تحریر: صباح الدین اعظمی
ماہرین کہتے ہیں کہ زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کسی کو آئیڈیل بنا لیں اور اس کی طرح بننے کی کوشش کریں۔ یہ میری خوش نصیبی تھی کہ جب میں نے شعور کی آنکھ کھولی تو ڈاکٹر ضیاء الرحمن صاحب رحمتہ اللہ کی سحر انگیز شخصیت کو سامنے پایا۔ اس وقت وہ آزمائش کے مراحل سے گزر کر ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن تھے۔ بلریا گنج سے شروع ہوا ان کا سفر مشقت اور آزمائش کی بھٹیوں سے نکل کرحرمین شریفین کی بابرکت وادیوں سے فیض یاب ہوکر، دریائے نیل کے پانیوں سے سیراب ہوتا ہوا سرزمین حجاز میں خیمہ زن تھا۔ ڈاکٹرصاحب رح کافی عرصے کے بعد بلریاگنج اپنے والدین سے ملنے آئے تھے اور نانا مرحوم جناب حکیم محمد ایوب صاحب رح کے یہاں گھر کے ایک فرد کی طرح مقیم تھے۔ اور پورے گاؤں میں ان کے چرچے تھے۔ دور دور سے لوگ صرف ان کو دیکھنے کے لئے آتے تھے۔ دیدہ زیب لباس زیب تن کئے، بہترین خوشبو لگائے ان کی شخصیت میں ایک عجیب سی خود اعتمادی تھی۔ ان کی گفتگو حیرت انگیز طور پر متاثر کن تھی ان کے آزمائش اور مشقت کے دن ماضی کا قصہ ہو چکے تھے۔ ان کی شخصیت دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا تھا کہ اب وہ ماضی کو کافی پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔اور گزرے دنوں کا شکوہ ان کا شیوہ نہیں ہے۔ سب کچھ بھلا کر اپنے اہل خانہ سے ملتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کی ادا سب کو متاثر کر گئی۔
میں جامعتہ الفلاح میں ثانوی درجات کی تعلیم مکمل کر چکا تھا اور عصری تعلیم کے لئے کسی جدید تعلیم کےاسکول میں داخلے کی تیاری چل رہی تھی۔ فرصت کے کسی لمحے میں ڈاکٹر صاحب سے تعارف ہوا۔ پھر بات تعلیم پر آگئی۔ ڈاکٹر صاحب نے والد صاحب پر زور دیا کہ مجھے انگریزی تعلیم کی طرف نہ بھیجیں بلکہ عربی اور دینی علوم کی تعلیم دلوائیں۔ کہنے لگے کہ میں چاہتا ہوں کہ تم علوم دینیہ میں کسی عرب ملک کی مشہور یونیورسٹی سے دکتوراہ کرو۔ اس کے بعد انھوں نے مستقبل کا نقشہ کچھ اس طرح سے کھینچا کہ مجھے تعلیم کی ایک سمت مل گئی اور ان جیسا بننے کی خواہش پیدا ہو گئی۔ یوں ڈاکٹر صاحب میرے آئیڈیل ہو گئے۔ عربی اور دینی علوم کی تعلیم با مقصد لگنے لگی ۔ یہ الگ بات ہے کہ آگے جا کر حالات بدل گئے۔ اللہ تعالی کی مرضی کہ ڈاکٹر صاحب کے تمام تعاون کے باوجود میرا باہر جانا ممکن نہ ہوسکا۔ان جیسا خاک بنتے۔جامعتہ الفلاح سے عالمیت اور ندوہ العلماء سے فضیلت کی سند لینے کے بعد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے معاشیات میں بی اے اور ایم اے کیا۔ ایم فل میں داخلہ بھی ہو گیا لیکن بیچ میں کچھ ایڈونچر کی سوجھی سلسئہ تعلیم منقطع ہو گیا اورانیس سو ترانوے میں کچھ عرصے کے لئے سعودی عرب چلا گیا۔ بسلسلئہ روزگار سعودی عرب کے کئی شہروں میں قیام رہا۔ فون پر ڈاکٹر صاحب سے گفتگو ہوئی تو خوش نہیں تھے کہ تعلیم کیوں مکمل نہیں کی؟ دوران قیام حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ وقت کم تھا صرف ایک دن کے لئے مدینہ منورہ جانے کا موقعہ ملا۔ ظہر کی نماز کے بعد ڈاکٹر صاحب کے گھر کھانے کا پروگرام تھا۔ پوچھنے لگے پی ایچ ڈی کیوں نہیں مکمل کی؟ میں خاموش رہا۔ بولے ایسا کرو اب آئے ہو تو کچھ دن رہ لو۔ تم نے تو اپنا مضمون بھی بدل لیا ہے۔ کسی مغربی ملک سے پی ایچ ڈی کر لینا۔ میں نے کہاکہ اب مشکل ہے۔ تھوڑا مایوس ہوئے ۔میں خجل تھا۔برسوں پہلے بنایا پلان پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکااس کا مجھے ملال تھا۔ لیکن اللہ نے لاج رکھ لی کچھ ایسی سبیل بنی کی علی گڑھ واپس آکرمعاشیات میں پی ایچ ڈی مکمل کی اور پھر یو اے ای میں سلسلہ معاش شروع ہوا۔ تدریس ہی کے میدان میں۔میں نے فون پر بتایا۔ ان کے ساتھ کیا عہد پورا ہوا۔ میں اب خجل نہیں تھا۔
