اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *چاندےکاپارکانیازمندانہ سفر* کتبہ منظوراحمدقاسمی اسعدنگرملوا

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Tuesday, 25 August 2020

*چاندےکاپارکانیازمندانہ سفر* کتبہ منظوراحمدقاسمی اسعدنگرملوا

 *چاندےکاپارکانیازمندانہ سفر* 


کتبہ منظوراحمدقاسمی اسعدنگرملوا


سندعالمیت وفاضلیت کےآٹھ سالہ نصابی کورس  کےابتدائی تین سال ( عربی اول،دوم،سوم،) طالب علم کی علمی  وفنی  قابلیت  کےلیے اساس کی حیثیت رکھتے ہے،یہ تین سال علمی استعدادسازی کےلیے  بنیادی ہیں، انہی تین برسوں میں  علوم آلیہ کےاہم فنون  "نحووصرف"  کی کتابیں پڑھائی جاتی ہے،جوعلوم عالیہ میں درک   ورسائی کےلیے بطورخاص درس نظامی  میں داخل  ہیں،ان تین سالوں میں اگر طالب علم کوتعلیمی صحیح نہج وعلمی ڈگر پرڈال دیاجائے،توصحیح معنوں میں"  طالب علم " حصول علم کاشیدائی بن کراگلے چارپانچ سال  کےقیمتی سرمایہ زندگی کواپنی عملی صلاحیتوں کواجاگر کرنےمیں صرف کرنےکاعادی بن جائےگا، ان شروع کے تعلیمی تین برسوں میں  استاذ کےعلمی کردارکوبڑادخل ہے، تدریسی خدمت پرماموراساتذہ کی  علمی محنتوں وجفاکشیوں کا  عکس   پڑھنےوالےطلبہ پرضرورپڑتاہے، ـ  طلبہ پراپنےاساتذہ کی صحبتوں ومعیتوں کااثرپڑناناقابل انکارحقیقت ہے،اگر  مدرسین مطالعہ کے رسیا، وکتب  بینی کےعادی  ہیں،توانکےسائے عاطفت تلے  پروان چڑھنےطلبہ عزیزبھی  مطالعہ کاپاکیزہ ذوق، وعمدہ شوق  رکھنےوالےہوں گے،اگراساتذہ ہی   مذکورہ بالاصفات سےعاری ہونگے،توانکی زیرتربیت  طلبہ کابدشوقی  اور علمی  کم شوقی کابدنماداغ انہی اساتذہ کےسروں پرہوگا،


کاتب السطورکواپنی تمام ترنااہلیوں  ونالائقیوں  کےباوجود دست قدرت نے ایسے اساتذہ کےسایہ عطوفت وشفقت  تلے پروان چڑھنےکاموقعہ دیا، جن کے علمی قابلیت  واستعداد کاچرچا اندرون بیرون ضلع بڑی دھوم دھام سے ہوتاہے، مغربی صوبہ کےتمام مدارس  میں انکا علمی مقام ومرتبہ   ہے، اور بحمدہ تعالی بڑی قدر واعزاز کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں،

اس فہرست میں  میرے انتہائی قابل صد احترام  استاذ  مکرم جناب حضرت مولاناومفتی عبدالرحمن صاحب زیدلطفہ  کااسم گرامی بھی آتاہے، ،خلاق ازل نے حضرت کوگوناگو ں وبوقلمونی کمالات ومتعدد علمی صفات سے نوازا ہے،تواضع  ،عاجزی، فروتنی، انکساری ،  ہربڑے چھوٹے سے خندہ  پیشانی  سے ملنا یہ سب    حمیدہ صفات حضرت والامیں بدرجہ اتم  موجود ہیں، 


2006 میں آئے سیلابی وآبی طوفان  سے غرق شدہ پرانے ملوا میں قدیم ادارہ تعلیم الاطفال  میں سال عربی دوم میں " ناکارہ"کو فن   نحومیں کلیدی  حیثیت رکھنے والی اہم کتاب"  ہدایة  النحو' اور" مفیدالطالبین " پڑھنےکاشرف حاصل رہاہے، اگرچہ حضرت مفتی صاحب نے دوماہ کابہت ہی تھوڑا عرصہ  مذکورالصدرمدرسہ میں  مدرس کی حیثیت سے گزاراہے،، لیکن مفتی صاحب نے اپنی وہبی وکسبی   علمی صلاحیتوں ولیاقتوں سے ارباب مدرسہ کی نظرمیں  ایک مقام ومرتبہ حاصل کرلیا، بندہ کو قلیل ومختصر مدت میں  زانوئے تلمذ تہ کرنےکاموقعہ ملنے کےباوجود انکی   گفگتوکی مٹھاس،درس میں موہوبی و عطائی    اندازکی جاذبیت  ، علمی وتدریسی اہلیتوں کےساتھ قوت عملی   کی پرکشش اداؤں سے انکی محبت ہمیشہ کےلیے قلب  میں جانگزیں ہوگئی،خدادا داستعداد کےبدولت  حلقہ شاگرودں میں بے حد مقبول ولائق تراستاذ سمجھے جاتے ہیں،


