علم وقیادت کا تابندہ ستارہ
اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی
اس جہان رنگ وبو میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن موت کی آغوش میں جاناہے، بلاشبہ موت ایسی حقیقت ہے جس سے کوٸی مفر نہیں، خداٸی فرمان ہے"کل نفسٍ ذاٸقة الموت" یہ الگ بات ہے کہ کسی کو موت بچپنے میں آجاتی ہے تو کسی کی جوانی میں، کسی کی کہولت میں، توکسی کی بڑھاپے میں، کسی کی اس سے بھی آگے جسے ارذل عمر سے تعبیر کیاجاتاہے، المختصر سبھی کوجاناہے جب وقت آجاٸے گا تو ایک لمحہ بھی مہلت کا موقع نہی ملے گا۔ارشاد ربانی ہے "فاذا جاٸھم لایستاخرون ساعة ولایستقدمون" جانے والوں میں ہر قسم کے افراد ہوتے ہیں، لیکن بعض جانے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے جانے سے پوری ملت سوگورا ہوجاتی ہے ان ہی افراد میں مولانا متین الحق اسامہ قاسمیؒ کی شخصیت ہے۔
مولانا متین الحق اسامہ قاسمیؒ کی شخصیت علما ٕ وعوام میں محتاج تعارف نہیں، آپ جمعیت علما ٕ اترپردیش کے صدر اور شہرقاضی کانپور تھے،اور بزرگوں کی امانتوں کے امین وقدر داں تھے۔
7مٸی/1967 کو کانپور سے ٨٠/کلومیٹر دور فتح پور کے ایک علمی ودینی گھرانے میں آنکھ کھولی، والد بزرگوار کانام مولانا مبین الحق قاسمیؒ ہے، ابتداٸی تعلیم گھر پر ہوٸی، فتح پور سے کانپور آنے پر والدہ نے نصف پارہ حفظ کراکے، جامع العلوم پٹکاپور میں بھیج دیا، پٹکاپور میں پڑھنے کے بعد آگے کے مراحل کے لٸے سرزمین دیوبند کی جانب رخ کیا، اور اور یہی دورہ حدیث تک تعلیم کی راہ پر چلتے ہوٸے1989 میں فراغت حاصل کی، یہاں پر آپ جن اکابر اساتذہ کے خوشہ چیں رہے، ان میں مولانا نصیراحمدخان صاحب بلند شھریؒ، شیخ عبدالحق اعظمیؒ، مفتی سعید پالنپوریؒ، مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ کی شخصیت نمایاں ہے۔
فراغت کے معاً بعد دارالعلوم میں ہی کٸی اراکین کی خواہش پر تقرری کی بات چل رہی تھی مجلس شوریٰ نے اس کے بارے میں آپ کے والد محترم سے گفت وشنید بھی کی لیکن والد صاحب کی نفی کے جواب میں کانپور چلے آٸے جامع العلوم پٹکاپور سمیت شہر کٸی مدرسوں میں تدریسی امور انجام دیتے رہے۔
آپ کے والد محترم جمعیت علما ٕ کانپور کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ جامع العلوم پٹکاپور میں ناظم تعلیمات، قاٸم مقام صدر مدرس، اور شیخ الحدیث کی مسند پر بھی تھے، اس کے علاوہ کم وبیش 35 سالوں تک جامع مسجد اشرف آباد میں امامت کے فراٸض انجام دیتے رہے، جب بیماری نے ان کو آپکڑا تو بہت سے حضرات کے اصرار کرنے پر امامت مولانا متین الحق صاحب کے سپرد کردی۔
17/سال قبل اسی مسجد میں جامعہ اشرف العلوم کا قیام بھی عمل میں آیا جس کی مختلف اضلاع کے اندر 53 شاخیں بھی ہیں۔ دینی علوم کے ساتھ آپ عصری علوم کے بھی فکرمند تھے اس کے لٸے آپ نے باقاعدہ عملی اقدامات بھی کٸے، ایک ادارہ "حق ایجوکيشن اینڈ ریسرچ فاٶنڈیش" قاٸم کیا اس کے علاوہ جدید فقہی مساٸل کے حل کے لٸے "کل ھند اسلامک علمی اکیڈمی" بھی قاٸم کی جسمیں کانپور کے علما ومفتی حضرات کو شامل کیا تھا، اس اکیڈمی کے آپ صدر بھی تھے۔
28جنوری/2016 کو مولانا ومفتی منظور احمد جونپوری ثم الکانبوریؒ نے آپ کو اپنا قاٸم مقام وجانشین بنایا۔ لوگ مشکل مساٸل میں آپ سے رجوع کرتے اور آپ ان کا تسلی بخش جواب دیتے۔ 4اکتوبر/2016 کو جمعیت علما اترپردیش کے صدر بھی منتخب کٸے گٸے۔
آپ نے اپنے دور صدارت میں خوب سے خوب تر ملک وملت کی خدمات انجام دیں۔
درس وتدریس، صدارت وقیادت سے جدا آپ خطابتی میدان کے عظیم شہسوار تھے ہر بات کو صاف لفظوں میں اور کھل کر کہنے سے جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے۔
