اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: آزادئ ہند اور مسلمان..... ایک تجزیہ ایک نظر ظفر امام قاسمی _________________________________

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 13 August 2020

آزادئ ہند اور مسلمان..... ایک تجزیہ ایک نظر ظفر امام قاسمی _________________________________

         آزادئ ہند اور مسلمان..... ایک تجزیہ ایک نظر 

                                            ظفر امام قاسمی

_________________________________


             جب پڑا وقت گلستاں پے تو خوں ہم نے دیا

               جب آئی بہار تو کہتے ہیں تیرا کام نہیں               


        پندرہ اگست کی آمد آمد ہے، اور پورا ملک ٧٤/ ویں یومِ آزادی منانے کے لئے چشم براہ ہے، پندرہ اگست کا دن ہندوستان میں قومی تہوار کے طور پر نہایت تزک واحتشام اور بہت ہی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے،پورا ملک اس دن گلہائے رنگا رنگ میں ڈوبا رہتاہے،یہی ایک تہوار ہے جس کو ہندوستان میں بسنے والے، ہر مذہب کے ماننے والے اور ہر مکتبِ فکر کے پیروکار شانہ بشانہ مناتے اور گنگا جمنی تہذیب کا کھلے طورثبوت دیتے نظر آتے ہیں،اس دن پورے ملک میں ہرطرف جشنِ مسرت کا ماحول ہوتا ہے،ترنگا لہرایا جاتا ہے،ننھے ننھے پھول جیسے معصوم بچے زرق برق پوشاکیں زیب تن کئے اور ہاتھ میں ترنگا لئے جب " ہندوستان! ہے آزاد " کا فلک شگاف نعرہ بلند کرتے ہیں تو اس کی گونج سے ہندوستان کا ذرہ ذرہ،بوٹا بوٹا اور پتہ پتہ خوشی سے سرشار ہواٹھتے ہیں، لیکن! کیا کبھی آپ نے اس پر غور کیا کہ اس دن جو یہ خوشیاں منائی جاتی ہیں، اور جشن ہائے مسرت کی وجد آفریں محفلیں سجتی ہیں، آخر یہ کن کی قربانیوں کی رہینِ منت ہیں؟ جن کی انتھک جاں کاہیوں کی بدولت آج ہم آزادی کی سانسیں لے رہے ہیں،تو قارئین! 

      اگر آپ ماضی کے دریچے سے تاریخ کے جھروکے میں جھانکیں گے تو جہاں آپ کو ان سارے سوالات کے جوابات مل جائینگے تو وہیں آپ کو ان عاشقانِ باوفا اورشہیدانِ راہِ وفا کے حصولِ آزادی کی خاطرقربانیوں اور انتھک کوششوں کی ایک طویل اور کربناک داستان نظر آئیگی،جن کی ہمہ تن کوششوں اور قربانیوں کے سہارے ہی ہم آج ارض و سماء کی اس کھلی فضا میں آزادی کی سانسیں لےرہے ہیں، اس لئے پندرہ اگست کے اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انکی قربانی اور جان نثاری و جاں سپاری کےتذکرے کو مختصر انداز میں قلمبند کیا جائے۔ 

     آزادئ ہند اور مسلمانوں کے درمیان روزِ اول سے ہی چولی دامن کا ساتھ رہا ہے،اس بات سے کسی کو مجالِ انکار نہیں کہ ہندوستان کو انگریز جیسی جابر وظالم قوم کے چنگل سے آزاد کرانے کی خاطر ہمارے اسلاف واکابرین نےزبردست قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا،جان ومال کی قربانیاں دیں،تحریکیں چلائیں،خودکو تختۂ دار پر چڑھایا،پھانسی کے پھندے کو جرأت وحوصلہ اور کمالِ بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں،حصولِ آزادی کی خاطر بلاخوف وخطر میدانِ جنگ میں کود پڑے،گردنیں کٹوائیں ،خون کی ندیاں بہائیں،حتی کہ ہندوستان کی سرسبزوشاداب زمین شہداء کے خون سے لالہ زار ہوگئیں، اور یہ سلسلہ ایک دو دن تک ہی نہیں چلا بلکہ صدیوں تک گردش کرتا رہا، یہاں تک کہ انگریز جیسی جابر و ظالم قوم ان مسلمانوں کی فولادی قوت سے پسپا ہوکر ہندستان چھوڑنے پر مجبور ہوئی۔ 