عربی دوم کےسال کےآخری  دوماہ باقی تھے،اس وقت مفتی صاحب  کامدرسہ  میں تقرر ہواتھا،سالانہ چھٹیوں کےعین دس پندرہ دن قبل  ملواگانو سیلاب کی زد میں آنےکی وجہ سے  غرقاب ہوگیا، جس سے  باشندگان ملوا کو جانی ومالی کرڑوں کانقصان اٹھاناپڑا، اس آبی طوفان کی وجہ سے مدرسہ میں جاری تعلیمی سلسلہ  بھہ منقطع ہوگیا، بعد رمضان دوبارہ ارباب حل وکشاد کی کوششوں  کےنتیجہ میں نئے ملوا میں  تنبووخیمہ کی شکل میں تعلیمی سلسلہ شروع کیاگیا، تمام قدیم مدرسین     کی تقررریاں بحال کی گئیں، حضرت مفتی صاحب کودوبارہ لانے کےلیے ہزاروں کوششیں رائیگاں وبے سودرہیں،مدرسہ وطلبہ کی بدقسمتی  وشومئی بختی کہ لیجئے کہ اتناقابل ومقبول استاذ مدرسہ چھوڑگیا،اوراپناعلمی آشیانہ ملوا مدرسہ سے اٹھالیا، اوراب پچھلے  پندرہ سالوں سے حضرت مفتی صاحب" بجھ  "صوبہ" گجرات"ایک معیاری مدرسہ   میں" مشکاة" ہدایہ"  مختارات" ودیگر فنی اہم کتب کا کامیابی وکامرانی کےساتھ درس  دےرہےہیں، اوربڑی نیک نامی ،اورخلاص کےساتھ علم کےمتلاشی حضرات کی پیاس کوبجھانے میں  مصروف کارہیں،اللہ حضرت کوتندرستی عطافرمائے،

مفتی صاحب دامت برکاتہم  ملوا مدرسہ سے تدریسی خدمت سے مستعفاہونےکےبعدسوائے ایک مرتبہ   ملوا گانو تشریف  نہیں لائے،ویسے بھی مفتی صاحب کثرت اسفار کےبالکل عادی نہیں ہیں،جس کےبظاہر دواسباب ہیں، ایک یہ ہےکہ مفتی صاحب   گوشہ  گیر، تنہائی پسند، اور انتہائی خلوت دوست  انسان ہیں،انسانی بھیڑ بھاڑ میں بہت ہی کم دیکھنےکوملتے ہیں، کتب بینی، ان کاپاکیزہ شوق ہے، انھوں نے اپناہم جلیس کتابوں  کابناڈالاہے، وہ ہمہ وقت   محومطالعہ رہتے ہیں،زیادہ دلچسپی  اور دلی لگاؤ عربی زبان سے ہے،ہمیشہ  "الداعی" اور "الرائد"کامطالعہ بڑے شوق وذوق کےساتھ کرتے ہیں،ملوا مدرسہ میں بعد نماز عشامدرسہ کے وسیع صحن میں  رات کوبارہ بجے تک    مذکورالصدور دونوں رسالوں کامطالعہ    ضرور کیاکرتے تھے، ہاتھ میں پینسل ہوتی تھی، اور القاموس الجدید   کے مدد سے نئے الفاظ کوحل   کر حاشیہ یابین السطور میں لکھتے تھے،انگلش زبان  لکھنے اور بولنے پریکساں قدرت رکھتے ہیں، انگلش دانی میں مہارت ندوة العلما میں  رہ کرحاصل کی ہے،اسفار ناکرنےکی 

