لاک ڈاون مدارس اسلامیہ کے اساتذہ و ائمہ کرام کی حالت زار
ازقلم:- محمد دلشاد قاسمی (ایم اے فاضل)
صحافی I.N.A news شاملی/ باغپت
بخدمت حضرات علماء عظام و دانشوران قوم، خصوصاً جمعیة علماء ہند کے صدر محترم و ناظم عمومی صاحبان، و ضلعی سطح کے صدور و نظماء
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کرتا ہوں کہ اٰنحضور کے مزاج عالی بخیر و عافیت سے ہوں گے
بعدہ سلام مسنون عرض اینکہ میں اپنی جماعت کے احباب کے درد دل اور حالت زار رکھنے کی جسارت کررہا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ اٰپ نائبین انبیاء کی حالت زار پر رحم کھا کر کچھ لائحہ عمل طے کریں گے،
کرونا وائرس مہماری کے نام پر جو پوری دنیا میں کھیل کھیلا گیا اور جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہیں، حکومتوں نے اپنے ناجائز رعب و ہیبت کا استعمال کرتے ہوئے جس چیز کو چاہا بند کرایا جس کو چاہا چلنے دیا، لاک ڈاون نافذ ہونے کے بعد سے تمام دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ملک ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کو بند کردیا گیا، چہ جائے حکومتوں نے لوگوں کو دلاسا دینے کے لیے اٰن لائن کلاسز کے نام پر ایک مشن بھی چلایا جس کو کچھ اسکولوں و کالج نے فالو کیا، لیکن مدارس اسلامیہ میں ایسا بالکل بھی ممکن نہیں تھا اور نہ ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ بات واضح ہے ہیکہ زہر کم ہو یا زیادہ اس سے فائدہ کا متلاشی ہونا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں، اب لاک ڈاون کے چلتے کچھ مدارس کے ذمہ داران و مسجد کے متولیان نے یہ قدم اٹھایا کہ جن اساتذہ و ائمہ کو نائبین انبیاء کہتے کہتے تھکتے نہیں، ان کا استعفیٰ کردیا گیا اور یہ کہہ دیا گیا کہ جب ضرورت ہوگی، ہم اٰپ کو بلالیں گے، گویا کہ کام نکل گیا اب پہچانتے ہی نہیں ،کچھ مدارس نے یہ کرم فرمائی کی کہ مارچ اپریل اور مئی تک کی تنخواہیں مدرسین کو دیدی، اور اٰگے انہوں نے بھی یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ جب چندہ ہی نہیں ہوا تو تنخواہیں کہاں سے ادا کریں، اور چند گنیں چنیں مدارس نے یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ جتنی تنخواہیں وقت پر مل رہی ہے ان کو لیتے رہو، ویسے اٰپ ہمارے مدرسین برقرار ہیں اور نہ ہم اٰپ کی تنخواہیں کاٹیں گے، بس جیسے مدرسہ اٰپ کا خیال رکھ رہا ہے اٰپ بھی مدرسہ کا خیال رکھیں مطلب کہ چندہ کرکے لاوگے تو اٰپ کو کچھ مل سکتا ہے ورنہ تو بیٹھے رہو اٰرام سے
اب اٰن لاک 1.0 کے شروع ہوتے ہوتے کچھ مفکر علماء نے یہ مشورہ دینا شروع کردیا کہ علماء و ائمہ کو مدارس اور مساجد پر ہی تکیہ نہیں کرلینا چاہیے بلکہ کچھ اپنا چھوٹا موٹا کاروبار بھی شروع کرنا چاہیے، کچھ مدرسین نے دارالعلوم دیوبند اور دیگر جامع مدارس اسلامیہ کی دارالافتاء سے یہ فتویٰ جاری کرالیا کہ لاک ڈاون کے زمانے میں مدارس اسلامیہ کو مدرسین کی تنخواہیں ادا کرنی چاہیے، بہر حال یہ سب کچھ ہوا ان کے ساتھ جن کو نائبین انبیاء وارثین انبیاء کے القاب دیتے دیتے ہماری زبانیں تھکتی نہیں ہے،