29ستمبر/2019 کو جمعیت یوتھ کلب ضلع سہارنپور کی جانب سے دیوبند کے عیدگاہ گراٶنڈ میں منعقدہ کھیل کھود مسابقہ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لاٸے ہوٸے تھے جہاں پر آپ کی پہلی زیارت ہوٸی اور یہی آخری بھی ثابت ہوٸی لیکن افسوس کشیدگی کی وجہ سے مصافحہ کرنے کا موقع مل نہ سکا۔ جسم وجثہ کے اعتبار سے لحیم وجسیم، رنگ گورا، داڑھی گھنی، قد درمیانی تھا۔
17جولاٸی/ 2020 کو آپ کے صاحبزادے کی حوالے سے فیسبک پر یہ خبر پڑھنے کو ملی جسمیں لکھاتھا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے والد ماجد، جمعیۃ علماء صوبہ یوپی کے صدر حضرت مولانا محمد متین الحق اسامہ صاحب قاسمی کئی روز سے بخار میں مبتلا ہیں اور آج ان کا کورونا پازیٹیو نکلا ہے، شہر کے ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج چل رہا ہے۔
سبھی احباب و متعلقین سے والد ماجد کی صحت یابی کیلئے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔
والسلام
امین الحق عبداللہ کانپور
لیکن جب 18جولاٸی بروز سنیچر کو صبح فیسبک کھولا تو اسکرین پر یہ خبر گردش کرتے ہوٸے آٸی:
معروف عالمِ دین ومقرر، جمعیۃ علماے اتر پردیش کے صدر قاضئ شہر کانپور حضرت مولانا متین الحق اسامہ صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ ہیلیٹ ہاسپیٹل میں دارِ فانی سے دارِ بقاء کی طرف رحلت فرماگٸے۔(إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ)
اس مرگ ناگہانی پر یہ شعر قلم سے نکلنے کے لٸے بے چین ہورہاہے:
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
نماز جنازہ آپ کےبڑے صاحبزاے مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے پڑھاٸی بعدہ جامع مسجد اشرف آباد میں واقع قبرستان میں تدفین عمل میں آٸی۔۔
اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت کاملہ فرماٸے، پسماندگان کو صبر جمیل عطافرماٸے، اور ملت کو آپ کا نعم البدل عطافرماٸے۔۔۔آمین
اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی
اس جہان رنگ وبو میں جو بھی آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن موت کی آغوش میں جاناہے، بلاشبہ موت ایسی حقیقت ہے جس سے کوٸی مفر نہیں، خداٸی فرمان ہے"کل نفسٍ ذاٸقة الموت" یہ الگ بات ہے کہ کسی کو موت بچپنے میں آجاتی ہے تو کسی کی جوانی میں، کسی کی کہولت میں، توکسی کی بڑھاپے میں، کسی کی اس سے بھی آگے جسے ارذل عمر سے تعبیر کیاجاتاہے، المختصر سبھی کوجاناہے جب وقت آجاٸے گا تو ایک لمحہ بھی مہلت کا موقع نہی ملے گا۔ارشاد ربانی ہے "فاذا جاٸھم لایستاخرون ساعة ولایستقدمون" جانے والوں میں ہر قسم کے افراد ہوتے ہیں، لیکن بعض جانے والے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے جانے سے پوری ملت سوگورا ہوجاتی ہے ان ہی افراد میں مولانا متین الحق اسامہ قاسمیؒ کی شخصیت ہے۔
مولانا متین الحق اسامہ قاسمیؒ کی شخصیت علما ٕ وعوام میں محتاج تعارف نہیں، آپ جمعیت علما ٕ اترپردیش کے صدر اور شہرقاضی کانپور تھے،اور بزرگوں کی امانتوں کے امین وقدر داں تھے۔
7مٸی/1967 کو کانپور سے ٨٠/کلومیٹر دور فتح پور کے ایک علمی ودینی گھرانے میں آنکھ کھولی، والد بزرگوار کانام مولانا مبین الحق قاسمیؒ ہے، ابتداٸی تعلیم گھر پر ہوٸی، فتح پور سے کانپور آنے پر والدہ نے نصف پارہ حفظ کراکے، جامع العلوم پٹکاپور میں بھیج دیا، پٹکاپور میں پڑھنے کے بعد آگے کے مراحل کے لٸے سرزمین دیوبند کی جانب رخ کیا، اور اور یہی دورہ حدیث تک تعلیم کی راہ پر چلتے ہوٸے1989 میں فراغت حاصل کی، یہاں پر آپ جن اکابر اساتذہ کے خوشہ چیں رہے، ان میں مولانا نصیراحمدخان صاحب بلند شھریؒ، شیخ عبدالحق اعظمیؒ، مفتی سعید پالنپوریؒ، مولانا ریاست علی ظفر بجنوریؒ کی شخصیت نمایاں ہے۔