دوسری سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ  مفتی صاحب ادام اللہ ظلہ     کو دوخطرناک  بیماریوں نے اس طرح لاغر اور ایسا نحیف الجسم بنادیا ہے کہ دیکھنے والے کوصرف ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتے ہیں، مفتی صاحب کےہاضمہ کی قوت بالکل مفقود ہوچکی ہے،کھاناکھانےسے گیس بنتا ہے، جو دائیں یابائیں پسلی کےعین نیچے جمع کر باعث تکلیف ہوتا ہے، اور درد اتناسخت  کرب انگیز ہوتا ہے، کہ پسلی کوہاتھ  سے دباکر اکڑوبیٹھنا پڑتاہے، ٹھندا پانی پینے،زیادہ تیل میں بنی سبزی کھانے سے بھی درد شروع ہوتاہے، بقول   حضرت مفتی صاحب : ٹھنڈا پانی  پینے کاپرہیز بھی کئی سالوں سے ہے، دو وقت کے علاوہ چائے بھی بہت نقصان دہ ہے،   ابھی رمضان میں یہ  بیماری  شدت اختیار کرچکی تھی،جس سے طبیعت بہت ہی زیادہ گرگئی، افطاری وسحری میں صرف ایک دوکھجوروں پراکتفاکرتے تھے، اہل خانہ کے حد درجہ اصرار کےباوجود کھاناکھانے کاکوئی سوال ہی نہیں  ، کیوں کہ  قوت ہاضمہ جواب دے چکی تھی، اب الحمدللہ حضرت  والا صحت   پہلے کےبالمقابل ٹھیک ہے، لیکن کھانا ابھی بہت ہی قلیل مقدارمیں  کھاتے ہیں، جس کی بناپر خاصی کمزوری ابھی باقی ہے، سخت دعاؤں کی ضرورت ہے، حضرت مفتی صاحب کوپتھری کی بھی شکایت ہے، رہ رہ کراس کابھی درد تکلیف  کاباعث ہوتاہے، علاج ومعالجہ  بھی چالوہے، جس سے تھوڑا کچھ افاقہ بھی رہتاہے، ان دو مہلک امراض نے حضرت مفتی صاحب کوبالکل ناتواں کمزور ، اور نڈھال کردیاہے، قارئین کرام سے گزارش ہے کہ میرے استاذ مفتی صاحب کی صحتیاب کےلیے خصوصی دعاؤں کااہتمام کریں، یقینا حضرت مفتی صاحب امت کےلیے قیمتی سرمایہ ہے، 