اب اٰن لاک 2.0 چلا ہوا ہے، اور وزیر اعظم نے مفت اناج و راشن کی چلی اسکیم کو نومبر ماہ تک بڑھادیا، تو بالکل یہ پختہ بات ہے کہ مدارس اسلامیہ کا ابھی نومبر ماہ کے بعد کھلنا ممکن ہے اس سے پہلے کے خواب دیکھنا بالکل ہی بیجا ہے،
اب چند سوال اٰپ کی خدمت میں ہیں
1:- کیا وہ جماعت جس کو نائبین انبیاء و واثین انبیاء کہا جاتا ہے، اب کوئی دوسرا کاروبار شروع کرلیں؟
2:- پھر یہ مدارس اسلامیہ کا کیا بنیں، اور ان مساجد کا کیا ہو؟
3:- کیا جمعیة علماء ہند ان تمام مدرسین و ائمہ کے لیے کوئی ایسا عملی اقدام کرے گی، جس سے کم از کم ان کے گھر میں چولہا چلتا رہے اور دو وقت کا کھانا میسر ہوتا رہے؟
کیونکہ جمعیة علماء ہند کی ایک مستقل تاریخ ہے جو پسماندہ طبقہ کے لیے جو بلا مذہب و ملت ان کی پریشانی میں کھڑی رہتی ہے، اور جب کہ حالات و پریشانی خود انہی کے نام لیوا علماء و ائمہ پر اٰئی ہے،تو ان کے ساتھ کھڑا ہونا اور ان کی پریشانیوں حل تلاشنا یہ مزید اہم ہے
4:- کیا وہ علماء و دانشوران جو مشورہ دیتے ہیں کاروبار کرنے کے، تو کیا وہ کوئی منظم کاروبار شروع کرکے ان مدرسین و ائمہ کو اپنے یہاں اجرت پر رکھیں گے،؟
کیونکہ یہ حقیقت ہے بغیر پیسے و سرمایہ کے کوئی کاروبار ممکن ہی نہیں ہے! اور پھر یہ بھی بات واضح کردینا مناسب سمجھتا ہوں وہ کونسا ایسا مدرسہ اور مسجد ہے، جس میں یہ علماء خدمت بھی انجام دیتے رہیں اور اپنا کاروبار بھی کرتے رہیں، الا ماشاء اللہ وہ بھی بہت شاذ و نادر ، ورنہ سب 5 / 6 ہزار کی تنخواہیں دیکر یہ چاہتے ہیں کہ اب یہ نائبین انبیاء و وارثین انبیاء ہماری تمام خدمات انجام دیں، اور ایک پل کے لیے بھی اٰنکھوں سے اوجھل نہ بہت تو پھر بتائیے کہ کاروبار کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
5 :-کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جب تین چار ماہ کے اندر یہ حالات ہوچکے ہیں اٰگے تو پانچ ماہ اور مدارس اسلامیہ نہیں کھلیں گے، اور نہ ہی مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھے گی، اور اسی بات کو بہانا بنا کر مدرسین و ائمہ کے استعفیٰ کیے گئے تھے، تو ان کی بحالی نومبر ماہ سے پہلے تو بہت ہی ناممکن سی بات ہے، تو اس وقت تک کے لیے اگر یہ ائمہ و مدرسین کوئی کاروبار شروع کرے تو پاس میں پیسہ نہیں ،اور اگر کہیں مزدوری وغیرہ کریں تو یہ ان کے شایان شان نہیں تو مرے تو کہاں جاکر مرے،
اس لیے اٰپ تمام ذمہ داران ملت اسلامیہ سے بہت ہی دکھ کے ساتھ یہ اپیل ہے کہ اٰپ ان علماء و ائمہ کے بارے میں کچھ غور و فکر کریں ورنہ نہ معلوم معاشرہ میں تو ویسے ہی دینی تعلیم کا فقدان ہے، ان حالات کو دیکھ کر یہ مدرسین و ائمہ بھی اپنی اولادوں کو مدارس اسلامیہ کی طرف بھیجنے سے کترانے لگے، اور پھر چاہے کتنی کوششیں کرلینا کہ یہ اس طرف متوجہ ہوجائیں ،بہت ہی ناممکن ہے کہ وہ اس تعلیم کے بارے میں سوچیں،
فکر کیجئے؟ کچھ حل تلاش کیجئے؟ نائبین انبیاء و وارثین انبیاء و ائمہ وعلماء کرام کے لیے،
ازقلم:- محمد دلشاد قاسمی (ایم اے فاضل)
صحافی I.N.A news شاملی/ باغپت
ازقلم:- محمد دلشاد قاسمی (ایم اے فاضل)
صحافی I.N.A news شاملی/ باغپت
بخدمت حضرات علماء عظام و دانشوران قوم، خصوصاً جمعیة علماء ہند کے صدر محترم و ناظم عمومی صاحبان، و ضلعی سطح کے صدور و نظماء
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کرتا ہوں کہ اٰنحضور کے مزاج عالی بخیر و عافیت سے ہوں گے
بعدہ سلام مسنون عرض اینکہ میں اپنی جماعت کے احباب کے درد دل اور حالت زار رکھنے کی جسارت کررہا ہوں، اس امید کے ساتھ کہ اٰپ نائبین انبیاء کی حالت زار پر رحم کھا کر کچھ لائحہ عمل طے کریں گے،
کرونا وائرس مہماری کے نام پر جو پوری دنیا میں کھیل کھیلا گیا اور جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہیں، حکومتوں نے اپنے ناجائز رعب و ہیبت کا استعمال کرتے ہوئے جس چیز کو چاہا بند کرایا جس کو چاہا چلنے دیا، لاک ڈاون نافذ ہونے کے بعد سے تمام دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ملک ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کو بند کردیا گیا، چہ جائے حکومتوں نے لوگوں کو دلاسا دینے کے لیے اٰن لائن کلاسز کے نام پر ایک مشن بھی چلایا جس کو کچھ اسکولوں و کالج نے فالو کیا، لیکن مدارس اسلامیہ میں ایسا بالکل بھی ممکن نہیں تھا اور نہ ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ بات واضح ہے ہیکہ زہر کم ہو یا زیادہ اس سے فائدہ کا متلاشی ہونا بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں، اب لاک ڈاون کے چلتے کچھ مدارس کے ذمہ داران و مسجد کے متولیان نے یہ قدم اٹھایا کہ جن اساتذہ و ائمہ کو نائبین انبیاء کہتے کہتے تھکتے نہیں، ان کا استعفیٰ کردیا گیا اور یہ کہہ دیا گیا کہ جب ضرورت ہوگی، ہم اٰپ کو بلالیں گے، گویا کہ کام نکل گیا اب پہچانتے ہی نہیں ،کچھ مدارس نے یہ کرم فرمائی کی کہ مارچ اپریل اور مئی تک کی تنخواہیں مدرسین کو دیدی، اور اٰگے انہوں نے بھی یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ جب چندہ ہی نہیں ہوا تو تنخواہیں کہاں سے ادا کریں، اور چند گنیں چنیں مدارس نے یہ کہہ کر تسلی دی ہے کہ جتنی تنخواہیں وقت پر مل رہی ہے ان کو لیتے رہو، ویسے اٰپ ہمارے مدرسین برقرار ہیں اور نہ ہم اٰپ کی تنخواہیں کاٹیں گے، بس جیسے مدرسہ اٰپ کا خیال رکھ رہا ہے اٰپ بھی مدرسہ کا خیال رکھیں مطلب کہ چندہ کرکے لاوگے تو اٰپ کو کچھ مل سکتا ہے ورنہ تو بیٹھے رہو اٰرام سے
اب اٰن لاک 1.0 کے شروع ہوتے ہوتے کچھ مفکر علماء نے یہ مشورہ دینا شروع کردیا کہ علماء و ائمہ کو مدارس اور مساجد پر ہی تکیہ نہیں کرلینا چاہیے بلکہ کچھ اپنا چھوٹا موٹا کاروبار بھی شروع کرنا چاہیے، کچھ مدرسین نے دارالعلوم دیوبند اور دیگر جامع مدارس اسلامیہ کی دارالافتاء سے یہ فتویٰ جاری کرالیا کہ لاک ڈاون کے زمانے میں مدارس اسلامیہ کو مدرسین کی تنخواہیں ادا کرنی چاہیے، بہر حال یہ سب کچھ ہوا ان کے ساتھ جن کو نائبین انبیاء وارثین انبیاء کے القاب دیتے دیتے ہماری زبانیں تھکتی نہیں ہے،
