صبح کی بات
بقلم فہیم اختر ندوی
قسط 2
بچپن اور لڑکپن کی عمر بڑی پیاری اور سادی ہوتی ہے۔۔۔ اس میں سیکھنے کی رفتار تیز تر رہتی ہے۔۔۔ پھر جوانی کی روانی آتی ہے۔۔ رعنائی اور شادمانی بکھرتی ہے۔۔ اور قدم پختگی کے زینوں پر چڑھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔ اب وہ میدان عمل کا غازی ہوتا ہے۔۔۔ اس کی صلاحیت اور قابلیت کے جلوے زندگی کے رزم و بزم کو ہزار رنگ دینے لگتے ہیں۔۔۔۔
زندگی کا یہ ڈھنگ ہر قوم اور ہر علاقہ میں یکساں ہی تو ہے۔۔۔۔ اسی میں اچھے اچھا کرتے ہیں۔۔ اور کمزور مات کھاجاتے ہیں۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کی جیسی تربیت ہوگی وہی عمل کے اسٹیج پر پیش ہوگا۔۔۔۔ تو کیا بچپن کی تربیت اور موقع آخری حد ہے۔۔ جس کے بعد بس یا تو اچھا ہے یا برا ؟۔۔۔ لیکن زندگی تو ہر دم رواں پیہم دواں ہے۔۔ اس کی ہر صبح نئی اور ہر شام جواں ہے۔۔۔۔۔ تو کیا اس زندگی کے بدلتے طور و انداز کےلئے پرانے سازو ساماں ہی کافی بنے رہیں گے؟۔۔۔۔
ایسا تو ہماری زندگی میں بھی نہیں ہے۔۔۔ اب ہم ایسی ٹکنالوجی استعمال کرتے ہیں جن کا خواب بھی ہم نے نہیں دیکھا تھا۔۔۔ اور اس میں تبدیلی کی رفتار عام سوچ سے بھی آگے نکل جارہی ہے۔۔۔ تو ہم ان کی تربیت پالیتے ہیں۔ اور کچھ کو مہارت حاصل ہوجاتی ہے۔۔۔۔
تو تربیت لینے کی کوئی حد نہیں ہے۔۔ بدلتی اور ابھرتی زندگی نئے ساماں لے آتی ہے۔۔ اور اس کے جتن کرنا ہی زندگی سے ہمدوش ہونا ہے ۔۔۔ جب ہی زندگی پر نظر رہ سکتی ہے اور زندگی کی رہبری ہوسکتی ہے۔۔ یہی رنگ چمن اور یہی انداز زمن ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہی منزل کٹھن بھی ہے۔۔ اور یہی طرز کہن بھی ہے۔۔۔۔
در اصل انسان کی طبیعت اپنے مانوس خول سے باہر نکلنے میں ہچکچاتی ہے۔ اور رکنے کے کئی بہانے تراش لیتی ہے۔۔۔ لیکن زندگی کی ہمہ رنگی اور ترقی اس سے تھم تو نہیں سکتی ہے۔ اور نہ اس رنگ طبیعت کا لحاظ کرسکتی ہے۔۔۔ وہ تو پرانے پہیوں کو نکال کر نئے بازؤں سے پرواز بھرلیتی ہے۔۔۔۔۔ پھر فرد پیچھے اور زندگی آگے ہوجاتی ہے۔ اور یہ فاصلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔۔۔۔
تو اپنی تربیت کرتی رہنی ہوتی ہے۔۔۔ یہی حقیقت ہے اور یہی ضرورت۔۔۔ ہر عمر میں تربیت ہوگی اور ہر فرد کی تربیت ہوگی۔۔۔ ہر تیاری کی تربیت ہوگی اور ہر ضرورت کی تربیت ہوگی۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔ تربیت کے انداز جدا ہوں گے اور مقدار مختلف ہوگی۔۔۔ تب ہی ہم تقاضوں سے نبرد آزما ہوں گے۔ اور ذمہ داریوں سے ہم آہنگ۔۔۔
یاد رکھئے۔۔ ہماری یہ روش درست نہ ہوگی کہ ہم دوسروں کی تربیت کریں اور اپنی تربیت سے خالی رہیں ۔۔۔ پھر تربیت بچپن تک ہی محدود رہ جائے گی۔۔ اور جوانی کے تیر وتفنگ کے سامنے بچپن کے کھلونے رہیں گے۔۔۔ تو یہ کیسے درست ہوسکے گا؟۔۔۔
نبی مکرم ﷺ کے صحابیوں میں بچوں جوانوں اور بڑی عمر والوں سب نے اپنی تربیت کی۔۔۔ خود نبی کی تربیت ان کے رب نے کی اور بڑے اچھے سے کی۔۔۔ موسی نبی کو بھی بڑے چاؤ سے رب نے اپنے لئے اور اپنی نگرانی میں سجایا اور بنایا تھا۔۔۔۔ یہ نمونے ہمارے ہی لئے تو لائے گئے ہیں۔۔۔۔ تو ہم بھی اپنی تربیت بڑے چاؤ سے کریں گے۔۔۔ اور ہر تربیت کےلئے خود کو تیار کریں گے۔۔۔
یہ تربیت ہی ہمیں موجودہ دنیا میں اس مقام پر لائے گی جہاں سے ہم کو پیغام ربانی دنیا کو سنانی ہے۔۔ یہ ہمیں کرنا ہے۔۔ اس سے چارہ نہیں ہے۔۔ نہیں کریں گے نابود ہوجائیں گے۔۔۔ دیر کریں گے پیچھے رہیں گے۔۔ جلد کریں گے مقام کو پالیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئیے کوشش کرتے ہیں۔
