فاروق اعظم عمر بن خطاب
✒حمزہ اجمل جونپوری
اسلام کی بنیاد رکھی جا چکی تھی مکہ کی گلی کوچوں میں اس مبارک بنیاد کی زور سے مخالفت ہو رہی تھی اسلام کے نام لیواوں کا قافلہ آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا کفار مکہ جاں نثاران محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے دعوة الی اللہ کے راستے میں طرح طرح سے مصائب کی دیوار کھڑی کی جا رہی تھی علی الاعلان دعوت کا کام بند ہو گیا تھا مسلمان دار ارقم میں چھپ کر نماز اور دین کی باتیں ذکر و اذکار کرنے لگے خفیہ دعوت کا کام جاری تھا فردا فردا ملاقات کا سلسلہ چل رہا تھا اسلامی لشکر میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جیسا شیر دل شامل ہو چکا تھا پھر بھی کہیں نا کہیں جاں نثاروں میں مضبوط پہاڑ کی طرح انسان کی کمی تھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کہ ائے اللہ اسلام کو عزت فرما عمرو بن ہشام کے ذریعہ سے یا عمر بن خطاب کے ذریعہ سے دعا بارگاہ ایزدی میں پہنچ گئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں فیصلہ کر دیا گیا ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دروازے کے پاس سے تلاوت کرکے گزرتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ قرآن کی آیتوں کو سن کی بے چین ہو جاتے تھے ایک دن مارے جوش میں گھر سے تلوار سونت کر نکلے اور گھوڑے پر شمشیر کو لہراتے ہوئے جا رہے تھے راستے میں نعیم بن عبداللہ النحام سے ملاقات ہو گئی پوچھا ائے عمر کہاں کا ارادہ ہے ؟ عمر نے جلال کے ساتھ فرمایا کہ آج میں اس ہستی کا نعوذ باللہ خاتمہ کرنے جا رہا ہوں جس نے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا لگائی نعیم بن عبداللہ نے کہا ائے عمر ہوش کے ناخن لو پہلے اپنے بہن اور بہنوئی کی خبر لے لو جو اسلام کے دامن میں پناہ لے چکے ہیں حضرت عمر وہیں سے اپنے بہنوئی کے گھر گئے دروازے پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کو سنا غصے سے اندر داخل ہونے لگے آہٹ پا کر بہن اور بہنوئی نے خباب بن ارت کو چھپا دیا عمر اندر داخل ہو گئے پوچھا اور بے تحاشہ مارنے لگے بہن نے کہا ائے عمر اگر آپ ہمیں مار ڈالو گے تو پھر بھی ہم اسلام سے منھ نہیں موڑیں گے حضرت عمر یہ سن کر خاموش ہو گئے کہا مجھے سناو اس کلام کو جس کو تم سب پڑھ رہے تھے بہن نے کہا ائے عمر یہ کلام مبارک ہے اس کو اسطرح نہیں چھوا جا سکتا حضرت عمر نے غسل کیا پھر آپ کے سامنے قرآن پڑھا جانے گا پتھر دل انسان موم کی طرح پگھلنا شروع ہوا وہاں سے بھاگتے ہوئے دار ارقم آئے دروازہ کھٹکھٹایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : کون ؟
باہر سے آواز آئی میں عمر بن خطاب
حضرت حمزہ نے کہا اگر عمر صحیح نیت لے کر آیا ہے تو مرحبا ورنہ میں اسکی تلوار سے اسی کا سر قلم کر دوں گا دراوزہ کھولا گیا عمر اندر داخل ہوئے تڑپ رہے تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کس مقصد سے آئے ہو حضرت عمر نے کہا ائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دامن اسلام میں رکھ لیجئے صحابہ نے با آواز بلند نعرہ مارا دار ارقم کی پہاڑیاں بھی جوابا گونج اٹھی ۔
بیت اللہ آئے سر عام نماز پڑھی کفار دہشت میں تھے خوف کھائے ہوئے تھے کہ افسوس کر رہے تھے وہ سیسہ پلائی دیوار جو کبھی کفار کے ساتھ تھی آج اسلام کے دامن میں سجدہ ریز ہو کر لا الہ الا اللہ کی صدا لگا رہی ہے ۔ وہ مرد آہن جو اسلام کا سب سے بڑا مخالف تھا آج اسی کا شیدائی ہو گیا وہ مرد جلال جو اسلام کے لئے سب سے سخت تھا آج اسلام کے دامن سجدہ ریز ہے
حضرت عمر نے موذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ائے بلال اٹھو اور کعبے کی چھت سے اذان دو تاکہ کفار مکہ کو پتا چلے عمر اسلام قبول کر چکا ہے ۔
امام المجاہدین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کو فاروق لقب سے نوازا گیا جس کے قبول اسلام سے حقیقت میں دین و اسلام کے درمیان فرق ہو گیا تھا۔
