‘‘ٹک ٹاک‘‘ پر پابندی نسلِ نو کے لئے انتہائی سود مند!
🖊 ظفر امام
---------------------------------------------------------
سنا کہ فحاشی و عریانی اور بدکاری و بدنظری کو فروغ دینے والا ‘‘ ٹک ٹاک ‘‘ پر پابندی عائد کردی گئی ہے، وجہ چاہے جو بھی رہی ہو ، دو ملکوں کے باہمی نزاع و اختلاف کی حاصل ہو یا پھر سیاسی گلیاروں کی سیاست بازیوں کی ایک چال ، ہم تو الحمد للہ کہتے ہیں اور اپنے ربِ کریم کا بے حد شکر ادا کرتے ہیں کہ بہت اچھا ہوا ، ہم بھی یہی چاہتے تھے ، ورنہ تو اسے ہماری قوم کی نئی نسل کو مائیکل جیکسن اور سپنا چودھری بنا کر ہی چھوڑنا تھا ، کیا مرد کیا عورت ، کیا لڑکا کیا لڑکی ، کیا بچہ کیا بوڑھا ، کیا جوان کیا ادھیڑ ، کیا عالم کیا جاہل ، کیا پڑھا لکھا کیا اَن پڑھ ، کیا خاندانی کیا بازاری اور کیا شریف کیا خسیس سب اس ‘‘ ٹک ٹاک ‘‘ لعنت کے اتنے شوقین ، دلدادے اور دیوانے ہوچلے تھے کہ ہر گھر ہروقت اور ہر جیب ہر لمحہ ایک پیکرِ سنیما ہال بنی رہتی ، ساز و مزامیر اور طاؤس و رباب کی جھنکار در و دیوار اور اعضاء و جوارح کو ایسی تھرکاتی کہ مکان کے ساتھ مکیں کو بھی دنیا و مافیہا سے بےخبر کردیتی ، سب سے برا اور گہرا اثر جو اس نے ہمارے معاشرے پر ڈالا ہے وہ ہے تعلیم سے بےرغبتی ، ایجوکیشن سے تنفری ، قرآن و حدیث سے بے اعتنائی ، روزگاری سے دوری { جو کام کاج چھوڑ کر بس اسی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں } اور فحاشی کی ترقی ، ہمارے دودھ پیتے بچے جنہیں اپنی ممتا کے آنچل تلے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام سیکھنا تھا ، اس کے پیارے دین کی رسیلی باتوں کو آویزۂ گوش بنانا تھا ، وہ ٹک ٹاک پر ناچنے والے ایکٹر اور اپنی جوانی کے جوبن دکھاکر لاکھوں کمانے والی ایکٹرہ کے نام کی مالا جپتے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس میں بہت حد تک ہاتھ ہمارے ماڈرن اور روشن خیال والدین کا بھی ہے ، جو اپنے بچوں کی ان باتوں سے نہ صرف یہ کہ خوشی کی بانسری بجاتے ہیں بلکہ نمائش کے طور پر انہیں زینتِ محفل بھی بناتے ہیں ، اور بچپن ہی سے ان کے ذہنوں میں دنیوی رنگ و آہنگ اور رعنائی و زیبائی کی ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے اور ان کے اندر ان چیزوں کا اس خوشنما انداز میں القاء کیا جاتا ہے کہ پھر وہ نونہالانِ قوم زندگی بھر انہی چیزوں کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنالیتے ہیں ، اور رفتہ رفتہ ان کی یہ ہنگامی التذاذی کیفیت ان پر زہرِ ہلاہل کے طور پر اثر انداز ہونی شروع ہوجاتی ہے ، پھر نہ تو وہ مہذب دنیا والوں کی نظروں ہی میں مہذب بن پاتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں خدا کے روبرو کامران و بامراد ہوپائینگے، اور ظلم در ظلم یہ کہ ہمارے نوجوان جب سونے کے لئے بستروں پر جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ سنت کے مطابق ‘‘ مسنون دعاؤں ‘‘ کا ورد کرتے ہوئے سوتے ، ٹک ٹاک کی دھوم تال ، اس کے مکروہ جوکس اور طوائفوں کے جسموں کے زیر و زبر پر جھومتے ہوئے آسودۂ خواب ہوتے ہیں؛
