوعالم ﷺ نے عید سے پہلے ادا کئے ہوئے صدقے کو مقبول صدقہ اور عید کے بعد ادا کئے صدقے کو فقط صدقہ کہا ہے، ملاحظہ فرمائیں:-
  مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ؛
  یعنی جس نے عید سے پہلے صدقہ ادا کیا تو وہ مقبول زکوٰۃ ہے اور جس نے عید کے بعد ادا کیا تو وہ صدقوں میں ایک صدقہ ہے؛
  ابنِ عباس سے مروی اس حدیث سے صدقۂ فطر کے استحبابی اور افضل وقت کا بخوبی ادراک ہوتا ہے ، تاہم اگر کوئی عید سے پہلے ادا نہ کرے یا بوجہِ مجبوری ادا نہ کرسکے تو اس کے ذمے سے وجوب ساقط نہیں ہوتا ، بلکہ علیٰ حالہ اس پر وہ صدقہ واجب ہی رہتا ہے تا آنکہ اسے ادا کرکے اپنے ذمے سے اسے فارغ کردے؛
  اب رہ گئی یہ بات کہ اس صدقہ کی مقدار کیا ہو تو اس بارے میں بھی واضح احادیث وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ حدیث کے الفاظ سے اس کی جو مقدار ماخوذ ہوتی ہے وہ یہ ہیکہ گیہوں میں سے نصف صاع یا اس کی قیمت ادا کرے اور کھجور کشمش وغیرہ میں سے ایک صاع یا اس کی قیمت ادا کرے؛
    فتاوٰی دارالعلوم میں مقدارِ صدقۂ فطر کے بارے میں مکتوب ہے ‘‘ عموماً صدقۂ فطر کی مقدار مختلف لکھی جاتی ہے ، مگر صحیح اور درست بات یہ ہے کہ پونے دو کلو گیہوں ( نصف صاع ) یا اس کی قیمت ادا کرنے سے صدقۂ فطر ادا ہو جائے گا{فتاویٰ دارالعلوم ج/ ٦}
     واضح رہے کہ صاع عرب کے ایک پیمانہ کا نام ہے جو ناپ تول میں استعمال ہوا کرتا ہے ، لیکن شریعت میں جس صاع کو معیار قرار دیا گیا ہے وہ مدینہ منورہ کا صاع ہے؛
مدینہ منورہ کے رواج کے مطابق ایک صاع میں چار مد ہوتے تھے اسے ہی شرعی پیمانہ قرار دیا گیا اور اس وقت سے مدینے کے مد کو ‘‘مدالنبی‘‘  کہا جاتا ہے، موجودہ اوزان میں صاع 3٫180 { تین کیلو ایک سو اسی گرام } کا ہوتا ہے؛{ ماخوذ از ویکیپیڈیا }
    صدقۂ فطر کے بعض اہم مسائل :-
    {١} کسی شخص کے پاس ضروری اسباب{یعنی اپنی حاجت} سے زیادہ مال و اسباب ہے اور وہ قرض دار بھی ہے تو یہ اندازہ کر کے دیکھا جائے کہ قرضہ ادا کرنے کے بعد اس کے پاس کتنا مال بچتا ہے ، اگر اتنی قیمت کا مال بچ جائے جتنے پر زکوٰة واجب ہوتی ہے، تو اس پر صدقۂ فطر واجب ہے ، اور اگر اتنی مقدار سے کم ہو تو  واجب نہیں؛ {در مختار}
    {۲} اگرکوئی شخص عید کے دن صبح صادق سے پہلے مر گیا تو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں ، اس کے چھوڑے ہوئے مال میں سے نہ دیا جائے ، اس کے برعکس اگر کوئی بچہ عید کے دن صبح صادق سے پہلے پیدا ہوجائے تو اس کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا واجب ہے؛ {عالمگیری}
     {٣} اگر کوئی شخص صدقۂ فطر رمضان میں ہی ادا کردے تو دوبارہ دینے کی ضرورت نہیں؛ {در مختار ج۴}
     {۴} اگر کوئی شخص عید کے دن صدقۂ فطر نہ دے سکا تو بعد میں دیدے؛ {ہدایہ اول}
     {٥} اگر کوئی شخص کسی وجہ سے رمضان کے روزے نہ رکھ سکا تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے( بشرطیکہ صاحبِ نصاب ہو ) روزہ رکھنے والے اور نہ رکھنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے؛{عالمگیری}
   {٦} ایک آدمی کا صدقۂ فطر ایک محتاج کو یا تھوڑا تھوڑا کر کے کئی ایک محتاج کو دیا جا سکتا ہے {در مختار}
  {۷} کئی آدمی مل کر بھی ایک محتاج کو صدقۂ فطردے سکتے ہیں، لیکن وہ صدقۂ فطر اتنا زیادہ نہ ہو کہ مقدارِ زکوٰة کو پہنچ جائے؛{در مختار}
   {٨}صدقۂ فطر میں اگر غلہ یا کپڑے کی بجائے قیمت دیدے تو زیادہ ا چھا ہے ( کہ یہ مستحقین کے لئے زیادہ نفع بخش ہے ) {عالمگیری}
   {۹} صدقۂ فطر کے بھی مصرف وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مصرف ہیں ، {درمختار} تاہم اپنے غریب یا مسکین رشتہ دار کو صدقۂ فطر کی رقم ادا کرنا دوہرے اجر کا باعث ہے ، ایک صدقے کا اور ایک صلہ رحمی کا ؛
   {١۰} صدقۂ فطر کی رقم مساجد یا رفاہی کاموں میں لگانا درست نہیں ، ہاں مدارس میں دینا درست بلکہ زیادہ ثواب کا باعث ہے ، کہ اس سے علمِ دین کو فروغ اور تقویت ملتی ہے؛
   صدقۂ فطر کے وجوب میں جہاں یہ لطیف حکمت کار فرما ہے کہ یہ صدقہ روزوں میں ہوئی  کوتاہیوں اور لغزشوں کا کفارہ ہے کہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے ، لغزشیں اس کے خمیر میں ودیعت کردی گئی ہیں ، نا چاہتے ہوئے بھی انسان سے ایسی کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں جو روزہ کی روح کے خلاف ہوا کرتی ہیں ، اس لئے ان کوتاہیوں سے روزوں کو پاک صاف کرنے کے لئے صدقۂ فطر کو واجب قرار دیاگیا تاکہ یہ روزے خدا کے حضور بےغبار توشہ بن کر حاضر ہوں؛
     وہیں اس کی ایک دوسری اہم اور دقیق حکمت غریبوں اور بےآسراؤں کی دلجوئی میں مضمر ہے ، کہ عید جیسی خوشی کے اس تہوار کے موقع پر جہاں مالدار طبقہ اپنے اوپر بےانداز پیسے صرف کرتا ہے اور بےانتہا خوشیاں مناتا ہے تو وہیں اس صدقہ کے طفیل کم از کم اس دن  غریبوں کا بھی چولہا گُل نہ رہنے پائے ، اور ان کے بچے بھی عمدہ کھانوں اور نفیس لباس سے لطف اندوز ہوسکیں؛
      موجودہ وقت میں نظامِ کائنات جس کربناک اور الم انگیز دور سے گزر رہا ہے وہ آفتابِ نیم روز کی طرح عیاں ہے ، ہر طرف خوف و ہراس کا سماں ہے ، اچانک نظامِ عالم میں ایک ایسا انقلاب بپا ہوگیا ہے کہ پوری انسانیت محوِ حیراں و ششدر ہے ، { پوری دنیا تو اپنی جگہ } آفتِ سماوی یعنی کورونا وائرس کی وجہ سے ہمارے ملک ہندوستان کی معیشت بالکل چوپٹ ہوگئی ہے ، پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا پہرا ہے ، غریب مزدور اپنے گھروں سے کوسوں دور پردیس میں بھرپیٹ کھانے کے لئے ترس رہے ہیں ، بھوک کی شدت سے بےتاب ہوکر سینکڑوں مزدور موت کا لقمۂ تر بن رہے ہیں، اُدھر پردیس میں پھنسے بیچارے روزینہ والے مزدوروں کا یہ حال ہے اور اِدھر آمدنی کے ذرائع مسدود ہوجانے کی وجہ سے ان کے گھروں میں بھی کھانے کے لالے پڑے ہیں ، آسرا کے ہوتے ہوئے بھی ان کے بچے بےآسرا ہوگئے ہیں ، ان میں سے کچھ خود دار اور عزتِ نفس کے ناخدا ایسے بھی ہیں جو بھوک کی شدت سے مرجانا تو پسند کرتے ہیں پر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا وہ گوارہ نہیں کرتے؛
   ایسے پُردرد اور الم انگیز وقت میں جبکہ اس صدقۃ الفطر کی ادائیگی کا وقت بھی سر پر آن پڑا ہے تو اس کی اہمیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے ، لہذا یہ ایک سنہرا موقع ہے غریبوں کے بچوں کی اشک شوئی کا ، بے آسراؤں کے درد کے درماں بننے کا اور ان کے گُل پڑے چولہے میں ایندھن جلانے کا ؛
    سو خدارا آگے آئیے اور حتی المقدور ان غریبوں کی خبر گیری اور بےآسراؤں کی خدمت کے لئے کمر کس لیجیے ، اور جہاں تک ہوسکے پیسوں سے ، کپڑوں لتوں سے اور اناج غلوں سے ان کی مدد کیجیے ، اور یہ کوشش کیجیے کہ جب تک یہ مصیبت چھاتہ بن کر سروں پر معلق رہے تب تک آس پڑوس اور گاؤں سماج کے غریبوں اور حاجتمندوں کا چولہا بجھنے نہیں دینگے؛
   اللہ آپ کے دینے کو قبول فرمائے اور اپنے شایانِ شان اس کا بہترین بدلہ عنایت کرے... آمین

                             ظفر امام ، کھجورباڑی
                            دارالعلوم بہادرگنج
                            ۲۲/ رمضان ١۴۴١ھ