 *مفتی صاحب سے چودہ سال بعد ملاقات*


حضرت مفتی صاحب  کےملوا مدرسہ سے مسعتفا ہوجانےبعد   دوبارہ ملاقات وزیارت کاموقعہ فراہم نہیں ہوا، زمانہ کی گردشوں  نےہمارے بیچ  افتراق کی راہوں  کو ہموار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مفتی صاحب اپنے ضیاپاش، ونوربار،  وضوفشاں  علم سے صوبہ گجرات کے" علاقہ بجھ"کو منور کرنےلگے، اور یہ احقر نئے ملوا میں عربی سوم پڑھ کر ازہر راجستھان  دارالعلوم پوکرن میں مزید تعلیم کےلیے   داخلہ لےلیا، اس کےبعد مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں دوسال گزارے، فراغت کے قاسم العلوم چانیوں کی ڈھانی میں مدرس ہوگیا، لیل ونہار کی گردش نے  حالات کا رخ الٹ پلٹ کردیاکہ ہزار دلی وقلبی خواہش کےبعد بھی مفتی صاحب سے ملاقات کاخوا ب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا، فون سے رابطہ ہوتاتھا،لیکن   زیارت کاموقعہ چودہ سال بعد نصیب ہوا، رمضان کےبعد سے مفتی صاحب سے ملنے کے پروگرام بنتے رہے، لیکن  کامیابی  اس دن  ملنی تھی، جو دن نوشتہ تقدیر میں مقرر تھا، اس لیے ہزاروں کوششیں    بیکار وبےسود رہیں،  خیرگزشتہ پرسو ں بہ روز جمعرات     بتاریخ پندرہ ذوالحجہ   عزیزم امید علی ملوا کے ساتھ موٹرسائیکل پرسوارہوکر چاندے کاپار کاسفر شروع کیا، حضرت استاذ محترم کی دید ولقاکی بے انتہاخوشی  ومسرت  اورمینھ برسانے والے موسم کی ٹھنڈی ہوانے سفر کوبہت دلچسپ  ومزیدار بنادیاتھا، میانہ روی سے چل  کرگاگریاتک  پچاس کلومٹر کایہ مسرت انگیز سفر ایک گھنٹے میں پوراہوا، عین مزکر کےسامنے کسی صاحب سے چاندے کاپار راستہ معلوم کرنےکےبابت کھڑے تھے،  کہ یکایک  رفیق تدریس جناب مولانا عبدالرحمن صاحب قاسمی مدرس دارالعلوم میٹھے کاتلا سے ملاقات ہوئی، سلیک علیک کےبعد موصوف اپنے گھر گگانی چلنےکےلیے مصر ہوئے، چنانچہ انکے ساتھ گگانی انکے مکان   پہنچے، مولانا نےلیموکی شربت سے ضیافت کی،یادش بخیر پون گھنٹہ وہی گزرگیا، اس کےبعد موصوف سے الودعی ملاقات کرکےمفتی صاحب کے گاؤں  کی راہ لیتے روانہ ہوگئے، بیس پچیس منٹ کےبعد ہمارے سامنے چاندے کاپارتھا، مفتی صاحب کے گھر کاپتہ معلوم کرنےکےلیے گاؤں کےلڑکاساتھ لےلر مفتی  صاحب کے گھر پہنچ گئے،وقت ظہر کاہوچکاتھا،مفتی صاحب ظہرکی نمازاداکرنےمسجدچاچکے تھے، اس لیے ہم دونوں مسجدپہنچے، نماز باجماعت کی آخری رکعت تھی، وضوسےفارغ ہوکر مسجدکےاندورنی حصے میں نمازاداکی، دوتین مصلیوں کوچھوڑ کرباقی سب جاچکےتھے، مفتی صاحب اپنی  جگہ بیٹھے ہوئے اوراد وظائف میں  مشغول تھے، دس پندرہ منٹ کےبعد دو دو رکعت  کی صورت میں چار رکعتیں  بڑے اطمینان سے مکمل کیں،اپنے مصلی سےجیسی ہی کھڑے ہوئے، مَیں ملاقات  کےلیے جھٹ سے لپکا، مصافحہ ہوا خبرخیریت دریافت فرمائی، ایک شاگردکو اپنے محبوب استاذ سے چودہ سال بعد ملاقات کاموقعہ مل رہا ہے، اس کے دلی جذبات واحساسات کاپوچھناہی کیا،دوہزار چھ کےبعد دوہزار بیس میں دیدار ہورہاہے، اس کے قلبی مسرتوں وخوشیوں کاٹھکانے کاکیاکہنا، لمبی دیرتک مفتی صاحب کےساتھ بیٹھ کر باتیں ہوتیں رہیں، انھوں نے اپنے ملوا کے شناساحضرات کے احوال دریافت فرمائیں،  مدرسہ کے احوال بھی لیے، پھر مسجدسے اٹھ کرمفتی صاحب کےدولت خانہ  آگئے،وہی بیٹھ کرمختلف گفت شنید ہوتی رہی، حضرت نے دوران گفتگو اپنے مدرسہ میں جاری آن لائن تعلیم کےبارے میں بتایا،طلبہ کی تعلیمی بےرخی  کابھی  افسوس کےساتھ اظہارکیا،  حضرت مفتی صاحب  نے چائے کےساتھ بیکانیری نمکین وبسکٹ  سے ضیافت کااہتمام کیا، اللہ حضرت کوجزائے خیردے کہ انھوں نے بندہ کی عربی واردو نگارشات کی کھل کرتعریف فرمائی، خیر بہت دیر استاذ محترم کی  شیریں گفتگوسے لطف اندوز ہونےکاموقعہ ملا، جب سورج اپنے برق رفتار کےساتھ ڈھلنے کی بالکل تیاری کررہاتھا،توبندہ بادل ناخواستہ  واپسی کی اجازت کاطالب ہوا، چنانچہ حضرت  ہمیں گاؤں سے روڈ تک چھوڑنے  کےلیے بطور مشایعت تشریف لےچلے، عین روانگی کےوقت حضرت نے دو سو روپیے  مجھے اور عزیزم امیدعلی  کوسو روپیے بطور ہدیہ عنایت فرمائے، دعا ہے اللہ.حضرت کو تادیر سلامت رکھے، ان کو صحت کاملہ.عاجلہ مستمرہ.عطافرمائے، آمین.بجاہ سیدالمسلین