*مولانا متین الحق اسامہ کا انتقال، ملت اسلامیہ کا بڑاخسارہ: نظرعالم*
*حکومت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنیوالے رہنما سے محروم ہوگیا ملک کا مسلمان: بیداری کارواں*
مدھوبنی:18/جولائی 2020 آئی این اے نیوز
رپورٹ! محمد سالم آزاد
جمعیۃ علماء اُترپردیش کے صدر، جامعہ محمودیہ کانپور کے بانی و ناظم اعلیٰ و قاضی شہور کانپورحضرت مولانا محمدمتین الحق اسامہ صاحب قاسمی کا آج بتاریخ 18 جولائی رات تقریباً 2 بجے شہرکانپور کے ایک اسپتال میں انتقال ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی کروٹ کروٹ مغفرت فرمائے اور لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔ مولانا جمعیۃ علماء اُترپردیش کے صدرہونے کی حیثیت سے لاک ڈاؤن کے بعد سے مسلسل ملت کی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔ حتی کہ چند دنوں قبل بخار کے عارضہ میں مبتلا ہوگئے۔ دیگر عوارض، شوگر،کڈنی پرابلم وغیرہ کی وجہ سے مرض ناقابل برداشت ہوا تو اسپتال میں زیرعلاج ہوئے اور کل رات تقریباً 8بجے ہارٹ اٹیک آیا اس کے بعد سے طبیعت مزید خراب ہونے لگی اور آخر میں تقریباً رات کے 2 بجے آپ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ آپ کے انتقال پرملال کی ناگہانی خبر سے پورے ملک میں غم کی لہردوڑ گئی اور تمام دینی و ملی حلقوں میں صف ماتم کا ماحول چھا گیا۔ اس قحط الرجال کے دور میں آپ کا ہم سے اتنی عجلت میں جدا ہوکر اپنے مالک حقیقی سے جاملنا یہ کسی ایک طبقے کا خسارہ نہیں بلکہ پوری ملت اسلامیہ کا بڑاخسارہ ہے جس کی بھرپائی ہونا مشکل ہے۔ مولانا اپنی حیات میں جمعیۃ علماء ہند اُترپردیش کے صدر کی حیثیت ملت اسلامیہ کے لئے بہت کچھ کئے۔آپ غریبوں، مجبوروں اور بے سہارا لوگوں کی بھرپور مدد کیا کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے بیچ کوئی بھوکا نہ رہے اس کا بھی پورا خیال رکھتے اور چاہے ٹرین ہو یا راستے میں کوئی بھی آدمی ملتا وہاں تک پکا ہوا کھانا بھجواتے۔ راشن اور روپیہ سے بھی ہزاروں ہزار لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ آپ کے انتقال پرگہرے صدمے کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے صدرنظرعالم نے کہا کہ مولانا ملک کی واحد شخصیت تھے جو حکومت اور انتظامیہ سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے تھے اور ملت اسلامیہ کے کسی بھی مسائل پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔مولانا نہ صرف اُترپردیش کے لئے بلکہ ملک کے لئے عظیم شخصیت تھے اور ایسی شخصیت سے آج نہ صرف اُترپردیش بلکہ پورے ملک کا مسلمان محروم ہوگیا ہے۔مولانا جب کسی جلوس یا جلسہ میں شامل ہوتے اور خطاب کرتے تو نہ صرف انتظامیہ بلکہ حکومت کی نینداُڑ جاتی تھی۔ مولانا کی خاصیت یہ تھی کہ کسی بھی مسلک یا مذہب کا ماننے والا ہواگرآپ کے پاس کوئی مسائل آتاآپ اُس کی ہرممکن مدد کرتے۔ خداوند قدوس سے دعاء ہے کہ ملت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے اور آپ کے قائم کردہ ادارے جامعہ محمودیہ کانپور و دیگر سیکڑوں مدارس و مکاتب جن کی آپ آبیاری کیا کرتے تھے ان سب کی اسی شان کے ساتھ چلتے رہنے کے اسباب عطافرمائے۔مولانا کے انتقال پر اظہارغم کرنے والوں میں مولانا قاری محمدصابرحسین، اسعد رشید ندوی، شکیل احمد سلفی، مفتی رضوان قاسمی، مولانا اعجاز احمد قاسمی (سابق چیئرمین مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، پٹنہ)، انجینئرفخرالدین قمر، مطیع الرحمن، ڈاکٹرراحت علی، ہیرا نظامی، قاری محمد سعید ظفر، محمدطالب،ایڈوکیٹ صفی الرحمن راعین، ہمایوں شیخ (سرپنچ)، قدوس ساگر، ذیشان اختر قاسمی، محمد شاہنواز عاقل، احمدبشر وغیرہ کے نام شامل ہیں۔