بد نگاہی اور اس کے نقصانات
ازقلم : سلمان سعود نوادوی متعلم مدرسہ منبع العلوم خیرآباد مئو
اللہ نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ہرنعمت فی نفسہ بہت ہی اہم ناقابل فراموش ہے انہیں نعمتوں میں سے آنکھ اللہ ربّ العزت کی جانب سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے جس کی قدر کرنا ہمارے لیے واجبی فریضہ ہے یہ آنکھیں ایک طرح کی مشین ہیں اور یہ اللہ کی ایسی نعمت ہے کہ انسان اس کا تصور نہیں کرسکتا اور بے مانگیں مل گئی ہے اور مفت میں مل گئ ہے اس کے لیے نہ کوئی محنت کرنی پڑی اور نہ پیسہ خرچ کرنا پڑا اس لیے اس نعمت کی قدر نہیں ہے ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے جو اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں، نابینا ہیں، یا تو بینائی چلی گئ، یا جن کے پاس شروع سے ہی یہ نعمت نہیں ہے، ان سے پوچھیں کہ آنکھیں کیا چیز ہیں؟ اور خدا نا کرے کہ اگر بینائی میں کوئی خلل آنے لگے اور بینائی جاتی ہوئی معلوم ہونے لگے تو اس وقت معلوم ہوگا کہ ساری کائنات اندھیری ہوگئ اس کیلیے اور اس وقت انسان اپنی پوری دولت خرچ کرنے کے باوجود بھی یہ چاہے گا کہ مجھے یہ دولت حاصل ہوجائے لیکن یہ ممکن نہیں ہے اور یہ آنکھیں ایسی مشین ہیں کہ آج تک کوئی بھی حکومت کوئی بھی کمپنی کوئی بھی کارخانہ ایسی مشین تیار نہیں کرسکی، اور نہ کر سکے گی، اور تو اور ساری کائنات مل کر بھی اللہ ربّ العزت کی اس عظیم نعمت کے کسی حصہ کو بھی نہیں بنا سکتی،
اطباء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی آنکھ میں جو پتلی رکھی ہے یہ اندھیرے میں پھیلتی ہے اور روشنی میں سکڑ جاتی ہے جب آدمی اندھیرے سے روشنی میں آتا ہے یا روشنی سے اندھیرے میں جاتا ہے اس وقت یہ سکڑنے اور پھیلنے کا عمل ہوتا ہے اور اس سکڑنے اور پھیلنے میں آنکھ کے اعصاب سات میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں لیکن انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کیا بات ہوئی ایسی نعمت اللہ نے ہمیں اپنے کرم سے عطا کی ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس عظیم نعمت کی قدر کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں اور اس نعمت کا صحیح استعمال کریں کیونکہ انسانی آنکھیں جب بے لگام ہوجاتی ہیں تو اکثر فواحش کا سبب بن جاتی ہیں اس لیے محققین کے نزدیک بدنگاہی ام الخبائث کے مانند ہے ان دو راستوں سے ہی فتنوں کے چشمے ابلتے ہیں اور ماحول اور معاشرے میں عریانیت کے پھیلنے کا سبب بنتے ہیں اسلام نے ان دونوں راستوں پر پہرہ بٹھا دیا ہے یہ بھی اسلامی تعلیمات کا حسن و جمال ہے کہ ہر مؤمن کی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا کہ نہ ہی غیر محرم پر نظر پڑے اور نہ ہی شہوت کی آگ بھڑکے،
ایک قول ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری،
اصولی بات ہے کہ برائی کے اسباب مسدود ہوجائیں تو برائی سے بچنا ممکن ہوتا ہے،
عام مشاہدہ ہے کہ جن کی نگاہیں بے قابو ہوتی ہیں ان کے ہی اندر شہوت کی آگ زیادہ بھڑکتی ہے حتیٰ کی انہیں فحاشی کا مرتکب کروا دیتی ہے
بدنگاہی کرنے والا اللہ کا نافرمان ہوتا ہے بدنگاہی نص قطعی سے حرام ہے اللہ کا ارشاد ہے
آپ ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں یعنی نامحرم عورتوں اور لڑکوں کو نہ دیکھیں پس جو انسان نص قطعی کی مخالفت کرکے حرام کا مرتکب ہورہا ہے اس کے لئے بدنگاہی سے بچنے کیلیے یہ استحضار کافی ہے کہ بدنظری نص قطعی کی مخالفت ہے یعنی اللہ کی نافرمانی ہے