ویسے صرف ٹک ٹاک کے ختم ہوجانے سے معاشرے سے ساری برائیوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہوجاتا اور بھی بہت کچھ ہیں برائی کرنے کے لئے ، بلکہ ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ سراپا برائیوں ہی کا دور ہے ، زمانے کی آنکھوں نے شاید کبھی برائیوں کا ایسا برا دور نہیں دیکھا ہوگا ، ہم برائیوں کے سمندر کے عین وسط میں کھڑے ہیں اب جو کوئی اس کی تند و تیز لہروں اور قیامت خیز تھپیڑوں سے خود کو بچاتا ہوا ساحل تک بآسانی پہونچ گیا تو سمجھئے وہی بامراد ہے ، لیکن! حقیقت یہ ہیکہ اس موبائل نے ہزار میں سے صرف دس فیصد لوگوں کو ہی ان لہروں سے بچا کر رکھا ہوا ہے ، باقی سب اس کے بھنور میں پھنسے غوطہ کھا رہے ہیں ، اس موبائل نے رشتوں کے تقدس ، بڑے چھوٹے کے مابین پاسِ ادب اور ہر اچھی بری چیز کے نشانِ امتیاز کو پامال کر کے رکھ دیا ہے ، پورے کلچر کو زہر آلود بنا کر چھوڑ دیا ہے ، تہذیب و ثقافت کے راگ الاپنے والوں اور خود کو روشن خیال و مہذب تصور کرنے والوں کو فی الواقع تہذیب و تمدن سے اپاہج کر کے رکھ دیا ہے ، و اللہ اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب ایک قوم کا ہونہار بچہ فلمی شوق کی خاطر آوارہ گردی کی راہ پر چل پڑتا ہے ، اور یہ تکلیف اس وقت فزوں تر ہوجاتی ہے جب باپ بیٹے ، ماں بیٹی اور بھائی بہن ایک ساتھ مل بیٹھ کر گھروں میں فلم بینی کرتے ہیں ، اور اس کے شرمناک مناظر پر تالیاں پیٹتے ، قہقہے لگاتے اور باہم آنکھیں مٹکاتے ہیں ، اور پورے گھر کو آوارہ زار بنا کر رکھ دیتے ہیں ، کیا ہوگا اس قوم کا جس میں رشتوں کے تقدس کا خیال بھی پامال ہوجائے ، ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب عمر و مرتبے کا کوئی چھوٹا اپنی عمر و مرتبے سے بڑے کے سامنے چھینکنا بھی گناہ تصور کیا کرتا تھا ، اور ان کے آگے چلنا تو دور ان کے ہم دوش چلنے کو بھی تہذیب کے خلاف گردانتا تھا ، لیکن آج کے اس دور میں موبائل کی دیوانگی نے بدتمیزی اور بدتہذیبی کی معاشرے میں جو تخم ریزی کی ہے وہ نہایت ہی افسوسناک اور شرمناک ہے، بس اللہ ہی خیر کرے؛
بہرحال جب تک موبائل کی لعنت { لعنت اس وقت ہے جب ہم اسے غلط استعمال کریں ، ورنہ اگر ارادہ نیک ہو تو یہی موبائل ہمارے لئے کیمیائی اثر رکھتا ہے اور مجسم نعمت ہے کہ اس کے اندر ٹھیکری کو سونا بنانے کی صلاحیت موجود ہے ، اگر پاس میں پیسے نہ ہوں ، ذرائع مسدود ہوں اور آپ دیارِ غربت میں ہوں تو آپ موبائل سے بیٹھے بیٹھے کتابوں اور دیوانوں کا کام لے سکتے ہیں اور الحمد للہ لینے والے لے بھی رہے ہیں ، آپ غریب و نادار کے حق میں اسی موبائل کے توسط سے آواز اٹھا کر قوم کی آواز بن سکتے ہیں ، الحمد للہ اس کی بھی ایک بڑی جماعت موجود ہے ، آج کے بیشتر نو آموز قلم کاروں کی قلم کاری اسی موبائل کی مرہونِ منت ہے ، لیکن بیشتر تعداد غلط استعمال کرنے والوں کی ہی ہے ، ان کی نظروں میں موبائل صرف گانے سننے اور فلمیں دیکھنے کا ایک کل پرزہ ہے اور انہیں اس کے اندر چھپے لعل و گہر سے کوئی سروکار نہیں } تاہم ٹک ٹاک یعنی برائیوں کے زہرافشاں ساگر کے آگے بند باندھ کر ہماری نسل کی بہت ساری نوخیز کلیوں کو مسلے جانے سے بچا لی گئیں ہیں، اور انہیں اپنے مستقبل کے سود و زیاں پر غور کرنے کا ایک موقع فراہم ہوا ہے؛
دعا ہیکہ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کرے ، سماج سے جہالت کی تاریکی کو دور کرے ، چراغِ علم کو فروزاں کرے ، اپنے دستِ قدرت سے نئی نسل کی آبیاری کرے ، تا کہ ہماری یہی نئی نسل پروان چڑھ کر اپنی قوم اور اپنے دین کے سپاہی بن کر قوم و ملت کی پاسبانی کے لئے تیار ہوسکے؛
