✍🏻ازقلم :عبدالرحمن چمپارنی
*شخصیات نمبر کی ساتویں 7/قسط*
آپ ؒ کا نام : علی ابو الحسن تھا ، اور آپ کے والد محترم کا عبد الحی تھا ،
آپ ؒ کی پید ائش : آپ ؒ ۶؍ محرم الحرام ۱۳۳۲ ھ؍ مطابق ۵ھ دسمبر ۱۹۱۳ ء دائرہ شاہ علم اللہ الحسنی معروف بہ تکیہ کلاں جو رائے بریلی کے مغربی جانب ایک مضافاتی گاؤ ں ہے ،
آپ ؒ کی تعلیم وتربیت : قرآن پاک ناظرہ اور ارد وو فارسی کی ابتدائی کتابیں اپنی والد صاحب کی نگرانی میں پڑھیں ، جس وقت ان کے والد محترم مؤرخ ومصنف مولانا عبد الحی ؒ کا انتقال ہوا ، تو آپ ؒ نو سال کے تھے ، اس لیے ان کی تمام تر تعلیم و تربیت ان کی والد ہ محترمہ اور ان کے بڑے بھائی مولانا ڈاکٹر سید عبد العلی حسنی ؒ کی سر پرستی میں انجام پائی ، جو ان سے عمر میں بیس سال بڑے تھے ، تعلیم کےد وران مولانا نے حدیث اور ادب کے علوم کی تحصیل میں خصوصی و ل چسپی لی ، عربی ادب میاں ان کے دو اہم استاد رہے تھے ، ایک شیخ خلیل بن محمد انصاری یمانی ، دوسرے شیخ تقی الدین ہلالی مراکشی ، اردو ادب میں مولانا نے اپنے خاندان کے بعض محترم عزیزوں بالخصوص مولانا ابوالخیر صاحب برق تھے ، ۱۹۲۷ ؍ ء میں لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ ٔ عربی میں داخل ہوئے ، اور عربی زبان وادب میں فاضل ادب کی ڈگری حاصل کی ، ۱۹۲۸؍ ۱۹۳۰ کے عرصے میں انھوں نے انگریزی زبان و ادب کی استعد اد بہہم پہونچائی ، ۱۹۲۹ ؍ ء ۱۳۲۷ میں دار العلوم ندوہ العلماء لکھنؤ میں داخل ہوئے اور مختلف علوم و فنون کی تحصیل کے مراحل طے کیے ، حدیث شریف کی تعلیم ندوہ العلما ء کے شیخ الحدیث مولانا حید ر حسن خان ٹونکی ، سے حاصل کی ، ۱۹۳۲ ظ ء ۱۳۵۱ میں آپ ؒ نے مزید استفادے کے لیے کئی ماہ دارلعلوم دیوبند میں قیام فرمایا ، اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ سے بخاری شریف اور ترمذی شریف پڑھیں ، انھوں نے اس موقعے سے فقہ میں شیخ الادب و الفقہ مولانا محمد اعزاز علی سے استفادہ کیا ، اور حفص کی روایت کے مطابق قاری اصغر چلی سے فن تجوید میں فائدہ ٹھایا ، تفسیر آپ ت نے اپنے عہد کے بے مثال مفسر مولانا احمد لاہوری ؒ کے لاہو ر جاکر حاصل کی ۔
آپ ؒ کی خدمات
آپ ؒ نے دینی ، ملی ، سماجی ، رفاہی ،تالیفی و تصیفی خدمات انجام دی ہیں ، آپ ؒ نے دین اسلام کی اشاعت کے لیے ملک و بیرون ملک کا سفر کیا ، او رہر طرح کی صعوبتوں کو بر داشت کیا ، چناچہ اسی کے پیش نظر ان گنت اسفار کئے ، آپ ؒ کا ہر سفر کامیاب وکامراں رہا ، آپ ؒ کی تصا نیف سبھی کو پسند ہے اور ہر انسان کے راہ ہدایت پانے کے لیےکار گر بھی ، آپ ؒ کی بعض تصا نیف ایسی بھی ہیں ، جو اتنی مقبو ل ہوئیں کہ درس نظامی کے لیے جز لاء ینفک بن کے رہ گئی ، آپ ؒ کے پوری تصانیف چھوٹی وبڑ ی ۳۰۴ ہے سب کا احاطہ یہاں ممکن نہیں، بعض کتابوں کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے، ملاحظہ فرمائیں :
