اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: *احباب کے ہمراہ چند گھنٹے کا ایک خوشگوار سفر* *قسط ثانی وآخر* 📝 *اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی*

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Thursday, 20 August 2020

*احباب کے ہمراہ چند گھنٹے کا ایک خوشگوار سفر* *قسط ثانی وآخر* 📝 *اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی*

 *احباب کے ہمراہ چند گھنٹے کا ایک خوشگوار سفر* 


                          *قسط ثانی وآخر* 


                             📝 *اسعداللہ بن سہیل احمد اعظمی* 


 *کچھ دیر منجیرپٹی میں:* بیناپارہ کے بعد ہماری اگلی منزل منجیرپٹی ہی تھی، تنگیء وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے بلاتاخیر کئے نصف گھنٹہ بعد تقریباً تین بجکر چوبیس منٹ پر منجیرپٹی کے لیے نکلے مولانا عاصم طاہر صاحب کو مسلم پٹی سے نکلتے ہی مفتی عبیدالرحمٰن صاحب نے  بذریعہ فون اطلاع کردی تھی مولانا  منتظرتھے ،  چونکہ انکو بتلا دیا گیا تھا کہ مسلم پٹی سے نکل چکے ہیں بیناپارہ میں رکنے کا علم مولانا کو نہیں تھا اسلئے تاخیر ہونے پر مولانا نے خود رابطہ کیا تو انکو خبر دی گئی بس چند منٹوں میں پہنچ رہے ہیں گاٶں میں داخل ہونے کے بعد پہلی ملاقات رفیق سفر مفتی عبیدالرحمٰن صاحب کے سینئر ساتھی مولانا عاقب قاسمی صاحب منجیرپٹی(متعلم مدینہ یونیورسٹی) سے ہوئی وہیں ان کے خسر مفتی ذیشان صاحب(ناظم جامعہ عزیزیہ سہریاں) سے بھی مصافحہ کاموقع ملا، مفتی صاحب گهر کے لئے روانہ ہو ہی رہے تھے کہ ہم لوگ پہونچ گئے تھے، اسلئے مصافحہ کے بعد اجازت چاہ کر فوراً اپنی منزل کی طرف نکل پڑے۔ادهر مولانا عاقب صاحب اپنے مہمان خانے پر ہمیں لیجانے کے لیے بضد تھے اور انکو ظہر کی نماز بهی پڑھنی تھی، فیصلہ ہوا کہ ہم لوگ مولانا عاصم صاحب کے دولت کدہ پر پہونچ رہے ہیں، آپ بھی نماز بعد بھی وہیں تشریف لانے کی زحمت کریں، خیر ہم لوگ مولانا عاصم صاحب کے گھر پہونچے مولانا نے آگے بڑھ کر اپنے خاص انداز میں مسکراتے ہوئے باری باری سب سے مصافحہ کیا اور مہمان خانہ میں بیٹھایا، لذیذ کیک، گرم مٹھیا، اور دیگر ماکولات سے ضیافت کروائی، ادھر ادھر کی بات چیت چل رہی تھی کہ اتنے میں مولانا مستقیم صاحب شیروانی کے دیرینہ رفیق مولانا حمزہ صاحب منجیرپٹی آدھمکے پھر کیاتھا ماضی کے اوراق کھلنے لگے، ہنسی مزاق میں مزید تابانی آئی اور زمانہ طالب علمی کی باتیں چهڑ گئیں، میرے ذہن میں اس وقت یہ شعر گردش کررہاتھاکہ:


      نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر 

     کئی سال بعد ملے ہیں ہم تیرے نام آج کی شام ہے 

                                          (بشیر بدر)

کچھ ہی دیر بعد مولانا عاقب قاسمی صاحب اور ان کے کچھ دیر بعد مولانا عاصم صاحب کے برادر صغیر مولانا سالم صاحب تشریف لائے اور محفل میں چار چاند لگا دیےاور بڑی سنجیدگی سے بیٹه کر اہل مجلس سے  لطف اندوز ہوئے


مولانا عاصم طاہر صاحب:آپ  مفتی طاہر قاسمی صاحب کے صاحبزادے ہیں جو"مجمع معاذ بن جبل جدہ" میں تدریسی امور انجام دے رہے ہیں۔مولانا عاصم صاحب کی ابتدائی تعلیم مدرسہ دینیہ اشاعت العلوم چیک پوسٹ کوٹلہ میں  ہوئی، پھر جامعة الشیخ حسین احمدالمدنی دیوبند ہوتے ہوئے دارالعلوم وقف سے سند فراغت حاصل کی، بعدہ مدرسہ ہذا کے شعبہ بحث  وتحقیق  "حجةالاسلام اکیڈمی" میں ایک سالہ کورس کومکمل کیا، بعد ازاں دو سالہ کورس "نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار فیتھ لیڈر شپ" غازی آباد میں کیا، فی الحال علی گڑھ اسلامک اسکول  راجہ پور سکرور میں قرآن مجید کے ساتھ عربی سے انگلش ٹرانسلیٹ اور ساتھ میں مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد سے اسلامی اسٹڈیز سے ایم اے ڈسٹینس کورس کررہے ہیں۔ان سب سے جدا "اتحاد نیوز اعظم گڈھ" کے ایڈیٹر اور بہترین مضمون نگار ہیں، ملک کے معروف ومشہور اخبار میں ان کے مضامین چھپتے ہیں۔


مولانا حمزہ صاحب: منجیرپٹی ہی کے باشندے ہیں، فارسی تا عربی ششم تک کی تعلیم بیت العلوم میں حاصل کی، پھر دارالعلوم وقف دیوبند سے سند فضیلت حاصل کی،  فقیہ بے مثال حضرت مولانا ومفتی سجاد صاحب جونپوری ثم الاعظمیؒ (سابق صدر مفتی بیت العلوم) کے نواسے ہیں، فی الحال والد صاحب کا قائم کردہ ٹمبر کا کام سنبھالے ہوئے ہیں 

مزید ترقی دیتے ہوئے مکان کی چھت شٹرنگ سے لیکر ڈھلیا تک کا ٹھیکہ بھی لیتے ہیں۔


مولانا عاقب صاحب: یہ مولانا و مفتی شاکر نثارمدنی صاحب(استاذ حدیث وافتاءمدرسہ بیت العلوم )کے برادر زادے ہیں، فاضل دارالعلوم دیوبند ہیں، علمی پختگی کے ساتھ ساتھ نہایت سنجیدہ وکم گو ہیں اللہ تعالیٰ نے بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مدینہ یونیورسٹی جانے کے درمیان کا قیمتی وقت آپنے جامعہ عزیریہ سہریا کے لئے وقف کرکے تدریسی خدمات انجام دیں بعد ازاں مدینہ تشریف لے گئے کچه دنوں قبل رشتہءازدواج سے منسلک ہوئے تاحال تعلیم جاری ہے


مولانا سالم صاحب: آپ بهی مفتی محمد طاہر قاسمی صاحب کے صاحبزادے ہیں مدرسہ دینیہ اشاعت العلوم کوٹلہ چیک پوسٹ ہوتے ہوئے دارالعلوم وقف دیوبند سے فضیلت حاصل کرنے کے بعد تکمیلِ تفسیر کے بعد اپنے برادر مولانا عاصم صاحب کے ساتھ غازی آباد میں دوسالہ کورس کو مکمل کئے،فی الحال مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد سے بی اے ڈسٹینس کورس کررہے ہیں


منجیر پٹی: قصبہ سرائمیر سے 4/میل کے فاصلہ پر جانب شمال واقع ہے، اس کے مشرق میں ابڈیہہ اور مغرب میں راجہ پور سکرور واقع ہے، تقریباً سات ہزار آبادی پر مشتمل یہ گاٶں اپنے اندر تہذیب وشائشتگی کا ایک وقار لیے ہوئے ہے، اس گاٶں میں دینی علماکی کھیپ کے ساتھ دنیاوی لائن کے حضرات کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔اس گاٶں میں کل 9مساجد ہیں جسمیں ایک شاندار، بلندوبالا،عالیشان جامع مسجد ہے جس کا کام ابھی بھی جاری ہے۔


قریب سوا گھنٹے کی شاندار ویادگار مجلس کے بعد ہمارا یہ قافلہ راقم الحروف کے غریب خانے(کھریواں)کی جانب محوسفر ہوا، اور چند ہی منٹوں میں راستے کے دلفریب منظر ختم ہوئے اورہم منزل پر آپہونچے، مولانا مستقیم صاحب کھریواں موڑ پر کسی ضرورت کےتحت رک گئےتھے، پھر اس کے بعدتشریف لائے، عصر کی نماز کا وقت قریب ہورہاتھا، فوراًدسترخوان لگا چائے نوشی وغیرہ کرنے کے کچھ دیر بعد احقر کی امامت میں عصرکی نماز اداکی گئی، بعدازاں مولانا آس محمد صاحب قاسمی چھتے پوری کے دولت کدہ پر حاضری کاپلان بنا، اول تو میں نے انکارکردیا، لیکن پھر دل میں سوچاکہ ایسے مواقع باربار نہیں آتے اسلئے میرا فیصلہ انکار سے اقرار میں بدل گیا۔


سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں 

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

( میر حسن)


کھریواں: کھریواں شمالی ہندستان کی معروف ریاست اترپردیش کے مشرقی ومردم خیز ضلع اعظم گڈھ سے مغرب کی سمت کوئی تیس کیلو میٹر کے فاصلے پر آباد ایک قدیم موضع ہے۔ اس کے مشرق میں سرائمیر کا مشہور قصبہ آبادہے، اور مغرب میں پھولپور اور شاہ گنج جیسے قصبات واقع ہیں۔ اس کی آبادی تقریباً پانچ ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اعتبار سے یہ موضع سرائمیر واطراف کا سب سے قدیم موضع ہے۔ اسی گاٶں کی سرزمین پر "مدرسة الاصلاح" جیسا عالمی شہرت یافتہ دینی وقرآنی ادارہ قائم ودائم ہے، جس کے فیوض وبرکات سے پورا عالم منور ہورہاہے۔


