اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: حیف ہے!! وہ بھی نہ چھوڑی تونے اے بادِ صبا از✍ احتشام الحق، مظاہری، کبیر نگری،

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 22 July 2020

حیف ہے!! وہ بھی نہ چھوڑی تونے اے بادِ صبا از✍ احتشام الحق، مظاہری، کبیر نگری،

حیف ہے!! وہ بھی نہ چھوڑی تونے اے بادِ صبا



                            از✍
    احتشام الحق، مظاہری، کبیر نگری،


ماہر علم و فن، حامل شریعت و طریقت ،  مشفق و مہربان، محبوب خلائق، جویان علم و تحقیق کے لئے سراپا کتب خانہ، سب کی عقیدت و عظمت کے یکساں مرکز رأس الاتقیاء، استاذ و مربی، حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب مظاہری ناظم اعلی جامعہ مظاہر علوم سہارنپور، نے بھی کل شام تقریبا ۵ بجے فرمانِ الٰہی (کل من علیھا فان) کے مطابق اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر دی، اور ایک زندگی سے دوسری زندگی میں منتقل ہو گئے ان کے چلے جانے سے فیوض و برکات کا ایک باب بند ہوگیا مگر انکے روحانی فیوض و برکات ان شاء اللہ باقی رہینگے،  حضرت الاستاذ ر  ح    نے جس ماحول میں انکھیں کھولیں وہاں تعلیم وتربیت ذکر و اذکار کا ہر وقت چرچا رہتا تھا ایسے ماحول میں فطرتاً حضرت کی تعلیم و تربیت پر خاص خیال رکھا گیا، اور آپ ر   ح   ،  نے بھی اپنی توجہ و تن دہی کے ساتھ عظیم تعلیمی، تربیتی، دعوتی، تبلیغی، روحانی، و عرفانی، ادارہ جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سے فراغت حاصل کی۔اور وہیں علوم دینیہ کی تکمیل کی اور سند فراغت سے نوازے گئے، حضرت، کے گھرانے کی علمی فضا اور جامعہ مظاہر علوم سے گہری عقیدت و محبت اور اس سے وابستگی، نیز آپ کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ذمہ داران مظاہر علوم نے آپ کے ذمہ درس و تدریس کی خدمت سپرد کی چنانچہ آپ۱۳۸۷ ھ   فراغت کے معاً بعد درس و تدریس میں مصروف ہو کر تشنگان علوم نبوت کو اپنی جاں سوز محنتوں کے ذریعہ علوم نبوت سے سیراب کرنے لگے اور ۱۳۹۲ھ میں پہلی مرتبہ جلالین شریف آپ کے متعلق رہی،
۱۳۹۶ھ میں استاذ حدیث بنائے گئے اور پہلی مرتبہ مشکوٰۃ شریف آپ کے زیر درس آئی، ماہ صفر ۱۴۱۳ھ مطابق اگست ۱۹۹۲ء میں مظاہرعلوم کی مجلس شوریٰ نے آپ کو باقاعدہ مظاہرعلوم سہارنپورکا نائب ناظم مقرر کیا اور پھر آپ کی حسن کارکردگی کی بنیاد پر ۱۳؍ربیع الاول ۱۴۱۷ھ مطابق۳۰؍جولائی ۱۹۹۶ء میں باقاعدہ عہدۂ نظامت تفویص کیا گیا، اس وقت مسلم شریف آپ کے زیر درس رہی بندے نے بھی مسلم شریف آپ ہی سے پڑھی ھے، آپ جامعہ میں عہدۂ نظامت پر فائز ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک محدث کی حیثیت سے بھی معروف تھے اور تاحیات اپنے تدریسی فرائض منصبی بحسن خوبی انجام دیتے رہے،
متبحر عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ آپ نے باطنی اصلاح کی طرف توجہ کی،،،لہٰذا آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت و اجازت حاصل کی،
آپ کے مشہور اساتذہ میں محدث جلیل حضرت مولانا شیخ محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ، استاذ العلماء حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا  مفتی مظفر حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ قابل ذکر ہیں،،،،،
آپ کو قدرت نے طبیعۃً غیر معمولی نفیس و نازک بنایا تھا، چنانچہ، آپ کی طبیعت میں نفاست بہت زیادہ تھی آپ ہمیشہ سادے مگر صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرتے، سر پر لمبی ٹوپی اس سادگی کو مزید دلکش بنا دیتی تھی، اخلاص وللٰہیت استقامت، و عزیمت، قدامت، اور حسن تدبیر کا آپ غیر معمولی سنگم تھے،  جو بات بھی فرماتے اس میں مندرجۂ بالا اوصاف حمیدہ بدرجۂ اتم موجود ہوتے تھے، طبیعت میں نزاکت غیر معمولی تھی چنانچہ غلط چیز دیکھ کر آپ کو کبھی بھی برداشت نہ ہوتا تھا آپ معمولی سے معمولی باتوں پر بھی طلبہ کو تنبیہ فرماتے اور عمل نہ ہونے پر آپ کو سخت ناگواری ہوتی، عالی ظرفی، بلند حوصلگی، اور وسعت قلبی تو آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی آپ کے قلب اور آپ کی زبان میں گہری یگانگت اور دائمی رفاقت تھی، یہی وجہ تھی کہ آپ جلوت و خلوت، میں ہمیشہ یکساں نظر آئے، کبھی بھی مختلف نھیں، آپ رسمی مصلحت اندیشی سے نہ صرف کوسوں دور رہے بلکہ تقریبا نا آشنا سے تھے، آپ جو بات فرماتے آپ کی زبان کے ساتھ آپ کا دل بھی وہی ادا کرتا،  طلبہ، اساتذہ  و ملازمین میں سے جس کسی کے متعلق جو کچھ رائے ہوتی اس میں زبان کے ساتھ آپ کا دل پورے طریقہ سے شریک ہوتا تھا،