بدنگاہ امانت میں خیانت کرنے والا ہوتا ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں (ترجمہ) اللہ تعالی آنکھوں کی خیانت اور دل کے رازوں سے باخبر ہے جاننا چاہیے کہ ہم اپنی آنکھوں کے مالک نہیں ہیں بلکہ امین ہیں ان کی حفاظت کرنا ان کا صحیح استعمال کرنا برا دیکھنے سے اس کو بچانا یہ ہماری ذمہ داری ہے خود کشی کو تو اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ ہم اپنے جسم و جان کے مالک نہیں ہیں اللہ نے بطور امانت کے ہمیں عطا کیا ہے اور چونکہ یہ امانت ہے اس لیے مالک کی مرضی کے خلاف اس کواستعمال کرنا یا نقصان پہنچانا یا ختم کردینا جائز نہیں اگر ہم اپنے جسم و جان کے مالک ہوتے تو ہر چیز کے تصرف کا حق ہمیں حاصل ہوتا کیونکہ مالک کو اپنی ملکیت میں ہر چیز کا اختیار ہوتا ہے اللہ تعالی کو اپنے بندوں کو یہ اختیار نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جسم ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے اور مالک کی امانت میں خیانت کرنا جرم عظیم ہے آج ہم اس آنکھ کی کوئی اہمیت نہیں جانتے جو چاہے اس سے دیکھے گندی فلمیں ،گندی تصاویر اور بہت سی گندی چیزیں ہم اس سے دیکھتے ہیں یہ سب ہم اللہ کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرتے نہیں تو اور کیا کرتے ہیں بازاروں میں لڑکیوں کودیکھ کر ایسے آنکھ اٹھاکر دیکھتے ہیں مانو ہماری بہنیں ہی نا ہوں ہم نہ جانے آنکھ کو کہاں کہاں تک استعمال کردیتے ہیں اللہ ہی خیر کرے یاد رہے اللہ کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرنے والا شخص اللہ کا دوست اور محبوب نہیں بن سکتا جو بڑے خسارے کی بات ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہوگا کچھ سوچنا چاہیے
اللہ ہم سب لوگوں کو اپنی اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدنگاہی سے بچائے، اچھائ کی طرف ہماری نظریں پھیردے، اور مجھے بھی اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
از قلم سلمان سعود نوادوی متعلم مدرسہ منبع العلوم خیرآباد مئو
(ابتدائی تعلیم دارالعلوم تحفیظ القران سکٹھی مبارک پور)
ازقلم : سلمان سعود نوادوی متعلم مدرسہ منبع العلوم خیرآباد مئو
اللہ نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے اور ہرنعمت فی نفسہ بہت ہی اہم ناقابل فراموش ہے انہیں نعمتوں میں سے آنکھ اللہ ربّ العزت کی جانب سے عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے جس کی قدر کرنا ہمارے لیے واجبی فریضہ ہے یہ آنکھیں ایک طرح کی مشین ہیں اور یہ اللہ کی ایسی نعمت ہے کہ انسان اس کا تصور نہیں کرسکتا اور بے مانگیں مل گئی ہے اور مفت میں مل گئ ہے اس کے لیے نہ کوئی محنت کرنی پڑی اور نہ پیسہ خرچ کرنا پڑا اس لیے اس نعمت کی قدر نہیں ہے ان لوگوں سے پوچھنا چاہیے جو اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہیں، نابینا ہیں، یا تو بینائی چلی گئ، یا جن کے پاس شروع سے ہی یہ نعمت نہیں ہے، ان سے پوچھیں کہ آنکھیں کیا چیز ہیں؟ اور خدا نا کرے کہ اگر بینائی میں کوئی خلل آنے لگے اور بینائی جاتی ہوئی معلوم ہونے لگے تو اس وقت معلوم ہوگا کہ ساری کائنات اندھیری ہوگئ اس کیلیے اور اس وقت انسان اپنی پوری دولت خرچ کرنے کے باوجود بھی یہ چاہے گا کہ مجھے یہ دولت حاصل ہوجائے لیکن یہ ممکن نہیں ہے اور یہ آنکھیں ایسی مشین ہیں کہ آج تک کوئی بھی حکومت کوئی بھی کمپنی کوئی بھی کارخانہ ایسی مشین تیار نہیں کرسکی، اور نہ کر سکے گی، اور تو اور ساری کائنات مل کر بھی اللہ ربّ العزت کی اس عظیم نعمت کے کسی حصہ کو بھی نہیں بنا سکتی،