فراغت کے معاً بعد دارالعلوم میں ہی کٸی اراکین کی خواہش پر تقرری کی بات چل رہی تھی مجلس شوریٰ نے اس کے بارے میں آپ کے والد محترم سے گفت وشنید بھی کی لیکن والد صاحب کی نفی کے جواب میں کانپور چلے آٸے جامع العلوم پٹکاپور سمیت شہر کٸی مدرسوں میں تدریسی امور انجام دیتے رہے۔
آپ کے والد محترم جمعیت علما ٕ کانپور کے صدر ہونے کے ساتھ ساتھ جامع العلوم پٹکاپور میں ناظم تعلیمات، قاٸم مقام صدر مدرس، اور شیخ الحدیث کی مسند پر بھی تھے، اس کے علاوہ کم وبیش 35 سالوں تک جامع مسجد اشرف آباد میں امامت کے فراٸض انجام دیتے رہے، جب بیماری نے ان کو آپکڑا تو بہت سے حضرات کے اصرار کرنے پر امامت مولانا متین الحق صاحب کے سپرد کردی۔
17/سال قبل اسی مسجد میں جامعہ اشرف العلوم کا قیام بھی عمل میں آیا جس کی مختلف اضلاع کے اندر 53 شاخیں بھی ہیں۔ دینی علوم کے ساتھ آپ عصری علوم کے بھی فکرمند تھے اس کے لٸے آپ نے باقاعدہ عملی اقدامات بھی کٸے، ایک ادارہ "حق ایجوکيشن اینڈ ریسرچ فاٶنڈیش" قاٸم کیا اس کے علاوہ جدید فقہی مساٸل کے حل کے لٸے "کل ھند اسلامک علمی اکیڈمی" بھی قاٸم کی جسمیں کانپور کے علما ومفتی حضرات کو شامل کیا تھا، اس اکیڈمی کے آپ صدر بھی تھے۔
28جنوری/2016 کو مولانا ومفتی منظور احمد جونپوری ثم الکانبوریؒ نے آپ کو اپنا قاٸم مقام وجانشین بنایا۔ لوگ مشکل مساٸل میں آپ سے رجوع کرتے اور آپ ان کا تسلی بخش جواب دیتے۔ 4اکتوبر/2016 کو جمعیت علما اترپردیش کے صدر بھی منتخب کٸے گٸے۔
آپ نے اپنے دور صدارت میں خوب سے خوب تر ملک وملت کی خدمات انجام دیں۔
درس وتدریس، صدارت وقیادت سے جدا آپ خطابتی میدان کے عظیم شہسوار تھے ہر بات کو صاف لفظوں میں اور کھل کر کہنے سے جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے۔
29ستمبر/2019 کو جمعیت یوتھ کلب ضلع سہارنپور کی جانب سے دیوبند کے عیدگاہ گراٶنڈ میں منعقدہ کھیل کھود مسابقہ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے تشریف لاٸے ہوٸے تھے جہاں پر آپ کی پہلی زیارت ہوٸی اور یہی آخری بھی ثابت ہوٸی لیکن افسوس کشیدگی کی وجہ سے مصافحہ کرنے کا موقع مل نہ سکا۔ جسم وجثہ کے اعتبار سے لحیم وجسیم، رنگ گورا، داڑھی گھنی، قد درمیانی تھا۔
17جولاٸی/ 2020 کو آپ کے صاحبزادے کی حوالے سے فیسبک پر یہ خبر پڑھنے کو ملی جسمیں لکھاتھا:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میرے والد ماجد، جمعیۃ علماء صوبہ یوپی کے صدر حضرت مولانا محمد متین الحق اسامہ صاحب قاسمی کئی روز سے بخار میں مبتلا ہیں اور آج ان کا کورونا پازیٹیو نکلا ہے، شہر کے ماہر ڈاکٹروں کی نگرانی میں علاج چل رہا ہے۔
سبھی احباب و متعلقین سے والد ماجد کی صحت یابی کیلئے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔
والسلام
امین الحق عبداللہ کانپور
لیکن جب 18جولاٸی بروز سنیچر کو صبح فیسبک کھولا تو اسکرین پر یہ خبر گردش کرتے ہوٸے آٸی:
معروف عالمِ دین ومقرر، جمعیۃ علماے اتر پردیش کے صدر قاضئ شہر کانپور حضرت مولانا متین الحق اسامہ صاحب قاسمی نوراللہ مرقدہ ہیلیٹ ہاسپیٹل میں دارِ فانی سے دارِ بقاء کی طرف رحلت فرماگٸے۔(إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ)
اس مرگ ناگہانی پر یہ شعر قلم سے نکلنے کے لٸے بے چین ہورہاہے:
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
نماز جنازہ آپ کےبڑے صاحبزاے مولانا امین الحق عبداللہ قاسمی نے پڑھاٸی بعدہ جامع مسجد اشرف آباد میں واقع قبرستان میں تدفین عمل میں آٸی۔۔
اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت کاملہ فرماٸے، پسماندگان کو صبر جمیل عطافرماٸے، اور ملت کو آپ کا نعم البدل عطافرماٸے۔۔۔آمین