*کچھ دیر تخیلات کی دنیا میں*
🖊 *ظفر امام*
--------------------------------------------------------
ہنگامِ سحر سے ہی ابرِ سیہ تاب نے نیلگوں آسمان پر اپنی قناتیں تان رکھی تھی، ہمارے اس خطہ میں مسلسل کئی دنوں سے ابرِ باراں نے اپنی موری کا ڈھاٹا وا کر رکھا ہے اور تسلسل کے ساتھ کبھی رِم جِھم پُھوار اور کبھی موسلادھار بوچھار کی شکل میں برسے جا رہا ہے ، دن میں شاید باید ہی کبھی چند منٹوں کے لئے آسمان کھلتا ہے اور پھر وہی گھٹاؤں کا کارواں ہمک ہمک کر کفِ آسمان پر چھا جاتا ہے ، پے بہ پے بارش کی فراوانی سے خشک پڑے برگہائے کاہ کے تنِ مردہ میں زندگی کی رمق سی دوڑ گئی ہے ، سوکھی پڑی گھاسیں لہلہا اٹھی ہیں ، اَدھ کھلے پھول شگفتگی کی کگار پر کھڑے ہیں اور لنڈ منڈ درختوں سے از سرِ نو نئی کونپلیں سر ابھار رہی ہیں؛ موسم کی اس آنکھ مچولی اور لُکا چُھپی سے طبیعت کئی دنوں سے انقباضیت کی شکار ہے؛
آج دن کے تقریباََ پہلے پہر سے ہی کمرے میں ایک ضروری کام میں مصروف تھا ، اور لیپ ٹاپ کھول کر اس کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہا تھا ، سامنے دروازے کا ایک پَٹ سیدھا آسمان کی چھت کے نیچے جا کھلتا تھا ، اثناءِ کام کبھی کبھی شریر نگاہیں باہر کی طرف اٹھ جا رہی تھیں ، خارجی فضا کا منظر نہایت سہانا اور کافی دلفریب لگ رہا تھا ، لان میں دھوپ کھلی بلکہ نکھری ہوئی تھی ، دروازے کی اوٹ سے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ دھوپ کے اوپر شاید ابرِ خفیف نے اپنی چادر پھیلا رکھی ہے ، جس کی وجہ سے دھوپ کی تمازت بپھر نہیں پا رہی ہے ، اسی خیال میں اپنے کام میں مصروف رہا تا آنکہ دن کے دوپہر {١/ بجے} کو کام سے چھٹکارا ملا اور یوں دلِ بےتاب کو کافی دیر بعد باہر کے نظارے سے لطف اندوز ہونے کا موقع میسر آیا؛
اسی خیالِ مذکور کے سایہ تلے جب باہر نکلا تو یہ دیکھ کر بےساختہ دنگ رہ گیا کہ آسمان کی پہنائیوں میں بطورِ خاص آفتاب کی شعاعوں کے ارد گرد کہیں ایک بھی ابر کا ٹکڑا نہیں تھا ، بلکہ موسم ویسے ہی صاف اور شفاف نظر آرہا تھا جیسے کوئی دھات کا زنگ آلود ٹکڑا صیقل ہونے کے بعد نظر آنے لگتا ہے ، موسم کا یہ بدلا ہوا مزاج دیکھ کر میری حیرانگی بجا تھی کہ جون کے مہینے میں ٹھیک دوپہر کے وقت جبکہ آسمان کی تھالی بادلوں کے ٹکڑوں سے فارغ ہو تو سورج وہ قہر انگیز دھوپ برساتا ہے کہ الأمان و الحفیظ ، راہ چلتے مسافر رہ رہ کر کھپریلوں کی پناہیں تلاش کرنے لگتے ہیں اور یہاں حال یہ کہ سورج کی کرنیں بمشکل زمین تک پہونچ پارہی ہیں اور اس کی کیفیت میں اتنی لطافت اور ملائمت کہ دھوپ میں گھنٹوں کھڑے ہونے کے بعد بھی بدن میں گرماہٹ پیدا نہ ہوسکے؛
ابھی اسی عالمِ حیرانگی میں ، میں غلطاں و پیچاں ہی تھا کہ ایک خیال نے میری حیرانگی کافور کردی اور میں کافی دیر بعد خیالی پلاؤ کی ہانڈی سے نکل کر حقیقت کی آماجگاہ تک پہونچ سکا ، اور وہ خیال یہ تھا کہ ‘‘ کہ آج ہندوستان کے کئی صوبوں میں سورج گرہن ہے ، جس کے اثر سے موسم میں یہ نکھار پیدا ہوا اور اس کے حسن میں مانگ نکل آئی ہے ، ورنہ جون کے مہینے میں سورج سے اس کرم گستری اور فیض نوازی کی توقع رکھنا محض خوش فہمی اور خود فریبی ہے؛