ظفر امام ، کھجورباڑی
دارالعلوم بهادرگنج
کشن گنج ، بہار
🖊 ظفر امام
---------------------------------------------------------
سنا کہ فحاشی و عریانی اور بدکاری و بدنظری کو فروغ دینے والا ‘‘ ٹک ٹاک ‘‘ پر پابندی عائد کردی گئی ہے، وجہ چاہے جو بھی رہی ہو ، دو ملکوں کے باہمی نزاع و اختلاف کی حاصل ہو یا پھر سیاسی گلیاروں کی سیاست بازیوں کی ایک چال ، ہم تو الحمد للہ کہتے ہیں اور اپنے ربِ کریم کا بے حد شکر ادا کرتے ہیں کہ بہت اچھا ہوا ، ہم بھی یہی چاہتے تھے ، ورنہ تو اسے ہماری قوم کی نئی نسل کو مائیکل جیکسن اور سپنا چودھری بنا کر ہی چھوڑنا تھا ، کیا مرد کیا عورت ، کیا لڑکا کیا لڑکی ، کیا بچہ کیا بوڑھا ، کیا جوان کیا ادھیڑ ، کیا عالم کیا جاہل ، کیا پڑھا لکھا کیا اَن پڑھ ، کیا خاندانی کیا بازاری اور کیا شریف کیا خسیس سب اس ‘‘ ٹک ٹاک ‘‘ لعنت کے اتنے شوقین ، دلدادے اور دیوانے ہوچلے تھے کہ ہر گھر ہروقت اور ہر جیب ہر لمحہ ایک پیکرِ سنیما ہال بنی رہتی ، ساز و مزامیر اور طاؤس و رباب کی جھنکار در و دیوار اور اعضاء و جوارح کو ایسی تھرکاتی کہ مکان کے ساتھ مکیں کو بھی دنیا و مافیہا سے بےخبر کردیتی ، سب سے برا اور گہرا اثر جو اس نے ہمارے معاشرے پر ڈالا ہے وہ ہے تعلیم سے بےرغبتی ، ایجوکیشن سے تنفری ، قرآن و حدیث سے بے اعتنائی ، روزگاری سے دوری { جو کام کاج چھوڑ کر بس اسی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں } اور فحاشی کی ترقی ، ہمارے دودھ پیتے بچے جنہیں اپنی ممتا کے آنچل تلے اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام سیکھنا تھا ، اس کے پیارے دین کی رسیلی باتوں کو آویزۂ گوش بنانا تھا ، وہ ٹک ٹاک پر ناچنے والے ایکٹر اور اپنی جوانی کے جوبن دکھاکر لاکھوں کمانے والی ایکٹرہ کے نام کی مالا جپتے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس میں بہت حد تک ہاتھ ہمارے ماڈرن اور روشن خیال والدین کا بھی ہے ، جو اپنے بچوں کی ان باتوں سے نہ صرف یہ کہ خوشی کی بانسری بجاتے ہیں بلکہ نمائش کے طور پر انہیں زینتِ محفل بھی بناتے ہیں ، اور بچپن ہی سے ان کے ذہنوں میں دنیوی رنگ و آہنگ اور رعنائی و زیبائی کی ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے اور ان کے اندر ان چیزوں کا اس خوشنما انداز میں القاء کیا جاتا ہے کہ پھر وہ نونہالانِ قوم زندگی بھر انہی چیزوں کو اپنی فطرتِ ثانیہ بنالیتے ہیں ، اور رفتہ رفتہ ان کی یہ ہنگامی التذاذی کیفیت ان پر زہرِ ہلاہل کے طور پر اثر انداز ہونی شروع ہوجاتی ہے ، پھر نہ تو وہ مہذب دنیا والوں کی نظروں ہی میں مہذب بن پاتے ہیں اور نہ ہی آخرت میں خدا کے روبرو کامران و بامراد ہوپائینگے، اور ظلم در ظلم یہ کہ ہمارے نوجوان جب سونے کے لئے بستروں پر جاتے ہیں تو بجائے اس کے کہ سنت کے مطابق ‘‘ مسنون دعاؤں ‘‘ کا ورد کرتے ہوئے سوتے ، ٹک ٹاک کی دھوم تال ، اس کے مکروہ جوکس اور طوائفوں کے جسموں کے زیر و زبر پر جھومتے ہوئے آسودۂ خواب ہوتے ہیں؛
