------------ تن ہمہ داغ، داغ، شد --------------
از✍
احتشام الحق، مظاہری، کبیر نگری،
اس وقت جب لیٹنے کےلئے بستر پر جاتا ھوں تو بہت دیر تک نیند نھیں آتی غیر محسوس بے چینی و بے قراری ساتھ نھیں چھوڑتی ھے، گزشتہ دنوں، ایک جون کو، گاؤں ڈیہواں ضلع سنت کبیر نگر میں پیش آنے والے اندوہناک واقعات کی تصویر سے دل و دماغ متاثر رہتا ھے، وہ کیا پریشان کن واقعات ہیں جنھوں نے میری آنکھوں سے بہت دیر تک نیند کو ، کوسوں دور کردیتا ھے، آپ بھی سن لیجئے اور شریک غم ہوجائیے، یکم جون کو ، ضلع سنت کبیر نگر کے ڈیہواں گاؤں میں ایک حیوان باپ نے اپنے دوست کی مدد سے اپنی ہی تین بیٹیوں کو دوا دلانے کے بہانے گھاگھرا ندی بیڑہر گھاٹ پل سے ندی کے درمیانی حصہ میں زندہ پھینک دیا ہے
یکم جون کی رات حیوان باپ جب گھر کے دروازے پر دستک دیتا ہے اہلیہ نے اپنی ایک معصووم بچی کی طبیعت کے ناساز ہونے کی اطلاع دی، باپ نے فورا تینوں بچیوں کو ساتھ لیا اور دوا دلانے کے بہانے نکل پڑا، وہ معصوم معصوم بچیاں بھی اپنے باپ کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے باپ کی انگلیاں پکڑتے ہوئے دائیں اور بائیں ہو لیں۔ ان کے معصوم ذہنوں میں تو کوئی خدشہ کوئی ڈر نہیں تھا۔ کسی قسم کا کوئی شک نہیں تھا کہ ان کا باپ واقعی انہیں دوا دلانے یا تفریح کی غرض سے لے جا رہا ہے یا اس کی کوئی اور ہی نیت ہے۔ تینوں بچیاں اپنے باپ کے ہمراہ جا رہی تھیں۔ باپ جو کہ محافظ ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو ہر آفت سے بچاتا ہے۔ اپنی اولاد کے لئے شجر سایہ دار ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ معصوم جانیں بے دھڑک باپ کے ساتھ چل رہی تھیں۔ وہ انہیں بیڑ ہر گھاٹ پل کی طرف لے گیا۔ اس وقت بچیاں پوچھ رہی ہوں گی ابّا، ہمیں اس طرف کیوں لے آئے۔ ادھر تو کوئی ڈاکٹر کو ئی طبیب بھی نہیں، آپ تو ہمیں دوا دلانے لائے تھے نا! لیکن سفاک باپ سرفراز کو کوئی ترس نہ آیا اس ظالم باپ نے بچیوں کو پل سے بیچ ندی میں پھینکنا شروع کر دیا۔ بچیاں چیخ چلا رہی تھیں۔ لیکن سفاک باپ کو ان پر کوئی رحم نہیں آ رہا تھا۔ وہ معصوم کلیاں وہ بچیاں اس وقت چیخ و پکار کر کے اپنی ماں کو آوازیں دے رہی ہوں گی۔ ماں ہمیں بچا لو، ہم تمہیں ساتھ نہیں لے کر آئیں ورنہ تم ہمیں بچاتیں۔ ماں اس سفاک باپ سے بچاؤ ہم کمزور ہیں باپ کے مضبوط ہاتھوں نے ہمیں پکڑ رکھا ہے، وہ ہمیں بہتی ندی کے حوالے کررہا ھے ۔ ماں اسے بتلا دو ہماری طبیعت ٹھیک ہے ہمیں دوا کی بالکل ضرورت نہیں۔ پھر وہ پھٹی آنکھوں سے باپ سے التجائیں کر رہی ہوں گی کہ ابو ہمیں دوا نھیں لینی ۔ ابو جی! ہم آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے۔ ابو ہمیں چھوڑ دو ہمیں نہ مارو تینوں بچیاں واویلا اور فریادکر رہی تھیں۔ اس دوران ننھی معصوم تینوں بچیوں کی آواز تو ختم ہو گئی اس کی چیخیں تھم گئیں، اس کا جسم لٹک گیا۔
