کورونا کے دور میں آن لائن کلاسس حصول تعلیم کا بہترین ذریعہ۔
فیروزہ تسبیح
آج جب کہ بچوں کی آن لائن کلاسس شروع ہو چکی ہیں اور مذید شروع ہونے کو ہیں تو لوگوں میں یہ آن لائن کلاسس چرچے کا باعث بنی ہوئی ہیں کہی یہ آن لائن کلاسس بچوں کی ترقی و ترویج کے لئے اچھی تکنیک سمجھی جا رہی ہے تو زیادہ تر لوگ اس موضوع پر آپس میں اور شوشیل میڈیا پر یہ بھی کہتے پائیں جارہے ہیں کہ بچوں کی تعلیم کا یہ طریقہ کار بلکل غلط ہے۔ جن بچوں کو ہم ڈیوائس (موبائل) سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان سے دور رہنے کی تربیت اور ہدایت دیتے ہیں انہیں ہی ہم آن لائن تعلیم کے لئے موبائیل ان کے ہاتھ میں دیں اور لیپ ٹاپ ان کے حوالے کر دیں تو یہ اس مصداق کے ہوگا کہ" آ بیل مجھے مار" یعنی ہم خود ہو کر اپنی اولاد کو موبائل نام کے فتنے سے متعارف کروائیں گے دوسری صورت میں ہر جانب سے ہم پریشانی میں آجائیں گے، مطلب ہمارے بچوں کو موبائل استعمال کرنے کی پوری آزادی ملےگی اور وہ موبائل کے عادی ہو جائیں گے اوپر سے آنکھیں اور صحت پر بھی مضر اثرات پڑنے کا خدشہ لاگو ہو گا۔
یہ ساری باتیں سولہ آنے سچ اور حقیقت پر مبنی ہے اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ اس بات سے متفق بھی ہونگے پر اس بات کو شرف قبولیت دیتے وقت لوگ یہ بھی ضرور سوچیں گے کہ ویسے بھی بچے کہا کسی کی سنتے ہیں، سارا دن موبائل کو ہاتھ میں لئے اسکرین کو تکا کرتے ہیں۔ ہاتھ سے لے لو تو بغاوت پر اتر آتے ہیں، نہ دو تو بور ہو کر چڑچڑا پن دکھاتے ہیں۔ ویسے بھی آج لوگوں نے اپنے گھروں کے ماحول کو یکسر بدل دیا ہیں۔ گھر میں صرف بچے اور ان کے ماں باپ ہی رہتے ہیں، دادا دادی جو بچوں کے لئے بہترین دوست، تجربہ کار، سمجھدار اور بےلوث محبت کے حامل عمدہ تربیت کا ادارا ہوتے ہیں، انہیں پہلے ہی سے گھر سے نکال گاوں میں یا دو سرے کسی گھر میں آرام کی زندگی کے ساتھ شفٹ کرا دیا جاتا ہے تا کہ بچے ان کے ساتھ ٹائم پاس کر کے اپنی پڑھائی کا نقصان ناکریں اور والدین جب پڑھائی کی سختی دکھائیں تو دادا دادی بیچ میں دخل دے کر بچوں کو سر پر نا چڑھا لیں، افسوس اس قسم کی سوچ سے آج زیادہ تر گھرانوں کے دادا دادیوں کو اپنے پوتوں اور پوتیوں کے ساتھ نہیں رکھا جاتا ہیں۔
اب آپ ہی بتائے ایسے جیل نما گھر میں جہاں جیلر بنے والدین اپنے کاموں میں مصروف ہو اور بچوں کو صرف پڑھائی کا حکم دیتے رہتے ہو کیا بچے نفسیاتی طور پر صحت مند رہ سکتے ہیں ؟ بلکل نہیں، ظاہر سی بات ہے انہیں بورنگ تو ہوگی ہی جو سیدھے ان کے برتاو میں چڑچڑاپن لے آتی ہیں۔ اور ایسے میں جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ اپنے والدین کے اسمارٹ فون کو اٹھا کر اپنی وقت گزاری کا دلچسپ ذریعہ بنا لیتے ہیں اور والدین دیکھ کر ان دیکھا کر دیتے ہیں اور جان بوجھ کر انجان بن جاتے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے بچہ اپنے خالی وقت میں کچھ وقت گزاری کا طلب گار ہے جب کہ والدین جانتے بھی ہوتے ہیں کہ بچہ موبائیل پر کس چیز کا طلب گار ہے پھر بھی کچھ وقت کے لئے انہیں موبائل کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے اور یہ ہی وہ غلط سمجھوتا ہوتا ہے جو بچوں کو موبائل کے برے اثرات میں ملوث کر اس فتنے کا عادی بنا دیتا ہے پھر چاہے وہ گیمس ہو، فلمیں یا سیریلس ہو، کوئی Tik tok جیسا فحش اور غلط تربیت کا ایپ ہو، پورا کے پورا گوگل نام کے دجال سے جڑا موبائیل نام کا شر بچوں کے لئے مضر صحت اور مستقبل کی بربادی ہی ثابت ہوتا ہیں ۔ اوپر سے آنکھوں کی کمزوری کا وارد ہونا ایک الگ مسئلہ ہوتا ہے۔ کھیل کود میں حصہ نہ لے کر جسم میں موٹاپا لے آنا اور ایک بڑا مسئلہ ہے، سارا دن خاموش اسکرین کو گھورنا بھی ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے یعنی لگاتار موبائل کی اسکرین کو ایک ٹک دیکھنے سے بچوں میں قوت گویائی کم ہو جاتی ہے اور بات کرنے کا لحجہ بگڑ جاتا ہے، کم بولنے کی وجہ سے جب کبھی بچے کچھ بولتے ہیں تو ان کا انداز بیاں تو عجیب سا ہوتا ہی ہے اوپر سے کچھ ہکلا کر بھی بولتے ہیں۔
موبائل کے گیمس تو اتنے خطرناک ہوتے جا رہیں ہیں کہ بچے گیمس کے جنون میں خاموشی سے کسی کو کانوں کان خبر نہ دیتے ہوئے اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں اور یہ کوئی نئی اور چونکا دینے والی بات نہیں ہے بلکہ یہ خبریں اکثر اخبارات میں سرخیاں بنی ہوتی ہیں۔
ایسے میں یہ آن لائن کی تین گھنٹہ پڑھائی بچوں کی صحت کے لئے کچھ مضر ضرور ہے پردوسری فحش سائٹس کے بمقابل زیادہ بہتر ہے۔
چھوٹے بچوں کے لئے چونکہ موبائل ڈیوائس ایک خطرہ ہی ہے اس لئے ان بچوں کے والدین آن لائن کلاسس سے خود اپنے بچوں کی اسٹڈی حاصل کر لیں اور آن لائن حاصل کی گئی پڑھائی وہ اہنے بچوں کو پڑھا لیا کریں اس سے ہو گا یہ کہ بچے موبائل سے دور رہیں گے، والدین خود آن لائن جو تعلیم لیں گے اس سے ان کی معلومات اور تعلیمات میں تو اضافہ ہوگا ہی پر مذید ان کو یہ بھی پتہ چلے گا کہ ان کے بچے کیا پڑھتے ہیں اور بچوں کو کس طرح پڑھایا جاتا ہے، اور سب سے بڑھکر بچوں کو اپنے والدین کا کچھ دیر قریبی ساتھ ملےگا جس کے سبھی بچے متمنی ہوتے ہیں ۔
اب رہا اسکولوں کے کھلنے کا مسئلہ، چونکہ کورونا وائرس اس وبا سے لوگوں کو ابھی تک پوری طرح نجات حاصل نہیں ہے اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ امسال اسکولوں کو بند ہی رکھا جائیں اور بچوں کی آن لائن پڑھائی پر توجہ مبذول کرادی جائے۔
وزیر تعلیم محترمہ ورثا گائیکوارڈ اس بات پر غور و خوض کرے کہ ملک کے بچے اپنے ملک کے لئے سنہرا مستقبل کہلائے جاتے ہیں ساتھ ساتھ وہ اپنے والدین کا سہارا اور نام لیوا ہوتے ہیں اور ان سے ہی نسل آگے بڑھتی ہے۔ آج کورونا کے ہوتے ہوئے چاہے کتنے ہی اچھے انتظامات،احتیاط اور سہولتوں کے ساتھ گر اسکولوں کو کھولا گیا تو بلا شبہ یہ فیصلہ بچوں اور والدین کے ساتھ پورے ملک کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے یعنی اس تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کا ملک کو مذید خدشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی بچے پڑھائی میں تیز ہوتے ہیں اور ایک سال سے کوئی خاصہ فرق بھی نہیں پڑ نے والا ہے کیونکہ آن لائن کلاسس تو جاری ہی رہیں گی، اس لئے اس سال آن لائن پڑھائی اور اگلے سال ۲۰۲۱ سے اسکول کی پڑھائی کا آغاز انشا اللہ بچوں کے شاندار مستقبل کی ایک نئی اور بہترین شروعات ثابت ہو نگی۔