     جس وقت واسکوڈی گاما کی قیادت میں اسلام دشمن پُرتگال کے ملاحوں نے سرزمینِ ہند کو اپنے ناپاک قدموں سے آلودہ کرنا شروع کیا اور صوبہ بنگال کے شہر کلکتہ اور جنوبی ہند کے شہر کالی کٹ کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا، اس وقت ہندوستان  Bird of gold یعنی سونے کی چڑیا کہلاتا تھا،یہاں مال ودولت کی ریل پیل تھی زر و جواہرات سے سرزمینِ ہند لدی ہوئی تھی، اس وقت اس ملک میں بے شمار تجارت کے مواقع تھے،مالی ترقی کے وسیع تر امکانات نے انگلستان کے تاجروں کو بھی ادھر متوجہ کیا،انہوں نے تیس ہزار پاؤنڈ سے " ایسٹ انڈیا کمپنی" کی بنیاد رکھی، اور1601؁ء میں پہلی مرتبہ اس کمپنی کے جہاز ہندوستان کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے،اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت جلد انگریز تاجروں نے پورے ہندوستان میں تجارت کے میدان میں اپنا سکہ جمالیا،اور اپنی تجارتوں کامرکز گجرات کے شہر سورت میں بنانے کے بعد اس کی شاخیں احمد آباد،اجمیر،برہان پور،اور آگرہ میں قائم کردیں،یہ شہر اس وقت تجارت کے لئے کلیدی حیثیت رکھتے تھے،اورنگ زیب عالمگیرؒ کے عہدِ حکومت تک انگریزوں کی سرگرمیاں صرف تجارت تک ہی محدود رہیں،اورنگ زیبؒ کے انتقال کے بعد مغلیہ حکومت کا شیرازہ منتشر ہونے لگا،یہاں تک کہ احمد شاہ کے دورِ حکومت میں یہ ملک طوائف الملوکی اور لامرکزیت کا شکار ہوگیا،یہ دیکھتے ہوئے " ایسٹ انڈیا کمپنی" جو اب تک صرف ایک تجارتی کمپنی تھی ملک گیری و ملک بانی کی ہوس میں مبتلا ہوگئی، جس کے زیرِ اثر انہوں نے اپنی سیاسی قوت بڑھانی شروع کردی،یہاں تک کہ اس نے کلکتہ میں اپنا ایک مضبوط فوجی قلعہ بھی تیار کرلیا۔ 

      اِدھر انگریزوں کے ناپاک بڑھتے قدم کو دیکھ کر بنگال کے اس وقت کے فرماں روا نواب سراج الدولہؒ نے اپنی دور رس نگاہ اور دراکئ عقل سے انگریزوں کے گدلےمنصوبوں کو تاڑ لیا اور انگریزوں کے ملک گیری کی ہوس کی خاطربڑھتے قدم کو روکنے کی کوشش کے طور پر 1757؁ءمیں پلاسی کے میدان میں سب سے پہلے ان سے جنگ لڑی، اس موقع پر اگر سراج الدولہؒ کا وزیر میر جعفر غداری نہ کرتا تو انگریز دُم دباکر بھاگنے پر مجبور ہوجاتے،لیکن اس غدارِ وطن کی وجہ سے اس جنگ میں سراج الدولہ کو شکست وریخت کا سامنا کرنا پڑا۔ 

