آل انڈیا تحریک عوام ہند کا پیغام زخم خردہ (اس سے مایوسی کی بو آتی ہے )ملت اسلامیہ کے نام
تحریر محمد عارف سراج النعمانی خادم و بانی
آل انڈیا تحریک عوام ہند ۔۔۔۔۔۔۔
واٹسپ 9718736768
----------------------------------------
جلاڈالی تھی کشتیاں تم نے اندلس کے ساحل پر
مسلماں اب تیری تاریخ دہرانے کا وقت آیا
اور چلے تھے تین سو تیرہ جہاں سے اے مسلمانوں
انہیں ماضی کی راہوں پر پلٹ جانے کا وقت آیا
زخم خوردہ ملت اسلامیہ اورباالخصوص ارباب علوم و فنون آج جس کربناک اور تشویشناک حالات سے دوچار ہیں ایسا نہیں کہ یہ مثال ہو
اسکی مثال نہیں ملتی
تاریخ کے اوراق سطر سطر محنت ومشقت، جدوجہد، جانثاری، جفاکشی اور قربانیوں کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں، وہ توحید کے متوالے اسلام کے داعی جنکے سامنے اسلام کی حقانیت، ملت اسلامیہ کا تشخص اور اسلام کا تحفظ سر چڑھ کر بولتا تھا ان پر طرح طرح کے مصائب و مشکلات آتے رہے ہیں ، تاریخ بتاتی ہے قید و بند کی صعوبتیں بھی نہ انہیں جھکا سکی نہ انہیں خرید سکی، وہ اپنے دین و ایمان و ایقان پر کوہ گراں کے مثل ہر آن و ہر پل ، ہو خوشی ہر غم ،راحت و الم جمے رہے ڈٹے رہے دنیا کی کوئی طاقت و قوت ان کے آہنی قدموں کو متزلزل نہ کرسکی ، دنیا کا کوئی جبر وستم حق کے کلمہ کو چہار دانگ عالم میں بلند کرنے کو نہ روک سکا ، راہوں میں سمندر آئے تو پاٹ کے رکھ دیا ، لق و دق صحرا اور ریتیلے پہاڑوں نے راہیں گم کیں تو خاطر میں نہ لائے، خونخوار جنگلوں نے راستہ دینے سے انکار کیا تو بھی عزائم کی بالیدگی میں خفت پیدا نہ ہوسکی، سد سکندری حائل ہوئی تو قدم نہ ڈگمگائے، بھوک و پیاس کی شدت نے تکمیل اہداف پر کمند کسنا چاہی تو کبھی پیٹ پر پتھر باندھ کر کمر مضبوط کرلی تو کبھی درختوں کے پتوں سے کام چلا لیا ، قیصر و کسری کی آن وبان اور شوکت و شان ایک بندے ٹھوکر مار کر اس طرح اڑا دیا تھا جس طرح فٹ بال اڑایا جاتا ہے، اور مخالف یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ ایسی قوم ہے جو آسمان و زمین نے اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی کہ نصف صدی سے بھی کم میں تقریبا ربع مسکوں اسلامی علم نصب کر ڈالا ، شاعر نے دور ماضیہ کا کیا خوب نقش کھینچا ہے
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا
جی ہاں ! ہم وہی قوم مسلم ہیں کہ جب خداکے فرمان وانتم الاعلون کے مطابق چلے تو سامنے بڑی بڑی سلطنتیں وحکومتیں زیر وزبر ہوکر گھٹنوں سمیت زمین پر آلگی تھی، لاثانی قیصر کسری کے طوطے اڑ گئے تھے، روما کا غرور خاک میں رند گیا تھا یہ آیت ہماری روشن تاریخ کا اختصار ہے ، اسی میں ہماری سربلندی کا راز مضمر ہے، اسی آیت میں تابناک مستقبل کے نقوش وخطوط پوشیدہ ہیں۔
ملت اسلامیہ کے کتنے ہی بے شمار جیالے و متوالے ہیں جنہوں نے ان نقوش وخطوط میں پوشیدہ راہوں کو ہویدا کیا ،اس آیت مقدس کی عملی تفسیر بن کر ابھرے اور تاریخ کے دھارے کو موڑ کر رکھ دیا ، پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی بنے ، سمندروں کی اٹھتی موجیں عزائم کی تکمیل سے ان کو نہ روک سکی ، آہنی ہتھکڑیاں، گرم تیل سے کھولتے کڑاہے، آنکھوں کے سامنے اپنوں کے بکھرتے اعضاء ، تڑپتے لاشیں، اور سنگلاخ وادیوں کے گرم تپتے ریت پر جھلستے وجود بھی ان کے اندر اضمحلال کو پیدا نہ کر سکے
یہی اصلا نبیوں کے وارث س امین ہیں اور اس وراثت کے صحیح جانشیں بھی ، لیکن صد افسوس اس بات پر ہے کہ ہم اصاغر بڑی طاقت وقوت کے ساتھ ببانگ دہل "پدرم سلطان بود" کی طرح یہ قول بیان تو کرتے ہیں ؛مگر وراثت کے ان تقاضوں کو بھلا بیٹھے جو ہم پر عائد کئے گئے تھے، ہم وراثت کے ان مقاصد کو س پشت ڈال دیا جن کو بروئے کار لانے کے باعث ہمیں خلافت ارضی کے تمغہ افتخار کا مستحق قرار دیاگیا تھا،
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے بلکہ یہ خوشی کا اعلی ترین مقام ہے کہ علمائے کرام ہی اس حدیث کے صحیح مصداق ہیں ، ذمہ داریوں کو بروئے کار لانے والے علما کے لئے بھی وہی عروج ہے جو نبیوں کو ملا، ان کو بھی نصرت ایزدی ،تائید غیبی رعب وبدبہ، طمانیت قلب، روحانی قوت نبیوں کی طرح حاصل ہوتی ہے،
مگر ہم بھول جاتے ہیں جب حالات غیر ہوتے ہیں ، جب شکنجے کسے جاتے ہیں ، جب پہرے بٹھا دئے جاتے ہیں ، جب دشمن ہماری زبانوں پر تالے لٹکاتے ہیں، گردنوں کی سستی قیمت لگاتے ہیں،
کہ ہم نبیوں کے ورثا ہیں، ان کے ورثے کےامین ہیں ،اس وراثت کا قوام وثبات اس کا وجود علما کے دم قدم سے زندہ ہے، اسلامی تشخص کا جو زخمی چہرہ آج کے پر آشوب ماحول میں نظر آرہا ہے یہ علما کا رہین منت ہے ، جھکتی جبینوں سے آباد گھر خدا کے ، بلند میناروں سے اٹھتی اذانیں، چہروں پر سجتی داڑھیاں، دعوت الی اللہ کے لئے کوشاں دیوانے، قال اللہ و قال الرسول کے نغمے سے گونجتی آوازیں یہ سب اہل علم کی بے پناہ جدوجہد، ایثار وقربانی،بے لوث خدمت اور خالص محبت کا ثمرہ ہی تو ہے ، ہماری اکابر علماء کی ملت اسلامیہ اور دین مبین کے تئیں قربانیوں کو شمار و قطار میں لانا انتہائی مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ہم انہیں کے سپوت ہیں ،ہماری رگوں میں بھی انہیں کا سرخ خون دوڑتا ہے، ہم ان کے نام لیوا ہیں ، ہمارا عظیم وجود ، ہمارا پیارا ملک ،ہمارا علم ،ہمارا ملی تشخص یہ سب انہیں کا پرتو ہے اس لئےاب ہماری باری ہے ذمہ داریوں کا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کی ، وطن عزیز کی حرمت وعزت کی بحالی کی، غیروں کو اپنا ہمنوا بنا کر ساتھ لے چلنے کی ، کم ہمتی وبزدلی کی چادرکو اتار پھینک کر عزم واستقلال ہمت و جرات کے لباس کو زیب تن کرنے کی، موت کو گلے لگانے کی، دشمن دین وجاں اور دشمن ملک وملت کی چالاکیوں و مکاریوں کو سمجھ کر قبل از وقت ناکام کرنے کی ، کیونکہ ہم ہم ہی وارث ہیں اور وراثت کے صحیح حقدار ہم تب ہوں گے جب ہم اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین ومذہب ملک وملت کی