ہجرت کا موقع ہے مسلمانوں کا لشکر مدینة الرسول کی طرف ہجرت کر رہا تھا کوئی چھپ کر کوئی راتوں میں جا رہا تھا حضرت عمر کفار کی مجلس میں گئے اور ابو جہل کے سر پر کمان مار کر کہا اگر کوئی اپنی بیوی کو بیوہ اور اپنے بچوں کو یتیم دیکھنا چاہتا ہے تو وہ عمر کا راستہ آ کر روکے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے علی الاعلان ہجرت کی ۔
مدینے کا دور ہے مسلمان غزوہ بدر میں فاتح بن کر لوٹے قیدی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا قیدیوں کا کیا کیا جائے حضرت عمر بولے ان کے سر کو تن سے جدا کر دیا جائے اور ہر شخص اپنے عزیز کا سر قلم کرے ۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بولے ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے ۔
قیدی رہا کر دئے گئے
اس کے بعد آپ کی موافقت میں آیت نازل ہوئی
لَوْ لَا كِتٰبٌ مِّنَ اللّٰهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَاۤ اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ( محمد ۶۸)
اگر اللہ پہلے ایک بات لکھ نہ چکا ہوتا تو اے مسلمانو تم نے جو کافروں سے بدلے کا مال لے لیا اس میں تم پر بڑا عذاب آتا
عمر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا واحد سپہ سالار تھا جس کا سامنا کرتے ہوئے مشرکین ڈرتے تھے اور شیطان اس راستے سے سرپٹ بھاگتا تھا جس پر آپ رضی اللہ عنہ چلتے تھے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے لوگ غمزدہ ہیں حضرت عمر تلوار لے کر مدینے کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں کہ جو شخص کہے گا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم انتقال کر گئے ہیں اسکی گردن اڑا دوں گا محبت کا یہ عالم تھا کہ محبوب کے انتقال کی خبر کسی کے منھ سے سننا گوارہ نہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں سمجھایا ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسند خلافت پر آپ جلوہ افروز ہوئے بار خلافت کو سنبھالا انسانوں کے ساتھ ساتھ جانور بھی آپ کی عدالت کر تسلیم کرتے تھے بھیڑیا اور بکریاں ایک ساتھ ندی میں پانی پیتے تھے بھیڑیے کی اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ بکری پر حملہ کر دے ۔
22 لاکھ مربع میل کا وقت کا سپر پاور حکمران خطبہ دینے کے لئے کھڑا ہوتا ہے کسی شخص کی نگاہ آپ کے لباس پر پڑ جاتی ہے آنکھیں حیرت زدہ ہے کیا دیکھتا ہے کہ امیر المومنین کے کپڑے پر 17 پیوند لگے ہوئے ہیں جلال کا یہ عالم تھا اگر ممبر سے گھڑے ہو کر گرجتے تھے تو قیصر و کسری کے محل تھرا جاتے تھے شیطانی خیموں میں زلزلہ برپا ہو جاتا تھا اور سادگی کا یہ عالم کہ آپ کے کپڑے پر 17 پیوند لگے ہوئے ہیں ۔
فاتح بیت المقدس جب سر زمین فلسطین میں داخل ہوتا ہے تو ہاتھ میں کھوڑے کی لگام ہے گھوڑے پر آپ کا غلام سوار ہے یہ منظر دیکھ کر کفار حیرت زدہ ہو گئے کہ آیا یہی امیر المومنین ہے ؟
جی ہاں یہ وہی امیر المومنین ہے جس نے دریا کو خط بھیجا تھا جس کے پیغام کو ہواوں نے مسلمانوں کے لشکر تک پہنچایا تھا جو رات کے وقت بھی مسلمانوں کی خبر گیری کرتا تھا ۔
ہاں یہ وہی عمر ہے جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا عمر فتنے و فساد کا سد باب ہے جب یہ دروازہ توڑ (شہید) کر دیا جائے گا تو فتنے تمہاری طرف آندھی کی طرح آئیں گے ۔
ہاں یہ وہی عمر بن خطاب ہے جس کی زبان پر اللہ نے حق جاری کر دیا تھا جسکے باتیں قرآن کی آیات بن کر آئیں
آج اسی کی شہادت کا دن ہے جسے بدبختوں نے فجر کی نماز میں زہر آلود خنجر مارا تھا آپ زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے اس جہان فانی کو الوداع کہ دیا ۔
جو بھی جلتا ہے تیرے پاک نام سے ائے عمر
اسلام کی زبان میں اسے شیطان کہتے ہیں
حمزہ اجمل جونپوری