خاکی وردی
✍️قسیم اظہر
وہ جو کبھی ہمارے دل کا سرور اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہوا کرتی تھی،
وہ جوکبھی ہمارے قلب کی انگیٹھی کو اپنے عدل و انصاف کی حرارت سے سرد نہیں پڑنے دیتی تھی،
وہ جو کبھی ہمارے لبوں پہ مسکراہٹ اور فرحت کا سامان ہوا کرتی تھی،
وہ جو کبھی زندگی میں شب و روز کے پیچ و خم میں الجھےافراد کے سکون و قرار کا باعث ہوا کرتی تھی،
وہ جس کی آنکھیں بےکسوں کی حیات کے لیے چھلکتے ساغر تھیں،
وہ جو بھنور میں پھنسی کشتی کو ساحل سے لگانے والا ناخدا سمجھاجاتاتھا،
وہ جو معاشرے اور سماج میں برابری ومساوات کا حسین درس دیتا میر قافلہ ہواکرتاتھا،
وہ جس کے شیریں زبان سے دودھ کی بل کھاتی ندیاں بہتی تھیں۔
آج وہ حکومت کے کوٹھے پہ ناچنے والی طوائف بن چکی ہے، ایک ایسی طوائف، جو صرف مفاد پرستی کے گن گاتی ہے، جس کی جذبۂ مروت کو دوکھوٹے سکوں کے ذریعے خریدا جا سکتا ہے،
ایک تملقی مزاج سے ہم آہنگ سپاہی کے رویے پہ عمل پیراہے، ایک ایسا سپاہی جس کے ایمان فروشی کے قصے تاریخ کی کتابوں میں لرزہ براندام شرمندہ ہیں،
انسانیت نام پہ بدنماداغ بن چکاہے، کبھی نہ مٹنے والا ایک ایسا داغ، جو آپسی محبت میں خلیج پیدا کرتاہے،
جبر وتشدد سے لیس ظالم، ایک ایسا ظالم، جو اپنے ظلم واستبداد کے پنجے سےامن وآشتی کے درخشاں چہرے کو نوچ لیتاہے۔
جنابِ عالی!
میں کسی ایسے عاشق کی بات نہیں کررہا جسے اس کے معشوق نے دغا کا گلدستہ بطور اعزاز پیش کیاہو اور وہ اس_____ کامتحمل نہ ہو سکا۔
میں بات کر رہا ہوں پولیس جماعت کی جس کے خاکی وردی پہ کرسی نے اتنے چھید کیے کہ وہ دن کو رات اور رات کو دن سمجھنے لگیں،
جس کے قلب و ذہن میں نفرت کے اتنے نشتر چبھوئے گئے کہ وہ انسانوں سے جانور اور جانوروں سے انسانوں ساسلوک کرنا ہی اپنی انسانیت سمجھ بیٹھیں۔
قارئین! آج پولیس کو بھی صرف کہانیاں لکھنے کاشوق ہے، جرم کی ایسی کہانیاں جسے انسان پڑھ کے انسؤں کے چند قطرے بہا لے، اوربس_____
خاکی وردی کی بہادری، ایمانداری اور عدل و انصاف پہ بننے والی فلموں کی داستانیں محض افسانے ہیں جن کے کارنامے صرف پردے کے اسکرین تک ہی محدود ہے، جس کی ایمانداری کامشاہدہ زمینی سطح پہ غیر ممکن ہے۔
کیا ارطغرل جیسے سورماؤں کی جنگی بہادری اسکرین پر لانے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کوئی ارطغرل پیدا ہوا؟
ہاں مگر میرے سونے کی چڑیاں کی دھرتی پہ "ہیمنت کرکرے" جیسا پولیس افسر جنم لیتا ہے لیکن _____آہ بدبودارسیاست کی مٹی میں پلنے والے یہ کیسے برداشت کرتے؟
فی الحال گجرات میں ایک پولیس کانسٹیبل سنیتا یادو نے قفل بندی میں کھلے عام مٹر گشتی کررہے ایم ایل اے کے دلارے کو سمجھانے کی کوشش کی تو اسےبھی منہ کی کھانی پڑی۔
2017 سے اب تک لیڈی صحافی "نیہا دیکشت" کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ صرف یوپی میں 5000 انکاؤنٹر کیے گئے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انکاؤنٹر میں مارے گئے اکثر لوگ یا تو سموسابیچنے والے مڈل کلاس کے تھے یا ان پر کسی_____ چوری کا الزام تھا۔
مجرم کی واہ واہی اور ملزم کو ہراسمنٹ کرکے ان کی زندگی کو دوبھر کرنا ہی ان کا شیوہ ہے۔
کیا آپ کفیل خان کو نہیں دیکھتے؟ جو حیات جاوداں کا سراغ اور انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں!