فون پر اکثر گفتگو ہوتی۔ میرے اپنے قریبی مجھے کبھی میرے اصلی نام سے نہیں بلاتے گھر کے بچپن کے نام سے ہی بلاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی کبھی مجھے میرے نام سے نہیں بلایا۔ کبھی بلایا ہوتا تو غیر لگتے۔ اپنے تھے اس لئے جب بھی فون کیا زور دار آواز میں جواب دیا “ ہاں پپو کیسے ہو”۔ چند سال قبل میں نے نانا مرحوم جناب حکیم محمد ایوب رح پر اپنی یادداشتیں ترتیب دیں۔ مقدمہ لکھنے کے لئے کس سے کہوں۔ ان سے زیادہ مناسب کوئی نام ذہن میں نہیں آیا۔ سوچا مشغول رہتے ہیں کہاں موقعہ ہوگا۔ ڈرتے ڈرتے فون کیا۔ فورا تیار ہوگئے اور ایک بیحد خوبصورت مقدمہ تحریر کیا۔ تحریر اتنی دلکش جیسے دل سے لکھا ہو۔ نانا مرحوم کا ان سے تعلق ایسا تھا کہ اسے ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا نہیں بیان کر سکتا۔ مشکل یہ ہے کہ ان دونوں میں سے کسی نے زبان نہیں کھولی۔ بہت سی باتیں راز ہی رہ گئیں۔ مقدمے میں ڈاکٹر صاحب نے کچھ باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ کہہ کر رک گئے ہیں کہ ان کی یادوں کی فہرست بہت طویل ہے یہ چند اوراق شاید اس کے عشر عشیر کو بھی نہ سمیٹ سکیں۔
جولائی سَن ٢٠١١ء میں ان سے میری آخری ملاقات ہوئی ۔ اور یہ ملاقات بھی تقریبا سترہ سال بعد ہوئی تھی۔ میں شارجہ سے بچوں کے ساتھ عمرہ کے لئے آیا تھا عمرے کی ادائیگی کے بعد مسجد نبوی شریف کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ پہچنے کے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا اور کہا کہ میں گھر پر حاضر ہوں گا۔ کہنے لگے کل شام میں آجاو۔ عشاء کے بعد مسجد کی انڈر گراونڈ پارکنگ میں اسعد ( ڈاکٹر صاحب کےمنجھلے بیٹے) تم سے ملیں گے وہ گھر لے کر آجائیں گے۔ تم ٹیکسی سے نہیں پہنچ پاو گے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوئے تو فون کی گھنٹی بجی۔ ڈاکٹر صاحب تھے پوچھ رہے تھے کہ تم کہاں ہو۔ میں مسجد نبوی کے گیٹ نمبر ۔۔ پر بیٹھا ہوں۔ میں بھاگتے ہوئے پہنچا۔ سلام کیا اور چھوٹتے ہی کہا میں کل آتا تو ملاقات ہو جاتی آپ نے کیوں تکلیف کی۔ بولے تم کل ملنے آؤ گے آج میں تم لوگوں سے ملنے چلا آیا۔ اگلے روز عشاء کی نماز کے بعد ڈاکٹر اسعد ہمیں لے کر گھر پہنچے۔ مدینہ منورہ میں ان کا ذاتی مکان تھا جو انھوں نے برسوں پہلے بڑے چاو سے بنوایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے شہر کے اس مکان میں گزرے چند گھنٹے ساری زندگی یاد رہیں گے۔ کھانے کے بعد ہم ان کی لائبریری میں آگئے ان دنوں وہ الجامع الکامل پر کام کر رہے تھے۔ کمرے میں جگہ جگہ مسودے کے کاغذات فائلوں میں رکھے تھے۔ میں نے حیرت سے پوچھا آپ ابھی بھی کاغذات پر لکھتے ہیں کمپیوٹر نہیں استعمال کرتے احادیث کیسے تلاش کرتے ہیں کہنے لگے ہمارے اپنے طریقے ہیں احادیث کے استخراج کے۔ کمپیوٹر کی کیا ضرورت۔ باتیں ہوتی رہیں۔الجامع الکامل کو لے کر بہت حوصلے میں تھے۔ رات زیادہ ہونے لگی تو میں نے اجازت چاہی۔ گھر سے باہر نکلے تو سامنے صحن میں پھولوں کے پودے قطار سے لگے تھے۔انھوں نے ایک پودے سے سفید بیل کے پھول توڑے اور چلتے چلتے میرے ہاتھ میں دے دیا۔ گاڑی میں بیل کے سفید پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو دیر تک مہکتی رہی۔میں یہ پھول اپنے ساتھ شارجہ لایا اور کسی کتاب میں رکھ دیا۔آج جب رحلت کی خبر سنی تو وہ پھول یاد آئے۔ یاد نہیں آرہا ہے کہ کہاں رکھا تھا۔ اب توسوکھ بھی گئے ہوں گے۔ مہک بھی باقی نہیں ہوگی۔ لیکن بلریاگنج کے گل کی خوشبو جو مدینہ منورہ کے گلزار میں مہکا شاید کبھی بھی زائل نہ ہو۔ بلریاگنج سے مدینہ جانے والے زائرین یہ خوشبو ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