یہ_بلریاگنج_کی_عوام_ہے________سب_جانتی_ہے
از- عبدالحسیب جامعی
کسی بھی سماج کے لئے اختلاف ایک خوش آئند علامت ہے۔ سماج کا تنوع ہی اس سماج کی خوب صورتی ہے۔ سماج کی بہتر تعمیر کے لئے اختلاف کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں لوگ اختلاف کرتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب لوگ اختلاف کی حدوں کو پھلانگ جاتے ہیں۔ اجتماعی مصالح کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ذاتی منفعت کے خاطر اخلاقیات کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اور وہ اس میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ بڑے چھوٹے اور عالم جاہل کا فرق بھی بھول جاتے ہیں۔ ہمارا قصبہ بلریاگنج ایک علمی و ثقافتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر امور میں بھی دوسرے جگہوں سے ممتاز ہے۔ اس امتیازیت کی بقا اور تحفظ میں وہاں کے لوگوں کی جدوجہد، محنت، لگن،قربانی، اور علاقہ سے والہانہ لگاؤ اور مخلصانہ محبت کا کافی دخل رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے بے حد دکھ ہوتا ہے کہ ادھر چند مہینوں سے علاقہ کے تعلق سے ناشائستہ چیزیں سامنے آرہی ہیں جو کسی بھی طرح سے علاقہ کے حق میں نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غلط فہمیوں کا سلسلہ دراز ہوگیا ہے۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ سماج میں کچھ شر پسند عناصر ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن یہ شر پسند عناصر جب اپنا پر پھیلانے لگ جائیں تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ شر کون پھیلا رہا ہے؟ گڑے مردے کون اکھاڑ رہاہے؟ سماج کی آڑ میں کون اپنی مصلحتوں کی روٹی سینک رہا ہے؟ فتنے کو کون بڑھاوا دے رہا ہے؟ کیا اس شر انگیزی سے کسی کا سیاسی مفاد وابستہ ہے؟
ایک زمانہ تھا جب سرزمین اعظم گڑھ پر سیاہ بادل منڈلا رہے تھے۔ لوگ ڈر کے مارے گھروں میں دبکے پڑے تھے۔ قوم کے نام نہاد قائدیں اور ملی رہنماؤں نے مون دھارن کر لیا تھا۔ لوگ سہمے,ڈرے ہوئے تھے۔ایسے آزمائشی دور میں اللہ تعالی نے کچھ بندوں کو توفیق دی کہ وہ اس ڈر اور خوف کے طلسم کو توڑ ڈالیں، لوگوں کو ہمت اور حوصلوں سے سرشار کردیں، سماج کے اندر خود اعتمادی کی روح پھونکیں۔ یہ اللہ کے بندے اپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہے۔ ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ وہ ایک وقت کی اہم ضرورت تھی۔ وہ ایک تحریک تھی، ایک انقلاب تھا سکوت توڑنے کا، جمود ختم کرنے کا۔ ہر انقلاب قربانیاں چاہتا ہے سو وہ بھی ہوا اور لوگ اب تک ملت کے خاطر خندہ پیشانی سے قربانیاں پیش کرتےآریے ہیں۔ اب اگر کوئی ان قربانیوں کو سراہنے کے بجائے اس پر سوال اٹھائے تو خود انگلی اس کی طرف اٹھنے لگتی ہے۔ ایسے سماج کے احسان فراموش کو پہچانیے! یہ ہم میں اور آپ میں ہی ہیں! دھیان دیجیے چغلی کون کھا رہا ہے! بہتان تراشی کون کررہا ہے! کردار کشی کا راستہ کس نے اختیار کیا ہے! اگر چیزیں پہلے سے تھیں تو اسے ابھی ہی کیوں ہوا دی جارہی ہیں؟ کیا اس کی آڑ میں کوئی سیاسی کھیل تو نہیں کھیلا جارہا ہے؟ ایسے سیاسی پیادوں کو پکڑیے جو آگے جاکر ہاتھی کی شکل اختیار کرنا چاہتے ہیں! انھیں آگے بڑھنے سے روکیے کیوں کہ یہ اپنی سیاست چمکانے کے لئے سماج کا سودا کر رہے ہیں، اس سماج کا جو اپنے قائدیں کی عزت کرنا اچھی طرح سے جانتا ہے، اس سماج کا جو اپنے علما کی تعظیم وتوقیر کا ہمیشہ سے قائل رہا ہے۔
سر سلامت ہے تمہارا،تم جھکانا اپنا سر
میرا سر نیزے پے ہے،میں سر اٹھا کر جاؤں گا
دے کے اس سوکھے شجر کو جسم کا سارا لہو
