اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی
یہ حادثہ تو کسی دن گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو ایک دن مرنے والاتھا
(راحت اندوری)
11/اگست بروز منگل بعد نماز عصر حسب عادت کچھ دیر کے لٸے واٹشاپ کی دنیا میں پڑی پوسٹوں کوپڑھنے لگا کہ یک بیک ایک پوسٹ پر نظر پڑی" جس میں کچھ یوں لکھاتھا کہ: مشہور شاعر راحت اندوری انتقال کر گئے" میں نے فوراً سوال کیا خبر تحقیقی ہے؟۔۔۔کچھ دیر توقف کے بعد خبروں کا تانتا بندھ گیا، ہرجگہ یہی خبر نظر کے سامنے آنے لگی۔
"مشہور شاعر ڈاکٹر راحت اندوری حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کرگٸے"۔ ڈاکٹر صاحب کرونا متاثر بھی تھے، صبح انہوں نے ٹویٹ کرکے یہ جانکاری تمام محبین کو دی تھی اور دعا کے لٸے درخواست کی تھی، لیکن سورج کے غروب ہونے سے قبل شعر وشاعری کا تاباں سورج خود زندگی کی 70/بہاریں دیکھ کر غروب ہوگیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون
خیر جانا تو سبھی کو ہے، جس کا وقت آٸے گا وہ جاٸے گا۔ "کل نفس ذاٸقة الموت" کی حقیقی تفسیر ہر جاندار کو بنناہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بقول شاعر
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج ان کی کل ہماری باری ہے
عصر جدید کے شعرا ٕ میں معراج فیض آبادی کے بعد راحت صاحب میرے پسندیدہ شاعر تھے، میرے کیا؟ بلکہ ہر شعری ذوق رکھنے والے جوان، بوڑھے کے پسندیدہ تھے، ان کی شاعری کسی ایک خاص موضوع پر نہیں ہوتی، اور نہ وہ کسی خاص موضوع کے شاعر کی حیثیت سے مشہورتھے، ان کی شاعری میں کبھی مجلس قہقہ زار ہوجاتی، تو کبھی سنجیدہ ہوکر شعر میں کہے ہوٸے معانی پر غور وخوض کرتی۔ توکبھی تالیوں کی آوازیں گونجنے لگتیں، پڑھنے کا طریقہ تمام ہی سے جدا، آواز میں گرج، زبان عام فہم، انداز میں زیر وبم پیدا کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔وہ غزل کے بے تاج بادشاہ تھے، اکثر مشاعرے کی عہد صدارت پر جلوہ افروز رہتے۔
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
(راحت اندوری)
راحت صاحب کے تعارف میں پروفیسر"ظفراحمد نظامی" نے الفاظ کے حسین سمندر میں غوطہ زنی کرکے کچھ یوں موج گہر پیش کیا ہے:
چہرہ کتابی، آنکھیں نیم خوابی، بڑے بڑے کان، بلندی کانشان، تابحد نظر پیشانی، ذہانت کی کہانی۔ یہ ہیں شاعر طرحدار ممتاز فنکار، مشاعروں کی شان، محفلوں کی جان، پردہ سیمیں کاوقار، مقبول نغمہ نگار، ناواقف کمزوری وشہ زوری، یعنی ڈاکٹر راحت اندوری۔
(لمحے لمحے ص/13)
یکم جنوری/1950 کو مدھیہ پردیش کے معروف ومشہور شہر اندور میں پیدا ہوٸے، ابتداٸی اسباق گھر میں پڑھے، پھراعلی تعلیم کے منازل طے کرتے ہوٸے اردوادب میں"برکت اللہ یونیورسٹی" بھوپال سے ایم۔اےکیا، بعدازاں مدھیہ پردیش" بھوج اوپن یونیورسٹی" سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرکے خود کو اردو ادب سے روشناس کرایا۔ درس وتدریس کو پیشہ بنایا، بہترین آرٹسٹ بھی ثابت ہوٸے، 1968میں پہلی مرتبہ شعر کہا پھر مسلسل شعر کہنے اور پڑھنے لگے۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک مشہور غزل جو مجھے بہت پسند ہے جسمیں حکومت پر شاٸستہ وششتہ لہجے میں تنقید کی ہے ملاحظہ فرماٸیں:
اگر خلاف ہیں، ہونے دو، جان تھوڑی ہے
یہ سب دھواں ہے، کوئی آسمان تھوڑی ہے
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
اس غزل کے علاوہ ڈاکٹرصاحب کے سینکڑوں ایسے اشعار ہیں جو ہر خاص وعام کی زبان زد ہیں۔ موقع ومحل کے اعتبار سے ہرشخص اسے استعمال میں لا تاہے، اگریہ کہاجاٸے کہ ڈاکٹر صاحب ایک انقلابی شاعر تھےتو مبالغہ نہیں ہوگا، ان کے اشعار لہو کو گرمادینے والے، خوابیدہ ضمیر کو جنھجھوڑ دینے والے، اور ایوان اقتدار میں لرزہ طاری کردینے والے ہوا کرتے تھے۔ وہ جرأت رندانہ قوت قلندرانہ کے مالک تھے۔
ڈاکٹر صاحب عشق محمدی سے سرشار تھے جس کی شہادت ان کے یہ اشعار خود دیتے ہیں:
سبب تخلیق دنیا !!کا جہاں جب بھی کہیں لکھا
محمدﷺ اولیں لکھا!! محمدﷺ آخری لکھا!!
میں اپنے سر پہ لے کر پہنچا تھا گناہوں کا !!
رسولِ پاکﷺ نے لیکن مجھے بھی جنتی لکھا!!
(راحت اندوری)
پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک لڑکی اور دولڑکے فیصل راحت، ستلج راحت ہیں۔
شعر کا سونا چمن ،کچھ اور خالی ہوگیا
ہائے ! کیسے شخص سے اِندور خالی ہوگیا
کیسی کیسی رونقیں تھی اس کے اک اک شعر میں
ایک زمانہ گم ہوا، ایک دور خالی ہوگیا
(رحمن_فارس)
حق جل مجدہ سے یہی دعاہے کہ راحت صاحب کی مغفرت فرماٸے، پسماندگان کو صبرجمیل عطافرماٸے، اور ادبی دنیا کو ان کا نعم البدل عطافرماٸے۔۔۔۔۔۔آمین