ابھی اس ایک خیال سے رہائی ملی ہی تھی کہ ایک دوسرے خیال نے لوحِ دل کے نہاخانوں میں سر ابھارنا شروع کردیا ، یہ خیال پہلے کے مقابلے میں حقیقت سے زیادہ ہم کنار تھا ، بلکہ یہ خیال سر تا پا حقیقت ہی تھا جبکہ پہلا خیال فقط واہمہ ، لہذا اس دوسرے خیال کے تصور سے میں قدرے آبدیدہ ہوگیا ، اور یہ خیال مجھے مدرسے کی سنسان عمارت ، اس کی سناٹا زدہ گزرگاہوں اور ہو کا نظارہ پیش کر رہی مسجد کی دیواروں کو دیکھ کر آیا تھا { میں چونکہ مدرسے میں ہوں } کہ ‘‘اے کاش! اگر خدائے بےہمتا نے یہ وبا نہ پھیلائی ہوتی اور ہمارے وطنِ عزیز میں لاک ڈاؤن کا پہرا نہ لگا ہوتا تو سالِ نو کے طور پر اب تلک ہمارے یہ دین کے قلعے اور مذہب کے چمن اپنے بلبلوں سے آباد ہو چکے ہوتے ، ہمارے مدرسوں کا نورانی ماحول حسبِ معمول اور حسبِ سابق اب تلک رواں دواں ہوچکا ہوتا ، لیکن! افسوس صد افسوس کہ آج ہم ایک ایسی مصیبت کے ہتھے چڑھ گئے ہیں کہ جس کا مداوی ہمارے پاس نہیں ، نہ جانے اس مصیبت کا سایہ ہمارے سروں سے کب ٹلے گا اور کب ہماری یہ درسگاہیں نغمۂ وحدت و رسالت سے محوِ وجد ہونگی ، کب بُلبُلوں کے مترنم نغمے اور قمریوں کے مخمور ترانے ہمارے ان چمن کی کیاریوں میں گونجینگے اور نہ جانے کب سے ایک بار پھر ان دینی درسگاہوں میں ایک استاذ و شاگرد کا پاکیزہ رشتہ استوار ہوسکے گا ‘‘ یہ وہ خیال تھا جس کے تصور سے میں آبدیدہ ہوگیا تھا اور نکلتی ہر سانس خدا کے حضور یہ التجا پیش کر رہی تھی کہ ‘‘ خدایا! جلدی اس مصیبت سے نجات عطا کر اور چمن کے بلبلوں کو جلدی چمن کی طرف پروازی عطا کر ؛
اور یہ ہے بھی حقیقت کہ کوئی مدرسہ یا دانش گاہ اسی وقت خوبصورت چمن نظر آتی ہے جب اس کو آباد کرنے والے بُلبُل یعنی طلبہ وہاں موجود ہوں ، یا یوں کہہ لیجیے کہ کسی بھی مدرسہ یا دانش گاہ کی رعنائی اور زیبائی کا راز طلبہ کے وجود میں مضمر ہے ، اگر مدرسہ کی عمارتیں طلبہ کے وجود سے خالی اور آزاد ہوں تو چاہے فی نفسہ اس کی عمارتیں کتنی ہی پُرکشش اور خوبصورت کیوں نہ ہوں ان کے بغیر وہ عمارتیں اپنی کشش اور خوبصورتی کھو دیتی ہیں ، اور وہی عمارتیں جو طلبہ کی موجودگی میں جنت نظیر لگتی ہیں ان کی عدمِ موجودگی میں کاٹنے کو دوڑنے لگتی ہیں؛
بہرحال فی الحال مدرسے کی یہ شاندار عمارتیں اپنی خوبصورتی کے آنسو بہا رہی ہیں جن میں ہماری چند تنہا جانیں ہیں اور ہماری تنہائیاں ، جو کبھی اس ڈالی اور کبھی اس ڈالی میں پھدکتی پھرتی ہیں، لیکن! بھلا گنتی کی یہ چند جانیں ان کی کہاں تک اشک شوئی کرسکتی ہیں ، بس دلاسہ ہی دے سکتی ہیں کہ خدا ان کی دلکشی اور خوبصورتی کی جلد از جلد بازیابی کے اسباب پیدا کرے ....... آمین
ظفر امام ، کھجورباڑی
دارالعلوم بهادرگنج
۲١/ جون ۲۰۲۰ء
{ نوٹ:- یہ اسی منظر کی تصویر ہے }
🖊 *ظفر امام*
--------------------------------------------------------
ہنگامِ سحر سے ہی ابرِ سیہ تاب نے نیلگوں آسمان پر اپنی قناتیں تان رکھی تھی، ہمارے اس خطہ میں مسلسل کئی دنوں سے ابرِ باراں نے اپنی موری کا ڈھاٹا وا کر رکھا ہے اور تسلسل کے ساتھ کبھی رِم جِھم پُھوار اور کبھی موسلادھار بوچھار کی شکل میں برسے جا رہا ہے ، دن میں شاید باید ہی کبھی چند منٹوں کے لئے آسمان کھلتا ہے اور پھر وہی گھٹاؤں کا کارواں ہمک ہمک کر کفِ آسمان پر چھا جاتا ہے ، پے بہ پے بارش کی فراوانی سے خشک پڑے برگہائے کاہ کے تنِ مردہ میں زندگی کی رمق سی دوڑ گئی ہے ، سوکھی پڑی گھاسیں لہلہا اٹھی ہیں ، اَدھ کھلے پھول شگفتگی کی کگار پر کھڑے ہیں اور لنڈ منڈ درختوں سے از سرِ نو نئی کونپلیں سر ابھار رہی ہیں؛ موسم کی اس آنکھ مچولی اور لُکا چُھپی سے طبیعت کئی دنوں سے انقباضیت کی شکار ہے؛
آج دن کے تقریباََ پہلے پہر سے ہی کمرے میں ایک ضروری کام میں مصروف تھا ، اور لیپ ٹاپ کھول کر اس کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہا تھا ، سامنے دروازے کا ایک پَٹ سیدھا آسمان کی چھت کے نیچے جا کھلتا تھا ، اثناءِ کام کبھی کبھی شریر نگاہیں باہر کی طرف اٹھ جا رہی تھیں ، خارجی فضا کا منظر نہایت سہانا اور کافی دلفریب لگ رہا تھا ، لان میں دھوپ کھلی بلکہ نکھری ہوئی تھی ، دروازے کی اوٹ سے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ دھوپ کے اوپر شاید ابرِ خفیف نے اپنی چادر پھیلا رکھی ہے ، جس کی وجہ سے دھوپ کی تمازت بپھر نہیں پا رہی ہے ، اسی خیال میں اپنے کام میں مصروف رہا تا آنکہ دن کے دوپہر {١/ بجے} کو کام سے چھٹکارا ملا اور یوں دلِ بےتاب کو کافی دیر بعد باہر کے نظارے سے لطف اندوز ہونے کا موقع میسر آیا؛
اسی خیالِ مذکور کے سایہ تلے جب باہر نکلا تو یہ دیکھ کر بےساختہ دنگ رہ گیا کہ آسمان کی پہنائیوں میں بطورِ خاص آفتاب کی شعاعوں کے ارد گرد کہیں ایک بھی ابر کا ٹکڑا نہیں تھا ، بلکہ موسم ویسے ہی صاف اور شفاف نظر آرہا تھا جیسے کوئی دھات کا زنگ آلود ٹکڑا صیقل ہونے کے بعد نظر آنے لگتا ہے ، موسم کا یہ بدلا ہوا مزاج دیکھ کر میری حیرانگی بجا تھی کہ جون کے مہینے میں ٹھیک دوپہر کے وقت جبکہ آسمان کی تھالی بادلوں کے ٹکڑوں سے فارغ ہو تو سورج وہ قہر انگیز دھوپ برساتا ہے کہ الأمان و الحفیظ ، راہ چلتے مسافر رہ رہ کر کھپریلوں کی پناہیں تلاش کرنے لگتے ہیں اور یہاں حال یہ کہ سورج کی کرنیں بمشکل زمین تک پہونچ پارہی ہیں اور اس کی کیفیت میں اتنی لطافت اور ملائمت کہ دھوپ میں گھنٹوں کھڑے ہونے کے بعد بھی بدن میں گرماہٹ پیدا نہ ہوسکے؛
ابھی اسی عالمِ حیرانگی میں ، میں غلطاں و پیچاں ہی تھا کہ ایک خیال نے میری حیرانگی کافور کردی اور میں کافی دیر بعد خیالی پلاؤ کی ہانڈی سے نکل کر حقیقت کی آماجگاہ تک پہونچ سکا ، اور وہ خیال یہ تھا کہ ‘‘ کہ آج ہندوستان کے کئی صوبوں میں سورج گرہن ہے ، جس کے اثر سے موسم میں یہ نکھار پیدا ہوا اور اس کے حسن میں مانگ نکل آئی ہے ، ورنہ جون کے مہینے میں سورج سے اس کرم گستری اور فیض نوازی کی توقع رکھنا محض خوش فہمی اور خود فریبی ہے؛
ابھی اس ایک خیال سے رہائی ملی ہی تھی کہ ایک دوسرے خیال نے لوحِ دل کے نہاخانوں میں سر ابھارنا شروع کردیا ، یہ خیال پہلے کے مقابلے میں حقیقت سے زیادہ ہم کنار تھا ، بلکہ یہ خیال سر تا پا حقیقت ہی تھا جبکہ پہلا خیال فقط واہمہ ، لہذا اس دوسرے خیال کے تصور سے میں قدرے آبدیدہ ہوگیا ، اور یہ خیال مجھے مدرسے کی سنسان عمارت ، اس کی سناٹا زدہ گزرگاہوں اور ہو کا نظارہ پیش کر رہی مسجد کی دیواروں کو دیکھ کر آیا تھا { میں چونکہ مدرسے میں ہوں } کہ ‘‘اے کاش! اگر خدائے بےہمتا نے یہ وبا نہ پھیلائی ہوتی اور ہمارے وطنِ عزیز میں لاک ڈاؤن کا پہرا نہ لگا ہوتا تو سالِ نو کے طور پر اب تلک ہمارے یہ دین کے قلعے اور مذہب کے چمن اپنے بلبلوں سے آباد ہو چکے ہوتے ، ہمارے مدرسوں کا نورانی ماحول حسبِ معمول اور حسبِ سابق اب تلک رواں دواں ہوچکا ہوتا ، لیکن! افسوس صد افسوس کہ آج ہم ایک ایسی مصیبت کے ہتھے چڑھ گئے ہیں کہ جس کا مداوی ہمارے پاس نہیں ، نہ جانے اس مصیبت کا سایہ ہمارے سروں سے کب ٹلے گا اور کب ہماری یہ درسگاہیں نغمۂ وحدت و رسالت سے محوِ وجد ہونگی ، کب بُلبُلوں کے مترنم نغمے اور قمریوں کے مخمور ترانے ہمارے ان چمن کی کیاریوں میں گونجینگے اور نہ جانے کب سے ایک بار پھر ان دینی درسگاہوں میں ایک استاذ و شاگرد کا پاکیزہ رشتہ استوار ہوسکے گا ‘‘ یہ وہ خیال تھا جس کے تصور سے میں آبدیدہ ہوگیا تھا اور نکلتی ہر سانس خدا کے حضور یہ التجا پیش کر رہی تھی کہ ‘‘ خدایا! جلدی اس مصیبت سے نجات عطا کر اور چمن کے بلبلوں کو جلدی چمن کی طرف پروازی عطا کر ؛
اور یہ ہے بھی حقیقت کہ کوئی مدرسہ یا دانش گاہ اسی وقت خوبصورت چمن نظر آتی ہے جب اس کو آباد کرنے والے بُلبُل یعنی طلبہ وہاں موجود ہوں ، یا یوں کہہ لیجیے کہ کسی بھی مدرسہ یا دانش گاہ کی رعنائی اور زیبائی کا راز طلبہ کے وجود میں مضمر ہے ، اگر مدرسہ کی عمارتیں طلبہ کے وجود سے خالی اور آزاد ہوں تو چاہے فی نفسہ اس کی عمارتیں کتنی ہی پُرکشش اور خوبصورت کیوں نہ ہوں ان کے بغیر وہ عمارتیں اپنی کشش اور خوبصورتی کھو دیتی ہیں ، اور وہی عمارتیں جو طلبہ کی موجودگی میں جنت نظیر لگتی ہیں ان کی عدمِ موجودگی میں کاٹنے کو دوڑنے لگتی ہیں؛
بہرحال فی الحال مدرسے کی یہ شاندار عمارتیں اپنی خوبصورتی کے آنسو بہا رہی ہیں جن میں ہماری چند تنہا جانیں ہیں اور ہماری تنہائیاں ، جو کبھی اس ڈالی اور کبھی اس ڈالی میں پھدکتی پھرتی ہیں، لیکن! بھلا گنتی کی یہ چند جانیں ان کی کہاں تک اشک شوئی کرسکتی ہیں ، بس دلاسہ ہی دے سکتی ہیں کہ خدا ان کی دلکشی اور خوبصورتی کی جلد از جلد بازیابی کے اسباب پیدا کرے ....... آمین
ظفر امام ، کھجورباڑی
دارالعلوم بهادرگنج
۲١/ جون ۲۰۲۰ء
{ نوٹ:- یہ اسی منظر کی تصویر ہے }