ایک ہی پتہ سہی، لیکن ہرا کر جاؤں گا
از- عبدالحسیب جامعی
کسی بھی سماج کے لئے اختلاف ایک خوش آئند علامت ہے۔ سماج کا تنوع ہی اس سماج کی خوب صورتی ہے۔ سماج کی بہتر تعمیر کے لئے اختلاف کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ہمارے معاشرے میں لوگ اختلاف کرتے ہیں تو یہ اچھی بات ہے۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب لوگ اختلاف کی حدوں کو پھلانگ جاتے ہیں۔ اجتماعی مصالح کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ذاتی منفعت کے خاطر اخلاقیات کو بھینٹ چڑھا دیتے ہیں اور وہ اس میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ بڑے چھوٹے اور عالم جاہل کا فرق بھی بھول جاتے ہیں۔ ہمارا قصبہ بلریاگنج ایک علمی و ثقافتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر امور میں بھی دوسرے جگہوں سے ممتاز ہے۔ اس امتیازیت کی بقا اور تحفظ میں وہاں کے لوگوں کی جدوجہد، محنت، لگن،قربانی، اور علاقہ سے والہانہ لگاؤ اور مخلصانہ محبت کا کافی دخل رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے بے حد دکھ ہوتا ہے کہ ادھر چند مہینوں سے علاقہ کے تعلق سے ناشائستہ چیزیں سامنے آرہی ہیں جو کسی بھی طرح سے علاقہ کے حق میں نہیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ غلط فہمیوں کا سلسلہ دراز ہوگیا ہے۔ اس سے انکار نہیں ہے کہ سماج میں کچھ شر پسند عناصر ہر جگہ پائے جاتے ہیں لیکن یہ شر پسند عناصر جب اپنا پر پھیلانے لگ جائیں تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ یہ شر کون پھیلا رہا ہے؟ گڑے مردے کون اکھاڑ رہاہے؟ سماج کی آڑ میں کون اپنی مصلحتوں کی روٹی سینک رہا ہے؟ فتنے کو کون بڑھاوا دے رہا ہے؟ کیا اس شر انگیزی سے کسی کا سیاسی مفاد وابستہ ہے؟
ایک زمانہ تھا جب سرزمین اعظم گڑھ پر سیاہ بادل منڈلا رہے تھے۔ لوگ ڈر کے مارے گھروں میں دبکے پڑے تھے۔ قوم کے نام نہاد قائدیں اور ملی رہنماؤں نے مون دھارن کر لیا تھا۔ لوگ سہمے,ڈرے ہوئے تھے۔ایسے آزمائشی دور میں اللہ تعالی نے کچھ بندوں کو توفیق دی کہ وہ اس ڈر اور خوف کے طلسم کو توڑ ڈالیں، لوگوں کو ہمت اور حوصلوں سے سرشار کردیں، سماج کے اندر خود اعتمادی کی روح پھونکیں۔ یہ اللہ کے بندے اپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہے۔ ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ وہ ایک وقت کی اہم ضرورت تھی۔ وہ ایک تحریک تھی، ایک انقلاب تھا سکوت توڑنے کا، جمود ختم کرنے کا۔ ہر انقلاب قربانیاں چاہتا ہے سو وہ بھی ہوا اور لوگ اب تک ملت کے خاطر خندہ پیشانی سے قربانیاں پیش کرتےآریے ہیں۔ اب اگر کوئی ان قربانیوں کو سراہنے کے بجائے اس پر سوال اٹھائے تو خود انگلی اس کی طرف اٹھنے لگتی ہے۔ ایسے سماج کے احسان فراموش کو پہچانیے! یہ ہم میں اور آپ میں ہی ہیں! دھیان دیجیے چغلی کون کھا رہا ہے! بہتان تراشی کون کررہا ہے! کردار کشی کا راستہ کس نے اختیار کیا ہے! اگر چیزیں پہلے سے تھیں تو اسے ابھی ہی کیوں ہوا دی جارہی ہیں؟ کیا اس کی آڑ میں کوئی سیاسی کھیل تو نہیں کھیلا جارہا ہے؟ ایسے سیاسی پیادوں کو پکڑیے جو آگے جاکر ہاتھی کی شکل اختیار کرنا چاہتے ہیں! انھیں آگے بڑھنے سے روکیے کیوں کہ یہ اپنی سیاست چمکانے کے لئے سماج کا سودا کر رہے ہیں، اس سماج کا جو اپنے قائدیں کی عزت کرنا اچھی طرح سے جانتا ہے، اس سماج کا جو اپنے علما کی تعظیم وتوقیر کا ہمیشہ سے قائل رہا ہے۔
سر سلامت ہے تمہارا،تم جھکانا اپنا سر
میرا سر نیزے پے ہے،میں سر اٹھا کر جاؤں گا
دے کے اس سوکھے شجر کو جسم کا سارا لہو
ایک ہی پتہ سہی، لیکن ہرا کر جاؤں گا