کیا آپ جرنلزم کی طالبہ سعدیہ انور شیخ کو نہیں دیکھتے؟ جسے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا!
آج پولیس میں سے اکثریت کا کارنامہ رہا ہے کہ وہ اپنے کالے کرتوتوں کے کیچڑ میں کنول کھلائیں، جس سلطنت کی بنیاد شب خون، دنگے اورفساد پہ رکھی گئی ہو اسے مقدر کا سکندر اور شانتی وانتی کا پیکر قرار دیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ رات______ جب میں دہلی میں تتکال پروانۂ سفر کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہا تھا، غالباً ایک بج رہے تھے، میری آنکھوں میں بڑی پیاری گدگدی سی ہورہی تھی، لوگ پلاٹ فارم پہ اپنے تمام اعضاء کو زمین سے چپکائے نیند کی وجہ سے جسم کو ڈھیلاکرچکے تھے، رفاہی تنظیم کے کارکنان بھوکے سوئے لوگوں کو کھانا کھلا کر انسانیت کی مثال قائم کر رہے تھے، دوکانوں اور اسٹیشن کی بتیاں مدھم سی جلتی اردگرد کے تمام مقامات کو روشن کر رہی تھیں، خاموشی اور سنجیدگی چہار سو اپنے جلوے بکھیر رہی تھیں، کہ اچانک کسی کے رونے اور بلکنے کی درد بھری آواز نے ہماری آنکھوں کی نظر اور کانوں کی قوت سامعہ کو اپنی طرف کھینچ لیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پولیس اہلکار کسی مڈل کلاس شخص کو آہنی سریے سے بے تحاشا ماررہاتھا، اور وہ چیخے جارہاتھا، خاموش اور سنسان اسٹیشن کے پلیٹ فارم پہ اس کی چیخ اور بھی بھیانک معلوم ہوتی تھی "سر چھوڑ دیجئے______!
اب کبھی نہیں کریں گےسر______!
دراصل اس شخص نے چوری کی تھی جس کی وجہ سے ایک افسر سرعام اس کی ضرورت سے زیادہ دھلائی کر رہا تھا، اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ عوام کی زندگی سے کھلواڑ کرنے والے لیڈران کے تئیں یہ روش کیوں اختیار نہیں کی جاتی؟
مجھے یاد ہے وہ وقت جب پولیس، کشمیر کی فضا کو بارودی دھویں سے دھندلا کررہی تھیں،
مجھے یاد ہے جب پولیس خواتین کی چادر عصمت کو تارتار کرتی آباد بستیوں کو ویرانیوں میں تبدیل کررہی تھیں،
مجھے یاد ہے جب پولیس گجرات، مضفرنگر اور دہلی کے فسادات سے اپنے ہاتھوں میں خون کی مہندی لگارہی تھیں،
مجھے یادہے جب پولیس جامعہ کے لائیبریری میں مطالعہ کر رہے اسٹوڈنٹس کو اپنا نشانہ بنارہی تھیں،
ہاں مجھے علیگڑھ، ندوہ اور جےاین یو کے تمام حادثات یادہیں،
میں کن کن جگہوں کاذکر کروں جہاں انہوں نے فساد کا طوفان کھڑا نہ کیاہو؟ ہند کی ہر خطے کی سرزمین یہی شکوے کرتی نظر آئیں گی۔