اب اٰن لاک 2.0 چلا ہوا ہے، اور وزیر اعظم نے مفت اناج و راشن کی چلی اسکیم کو نومبر ماہ تک بڑھادیا، تو بالکل یہ پختہ بات ہے کہ مدارس اسلامیہ کا ابھی نومبر ماہ کے بعد کھلنا ممکن ہے اس سے پہلے کے خواب دیکھنا بالکل ہی بیجا ہے،
اب چند سوال اٰپ کی خدمت میں ہیں
1:- کیا وہ جماعت جس کو نائبین انبیاء و واثین انبیاء کہا جاتا ہے، اب کوئی دوسرا کاروبار شروع کرلیں؟
2:- پھر یہ مدارس اسلامیہ کا کیا بنیں، اور ان مساجد کا کیا ہو؟
3:- کیا جمعیة علماء ہند ان تمام مدرسین و ائمہ کے لیے کوئی ایسا عملی اقدام کرے گی، جس سے کم از کم ان کے گھر میں چولہا چلتا رہے اور دو وقت کا کھانا میسر ہوتا رہے؟
کیونکہ جمعیة علماء ہند کی ایک مستقل تاریخ ہے جو پسماندہ طبقہ کے لیے جو بلا مذہب و ملت ان کی پریشانی میں کھڑی رہتی ہے، اور جب کہ حالات و پریشانی خود انہی کے نام لیوا علماء و ائمہ پر اٰئی ہے،تو ان کے ساتھ کھڑا ہونا اور ان کی پریشانیوں حل تلاشنا یہ مزید اہم ہے
4:- کیا وہ علماء و دانشوران جو مشورہ دیتے ہیں کاروبار کرنے کے، تو کیا وہ کوئی منظم کاروبار شروع کرکے ان مدرسین و ائمہ کو اپنے یہاں اجرت پر رکھیں گے،؟
کیونکہ یہ حقیقت ہے بغیر پیسے و سرمایہ کے کوئی کاروبار ممکن ہی نہیں ہے! اور پھر یہ بھی بات واضح کردینا مناسب سمجھتا ہوں وہ کونسا ایسا مدرسہ اور مسجد ہے، جس میں یہ علماء خدمت بھی انجام دیتے رہیں اور اپنا کاروبار بھی کرتے رہیں، الا ماشاء اللہ وہ بھی بہت شاذ و نادر ، ورنہ سب 5 / 6 ہزار کی تنخواہیں دیکر یہ چاہتے ہیں کہ اب یہ نائبین انبیاء و وارثین انبیاء ہماری تمام خدمات انجام دیں، اور ایک پل کے لیے بھی اٰنکھوں سے اوجھل نہ بہت تو پھر بتائیے کہ کاروبار کیسے ممکن ہوسکتا ہے؟
5 :-کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ جب تین چار ماہ کے اندر یہ حالات ہوچکے ہیں اٰگے تو پانچ ماہ اور مدارس اسلامیہ نہیں کھلیں گے، اور نہ ہی مساجد میں نمازیوں کی تعداد بڑھے گی، اور اسی بات کو بہانا بنا کر مدرسین و ائمہ کے استعفیٰ کیے گئے تھے، تو ان کی بحالی نومبر ماہ سے پہلے تو بہت ہی ناممکن سی بات ہے، تو اس وقت تک کے لیے اگر یہ ائمہ و مدرسین کوئی کاروبار شروع کرے تو پاس میں پیسہ نہیں ،اور اگر کہیں مزدوری وغیرہ کریں تو یہ ان کے شایان شان نہیں تو مرے تو کہاں جاکر مرے،
اس لیے اٰپ تمام ذمہ داران ملت اسلامیہ سے بہت ہی دکھ کے ساتھ یہ اپیل ہے کہ اٰپ ان علماء و ائمہ کے بارے میں کچھ غور و فکر کریں ورنہ نہ معلوم معاشرہ میں تو ویسے ہی دینی تعلیم کا فقدان ہے، ان حالات کو دیکھ کر یہ مدرسین و ائمہ بھی اپنی اولادوں کو مدارس اسلامیہ کی طرف بھیجنے سے کترانے لگے، اور پھر چاہے کتنی کوششیں کرلینا کہ یہ اس طرف متوجہ ہوجائیں ،بہت ہی ناممکن ہے کہ وہ اس تعلیم کے بارے میں سوچیں،
فکر کیجئے؟ کچھ حل تلاش کیجئے؟ نائبین انبیاء و وارثین انبیاء و ائمہ وعلماء کرام کے لیے،
ازقلم:- محمد دلشاد قاسمی (ایم اے فاضل)
صحافی I.N.A news شاملی/ باغپت