اطباء نے لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی آنکھ میں جو پتلی رکھی ہے یہ اندھیرے میں پھیلتی ہے اور روشنی میں سکڑ جاتی ہے جب آدمی اندھیرے سے روشنی میں آتا ہے یا روشنی سے اندھیرے میں جاتا ہے اس وقت یہ سکڑنے اور پھیلنے کا عمل ہوتا ہے اور اس سکڑنے اور پھیلنے میں آنکھ کے اعصاب سات میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں لیکن انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کیا بات ہوئی ایسی نعمت اللہ نے ہمیں اپنے کرم سے عطا کی ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس عظیم نعمت کی قدر کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں اور اس نعمت کا صحیح استعمال کریں کیونکہ انسانی آنکھیں جب بے لگام ہوجاتی ہیں تو اکثر فواحش کا سبب بن جاتی ہیں اس لیے محققین کے نزدیک بدنگاہی ام الخبائث کے مانند ہے ان دو راستوں سے ہی فتنوں کے چشمے ابلتے ہیں اور ماحول اور معاشرے میں عریانیت کے پھیلنے کا سبب بنتے ہیں اسلام نے ان دونوں راستوں پر پہرہ بٹھا دیا ہے یہ بھی اسلامی تعلیمات کا حسن و جمال ہے کہ ہر مؤمن کی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا کہ نہ ہی غیر محرم پر نظر پڑے اور نہ ہی شہوت کی آگ بھڑکے،
ایک قول ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری،
اصولی بات ہے کہ برائی کے اسباب مسدود ہوجائیں تو برائی سے بچنا ممکن ہوتا ہے،
عام مشاہدہ ہے کہ جن کی نگاہیں بے قابو ہوتی ہیں ان کے ہی اندر شہوت کی آگ زیادہ بھڑکتی ہے حتیٰ کی انہیں فحاشی کا مرتکب کروا دیتی ہے
بدنگاہی کرنے والا اللہ کا نافرمان ہوتا ہے بدنگاہی نص قطعی سے حرام ہے اللہ کا ارشاد ہے
آپ ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں یعنی نامحرم عورتوں اور لڑکوں کو نہ دیکھیں پس جو انسان نص قطعی کی مخالفت کرکے حرام کا مرتکب ہورہا ہے اس کے لئے بدنگاہی سے بچنے کیلیے یہ استحضار کافی ہے کہ بدنظری نص قطعی کی مخالفت ہے یعنی اللہ کی نافرمانی ہے
بدنگاہ امانت میں خیانت کرنے والا ہوتا ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں (ترجمہ) اللہ تعالی آنکھوں کی خیانت اور دل کے رازوں سے باخبر ہے جاننا چاہیے کہ ہم اپنی آنکھوں کے مالک نہیں ہیں بلکہ امین ہیں ان کی حفاظت کرنا ان کا صحیح استعمال کرنا برا دیکھنے سے اس کو بچانا یہ ہماری ذمہ داری ہے خود کشی کو تو اسی لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ ہم اپنے جسم و جان کے مالک نہیں ہیں اللہ نے بطور امانت کے ہمیں عطا کیا ہے اور چونکہ یہ امانت ہے اس لیے مالک کی مرضی کے خلاف اس کواستعمال کرنا یا نقصان پہنچانا یا ختم کردینا جائز نہیں اگر ہم اپنے جسم و جان کے مالک ہوتے تو ہر چیز کے تصرف کا حق ہمیں حاصل ہوتا کیونکہ مالک کو اپنی ملکیت میں ہر چیز کا اختیار ہوتا ہے اللہ تعالی کو اپنے بندوں کو یہ اختیار نہ دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جسم ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے اور مالک کی امانت میں خیانت کرنا جرم عظیم ہے آج ہم اس آنکھ کی کوئی اہمیت نہیں جانتے جو چاہے اس سے دیکھے گندی فلمیں ،گندی تصاویر اور بہت سی گندی چیزیں ہم اس سے دیکھتے ہیں یہ سب ہم اللہ کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرتے نہیں تو اور کیا کرتے ہیں بازاروں میں لڑکیوں کودیکھ کر ایسے آنکھ اٹھاکر دیکھتے ہیں مانو ہماری بہنیں ہی نا ہوں ہم نہ جانے آنکھ کو کہاں کہاں تک استعمال کردیتے ہیں اللہ ہی خیر کرے یاد رہے اللہ کی دی ہوئی امانت میں خیانت کرنے والا شخص اللہ کا دوست اور محبوب نہیں بن سکتا جو بڑے خسارے کی بات ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہوگا کچھ سوچنا چاہیے
اللہ ہم سب لوگوں کو اپنی اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدنگاہی سے بچائے، اچھائ کی طرف ہماری نظریں پھیردے، اور مجھے بھی اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
از قلم سلمان سعود نوادوی متعلم مدرسہ منبع العلوم خیرآباد مئو
(ابتدائی تعلیم دارالعلوم تحفیظ القران سکٹھی مبارک پور)