     جنگِ آزادی کی تاریخ بَھلا شیرِ میسور،جنونِ آگہی کے پیکر، میدانِ جنگ کے شناور اور دلیر و جسور حضرت ٹیپو سلطان شہیدؒ کو کیسے بھول سکتی ہے، تاریخِ آزادی اس کے تذکروں کے بغیر ناقص رہےگی کہ اس مردِ جانباز نے اپنی بالغ نظری اور غیرمعمولی ذہانت سے یہ بات محسوس کر لی تھی کہ" اگر انگریز اسی طرح ایک ایک صوبہ اور ایک ایک ریاست ہضم کرتے رہینگے اور کوئی منظم طاقت ان کے مقابلے پر نہ آئی تو آخرکار پورا ملک ان کا لقمۂ تر بن جائیگا"چنانچہ انہوں نے انگریزوں سے جنگ کا فیصلہ کیا،اور پھر یکے بعد دیگرے انگریزوں سے چار جنگیں لڑیں،پہلی جنگ میں فتح وکامیابی ان کے نصیب میں آئی،اور دوسری جنگ میں اپنے ہی وزیر میرصادق کی غداری کی وجہ سے معاہدہ پر مجبور ہوئے یہ 1792؁ء کی بات ہے،لیکن انہوں نے ابھی ہار نہیں مانی بلکہ اپنی اولوالعزمی اور جرأت مندی سے انگریزوں کے ساتھ لڑنے کے سلسلہ کو برقرار رکھا،قریب تھا کہ انگریزوں کے سارے منصوبوں پر پانی پھرجائے اور وہ اس ملک سے بالکل بےدخل ہوجائیں،مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا،بالآخر اپنے ہی ملک کے کچھ غداروں کی وجہ سے اس مردِ مجاہد نے 4/مئ 1799؁ء کو سرنگاپٹنم کے خونریز و خونچکاں معرکہ میں جامِ شہادت نوش کرکے ابدی سرخروئی حاصل کی،انہوں نے انگریزوں کی غلامی و اسیری اور ان کے رحم وکرم پر زندہ رہنے پر موت کو ترجیح دی،ان کا مشہور تاریخی مقولہ ہیکہ "گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے شیرکی  ایک دن کی زندگی اچھی ہے" ٹیپو سلطانؒ سے انگریز کتنے خوفزدہ تھے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ان کی شہادت کا سانحہ پیش آیا تو انگریزوں کا جنرل Horse نے ان کی نعش پر کھڑے ہوکر کہاتھاکہ"آج سے ہندوستان ہمارا ہے"۔ 

     سراج الدولہ کو بنگال میں شکست دینے اور میسور میں ٹیپو سلطان کو جامِ شہادت نوش کرانے کے بعداب انگریزوں کے ناپاک قدم دہلی کیطرف بڑھنے لگتے ہیں، ابھی انگریزوں نے پوری طرح دہلی کا اقتدار حاصل بھی نہیں کیا تھا کہ علماءِ ہند کے میرِ کارواں،مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی خداداد ذہانت کے بل بوتے پرمستقبل کا ادراک کرلیا، اور انگریز کے دہلی پر قبضے سے پچاس برس پہلے ہی اپنی جدوجہد کا آغاز کردیا ، اس کی پاداش میں آپ پر جان لیوا حملہ بھی ہوئے لیکن آپ اپنے نظرئے میں ڈٹے رہے اور کبھی آپ کے پائے استقامت میں لرزہ طاری نہ ہوا، لیکن افسوس! حضرت شاہ صاحبؒ 1765؁ء میں داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے،اور یوں آپؒ کا خواب تشنۂ تعبیر ہی رہ گیا، تاہم آپؒ اپنی کتابوں کے ذریعے ایک نصب العین متعن کرچکے تھے، انقلاب کا پورا لائحۂ عمل تیار کرچکے تھے، اب ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ ان کے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھایا جائے، اور ان کے تیار کردہ منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہونچایا جائے، چنانچہ انکے صاحبزادے حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے حوصلہ دکھایا، حالانکہ وہ اس وقت صرف سترہ برس کے تھے،مگر اپنے والدِ بزرگوار کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے انہوں نے عزم واستقلال سے کام لیا اور حضرت شاہ صاحبؒ کے نظریۂ انقلاب کو مخصوص لوگوں کے دلوں سے نکال کر عام انسانوں کے دلوں میں اس طرح پیوست کردیا کہ ہر زبان پر جہاد اور انقلاب کے نعرے مچلنے لگے،اس کے لئےحضرت شاہ عبدالعزیزؒ کو طرح طرح کے مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑا،لیکن کبھی بھی ان کے پاؤں اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے،حتی کہ جب 1803؁ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے یہ فرمان جاری کیاکہ" خلقت خدا کی،ملک بادشاہ سلامت کااور حکم کمپنی بہادر کا" یہ فرمان سن کر میدانِ سیاست کا رمز آشنا اور بالغ نظر شخصیت کا بالغ نظر بیٹا حضرت شاہ عبدالعزیزؒ نے سامراجی حکومت کے خلاف نہایت ہی دیدہ دلیری اور جرأت مندی کے ساتھ ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتوٰی جاری کیا کہ " ہندوستان اب دارالحرب ہوچکا ہے! اس لئے ہر محبِّ وطن مسلمان شہری پر فرض ہیکہ وہ ان اجنبی حکمرانوں کے خلاف اعلانِ جنگ کرے،اور اس وقت تک سکون سے نہ بیٹھے کہ قابضین اور غاصبین کا ایک ایک فرد سرحد بدر نہ ہوجائے،یہ انگریزوں کے خلاف جاری ہونے والا پہلا فتوٰی تھا،اس فتوی  کو سن کر انگریزوں کی آنکھوں سے نیندیں اڑگئیں تھیں۔ 

     اور یہ اسی فتوی کا اثر تھا کہ آپکے بعدآپ کے شاگردوں نے( جن میں شاہ احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید رحمہمااللہ کے اسماءِگرامی سرِفہرست ہیں )انگریزوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا، اور ہندوستان کی آزادی کے لئے ان کے خلاف بہت ساری چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں،بالآخر بےسروسامانی کی وجہ سے 1831؁ء کو سید احمد شہیدؒ کی فوج کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور اسی جنگ یعنی 1831؁ء میں آپ نے اور آپ کے قریب ترین رفیق شاہ اسمٰعیل شہیدؒ اور ان کے دوسرے بےشمار رفقاء کار نے بالاکوٹ میں جامِ شہادت نوش کیا۔ 

      اس کے بعد انگریزوں کے خلاف جنگ وجدل کا یہ سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ 1857؁ء میں شاملی کے میدان میں وہ روح فرسا اور کرب وبلا سے لبریز عظیم اور خونچکاں معرکہ پیش آیا جس کے تصور سے ہی کائنات چیخ اٹھتی ہے،جس کو ہندوستان کی تاریخِ آزادی میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ، اس جنگ کی تاریخ کا ایک ایک پنہ علماءِ دیوبند کے خون سے رنگین ہے۔ 

    اس جنگ میں علماءِ دیوبند نے باضابطہ انگریزوں سے جنگ کی ہے،جس کے امیر حاجی امداداللہ مہاجرِ مکی رحمہ االلہ مقرر ہوئے تھے، اور اس کی قیادت بانئ دارالعلوم دیوبند،حضرت مولانا قاسم نانوتوی ،حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا منیر نانوتوی رحمہم اللہ کررہے تھے، اس جنگ میں حضرت حافظ ضامنؒ شہید ہوئے، مولانا قاسم نانوتویؒ پر وارنٹ جاری ہوا،حضرت گنگوہیؒ کو گرفتار کرکے کال کوٹھری بھیج دیاگیا جس کی بناپر آپ وہاں چھ ماہ تک قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے پر مجبور ہوئے۔ 

     1857؁ء کی تاریخی جنگِ آزادی مختلف وجوہ واسباب کی بناء پر ناکام رہی اور اس کے بعد آزادی کے متوالوں پر ہولناک مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالدئے گئے، ان میں مسلمان اور خاص طورپر علماءِ کرام انگریزوں کےمشقِ ستم بنے،تقریباً دو لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا ان میں ساڑھے اکیاون ہزار علماءِ کرام تھے، دلی کے چاندنی چوک سے لیکر پاکستان کے خیبر تک کوئی ایسا درخت نہ تھا کہ اس میں علماءِ کرام کی  نعش نہیں لٹک رہی تھی،دہلی، کلکتہ،لاہور،ممبئ، پٹنہ،انبالہ،الہ اٰباد،لکھنؤ،سہارنپور،شاملی غرض یہ کہ پورے ملک کے چپے چپے میں ہندوستانی مسلمانوں کی نعشیں ہی نعشیں نظر آرہی تھیں،علماءِ کرام کو زندہ خنزیر کی کھالوں میں سی دیا جاتا پھر ان کو لقمۂ اٰتش بنایا جاتا، اللہ اکبر کیسا دلدوز منظر،اور کیسی جاں گسل آزمائش رہی ہوگی لیکن آزادی کے متوالوں اور شمعِ حریت کے پروانوں نے کبھی اپنے مشن سے راہِ فرار اختیار نہ کی، اللہم ارض عنہم وأدخلہم جنۃ الفردوس آمین۔۔۔ 

     اس کے بعد 1867؁ء میں مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئ،جہاں اس کا مقصدہندوستانی مسلم سماج میں تعلیم کی روح پھونکنا تھا تو وہیں نئی نسلوں کے اندر حریت و آزادی کے دیپ فروزاں کرنا اور اس کےلئے جی توڑ جد و جہد کی ٹریننگ دینا بھی تھا۔ 

     1912؁ء میں جہاں گیرتحریکِ ریشمی رومال کی ابتدا ہوئی جس کے بانی فرزندِ اول دارالعلوم دیوبند تھے،جن کو دنیا شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے نام سے جانتی ہے،بقول مفکرِ اسلام حضرت ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ " آپ ( شیخ الہند رحمہ اللہ ) انگریزی حکومت  اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے،سلطان ٹیپو کے بعد ایسا سخت ترین مخالف دیکھنے میں نہیں آیا " اس تحریک میں اہم رول مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ نے ادا کیا، اس تحریک کا مقصد ملک وبیرونِ ملک کے مسلم قبائل کو انگریزوں کے خلاف لڑنے کے لئے اکٹھا کرنا تھا،چنانچہ حضرت شیخ الہندؒ کے نمائندے ملک و بیرونِ ملک میں اس کام کے لئے سرگرمِ عمل اور فعال تھے،اس کام کے لئے آپ نے خود خلافتِ عثمانیہ کے ذمہ داروں مثلاً انور پاشا وغیرہ سے ملاقات کے لئے تُرک جانے کا فیصلہ کیا،اس مقصد کے لئے پہلے آپ نے حجاز کے لئے رختِ سفر باندھا اور وہاں تقریباً دو سال مقیم رہے،مکہ مکرمہ پہونچ کر حجازِ مقدس میں مقیم تُرک گورنر غالب پاشا سے ملاقات کی اس کے بعد تُرکی کے وزیرِجنگ انور پاشا سے بھی ملاقات کی جو ان دنوں مدینہ آئے ہوئے تھے،انہیں ہندوستان کی صورتِحال سے آگاہ کیا اور اپنے منصوبے سے واقف کرایا، ان دونوں نے شیخ الہند رحمہ اللہ کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے آپؒ کے منصوبے کی تائید کی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنے اور اپنی حکومت کے تعاون کا یقین دلایا،اُدھر مولانا عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کابل سے ریشمی رومال پر جو رازدارانہ خطوط شیخ الہند کو مکہ مکرمہ روانہ کئے تھے ان کو برطانوی حکومت نے پکڑلیا،یہی چیز شیخ الہند رحمہ اللہ کی گرفتاری کی سبب بنی اور اسی کی پاداش میں1917؁ء میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور ان کے ساتھیوں کو بحیرۂ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلا وطن کیا گیا،شیخ الاسلام سید مولانا حسین احمد مدنیؒ،مولانا عزیر گل پیشاوریؒ اور مولانا وحکیم نصرت حسین رحمہم اللہ وغیرہم نے اپنے استاذِ محترم شیخ الہند رحمہ اللہ کے ساتھ مالٹا کے قید خانہ میں شدید ترین سختیاں برداشت کیں اور ان کے نت نئے مظالم کے مشقِ ستم بنے۔ 

    اس کے بعد 1919؁ء میں جمیعۃِ علماءِ ہند کا قیام عمل میں آیا جس کا بنیادی مقصد ہندوستان کو انگریز کے فولادی پنجے سے نجات دلانا تھا، شیخ الہندؒکی وفات کے بعد آپ کے جاں نثار شاگرد مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ نے آپ کے اس مشن کو جاری رکھا، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ 1940؁ء سے لیکر تادمِ آخر جمیعۃِ علماءِ ہند کے صدر رہے،آپ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث کے عہدۂ جلیلہ پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزوں کو ہندوستان سے بھگانے کی طرح طرح تدبیریں کرتے،اورفرماتے کہ "حسین احمد اس وقت تک چین کی سانس نہ لےسکےگا جب تک کہ ایک بھی انگریز ہندوستان میں موجود رہے"۔ 

     1919؁ء میں جلیاں والا باغ سانحہ پیش آیا جس میں کئ افراد ہلاک ہوئے،1946؁ء میں ممبئ میں بحری بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے ہزاروں مظاہرین پولیس فائرنگ کی وجہ سےشہید ہوئے، ہمارے علماء اور عام مسلمان پورا دن انگریزوں کے ساتھ نبرد آزمائ اور پنجہ لڑائ میں گزارتے،اور پھر جب کائنات پر رات کی تاریکی اپنا پردہ ڈالدیتی تو جہاں رات کے سناٹوں میں انگریزوں کے عشرت کدوں  اور خواب گاہوں سے نیند کے خوفناک اور مہیب خراٹوں کی آوازیں خلا میں گونجتی سنائی دیتیں وہیں وہ اللہ والے مردِ درویش رب ذوالجلال کے سامنے جبینِ نیاز خم کردیتے اور اپنی بے بسی،لاچاری اور نہتہ پنی کی دُہائ بارگاہِ ایزدی میں پیش کرتے اور زار وقطار روتے،بلکتے،گڑگڑاتےاور آنسؤوں کا دریا بہاتے،بالآخر رب کائنات کو ان کفن بدوش بزرگوں پر ٹوٹ کر پیار آہی گیا اورآخرکار دن کے ہنگامے میں انگریزوں سے  طویل جنگ لڑنے اور رات کے سناٹے میں رب کو منانے کے بعد 15/اگست 1947؁ء کو اہالیانِ ہند کے اقبال کاستارہ آسمانِ ہند پر پوری آب وتاب کے ساتھ نمودار ہوہی گیا جس کی خیرہ چشم کرنیں انگریزوں کے لئے تباہ کن ثابت ہوئیں اور انگریز اپنی ظلم و تشدد اور لوٹ کھسوٹ سے عبارت سلطنت کے خیموں کو اکھاڑ کر انگلستان بھاگ کھڑے ہونے پر مجبور ہوئے، اور اہالیانِ ہند کو غلامی کی زنجیر سے رہائی نصیب ہوئی۔  

    اس بات سے ہمیں قطعی انکار نہیں کہ آزادئ ہند کی طویل تاریخ میں برادرانِ وطن نے کسی موقع پرمسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ہمیں یہ اعتراف ہے کہ انہوں نے بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ ہوکر انگریزوں سے جنگیں لڑی ہیں،اور اس دیس کو آزاد کرانے کی خاطر بہتوں نے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا ہےلیکن! کب؟  جب مسلمانانِ ہند اپنے مشن میں کامیاب ہونے کی کگار پر کھڑے تھے،اور آزادی کی کشتی غلامی اور اسیری کی بھول بھلیوں سے گزر کر ساحلِ آزادی پرلنگر انداز ہونے ہی والی تھی اس وقت برادرانِ وطن نے انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوایا ہے،لیکن صد حیف کہ آج صرف اور صرف انہیں پر " امر رہے " کے نعرے لگائےجاتےہیں،اور آزادی کی خاطر ان کی جانفشانیوں کی اس دردناک انداز میں منظر کشی کی جاتی ہے کہ تعصب پسند اور ناواقف لوگ یقین کی حد تک گمان کر بیٹھتے ہیں کہ آزادی کی پوری جنگ صرف اور صرف برادرانِ وطن ہی نے لڑی ہے۔

    اس لئے ہمیں  یہ  کہتے ہوئے بڑاہی دکھ ہوتا ہے کہ  جب بھی 15/اگست یا 26/ جنوری کا موقع آتاہے تو ایسے موقع پر برادرانِ وطن اور ان کے شانہ بشانہ کچھ مسلم لیڈران تاریخ سازمسلمانوں اور علماءِ کرام کی قربانیوں کو یکسرنظرانداز کرتے نظر آتے ہیں، اور ان کے نام کے تذکرےتک کو گوارہ نہیں کرتے،اس لئے میں کہنا چاہونگا ان غدارانِ وطن سے کہ اگر تاریخِ آزادی بیان کرتے وقت ٹیپو سلطان رحمہ اللہ کی شہادت کا دلدوز تذکرہ نہ کیا جائے تو یہ ان کی روح کے ساتھ بڑی نا انصافی ہوگی،بڑا ظلم ہوگا اگر جنگِ آزادی کی تاریخ بیان کرتے وقت شاہ ولی اللہ محدِّث دہلویؒ ، ان کے صاحبزادے شاہ عبد العزیزؒاور ان کے شاگردان شاہ احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل  شہید رحمہم اللہ کی قربانیوں کے تذکرے نہ کئےجائیں، ہندوستان کی تاریخِ آزادی کے ساتھ بڑی ہی نا انصافی ہوگی اگر 1857؁ء کی جنگ میں شریک اکابرِ علماءِ دیوبند اور جانباز مردِ میدان مسلمانوں کا ذکرِ خیر نہ کیا جائے،بڑی ہی ناسپاسی ہوگی اگر تاریخ بیان کرتے وقت حضرت حافظ ضامن شہیدؒ کی روحِ مقدس کو خراجِ عقیدت نہ پیش کیا جائے،بڑا ہی ستم ہوگا اگر 15/اگست یا 26/ جنوری کے موقع پر انگریزوں کو ہندوستان سے بھگانے کے لئے ہیرو کا کردار ادا کرنے والے عظیم مردِ مجاہد حضرت شیخ الہندؒ اور ان کے رفقاء کار حضرت مولانا عبیداللہ سندھی،حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی اورحضرت مولانا عزیر گل رحمہم اللہ کی وفاداری کے تذکرے نہ بیان کئے جائیں، بڑا ہی ظلم ہوگا اگر اس پُرمسرت موقع پر حضرت مولانا محمد علی جوہرؒکے دلیرانہ قصے کو پسِ پشت ڈالدیا جائے جنہوں نے 1930؁ء میں لندن میں گول میز کانفرنس کے دوران برطانوی سامراجوں کے سامنے ببانگِ دہل یہ اعلان کیا تھا کہ " اگر تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہیں کروگے تو میں ہندوستان واپس نہیں جاؤنگا اور تمہیں میری قبر یہیں بنانی پڑےگی"یہ تھے ہمارے مسلمان اور علماء جنہوں نے اپنے خونِ جگر سے اس ملک کو سینچا تھا لیکن افسوس! کہ آج ان کا کوئ نام لیوا تک نہیں،لیکن اس سے ان کو کیا فرق پڑتا ہے کیونکہ۔۔۔ 

                

            پتہ  پتہ  بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے 

     جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے 


                               ظفر امام، کھجورباڑی

                                دارالعلوم بہادرگنج

                                   کشن گنج بہار