نماز سے قبل کئی مرتبہ مفتی کلیم شیروانی صاحب کو کال کی گئی، تاکہ انہیں کی قیادت میں چهتے پور کا سفر ہوسکے ، لیکن بارہا کال کرنے کے بعدبهی فون نہ اٹھ سکا،پهر ہم لوگ یہیں سفر ختم ہی کرنا چاہتے تهے پهر خیال آیا موقع بار بار کہاں آتا ہے جب پلان بن گیا تو نکل ہی جانا چاہیےخیر ہم لوگ درمیانی رفتار سے چھتے پور کوذہن میں بساتے ہوئے نکلے، ابھی بیت العلوم کے قریب پہونچے تھے کہ پولیس اہلکار چیکینگ کرتے ہوئے نظر آئے، مولانا مستقیم صاحب کی موٹر سائیکل آگے تھی، اور ہماری پیچھے، خداجانے وہ کونسی دھن میں غرق تھے کہ پولیس والوں کو دیکھ نہ سکے، ان کے چنگل میں پھنس گئے، اور ہم لوگ دوسراراستہ پکڑتے ہوئے دارالتحفیظ جدید بیت العلوم کے پاس پہونچے جہاں پر مستقیم وعبیدالرحمن صاحبان آچکے تھے، پتا چلا کہ آن لائن فائن کاٹی گئی ہے، اب کتنی کٹی واللہ اعلم، آپس میں غور وخوض کیاگیا کہ آگے جایا جائے یا یہیں سے اپنی اپنی منزل کی طرف لوٹ جانا چاہیے، بالآخر فیصلہ ہوا کہ اپنے اپنے گھر ہی نکل جایا جائے، چونکہ آگے بستی نہر، وسکرورو اطراف میں پولیس کے  ملنے کا امکان ہے۔ مولانا آس محمد صاحب سے ملاقات کی تمنا اور ان کے دیار کی زیارت کی خواہش دل ہی میں رہ گئی۔۔        

          سنتے رہے ہیں آپ کے اوصاف سب سے ہم 

             ملنے  کا آپ سے  کبھی موقع نہیں ملا 

                                           (نوح ناروی)


مفتی کلیم صاحب: شیرواں کے رہنے والے ہیں، حفظ کی تعلیم جامعہ شرقیہ اسلامیہ لونیہہ ڈیہہ میں حاصل کی، پھر فارسی تا عربی پنجم بیت العلوم میں حاصل کی، بعدہ عربی ہفتم دارالعلوم وقف دیوبند میں بعدازاں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی ۔۔۔فراغت کے معاً بعد ایک سالہ کمپیوٹر کورس دارالعلوم دیوبند ہی میں کیا، اس کے بعد جامعة الشیخ حسین احمد المدنی سے شعبہ افتا کی تکمیل کی اکتوبر/2019میں شادی کے بندھن میں بندھے۔۔فی الحال مدرسہ عین الاسلام کسہاں میں تدرسی امور کو بخوبی نبھارہے ہیں، راقم پر کافی مہربانی ہیں ہر ٹوٹی پھوٹی تحریر پر حوصلوں کے انبار لگادیتے ہیں۔ جومیرے ارادوں میں مزید شیفتگی وشگفتگی پیداکرتاہے۔


مولانا آس محمد صاحب: دارالعلوم کے فاضل ہیں، قدکے اعتبار سے لمبے تڑنگے ہیں، عربی پنجم تک بیت العلوم میں ہی تعلیم حاصل کی اعلی صلاحیت کے حامل  ہے۔۔فی الحال مدرسہ ہذا میں شعبہ حفظ  کے مقبول ومحبوب استاذ ہیں۔


ایک خوشگوار سفر کی ابتدا ایسےانداز سےہوئی تھی کہ طبیعت جھوم اٹھی تھی، لیکن اس کا اختتام کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوا اسےالفاظ کا جامہ پہانانا ناممکن ہے ساری خوشی کافور ہوگئی خیر اللہ کی کچھ نہ کچه مصلحت ہی پوشیدہ رہی ہوگی۔

ذرا سے پتے نے بےتاب کردیا دل کو

چمن میں آکے سراپا غم بہار ہوں میں 

خزاں میں مجهکو رلاتی ہے یاد فصل بہار 

خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں

(علامہ اقبال)

اور کچھ ہی دیر بعد ہم اپنے اپنےگهر تهے  

سفرکی مدت مقررہ ساڑھے پانچ گھنٹہ رہی۔۔