آبیاری کے لئے مسلسل کوشاں ہوں گے، ہمیں چاہئے ہم مشکلات کا سامنا کرنے دشوار گذار حالات سے نبردآزما ہونے اورسخت ترین حالتوں میں سینہ سپر ہونے کے لئے ہمہ جہت تیار ہوں ، دور رواں کے اتھل پتھل حالات سے قطعاً مرعوب نہ ہوں دلبرداشتہ نہ ہوں،
ہمارے پیارے نبی نے اس وقت اعلائے کلمتہ اللہ کام کیا جب اس وسیع وعریض دنیا میں کوئی بھی ہمنوا نہیں تھا ،اور پوری دنیا کفر کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی ، اس لئے ہم بھی اپنے اکابر کی ہدایات و راہنمائی میں کام سر انجام دینے والے بنیں کیونکہ بڑوں کے ہمراہ برکتیں ساتھ چلتی ہیں، بلند پایہ اخلاق وکردار کے موتیوں کے خزانوں سے دشمنوں کے خالی کشکول لبالب بھرے جائیں اور نظر ہمیشہ اللہ پر اس کی قوت وطاقت پر رکھ کر حالات کا اولا جائزہ پھر اس کا تعاقب کیاجائے ، اللہ کی طاعت و بندگی اور احکامات پر مضبوطی سے عمل درآمد کرنے والی سرمدو سربلند ہوتے ہیں یہی قرآن کا اعلان ہے ۔
تو میرے دوستوں حالات چاہے کتنے خراب ہی کیوں نہ ہوں تب بھی رحمت خداوندی سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ ہوں نہ ہی کسی طاقت سے مرعوب ہوں اور نہ ہی احساس کمتری کا شکار ہوں ہماری راہبری کے لئے قرآن کریم موجود ہے جو ہمارے لئے مکمل ضابطہ حیات ہے ہر شخص روز و شب کا رونا رورہا ہے قیادت کہاں ہے قیادت کچھ نہیں کررہی ہے واضح ہوکہ تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے جس قوم نے زمانہ کے نشیب و فراز اور دنیا کے بدلتے منظرنامہ سے کمپرومائز یا سمجھوتا کرلیا جیسا دیش ویسا بھیس پر یقین جمالیا تو اللہ تعالی ایسے لوگوں سے ذمہ داریاں چھین کر پرندوں اور چینونٹیوں سے کام لے لیا کرتا ہے، ہاں اسلام اوراسلامی قیادت کا مزاج تو یہی کہ قائد اور امیر آگے چلتا ہے اور قوم پیچھے لیکن یہاں سب اسکے برعکس ہورہا ہے تو معافی کے ساتھ قوم ناکامیوں اور محرومیوں کی دہلیز تک نہیں جائیگی تو کیا آسمان میں اڑیگی بہر حال میرا مقصد صرف یہ تھا مشکلات اور پریشانیاں ہماری زنگیوں میں عجیب پیغام دیکر جاتی ہیں جس بعد کے زندگی کے دھارے بدل جاتے ہیں اور انسانوں کو باری تعالی ہر پریشانی کے بعد آسانی اور سکون عطاء فرماتے ہیں لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب ہم مشکل حالات کو صبر و استقامت سے گزاردیں ہر حال میں اللہ تعالی کے شکر گزار ہوں جیساکہ ہماری ماضی کی تاریخ رہی ہے دعا گو ہوں کہ۔باری تعالی ہمارا حال اور مستقبل بھی روشن اور تابناک بنائے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا۔احساس۔دلائے آمین یارب العالمین