۱۔ سیر ت سید احمد شہید ؒ، ۲۔ انسا نی دنیا پر مسلمانو ں کے عروج وزوال کا اثر ، ۳۔ نبی رحمت ﷺ ۴۔ کاروان مدینہ ۵۔ منصب نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین ، ۶ ۔ المرتضی ۷۔ تاریخ دعوت و عزیمت ۸۔ مولانا محمد الیاس اور ان کی دینی دعوت ، ۹ ۔ مکتوبات مولانا محمد الیا س ؒ ، ۱۰ ۔ حیات عبد الحی ، ۱۱۔ سوانح مولانا عبد القادر رائے پوری ؒ ، ۱۲۔ سوانح عبد القادر رائے پوری ؒ ۱۳۔ سوانح مولانا محمد زکریا کاندھلوی ؒ ۱۴۔ کاروان زندگی ، ۱۵۔ پرانے چراغ ۱۶۔ نقوش اقبال ، ۱۷ ۔ ارکان اربعہ ۱۸ ۔ مسلم ممالک میں اسلامیت او رمعربیت کی کش مکش ، ۱۹۔قادیانیت تحلیل وتجزیہ ۲۰ ۔ عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح
مناصب اور عہدے اور اعزازات
۱۔ ناظم ندوہ العلماء لکھنؤ
۲۔ رکن تاسیسی رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ
۳۔ رکن مجلس اعلی عالمی برائے اسلامی دعوت ، قاہرہ
۴۔ صدر و مؤسس عالمی رابطہ ادب اسلامی
۵۔ صدر مجلس علمی ، لکھنؤ
۶۔ صدر دینی تعلیمی کونسل ، اتر پردیش
۷۔ صدر آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ
۸۔ صدر دارالمصنفین اکیڈمی ، اعظم گڑھ
۹۔ صدر آکسفورڈ سینٹر برائے اسلامک اسٹڈیز
۱۰ ۔ رکن مجلس شوری دارلعلوم دیوبند
۱۱۔ رکن رابطۃ الجامعات الاسلامیۃ ، رباط ، مراکش
۱۲۔ رکن مجلس شوری جامعہ اسلامیہ عالمیہ ، اسلام آباد ،
۱۳۔ رکن مجمع اللغۃ العربیۃ
۱۴۔ رکن مجمع اللغۃ العربیۃ قاہر ہ
۱۵۔ رکن مجمع اللعۃ العربیۃ اردن
۱۶۔ رکن شاہی اکیڈمی برائے تحقیقات تہذیب اسامی ، ادارہ آل بیت اردن
۱۷۔ کشمیر یونیورسٹی کی طرف سے اعزازی ڈاکٹر یٹ کی ڈگری برائے لٹریچر س ۱۹۸۱
۱۸۔ فیصل ایوارڈ برائے اسلامی خدمت ۱۹۸۰ ء
۱۹۔ ایوارڈ ممتاز اسلامی شخصیت
آپ ؒ کی وفات : لیکن اس دن ہندوستان کے عوام وخواص تو رنجیدہ ہوئے ہی ، عا لم اسلام کے اور بیرون ممالک کے عوام پر بھی اس کا گہرا اثر پڑ ا گویا کہ ان کا کوئی محبو ب چیز چھین لیا گیا ، وہ مانند یتیم ہونے کہ اپنے چہرے کے سلو ٹوں سے آپ ؒ کے موت کی خبر دے رہے تھے کہ آپ ؒ اپنے وطن تکیہ کلاں ، رائے بریلی میں ، بہ روز جمعہ ۱۱؍ بج کر ۵۵؍ منٹ پر بہ تاریخ ۲۲؍ رمضان ا لمبارک ۱۴۲۰ ھ ۳۱؍ دسمبر ۱۹۹۹ ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ،