اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مسجد سے مندر تک، اور مسلم قیادت ایک لمحہ فکر.......... نتیجہ فکر : عدنان عالم Mob;9973804482

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 13 August 2020

مسجد سے مندر تک، اور مسلم قیادت ایک لمحہ فکر.......... نتیجہ فکر : عدنان عالم Mob;9973804482

 مسجد سے مندر تک، اور مسلم قیادت ایک لمحہ فکر..........

                 نتیجہ فکر : عدنان عالم

 Mob;9973804482


٥/اگست کیا ہے...........؟

ہندوستانی تاریخ کا سیاہ دن.............

آزاد ہندوستان کا ذہنی غلامی کی طرف بڑھتا ہوا ایک قدم.........

سیکولر آئین کے قتل کا دن.............

مخصوص جماعت کو نظر انداز کرنے کا دن...........

سب سے بڑا یہ کہ تمام سیکولر پارٹیوں کی مسلم محبت کے جھوٹے دعوے کو سامنے لانے والا دن..........

یہ وہ دن ہے جس نے کانگریس کے دوغلے پن، سپا کے مسخ چہرے، اور تمام سیکولر پارٹیوں کی حقیقتوں، مسلم عداوت، اور آپسی معاونت کو واضح کر دیا ہے.....

ہم آزاد ہندوستان میں  بابری مسجد کی جگہ پر غاصبانہ قبضہ کرکے خانہ خدا کو بت خانہ میں تبدیل کرنے کی بات کر رہے ہیں.

               

        بابری مسجد کی تعمیر 1528ء میں بابر کے گورنر میر باقی نے ایک غیر متنازع زمین پر کرائی تھی، جہاں مندر نام کی کوئی چیز نہ تھی، اگر ایسا ہوتا تو رامائن میں اس تذکرہ ضرور ملتا جس کو تلسی داس نے ایودھیا میں ہی لکھی تھی، دراصل اس تنازع کو انگریزوں نے جنگ آزادی کو کمزور کرنے کے لئے کھڑا کیا تھا، ایک بڈھسٹ نجومی کے ذریعہ یہ بات عام کی گئی تھی کہ چبوترے کی جگہ رام چندر جی کی جائے پیدائش ہے.


           آزادی کے محض دو سال بعد 22/دسمبر 1994ء کو ہنومان گڑھی مندر کے مہنت" ابھے رام داس" نے اپنے کچھ چیلوں کے ساتھ مل کر عین محراب کے اندر مورتیاں رکھ دی، اور صراحت کے ساتھ جھوٹ بولا کہ رام جی پرکٹ ہوئے، اس سلسلے میں جو رپورٹ اس دن ایک ہندو کانسٹیبل نے لکھا تھا وہ اس جھوٹ کو ثابت کرتا ہے "کچھ شر پسندوں نے اندھیری رات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد کی دیوار پھاند کر وہاں مورتیاں رکھیں، میں نے ایودھیا میں بابری مسجد کے امام سے ملاقات کی تھی، جنہوں نے 22/دسمبر 1949ءکی رات کو عشاء کی نماز پڑھائی تھی "، بہر کیف اس کے بعد مسجد میں تالا ڈال دیا گیا.

            آئیے اب تالا کھلوانے کی بات کرتے ہیں، 1984ء میں وشو ہندو پریشد نے مسجد کے تالا کھولنے اور پوجا کی عام اجازت کے لئے بڑے پیمانے پر آواز بلند کی، بعد میں کچھ اور شدت پسند تنظیموں نے اس کے سر سے سر ملانا شروع کر دیا، بالآخر یکم فروری 1986ء کو ضلع  جج نے یہ کہتے ہوئے کہ "مورتیاں باہر سے نظر آتی ہیں، اس لئے تالے کی کوئی ضرورت نہیں" اپنا فیصلہ سنایا، اور پوجا کی عام اجازت دے دی، در اصل اس کے پیچھے کچھ سیاسی مفاد و مقاصد کار فرما تھے، جس کا فائدہ کانگریس نے پارلیمانی انتخابات میں اٹھایا.


             25ستمبر 1990ء میں لال کرشن اڈوانی کے رتھ یاترا سے اس باب میں ایک نیا موڑ آیا، اور مسجد کو منہدم کرنے کی کوشش کی گئی، 30/اکتوبر اور 2 نومبر سے ہم سے تقریباً ہر کوئی واقف ہے، وقت کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ طول پکڑتا گیا، بالآخر 6/دسمبر 1992ء کو شر پسند عناصر کے ذریعہ مسجد کو شہید کر دیا گیا، اس وقت ریاست میں بی جے پی اور مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی.


           کورٹ کچہری کا چکر کھا کر یہ معاملہ آلہ باد ہائی کورٹ پہونچا، 30/ستمبر 2010ء کو الہ باد ہائی کورٹ نے متنازع مقام کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا، لیکن اس فیصلہ سے کوئی بھی فریق مطمئن نہ تھا، چنانچہ دونوں فریق نے سپریم کورٹ میں اپیل کی، سپریم کورٹ میں لمبی بحث، سماعت پہ سماعت، تاریخ اور التواء تاریخ کے مراحل طے کر نے بعد سپریم کورٹ نے مندرجہ ذیل حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے (1)مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں(2) 22/دسمبر 1949ء تک وہاں نماز ہوتی رہی (3)رام للا پرکٹ نہیں ہوئے بلکہ غیر قانونی طور پر مورتیاں رکھی گئی تھیں (4) مسجد کا انہدام غیر قانونی عمل تھا..9 نومبر 2019 ء کو متنازع اراضی کو رام للا کو سونپ دیا، ساتھ ہی اس کے تحفظ کے لئے دو مہینے کے اندر ٹرسٹ بنانے کا حکم بھی دیا، اور اب 5/اگست 2020ء کو مندر کی بنیاد رکھی گئی.


          اگر اس پورے قصے کو غور سے دیکھا جائے تو  ایک چیز Common ملتی ہے کہ مسجد کے انہدام سے تعمیر تک تمام سیاسی جماعتوں نے برابر کا رول ادا کیا ہے، کانگریس، بی جے پی اس کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں جو سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں کہیں نہ کہیں یہ ان کا ایجنڈا رہا ہے، کسی  کاخفیہ تو کسی کا اعلانیہ، اب تو کانگریس نے کھل کر اپنے موقف کا اظہار کر دیا ہے، نیز مندر میں گیارہ چاندی کے اینٹ دینے کا بھی اعلان کردیا، اور کرے بھی کیوں نہ اس معاملہ کا اصل ہیرو  تو راجیو گاندھی ہی ہیں، بعد میں جس ادھورے کردار کو نرسمہا راؤ نے پورا کیا، خیر میں شکر گزار ہوں بی جے پی کا جس نے پرینکا گاندھی، راہل گاندھی، اکھلیش یادو جیسے نام نہاد سیکولروں کے چہرے کو بے نقاب کر دیا.


       خیر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف واضح ہوچکا ہے کہ انکو مسلم ووٹ بینک چاہیے، مسلمان نہیں، ساتھ ہی ان کی مسلم مخالف سوچ بھی سامنے آ گئی ہے، تو کیا اب بھی ہماری موجودہ قیادت سیاست کی طرف توجہ دے گی؟ کیا مسلم پرسنل لا، جمعیت علماء، جمعیت اہل حدیث، جماعت اسلامی کے ذمہ داران سر جوڑ کر ایک سیاسی لائحہ عمل تیار کریں گے، جو مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا وقار واپس کرے، جس کے ذریعہ مسلمان براہ راست حکومت کا حصہ بن سکیں، جو مستقبل میں بحیثیت ایک قوم کے جینے کا ضمان دے، یا پھر آپسی اختلاف، ذاتی مفاد، سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے، اور بے جا شہرت میں  مسلمانوں کے مستقبل کو جہنم میں ڈھکیل دیں گے؟