رضیہ سلطانہ،نوجوان نسلوں کیلئے مشعل راہ
محمد عثمان نئی دہلی
مکرمی:آج کل سماج میں خواتین کا رتبہ تعلیم اور روزگار کی وجہ سے ہمارا سماجی تانا بانا بدل رہا ہے۔حالانکہ ہمارے ملک کے کچھ چنندہ علاقوں میں خاص طور سے مشرقی ہندوستان میں آج بھی گھروں میں لڑکیوں کے پیدا ہونے کو اچھا نہیں مانا جاتا ہے۔ایسے سماج میں جہاں آدمی ہی پوری فیملی کو چلاتا ہے،ایک بیٹے کے پیدا ہونے پر بہت خوشی منائی جاتی ہے۔یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کے حقوق کو اسلامی نظریے سے دیکھا جاتا ہے۔اسلام میں عورتوں کو یورپ سے بارہ سو سال پہلے وراثت میں حقوق دئے گئے تھے۔حالانکہ زمینی سطح پر حالات زیادہ نہیں بدلے ہیں،ایسے میں وقت آیا رضیہ سلطانہ کا جو دہلی سلطنت سب سے مقبول سلطانہ تھیں۔وہ دہلی سلطنت کی پہلی اور اکلوتی خاتون سلطانہ تھیں۔التمش کی بیٹی رضیہ نے اپنے والد سے 1236 میں گدی وراثت میں لی اور 1240 تک حکومت کی۔رضیہ صرف ایک لڑاکو نہیں بلکہ ایک حکمراں بھی تھیں۔جس کے کام تاریخ کے صفحات میں درج ہیں،تاکہ لوگ اس سے سیکھ سکیں۔ایک چھوٹے بچے کے طور۔ پر بھی اسے اپنے والد کی حکومت میں زیادہ دلچسپی تھی،وہ بہت ہی کم وقت گزارتی تھیں عورتوں کے ساتھ۔اس لئے انہیں مسلم عورتوں کے طور طریقے بھی کم پتہ تھے اور سلطان بننے کے بعد رضیہ آدمیوں جیسے لباس پہنتی تھیں۔وہ لڑائ میں اپنی فوج کی قیادت کرتی تھیں۔ان کا ذہن ایک حکمراں کا تھاجس کی وجہ سے اس کی حکومت میں امن تھا اور ہر ایک شخص اس کے بنائے اصولوں کو مانتا تھا۔اس نےدوسرے ممالک سے تجارت کو فروغ دیا۔اسکول بنوائے ،سڑکیں بنوائیں،دیواریں بنوائیں،لائبریریاں بنوائیں تاکہ قرآن اور پیغمبر کے کام کو آگے بڑھایا جا سکے۔انہوں نے اپنے راج میں ہندوئوں کے ساتھ بھی بہت اچھا برتاؤ کیا۔رضیہ کی کامیابی اس کی بہادری اور طاقت دکھاتی ہے۔اس نے سبھی عورتوں کیلئے ایک مثال قائم کی تاکہ عورتیں مضبوطی سے کھڑی ہو سکیں۔اس نے دکھایا کہ سب کچھ آدمیوں کا ہی نہیں ہے،آج کی لڑکیوں کو بھی رضیہ سے سیکھ لینی چاہئے تاکہ ہندوستان کو رہنے کیلئے ایک اچھی سی جگہ بنایا جا سکے۔