اتنی سفاکیت دیکھ کر تو پل کی دیوار اور آس پاس درختوں پر بیٹھے معصوم پرندے بھی دبک گئے ہوں گے وہ بھی آہ و فعاں کر رہے ہوں گے کہ ہمیں تو اپنے بچے اتنے پیارے ہیں کہ ہم بے غرض انہیں کھلاتے پلاتے ہیں۔ ان کو ہر آفت و بلا سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ننھے بچوں کو کوئی ہاتھ لگائے تو کمزور ہوتے ہوئے بھی ان کا دفاع کرتے ہیں، لیکن یہ کیسا اشرف المخلوقات ہے جسے اللہ نے تمام مخلوق میں شرف و عزت سے نوازا ہے۔ اپنی اولاد کے لئے اتنا سفاک ہو سکتا ہے اور خاص طور پر بیٹی کے لئے جو باپ کو اپنا محافظ و گارڈ سمجھتی ہے۔ اسے باپ کے ہونے سے تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ بیٹی کو لگتا ہے کہ باپ جیسی عظیم ہستی کے ہوتے ہوئے کوئی اس کی طرف بری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ باپ ایک بیٹی کے لئے شجر سایہ دار ہوتا ہے۔ جس کا سایہ اسے زمانے کی تپش اور گرمی سے بچا کر راحت دلاتا ہے۔ لیکن یہ کیسا باپ ہے؟ جس نے دوا کے بہانے بیٹیوں کو بہتی ندی کے حوالے کر کے مارڈالا
کیا ایک بیوی جس نے اپنی کوکھ سے ان تینوں معصوم کلیوں کو جنم دیا ھو اور باپ ہی کے ذریعہ اس طرح کا سفاکانہ سلوک کیا گیا ہو اس کے سامنے ہی اسکی بچیوں کو زندہ ندی کے حوالے کر دیا گیا ھو کیا کبھی وہ اپنے ظالم شوہر کو معاف کر پائے گی؟ اور اس کے ساتھ جو اس قدر ہیبت ناک واقعہ ہوا۔ کیا وہ اسے بھول پائے گی؟ اس دردناک صورتحال کی وجہ سے وہ اپنی زندگی نارمل گزار سکے گی؟ کیا وہ کسی کو اپنا محافظ سمجھ سکے گی؟ یہ بہت سارے دکھی سوال وابستہ ہیں اس مظلوم بیوی کے ساتھ جو اپنے سب سے پیارے رشتے کے ستم کا شکار ہوئی۔
اے جاہل باپو! ذرا غور کرو بیٹیوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنے والے اللہ کے سامنے کس منہ سے پیش ہو گے، اس وقت تمہارا کیا حشر ہو گا۔اللہ اللہ! ایسے باپ کیا جواب دیں گے؟ کس منہ سے اللہ کا سامنا کریں گے؟ ایسے باپ دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں۔ اللہ ایسے باپوں کو ہدایت دے۔ بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھیں، ان کے محافظ بنیں۔ بیٹی کی اعلیٰ تربیت کر کے جنت میں رسول کریم کے ساتھی بن جائیں۔
از✍
احتشام الحق، مظاہری، کبیر نگری،
اس وقت جب لیٹنے کےلئے بستر پر جاتا ھوں تو بہت دیر تک نیند نھیں آتی غیر محسوس بے چینی و بے قراری ساتھ نھیں چھوڑتی ھے، گزشتہ دنوں، ایک جون کو، گاؤں ڈیہواں ضلع سنت کبیر نگر میں پیش آنے والے اندوہناک واقعات کی تصویر سے دل و دماغ متاثر رہتا ھے، وہ کیا پریشان کن واقعات ہیں جنھوں نے میری آنکھوں سے بہت دیر تک نیند کو ، کوسوں دور کردیتا ھے، آپ بھی سن لیجئے اور شریک غم ہوجائیے، یکم جون کو ، ضلع سنت کبیر نگر کے ڈیہواں گاؤں میں ایک حیوان باپ نے اپنے دوست کی مدد سے اپنی ہی تین بیٹیوں کو دوا دلانے کے بہانے گھاگھرا ندی بیڑہر گھاٹ پل سے ندی کے درمیانی حصہ میں زندہ پھینک دیا ہے
یکم جون کی رات حیوان باپ جب گھر کے دروازے پر دستک دیتا ہے اہلیہ نے اپنی ایک معصووم بچی کی طبیعت کے ناساز ہونے کی اطلاع دی، باپ نے فورا تینوں بچیوں کو ساتھ لیا اور دوا دلانے کے بہانے نکل پڑا، وہ معصوم معصوم بچیاں بھی اپنے باپ کے ساتھ اٹھکیلیاں کرتے ہوئے باپ کی انگلیاں پکڑتے ہوئے دائیں اور بائیں ہو لیں۔ ان کے معصوم ذہنوں میں تو کوئی خدشہ کوئی ڈر نہیں تھا۔ کسی قسم کا کوئی شک نہیں تھا کہ ان کا باپ واقعی انہیں دوا دلانے یا تفریح کی غرض سے لے جا رہا ہے یا اس کی کوئی اور ہی نیت ہے۔ تینوں بچیاں اپنے باپ کے ہمراہ جا رہی تھیں۔ باپ جو کہ محافظ ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو ہر آفت سے بچاتا ہے۔ اپنی اولاد کے لئے شجر سایہ دار ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ معصوم جانیں بے دھڑک باپ کے ساتھ چل رہی تھیں۔ وہ انہیں بیڑ ہر گھاٹ پل کی طرف لے گیا۔ اس وقت بچیاں پوچھ رہی ہوں گی ابّا، ہمیں اس طرف کیوں لے آئے۔ ادھر تو کوئی ڈاکٹر کو ئی طبیب بھی نہیں، آپ تو ہمیں دوا دلانے لائے تھے نا! لیکن سفاک باپ سرفراز کو کوئی ترس نہ آیا اس ظالم باپ نے بچیوں کو پل سے بیچ ندی میں پھینکنا شروع کر دیا۔ بچیاں چیخ چلا رہی تھیں۔ لیکن سفاک باپ کو ان پر کوئی رحم نہیں آ رہا تھا۔ وہ معصوم کلیاں وہ بچیاں اس وقت چیخ و پکار کر کے اپنی ماں کو آوازیں دے رہی ہوں گی۔ ماں ہمیں بچا لو، ہم تمہیں ساتھ نہیں لے کر آئیں ورنہ تم ہمیں بچاتیں۔ ماں اس سفاک باپ سے بچاؤ ہم کمزور ہیں باپ کے مضبوط ہاتھوں نے ہمیں پکڑ رکھا ہے، وہ ہمیں بہتی ندی کے حوالے کررہا ھے ۔ ماں اسے بتلا دو ہماری طبیعت ٹھیک ہے ہمیں دوا کی بالکل ضرورت نہیں۔ پھر وہ پھٹی آنکھوں سے باپ سے التجائیں کر رہی ہوں گی کہ ابو ہمیں دوا نھیں لینی ۔ ابو جی! ہم آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کرتے۔ ابو ہمیں چھوڑ دو ہمیں نہ مارو تینوں بچیاں واویلا اور فریادکر رہی تھیں۔ اس دوران ننھی معصوم تینوں بچیوں کی آواز تو ختم ہو گئی اس کی چیخیں تھم گئیں، اس کا جسم لٹک گیا۔
اتنی سفاکیت دیکھ کر تو پل کی دیوار اور آس پاس درختوں پر بیٹھے معصوم پرندے بھی دبک گئے ہوں گے وہ بھی آہ و فعاں کر رہے ہوں گے کہ ہمیں تو اپنے بچے اتنے پیارے ہیں کہ ہم بے غرض انہیں کھلاتے پلاتے ہیں۔ ان کو ہر آفت و بلا سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ننھے بچوں کو کوئی ہاتھ لگائے تو کمزور ہوتے ہوئے بھی ان کا دفاع کرتے ہیں، لیکن یہ کیسا اشرف المخلوقات ہے جسے اللہ نے تمام مخلوق میں شرف و عزت سے نوازا ہے۔ اپنی اولاد کے لئے اتنا سفاک ہو سکتا ہے اور خاص طور پر بیٹی کے لئے جو باپ کو اپنا محافظ و گارڈ سمجھتی ہے۔ اسے باپ کے ہونے سے تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ بیٹی کو لگتا ہے کہ باپ جیسی عظیم ہستی کے ہوتے ہوئے کوئی اس کی طرف بری آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ باپ ایک بیٹی کے لئے شجر سایہ دار ہوتا ہے۔ جس کا سایہ اسے زمانے کی تپش اور گرمی سے بچا کر راحت دلاتا ہے۔ لیکن یہ کیسا باپ ہے؟ جس نے دوا کے بہانے بیٹیوں کو بہتی ندی کے حوالے کر کے مارڈالا
کیا ایک بیوی جس نے اپنی کوکھ سے ان تینوں معصوم کلیوں کو جنم دیا ھو اور باپ ہی کے ذریعہ اس طرح کا سفاکانہ سلوک کیا گیا ہو اس کے سامنے ہی اسکی بچیوں کو زندہ ندی کے حوالے کر دیا گیا ھو کیا کبھی وہ اپنے ظالم شوہر کو معاف کر پائے گی؟ اور اس کے ساتھ جو اس قدر ہیبت ناک واقعہ ہوا۔ کیا وہ اسے بھول پائے گی؟ اس دردناک صورتحال کی وجہ سے وہ اپنی زندگی نارمل گزار سکے گی؟ کیا وہ کسی کو اپنا محافظ سمجھ سکے گی؟ یہ بہت سارے دکھی سوال وابستہ ہیں اس مظلوم بیوی کے ساتھ جو اپنے سب سے پیارے رشتے کے ستم کا شکار ہوئی۔
اے جاہل باپو! ذرا غور کرو بیٹیوں کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنے والے اللہ کے سامنے کس منہ سے پیش ہو گے، اس وقت تمہارا کیا حشر ہو گا۔اللہ اللہ! ایسے باپ کیا جواب دیں گے؟ کس منہ سے اللہ کا سامنا کریں گے؟ ایسے باپ دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں۔ اللہ ایسے باپوں کو ہدایت دے۔ بیٹیوں کو بوجھ نہ سمجھیں، ان کے محافظ بنیں۔ بیٹی کی اعلیٰ تربیت کر کے جنت میں رسول کریم کے ساتھی بن جائیں۔