فیروزہ تسبیح
آج جب کہ بچوں کی آن لائن کلاسس شروع ہو چکی ہیں اور مذید شروع ہونے کو ہیں تو لوگوں میں یہ آن لائن کلاسس چرچے کا باعث بنی ہوئی ہیں کہی یہ آن لائن کلاسس بچوں کی ترقی و ترویج کے لئے اچھی تکنیک سمجھی جا رہی ہے تو زیادہ تر لوگ اس موضوع پر آپس میں اور شوشیل میڈیا پر یہ بھی کہتے پائیں جارہے ہیں کہ بچوں کی تعلیم کا یہ طریقہ کار بلکل غلط ہے۔ جن بچوں کو ہم ڈیوائس (موبائل) سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان سے دور رہنے کی تربیت اور ہدایت دیتے ہیں انہیں ہی ہم آن لائن تعلیم کے لئے موبائیل ان کے ہاتھ میں دیں اور لیپ ٹاپ ان کے حوالے کر دیں تو یہ اس مصداق کے ہوگا کہ" آ بیل مجھے مار" یعنی ہم خود ہو کر اپنی اولاد کو موبائل نام کے فتنے سے متعارف کروائیں گے دوسری صورت میں ہر جانب سے ہم پریشانی میں آجائیں گے، مطلب ہمارے بچوں کو موبائل استعمال کرنے کی پوری آزادی ملےگی اور وہ موبائل کے عادی ہو جائیں گے اوپر سے آنکھیں اور صحت پر بھی مضر اثرات پڑنے کا خدشہ لاگو ہو گا۔
یہ ساری باتیں سولہ آنے سچ اور حقیقت پر مبنی ہے اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگ اس بات سے متفق بھی ہونگے پر اس بات کو شرف قبولیت دیتے وقت لوگ یہ بھی ضرور سوچیں گے کہ ویسے بھی بچے کہا کسی کی سنتے ہیں، سارا دن موبائل کو ہاتھ میں لئے اسکرین کو تکا کرتے ہیں۔ ہاتھ سے لے لو تو بغاوت پر اتر آتے ہیں، نہ دو تو بور ہو کر چڑچڑا پن دکھاتے ہیں۔ ویسے بھی آج لوگوں نے اپنے گھروں کے ماحول کو یکسر بدل دیا ہیں۔ گھر میں صرف بچے اور ان کے ماں باپ ہی رہتے ہیں، دادا دادی جو بچوں کے لئے بہترین دوست، تجربہ کار، سمجھدار اور بےلوث محبت کے حامل عمدہ تربیت کا ادارا ہوتے ہیں، انہیں پہلے ہی سے گھر سے نکال گاوں میں یا دو سرے کسی گھر میں آرام کی زندگی کے ساتھ شفٹ کرا دیا جاتا ہے تا کہ بچے ان کے ساتھ ٹائم پاس کر کے اپنی پڑھائی کا نقصان ناکریں اور والدین جب پڑھائی کی سختی دکھائیں تو دادا دادی بیچ میں دخل دے کر بچوں کو سر پر نا چڑھا لیں، افسوس اس قسم کی سوچ سے آج زیادہ تر گھرانوں کے دادا دادیوں کو اپنے پوتوں اور پوتیوں کے ساتھ نہیں رکھا جاتا ہیں۔
اب آپ ہی بتائے ایسے جیل نما گھر میں جہاں جیلر بنے والدین اپنے کاموں میں مصروف ہو اور بچوں کو صرف پڑھائی کا حکم دیتے رہتے ہو کیا بچے نفسیاتی طور پر صحت مند رہ سکتے ہیں ؟ بلکل نہیں، ظاہر سی بات ہے انہیں بورنگ تو ہوگی ہی جو سیدھے ان کے برتاو میں چڑچڑاپن لے آتی ہیں۔ اور ایسے میں جب بھی انہیں موقع ملتا ہے وہ اپنے والدین کے اسمارٹ فون کو اٹھا کر اپنی وقت گزاری کا دلچسپ ذریعہ بنا لیتے ہیں اور والدین دیکھ کر ان دیکھا کر دیتے ہیں اور جان بوجھ کر انجان بن جاتے کیونکہ انہیں پتہ ہوتا ہے بچہ اپنے خالی وقت میں کچھ وقت گزاری کا طلب گار ہے جب کہ والدین جانتے بھی ہوتے ہیں کہ بچہ موبائیل پر کس چیز کا طلب گار ہے پھر بھی کچھ وقت کے لئے انہیں موبائل کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے اور یہ ہی وہ غلط سمجھوتا ہوتا ہے جو بچوں کو موبائل کے برے اثرات میں ملوث کر اس فتنے کا عادی بنا دیتا ہے پھر چاہے وہ گیمس ہو، فلمیں یا سیریلس ہو، کوئی Tik tok جیسا فحش اور غلط تربیت کا ایپ ہو، پورا کے پورا گوگل نام کے دجال سے جڑا موبائیل نام کا شر بچوں کے لئے مضر صحت اور مستقبل کی بربادی ہی ثابت ہوتا ہیں ۔ اوپر سے آنکھوں کی کمزوری کا وارد ہونا ایک الگ مسئلہ ہوتا ہے۔ کھیل کود میں حصہ نہ لے کر جسم میں موٹاپا لے آنا اور ایک بڑا مسئلہ ہے، سارا دن خاموش اسکرین کو گھورنا بھی ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے یعنی لگاتار موبائل کی اسکرین کو ایک ٹک دیکھنے سے بچوں میں قوت گویائی کم ہو جاتی ہے اور بات کرنے کا لحجہ بگڑ جاتا ہے، کم بولنے کی وجہ سے جب کبھی بچے کچھ بولتے ہیں تو ان کا انداز بیاں تو عجیب سا ہوتا ہی ہے اوپر سے کچھ ہکلا کر بھی بولتے ہیں۔
موبائل کے گیمس تو اتنے خطرناک ہوتے جا رہیں ہیں کہ بچے گیمس کے جنون میں خاموشی سے کسی کو کانوں کان خبر نہ دیتے ہوئے اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں اور یہ کوئی نئی اور چونکا دینے والی بات نہیں ہے بلکہ یہ خبریں اکثر اخبارات میں سرخیاں بنی ہوتی ہیں۔
ایسے میں یہ آن لائن کی تین گھنٹہ پڑھائی بچوں کی صحت کے لئے کچھ مضر ضرور ہے پردوسری فحش سائٹس کے بمقابل زیادہ بہتر ہے۔
چھوٹے بچوں کے لئے چونکہ موبائل ڈیوائس ایک خطرہ ہی ہے اس لئے ان بچوں کے والدین آن لائن کلاسس سے خود اپنے بچوں کی اسٹڈی حاصل کر لیں اور آن لائن حاصل کی گئی پڑھائی وہ اہنے بچوں کو پڑھا لیا کریں اس سے ہو گا یہ کہ بچے موبائل سے دور رہیں گے، والدین خود آن لائن جو تعلیم لیں گے اس سے ان کی معلومات اور تعلیمات میں تو اضافہ ہوگا ہی پر مذید ان کو یہ بھی پتہ چلے گا کہ ان کے بچے کیا پڑھتے ہیں اور بچوں کو کس طرح پڑھایا جاتا ہے، اور سب سے بڑھکر بچوں کو اپنے والدین کا کچھ دیر قریبی ساتھ ملےگا جس کے سبھی بچے متمنی ہوتے ہیں ۔
اب رہا اسکولوں کے کھلنے کا مسئلہ، چونکہ کورونا وائرس اس وبا سے لوگوں کو ابھی تک پوری طرح نجات حاصل نہیں ہے اس لئے بہتر یہی ہوگا کہ امسال اسکولوں کو بند ہی رکھا جائیں اور بچوں کی آن لائن پڑھائی پر توجہ مبذول کرادی جائے۔
وزیر تعلیم محترمہ ورثا گائیکوارڈ اس بات پر غور و خوض کرے کہ ملک کے بچے اپنے ملک کے لئے سنہرا مستقبل کہلائے جاتے ہیں ساتھ ساتھ وہ اپنے والدین کا سہارا اور نام لیوا ہوتے ہیں اور ان سے ہی نسل آگے بڑھتی ہے۔ آج کورونا کے ہوتے ہوئے چاہے کتنے ہی اچھے انتظامات،احتیاط اور سہولتوں کے ساتھ گر اسکولوں کو کھولا گیا تو بلا شبہ یہ فیصلہ بچوں اور والدین کے ساتھ پورے ملک کے لئے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے یعنی اس تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کا ملک کو مذید خدشہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی بچے پڑھائی میں تیز ہوتے ہیں اور ایک سال سے کوئی خاصہ فرق بھی نہیں پڑ نے والا ہے کیونکہ آن لائن کلاسس تو جاری ہی رہیں گی، اس لئے اس سال آن لائن پڑھائی اور اگلے سال ۲۰۲۱ سے اسکول کی پڑھائی کا آغاز انشا اللہ بچوں کے شاندار مستقبل کی ایک نئی اور بہترین شروعات ثابت ہو نگی۔