ویسے صرف ٹک ٹاک کے ختم ہوجانے سے معاشرے سے ساری برائیوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہوجاتا اور بھی بہت کچھ ہیں برائی کرنے کے لئے ، بلکہ ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ سراپا برائیوں ہی کا دور ہے ، زمانے کی آنکھوں نے شاید کبھی برائیوں کا ایسا برا دور نہیں دیکھا ہوگا ، ہم برائیوں کے سمندر کے عین وسط میں کھڑے ہیں اب جو کوئی اس کی تند و تیز لہروں اور قیامت خیز تھپیڑوں سے خود کو بچاتا ہوا ساحل تک بآسانی پہونچ گیا تو سمجھئے وہی بامراد ہے ، لیکن! حقیقت یہ ہیکہ اس موبائل نے ہزار میں سے صرف دس فیصد لوگوں کو ہی ان لہروں سے بچا کر رکھا ہوا ہے ، باقی سب اس کے بھنور میں پھنسے غوطہ کھا رہے ہیں ، اس موبائل نے رشتوں کے تقدس ، بڑے چھوٹے کے مابین پاسِ ادب اور ہر اچھی بری چیز کے نشانِ امتیاز کو پامال کر کے رکھ دیا ہے ، پورے کلچر کو زہر آلود بنا کر چھوڑ دیا ہے ، تہذیب و ثقافت کے راگ الاپنے والوں اور خود کو روشن خیال و مہذب تصور کرنے والوں کو فی الواقع تہذیب و تمدن سے اپاہج کر کے رکھ دیا ہے ، و اللہ اس وقت بہت تکلیف ہوتی ہے جب ایک قوم کا ہونہار بچہ فلمی شوق کی خاطر آوارہ گردی کی راہ پر چل پڑتا ہے ، اور یہ تکلیف اس وقت فزوں تر ہوجاتی ہے جب باپ بیٹے ، ماں بیٹی اور بھائی بہن ایک ساتھ مل بیٹھ کر گھروں میں فلم بینی کرتے ہیں ، اور اس کے شرمناک مناظر پر تالیاں پیٹتے ، قہقہے لگاتے اور باہم آنکھیں مٹکاتے ہیں ، اور پورے گھر کو آوارہ زار بنا کر رکھ دیتے ہیں ، کیا ہوگا اس قوم کا جس میں رشتوں کے تقدس کا خیال بھی پامال ہوجائے ، ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب عمر و مرتبے کا کوئی چھوٹا اپنی عمر و مرتبے سے بڑے کے سامنے چھینکنا بھی گناہ تصور کیا کرتا تھا ، اور ان کے آگے چلنا تو دور ان کے ہم دوش چلنے کو بھی تہذیب کے خلاف گردانتا تھا ، لیکن آج کے اس دور میں موبائل کی دیوانگی نے بدتمیزی اور بدتہذیبی کی معاشرے میں جو تخم ریزی کی ہے وہ نہایت ہی افسوسناک اور شرمناک ہے، بس اللہ ہی خیر کرے؛
بہرحال جب تک موبائل کی لعنت { لعنت اس وقت ہے جب ہم اسے غلط استعمال کریں ، ورنہ اگر ارادہ نیک ہو تو یہی موبائل ہمارے لئے کیمیائی اثر رکھتا ہے اور مجسم نعمت ہے کہ اس کے اندر ٹھیکری کو سونا بنانے کی صلاحیت موجود ہے ، اگر پاس میں پیسے نہ ہوں ، ذرائع مسدود ہوں اور آپ دیارِ غربت میں ہوں تو آپ موبائل سے بیٹھے بیٹھے کتابوں اور دیوانوں کا کام لے سکتے ہیں اور الحمد للہ لینے والے لے بھی رہے ہیں ، آپ غریب و نادار کے حق میں اسی موبائل کے توسط سے آواز اٹھا کر قوم کی آواز بن سکتے ہیں ، الحمد للہ اس کی بھی ایک بڑی جماعت موجود ہے ، آج کے بیشتر نو آموز قلم کاروں کی قلم کاری اسی موبائل کی مرہونِ منت ہے ، لیکن بیشتر تعداد غلط استعمال کرنے والوں کی ہی ہے ، ان کی نظروں میں موبائل صرف گانے سننے اور فلمیں دیکھنے کا ایک کل پرزہ ہے اور انہیں اس کے اندر چھپے لعل و گہر سے کوئی سروکار نہیں } تاہم ٹک ٹاک یعنی برائیوں کے زہرافشاں ساگر کے آگے بند باندھ کر ہماری نسل کی بہت ساری نوخیز کلیوں کو مسلے جانے سے بچا لی گئیں ہیں، اور انہیں اپنے مستقبل کے سود و زیاں پر غور کرنے کا ایک موقع فراہم ہوا ہے؛
دعا ہیکہ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ کرے ، سماج سے جہالت کی تاریکی کو دور کرے ، چراغِ علم کو فروزاں کرے ، اپنے دستِ قدرت سے نئی نسل کی آبیاری کرے ، تا کہ ہماری یہی نئی نسل پروان چڑھ کر اپنی قوم اور اپنے دین کے سپاہی بن کر قوم و ملت کی پاسبانی کے لئے تیار ہوسکے؛
ظفر امام ، کھجورباڑی
دارالعلوم بهادرگنج
کشن گنج ، بہار