طلبۂ عزیز کو، حضرت رحمۃ اللہ علیہ، تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کے اعلی مقام پر فائز دیکھنا چاہتے تھے اسی لئے آپ جس قدر توجہ کتاب کی تعلیم پر مبذول فرماتے اس سے کہیں زیادہ تربیت پر زور دیتے تھے، کبھی مسجدوں میں تو کبھی درسگاہوں میں، اساتذہ کے ذریعہ تو کبھی خود تربیتی اجلاس منعقد کرتے، دورانِ  تعلیم طلبہ جب کسی لغویات میں مشغول رہتے تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ، غبی دیندار طالب علم برداشت کیا جاسکتا ھے مگر ذکی، عقلمند اور ذہین بے دین طالب علم ہر گز ہر گز ناقابلِ برداشت ھے، اور نہ ہی ہو نا چاہئے، اس لئے آپ طلبہ کی اخلاقی حالات سنوارنے کے لئے اور عملی زندگی کو درست اور سنت نبوی  کے مطابق ڈھالنے کے لئے مسلسل نہ صرف کوشش کرتے رہتے تھے بلکہ اس کے لئے بعض اوقات سخت قوانین بنا کر ان پر عمل آوری کے بھی شدید خواہش مند رہتے تھے، آپ طلبہ کی قلت و کثرت کی طرف بالکل بھی تو جہ نھیں فرماتے تھے، کہ یہ مدرسہ صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے حصول کے لئے قائم کیا گیا ھے اس لئے طلبۂ عزیز کو اللہ جل جلالہ کی خوشنودی کی فکر کرنی چاہئے، اگر اسکے علاوہ کوئی اور مقصد ہے تو ایسے طالب علم کو یہاں سے چلے جانا چاہئے، ہم تکثیر کے بجائے افادیت کے قائل ہیں، کام کے طلبہ آئیں اگر چہ کم ہی ہوں، اگر طالب علم کو کتاب کے ساتھ ساتھ تربیت نہ دی گئی تو علم مفید نہ ہوگا، علم اور تربیت دونوں لازم ملزوم ہیں،، کتابی علم کے ساتھ تربیت کی طرف دھیان دینا چاہئے اگر صحیح تربیت مل گئی تو کامیاب کیونکہ اصل چیز اعمال و اخلاق ہیں اس کے بغیر علم بیکار ھے،

غرض،،، حضرت الاستاذ رحمۃ اللہ علیہ، اپنے طلبہ کو مکارم اخلاق کے اعلی نمونہ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے،،، یہی وجہ تھی کی نصیحت کرتے وقت حضرت کا عجیب حال  ہوجاتا تھا، وہ منظر آج بھی نظروں سے اوجھل نھیں ہوتا سوچ کر انکھوں میں بے اختیار آنسو آجاتے ہیں اللہ تعالی حضرت والا کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب فرمائے ،،،،،،،    آمین،،
لکھنا تو بہت چاہتا ہوں، مگر غم ہے کہ چھلک رہا ھے، صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ھے، دعا کریں کہ اللہ تعالی مظاہر علوم کے تمام طلبہ اساتذہ و ملازمین، اور حضرت کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے،      ان اللہ مع الصٰبرین،،،،،، 
اب تو حضرت الاستاذ ناظم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نھیں رہے، ان کی باتیں انکی یادیں انکی نصیحتیں رہ گئی ہیں ان کا نورانی چہرا جو ہر وقت میری آنکھوں میں کھومتا ھے اور آنسو بن کر وہ بھی انکھوں سے جدا ہو جا تاھے، اللہ حضرت والا کی مغفرت فرمائے، اور انکو شہداء و صالحین کی صف میں جگہ عطا فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے حوض کوثر نصیب فرمائے،،،  اس خلاء کو اپنے فضل و۔ کرم سے پورا فرمائے،،،،،،،   آمین یارب العالمین،،،،،،