خدا حافظ
بقلم فہیم اختر ندوی
قسط 2
بچپن اور لڑکپن کی عمر بڑی پیاری اور سادی ہوتی ہے۔۔۔ اس میں سیکھنے کی رفتار تیز تر رہتی ہے۔۔۔ پھر جوانی کی روانی آتی ہے۔۔ رعنائی اور شادمانی بکھرتی ہے۔۔ اور قدم پختگی کے زینوں پر چڑھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔ اب وہ میدان عمل کا غازی ہوتا ہے۔۔۔ اس کی صلاحیت اور قابلیت کے جلوے زندگی کے رزم و بزم کو ہزار رنگ دینے لگتے ہیں۔۔۔۔
زندگی کا یہ ڈھنگ ہر قوم اور ہر علاقہ میں یکساں ہی تو ہے۔۔۔۔ اسی میں اچھے اچھا کرتے ہیں۔۔ اور کمزور مات کھاجاتے ہیں۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ بچوں اور نوجوانوں کی جیسی تربیت ہوگی وہی عمل کے اسٹیج پر پیش ہوگا۔۔۔۔ تو کیا بچپن کی تربیت اور موقع آخری حد ہے۔۔ جس کے بعد بس یا تو اچھا ہے یا برا ؟۔۔۔ لیکن زندگی تو ہر دم رواں پیہم دواں ہے۔۔ اس کی ہر صبح نئی اور ہر شام جواں ہے۔۔۔۔۔ تو کیا اس زندگی کے بدلتے طور و انداز کےلئے پرانے سازو ساماں ہی کافی بنے رہیں گے؟۔۔۔۔
ایسا تو ہماری زندگی میں بھی نہیں ہے۔۔۔ اب ہم ایسی ٹکنالوجی استعمال کرتے ہیں جن کا خواب بھی ہم نے نہیں دیکھا تھا۔۔۔ اور اس میں تبدیلی کی رفتار عام سوچ سے بھی آگے نکل جارہی ہے۔۔۔ تو ہم ان کی تربیت پالیتے ہیں۔ اور کچھ کو مہارت حاصل ہوجاتی ہے۔۔۔۔
تو تربیت لینے کی کوئی حد نہیں ہے۔۔ بدلتی اور ابھرتی زندگی نئے ساماں لے آتی ہے۔۔ اور اس کے جتن کرنا ہی زندگی سے ہمدوش ہونا ہے ۔۔۔ جب ہی زندگی پر نظر رہ سکتی ہے اور زندگی کی رہبری ہوسکتی ہے۔۔ یہی رنگ چمن اور یہی انداز زمن ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہی منزل کٹھن بھی ہے۔۔ اور یہی طرز کہن بھی ہے۔۔۔۔
در اصل انسان کی طبیعت اپنے مانوس خول سے باہر نکلنے میں ہچکچاتی ہے۔ اور رکنے کے کئی بہانے تراش لیتی ہے۔۔۔ لیکن زندگی کی ہمہ رنگی اور ترقی اس سے تھم تو نہیں سکتی ہے۔ اور نہ اس رنگ طبیعت کا لحاظ کرسکتی ہے۔۔۔ وہ تو پرانے پہیوں کو نکال کر نئے بازؤں سے پرواز بھرلیتی ہے۔۔۔۔۔ پھر فرد پیچھے اور زندگی آگے ہوجاتی ہے۔ اور یہ فاصلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔۔۔۔
تو اپنی تربیت کرتی رہنی ہوتی ہے۔۔۔ یہی حقیقت ہے اور یہی ضرورت۔۔۔ ہر عمر میں تربیت ہوگی اور ہر فرد کی تربیت ہوگی۔۔۔ ہر تیاری کی تربیت ہوگی اور ہر ضرورت کی تربیت ہوگی۔۔۔۔۔۔ ہاں۔۔ تربیت کے انداز جدا ہوں گے اور مقدار مختلف ہوگی۔۔۔ تب ہی ہم تقاضوں سے نبرد آزما ہوں گے۔ اور ذمہ داریوں سے ہم آہنگ۔۔۔
یاد رکھئے۔۔ ہماری یہ روش درست نہ ہوگی کہ ہم دوسروں کی تربیت کریں اور اپنی تربیت سے خالی رہیں ۔۔۔ پھر تربیت بچپن تک ہی محدود رہ جائے گی۔۔ اور جوانی کے تیر وتفنگ کے سامنے بچپن کے کھلونے رہیں گے۔۔۔ تو یہ کیسے درست ہوسکے گا؟۔۔۔
نبی مکرم ﷺ کے صحابیوں میں بچوں جوانوں اور بڑی عمر والوں سب نے اپنی تربیت کی۔۔۔ خود نبی کی تربیت ان کے رب نے کی اور بڑے اچھے سے کی۔۔۔ موسی نبی کو بھی بڑے چاؤ سے رب نے اپنے لئے اور اپنی نگرانی میں سجایا اور بنایا تھا۔۔۔۔ یہ نمونے ہمارے ہی لئے تو لائے گئے ہیں۔۔۔۔ تو ہم بھی اپنی تربیت بڑے چاؤ سے کریں گے۔۔۔ اور ہر تربیت کےلئے خود کو تیار کریں گے۔۔۔
یہ تربیت ہی ہمیں موجودہ دنیا میں اس مقام پر لائے گی جہاں سے ہم کو پیغام ربانی دنیا کو سنانی ہے۔۔ یہ ہمیں کرنا ہے۔۔ اس سے چارہ نہیں ہے۔۔ نہیں کریں گے نابود ہوجائیں گے۔۔۔ دیر کریں گے پیچھے رہیں گے۔۔ جلد کریں گے مقام کو پالیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئیے کوشش کرتے ہیں۔
خدا حافظ