مودی حکومت کےکارندوں کے کالے کارنامے کا پردہ چاک کرنے والی مشہور صحافی رعنا ایوب کی کتاب "گجرات فائلس" ان ہی حقائق پر مبنی نظر آتی ہے، جھوٹے الزام میں گرفتار کیے گئے، پولیس کی ظلم وستم کی چکی میں، اپنی زندگی کے گیارہ سال نیلام کردینے والے گجرات کے عالم دین مفتی عبدالقیوم قاسمی کی کتاب" گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے" اسی درد والم کا رونا روتی ہے۔
اور اسی ظلم و ستم کا نتیجہ ہے کہ وہی نازنیں جو کبھی ہمارے گوشۂ جگر میں بستی تھی، اسی کے گوشۂ جگر میں چبھنے کے لیے ہمارا خنجر آبدار بےتاب ہو رہا ہے، وہ اسی وقت ہمارے لئے مایۂ راحت وشادمانی ہے، جب تک اس کے قالب میں مساوات کی روح حرکت کر رہی ہو! ورنہ وہ مایۂ شر ہے، وہ اسی قابل ہے کہ ہماری نگاہوں سے دور رہیں۔
پہلے بھی کہاتھا اب بھی کہ رہاہوں کہ وہ جن سے الفت کی دل آویز مہک اٹھتی تھی اب ان سے دغا اور مکاری کی بو محسوس ہوتی ہے، ہائے غالب میں ان سے وفا کی امید کیسے کرلوں؟ جو انسان نما بھیڑیاہیں اور جنہیں وفا سے متعارف ہی نہیں کرایا گیا؟
جب کوئی اپنے فرض کو بھول کر ناز برداری اور غلامی کی طوق گلے میں ڈال لیتاہے تو اسے اپنے کیے گئے وعدے اور قسمیں یادنہیں رہتے، وہ ہر موڑ پہ عہد وفا کو توڑتے ہیں۔
ہمیں ان سے ہیں وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
✍️قسیم اظہر
وہ جو کبھی ہمارے دل کا سرور اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہوا کرتی تھی،
وہ جوکبھی ہمارے قلب کی انگیٹھی کو اپنے عدل و انصاف کی حرارت سے سرد نہیں پڑنے دیتی تھی،
وہ جو کبھی ہمارے لبوں پہ مسکراہٹ اور فرحت کا سامان ہوا کرتی تھی،
وہ جو کبھی زندگی میں شب و روز کے پیچ و خم میں الجھےافراد کے سکون و قرار کا باعث ہوا کرتی تھی،
وہ جس کی آنکھیں بےکسوں کی حیات کے لیے چھلکتے ساغر تھیں،
وہ جو بھنور میں پھنسی کشتی کو ساحل سے لگانے والا ناخدا سمجھاجاتاتھا،
وہ جو معاشرے اور سماج میں برابری ومساوات کا حسین درس دیتا میر قافلہ ہواکرتاتھا،
وہ جس کے شیریں زبان سے دودھ کی بل کھاتی ندیاں بہتی تھیں۔
آج وہ حکومت کے کوٹھے پہ ناچنے والی طوائف بن چکی ہے، ایک ایسی طوائف، جو صرف مفاد پرستی کے گن گاتی ہے، جس کی جذبۂ مروت کو دوکھوٹے سکوں کے ذریعے خریدا جا سکتا ہے،
ایک تملقی مزاج سے ہم آہنگ سپاہی کے رویے پہ عمل پیراہے، ایک ایسا سپاہی جس کے ایمان فروشی کے قصے تاریخ کی کتابوں میں لرزہ براندام شرمندہ ہیں،
انسانیت نام پہ بدنماداغ بن چکاہے، کبھی نہ مٹنے والا ایک ایسا داغ، جو آپسی محبت میں خلیج پیدا کرتاہے،
جبر وتشدد سے لیس ظالم، ایک ایسا ظالم، جو اپنے ظلم واستبداد کے پنجے سےامن وآشتی کے درخشاں چہرے کو نوچ لیتاہے۔
جنابِ عالی!
میں کسی ایسے عاشق کی بات نہیں کررہا جسے اس کے معشوق نے دغا کا گلدستہ بطور اعزاز پیش کیاہو اور وہ اس_____ کامتحمل نہ ہو سکا۔
میں بات کر رہا ہوں پولیس جماعت کی جس کے خاکی وردی پہ کرسی نے اتنے چھید کیے کہ وہ دن کو رات اور رات کو دن سمجھنے لگیں،
جس کے قلب و ذہن میں نفرت کے اتنے نشتر چبھوئے گئے کہ وہ انسانوں سے جانور اور جانوروں سے انسانوں ساسلوک کرنا ہی اپنی انسانیت سمجھ بیٹھیں۔
قارئین! آج پولیس کو بھی صرف کہانیاں لکھنے کاشوق ہے، جرم کی ایسی کہانیاں جسے انسان پڑھ کے انسؤں کے چند قطرے بہا لے، اوربس_____
خاکی وردی کی بہادری، ایمانداری اور عدل و انصاف پہ بننے والی فلموں کی داستانیں محض افسانے ہیں جن کے کارنامے صرف پردے کے اسکرین تک ہی محدود ہے، جس کی ایمانداری کامشاہدہ زمینی سطح پہ غیر ممکن ہے۔
کیا ارطغرل جیسے سورماؤں کی جنگی بہادری اسکرین پر لانے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں کوئی ارطغرل پیدا ہوا؟
ہاں مگر میرے سونے کی چڑیاں کی دھرتی پہ "ہیمنت کرکرے" جیسا پولیس افسر جنم لیتا ہے لیکن _____آہ بدبودارسیاست کی مٹی میں پلنے والے یہ کیسے برداشت کرتے؟
فی الحال گجرات میں ایک پولیس کانسٹیبل سنیتا یادو نے قفل بندی میں کھلے عام مٹر گشتی کررہے ایم ایل اے کے دلارے کو سمجھانے کی کوشش کی تو اسےبھی منہ کی کھانی پڑی۔
2017 سے اب تک لیڈی صحافی "نیہا دیکشت" کی رپورٹ یہ کہتی ہے کہ صرف یوپی میں 5000 انکاؤنٹر کیے گئے اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ انکاؤنٹر میں مارے گئے اکثر لوگ یا تو سموسابیچنے والے مڈل کلاس کے تھے یا ان پر کسی_____ چوری کا الزام تھا۔
مجرم کی واہ واہی اور ملزم کو ہراسمنٹ کرکے ان کی زندگی کو دوبھر کرنا ہی ان کا شیوہ ہے۔
کیا آپ کفیل خان کو نہیں دیکھتے؟ جو حیات جاوداں کا سراغ اور انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں!
کیا آپ جرنلزم کی طالبہ سعدیہ انور شیخ کو نہیں دیکھتے؟ جسے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا!
آج پولیس میں سے اکثریت کا کارنامہ رہا ہے کہ وہ اپنے کالے کرتوتوں کے کیچڑ میں کنول کھلائیں، جس سلطنت کی بنیاد شب خون، دنگے اورفساد پہ رکھی گئی ہو اسے مقدر کا سکندر اور شانتی وانتی کا پیکر قرار دیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ رات______ جب میں دہلی میں تتکال پروانۂ سفر کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہا تھا، غالباً ایک بج رہے تھے، میری آنکھوں میں بڑی پیاری گدگدی سی ہورہی تھی، لوگ پلاٹ فارم پہ اپنے تمام اعضاء کو زمین سے چپکائے نیند کی وجہ سے جسم کو ڈھیلاکرچکے تھے، رفاہی تنظیم کے کارکنان بھوکے سوئے لوگوں کو کھانا کھلا کر انسانیت کی مثال قائم کر رہے تھے، دوکانوں اور اسٹیشن کی بتیاں مدھم سی جلتی اردگرد کے تمام مقامات کو روشن کر رہی تھیں، خاموشی اور سنجیدگی چہار سو اپنے جلوے بکھیر رہی تھیں، کہ اچانک کسی کے رونے اور بلکنے کی درد بھری آواز نے ہماری آنکھوں کی نظر اور کانوں کی قوت سامعہ کو اپنی طرف کھینچ لیا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک پولیس اہلکار کسی مڈل کلاس شخص کو آہنی سریے سے بے تحاشا ماررہاتھا، اور وہ چیخے جارہاتھا، خاموش اور سنسان اسٹیشن کے پلیٹ فارم پہ اس کی چیخ اور بھی بھیانک معلوم ہوتی تھی "سر چھوڑ دیجئے______!
اب کبھی نہیں کریں گےسر______!
دراصل اس شخص نے چوری کی تھی جس کی وجہ سے ایک افسر سرعام اس کی ضرورت سے زیادہ دھلائی کر رہا تھا، اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ عوام کی زندگی سے کھلواڑ کرنے والے لیڈران کے تئیں یہ روش کیوں اختیار نہیں کی جاتی؟
مجھے یاد ہے وہ وقت جب پولیس، کشمیر کی فضا کو بارودی دھویں سے دھندلا کررہی تھیں،
مجھے یاد ہے جب پولیس خواتین کی چادر عصمت کو تارتار کرتی آباد بستیوں کو ویرانیوں میں تبدیل کررہی تھیں،
مجھے یاد ہے جب پولیس گجرات، مضفرنگر اور دہلی کے فسادات سے اپنے ہاتھوں میں خون کی مہندی لگارہی تھیں،
مجھے یادہے جب پولیس جامعہ کے لائیبریری میں مطالعہ کر رہے اسٹوڈنٹس کو اپنا نشانہ بنارہی تھیں،
ہاں مجھے علیگڑھ، ندوہ اور جےاین یو کے تمام حادثات یادہیں،
میں کن کن جگہوں کاذکر کروں جہاں انہوں نے فساد کا طوفان کھڑا نہ کیاہو؟ ہند کی ہر خطے کی سرزمین یہی شکوے کرتی نظر آئیں گی۔
مودی حکومت کےکارندوں کے کالے کارنامے کا پردہ چاک کرنے والی مشہور صحافی رعنا ایوب کی کتاب "گجرات فائلس" ان ہی حقائق پر مبنی نظر آتی ہے، جھوٹے الزام میں گرفتار کیے گئے، پولیس کی ظلم وستم کی چکی میں، اپنی زندگی کے گیارہ سال نیلام کردینے والے گجرات کے عالم دین مفتی عبدالقیوم قاسمی کی کتاب" گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے" اسی درد والم کا رونا روتی ہے۔
اور اسی ظلم و ستم کا نتیجہ ہے کہ وہی نازنیں جو کبھی ہمارے گوشۂ جگر میں بستی تھی، اسی کے گوشۂ جگر میں چبھنے کے لیے ہمارا خنجر آبدار بےتاب ہو رہا ہے، وہ اسی وقت ہمارے لئے مایۂ راحت وشادمانی ہے، جب تک اس کے قالب میں مساوات کی روح حرکت کر رہی ہو! ورنہ وہ مایۂ شر ہے، وہ اسی قابل ہے کہ ہماری نگاہوں سے دور رہیں۔
پہلے بھی کہاتھا اب بھی کہ رہاہوں کہ وہ جن سے الفت کی دل آویز مہک اٹھتی تھی اب ان سے دغا اور مکاری کی بو محسوس ہوتی ہے، ہائے غالب میں ان سے وفا کی امید کیسے کرلوں؟ جو انسان نما بھیڑیاہیں اور جنہیں وفا سے متعارف ہی نہیں کرایا گیا؟
جب کوئی اپنے فرض کو بھول کر ناز برداری اور غلامی کی طوق گلے میں ڈال لیتاہے تو اسے اپنے کیے گئے وعدے اور قسمیں یادنہیں رہتے، وہ ہر موڑ پہ عہد وفا کو توڑتے ہیں۔
ہمیں ان سے ہیں وفا کی امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے