اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *رد بدعات و رسومات* ✍🏻 از قلم : محمد عادل دربھنگوی

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 24 June 2020

*رد بدعات و رسومات* ✍🏻 از قلم : محمد عادل دربھنگوی


     *رد بدعات و رسومات*
     
✍🏻 از قلم : محمد عادل دربھنگوی

  اس روئے زمین پر سب سے اچھا، سب سے بہتر، سب سے اعلی و ارفع کلام اگر کسی کا ہے، تو وہ اللہ کا کلام (کتاب اللہ) ہے اور زندگی بسر کرنے کرنے کے جتنے طریقہاے کار ہیں، ان میں سب سے بہترین طرز زندگی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز زندگی ہے‚ جن چیزوں سے گمراہی کے امکانات ہو سکتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جڑیں بتا دیں اور فرمایا ”شر الامور محدثاتهاوكل بدعة ضلالة*“ (اس روئے زمین پر بدترین کام وہ ہے جو نئے نئے طریقے سے دین میں ایجاد کیے جائیں) مذکورہ بالا حدیث میں بدترین کا لفظ مذکور ہے‘ چونکہ بدعت ظاہری اور باطنی گناہوں سے بھی بدتر ہے اس لئے کہ ایک ادنیٰ درجہ کا ایمان والا شخص بھی ظاہری گناہ کو گناہ سمجھتا ہے برا سمجھتا ہے مثلاً اگر کوئی اتنا درجے کا مسلمان جھوٹ بولتا ہے شراب پیتا ہے چوری کرتا ہے اور غیبت کرتا ہے اس ادنیٰ درجے کے ایمان والے شخص سے بھی اگر پوچھا جائے کہ یہ کام تمہارے لحاظ سے کیسے ہیں؟ تو وہ مسلمان یہی  جواب دے گا کہ کام تو ہیں ویسے برے لیکن کیا کروں میں عادی ہو گیا ہوں‘ایسے مسلمان کو جو گناہ کو گناہ سمجھتا ہے, اللہ رب العزت بھی اپنے فضل و کرم سے اس کو کبھی نہ کبھی توبہ کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں۔
لیکن بدعت یعنی دین میں ایجاد کی گئی نئی چیز میں جو شخص مبتلا ہوتا ہے وہ اس کو گناہ نہیں سمجھتا بلکہ اچھا کام نیک کام سمجھتا ہے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس بدعتی سے یہ کہے کہ یہ کام برا ہے، اسے مت کرو، اسے چھوڑ دو تو وہ بدعتی اس سے بحث و مباحثہ اور لڑائی جھگڑا کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، وہ بدعتی کہتا ہے کہ اس میں کیا نقص ہے کیا خرابی ہے ؟کیا برائی ہے ؟ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دینی تعلیمات کو ناکافی سمجھنا اور دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد کرنا ہی ”بدعت“ ہے روایات میں آتاہے: ”*ياكم ومحدثات الامور فان كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة“ (دین میں نئی نئی نکالی ہوئی باتوں سے اپنے کو  رکھنا ‘اس لیے کہ دین میں نئی نکالی ہوئی ہر بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے) اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اسلام کی خالص تعلیمات اور دنیاوی خرافات کے درمیان ایک واضح فرق باقی رکھنے کے لیے صراحت سے ارشاد فرمایا:”من أحدث فى أمرنا هذا ماليس منه فهو رد“ (جو ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں داخل نہیں تھی تو وہ قابل تردید ہے)
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ بدعت کی برائی کو اور سنت کی امتیازی شان کو بلیغ اسلوب میں یوں بیان فرماتے ہیں ”*کہ بدعات درحقیقت دین الٰہی کے اندر شریعت انسانی کی تشکیل اور ریاست اندرون ریاست ہے اس شریعت کی الگ فقہ ہےاور مستقل فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات جو بعض اوقات شریعت الہی کے متوازی اور بعض اوقات تعداد اور اہمیت میں اس سے بڑھ جاتے ہیں بدعات اس حقیقت کو نظرانداز کرتی ہے کہ شریعت مکمل ہوچکی ہے جس کاتعین ہونا تھا وہ ہو گیا اور جس کو فرض و واجب بننا تھا وہ فرض یا واجب بن چکا اب جو سکہ اس کی طرف منسوب کیا جائے گا وہ جعلی ہو گا۔
 امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب فرمایا: *من إبتدع في الإسلام بدعةو يراها حسنة فقد زعم أن محمداً صلى الله عليه وسلّم خان الرسالة فإن الله سبحانه يقول:(اليوم اكملت لكم دينكم)*
 ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی بدعت پیدا کردی اور اس کو وہ اچھا سمجھتا ہے توگویا وہ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے( نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) پیغام پہنچانے میں خیانت کی اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے اپنی کتاب قرآن مقدس میں کہ” میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا“ چنانچہ جو بات عہد رسالت میں دین نہیں تھی وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتی،جیسے جیسے قیامت قریب آرہی ہے ٹھیک اسی طرح مسلمان دن بہ دن بدعات و خرافات اور رسم و رواج میں مبتلاء ہوتا جا رہا ہےانسان دنیا داری کے کاموں کے قوانین میں کسی بھی طرح کا رد وبدل ہرگز ہرگز برداشت نہیں کرتا وہی بات اگر دین کی ہو، بات اگر شریعت کی ہو تو جھوٹی حکمت اور جھوٹی مصلحت کے نام پر اس میں ردوبدل کرنے کے لیے مسلمان آج سب سے آگے رہتا ہے دین و شریعت اللہ رب العزت کے احکامات ہے جب ہمارے آقا جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے احکامات میں ردوبدل کرنے کی اجازت نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں۔
 ★بدعت کا صحیح مفہوم★
 آج کل لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر ہر نئی بات بدعت ہے اگر ہر نئی چیز گمراہی ہے تو یہ پنکھا گاڑی اور ٹیکنالوجی کے سازوسامان وغیرہ بھی گمراہی ہے کیونکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھی یہ چیزیں بھی اب پیدا ہوئیں ہے لہٰذا ان کو بھی بدعت کہنا چاہیے ؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے بدعت کو جو ناجائز و حرام قرار دیا ہے یہ وہ بدعت ہے جو دین اور شریعت کے اندر نئی بات نکالی جائے اور یہ کہا جائے کہ یہ بھی دین اور شریعت کا جزو اور حصہ ہے جیسے ایصال ثواب دسواں چہلم وغیرہ کے ذریعہ بعض نئی چیزیں تو وہ ہوتی ہے جن کو کوئی بھی شخص دین کا حصہ نہیں سمجھتا جیسے پنکھا لائٹ وغیرہ وغیرہ یہ چیزیں اس لئے بدعت نہیں ہے کہ ان کو کوئی بھی دین کا حصہ اور جزو نہیں سمجھتا اور دین کے جن کاموں کو انجام دینے کا اللہ اور اللہ کے رسول نے کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا ان کو جس طرح چاہو ادا کر لو ان کاموں کے لئے جب کوئی خاص طریقہ مقرر کر لیا جائے اور اس طریقے کو دین کا حصہ قرار دیا جائے تو وہ بدعت بن جائے گا یہ بات اگر ذہن میں رہے تو انشاءاللہ برے خیالات خود بخود دور ہو جائیں گے اور ہم خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ یہ دین ہیں یا یہ بدعت ہے اللہ ہم سب کو بدعات و خرافات اور رسم و رواج سے مکمل طور پر اجتناب کی توفیق عطا فرمائے اور دین و شریعت کی صحیح فہم و فراست ہم سب کو عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین