✍️ *قسیم اظہر*
کسی عظیم انسان نے کہا تھا کہ اگر آپ انسان اور پھر مسلمان ہونے کے باوجود اپنے محلے، گلی گاؤں، یا شہر کے کسی غریب، مسکین، یتیم یابیوہ کے لیے کسی بھی طرح آسانی پیدا نہیں کر سکتے تو معذرت کے ساتھ آپ کی زندگی فضول ہے......!
جب نمونہ اسلاف زبدۃ الصالحین حافظ شجاعت رحمۃ اللہ علیہ کےصاحبزادے، مولانا شمس الہدیٰ قاسمی صاحب عمرےکے سفر پہ گئے تو نوجوان صحافی عبید الرحمن الحسینی (جو اس وقت سعودی میں قیام پذیر تھے) نے ان کو ایک ایسے فلاحی ادارے کے قیام کامشورہ دیا جو قوم کے حق میں تعمیر حیات کاسامان بن سکے اور جس کے ذریعے ملک وملت کی آبیاری کی جاسکے، مفلسوں کی آنکھوں میں امنڈتے آنسؤوں کے سیلاب کو منجمد کیاجاسکے۔
جب کام عبادت وریاضت سے متصف ہوتو ایک سچامرد خدا کبھی بھی اس کو کرنے سے انکار نہیں کرسکتا، لہذا مولانا قاسمی نے ایک ٹرسٹ کے قیام کی ہامی بھرلی اور یوں حافظ شجاعت رحمۃ اللہ علیہ کی یادمیں "حافظ شجاعت فیض عام چریٹیبل ٹرسٹ" کے نام کا ایک سنہرا خاکہ اس ادارے کے ذمہ داران کے ذہن میں جاگزیں ہوگیا۔
یوں تو بھارت میں بہت سارے فلاحی ادارے اور تنظیمیں ہیں جو اس کارخیر کو بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں ،مگر اس ملک کے بہت سارے ایسے علاقے بھی ہیں جہاں نہ اقتدار پر بیٹھی سرکار کی مدد پہنچتی ہے اور نہ ہی ان فلاحی اداروں کے پاؤں کے کوئی نشانات دیکھنے کو ملتے ہیں، خاص کر ایسے دیہاتی علاقے جہاں غربت ہی غربت ہے اور غربت ہی وہاں کے لوگوں کے لیے سب سے بڑا عذاب ہے۔
یہی وجہ ہےپھول جیسی بچیاں ایک عمر گزار دیتی ہیں اور انہیں کوئی جوڑا میسر نہیں ہوتا، وہ بچے جو ابھی سن عمر کو بھی نہیں پہنچے، جن کی عمر قلم اور پینسل پکڑنے کی تھی، وہ کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ میں گلاس اور پیالوں کے پس خوردہ کو دھلتے نظر آتے ہیں، میں کیا بتاؤں آپ سے...؟ اس غربت نے ہزاروں آنکھوں کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کیا ہے، ہزاروں گھر کو تہس نہس کیا ہے، ہزاروں بیٹیوں کو خودکشی کرنے اور ارتداد کے بھینٹ چڑھنے پہ آمادہ کیا ہے۔
آپ بس اتنا سمجھیں کہ آج اگر "غالب" زندہ ہوتے تو غربت کو دیکھ کر وہ اپنے مصرعے کو بتغیر الفاظ یوں کہتے۔
فقر نے غالب نکما کردیا ہے
ورنہ ہم بھی آدمی تھےکام کے
غریبوں کے دل میں اٹھے اس شورش کو وہی اچھی طرح سمجھ سکتاہے جس نے غربت کے دبستانوں میں کچھ کڑوے پھل چکھےہوں، اسے وہی محسوس کرسکتاہے جس نے فقر کے داستانوں کی کچھ ورق گردانی کی ہوں، جس نے محمود بن کر ایاز کی صف میں کھڑے ہونے کو ترجیح دی ہوں، جو کانٹوں میں کھلاہوں، شعلوں میں پلا بڑھاہوں، خلفشار وتضادات سے ہٹ کر امن و محبت کے چراغ روشن کیےہوں، وہی ان کے زخموں پر مرہم لگاسکتاہے، وہی ان کی ڈوبتی نیا کو ساحل سے لگانے والا ناخدا ثابت ہوسکتاہے۔
حافظ شجاعت فیض عام چریٹیبل ٹرسٹ بھی انہی سلسلوں کی ایک مضبوط کڑی ہے، اس کے اغراض و مقاصد بھی یہی ہے کہ معاشرے سے پسماندگی کو دور کیا جائے، محمود و ایاز کو ایک صف میں کھڑا کیا جائے، علاقے سے بے روزگاری اور غربت کو نیست و نابود کیا جائے۔
انہی مضبوط ارادوں اور عزائم کے ساتھ 2/ فروری/ 2017 میں اس ادارے نے اپنے رجسٹریشن نمبر (BH025782) کے ساتھ یوگی کی اس تاریکی دنیا میں انسانیت نوازی کا پہلا قدم رکھا، اور دل و جان سے بدون تفریق مذہب و ملت، خدمت خلق خدا کے جذبے سے اپنے قلوب کو سرشار کیا۔
بھارت کے اکثر علاقوں میں جہیز جیسی بیماری نے جنم لے کر لاکھوں گھر کو اجاڑ دیا ہے، ہزاروں پھولوں کو مسل دیا ہے، جس کی وجہ سے صرف پانچ سالوں میں 25 ہزار سے زائد مسلم لڑکیاں ارتداد کے بھینٹ چڑھ گئیں اور کتنی بیٹیوں نے غربت بھری زندگی میں، سماج کے طعن وتشنیع سے دل برداشتہ ہوکر مرجانا بہتر سمجھا اور کتنوں کو جہیز کی موٹی رقم ناملنے پر نذر آتش کردیا گیا، مگر اس ادارے نے ان بے بس ولاچار بیٹیوں کے آنچل میں خوشبؤوں کا احساس جگایا، جن کی مستقبلوں میں گھٹاٹوپ اندھیرا چھایاہواتھا، انکی نازک کلائیوں میں کنگن پہننے اور نرم و گداز ہتھیلیوں پر رنگ حنا کے رونق سجانے کا حسین موقع فراہم کیا۔
بیواؤں کی انکھوں کے نیچے جمے سیاہ حلقوں میں چھپے، گہرے درد کو دیکھا تو اس سے رہانہ گیا، لہذا اس نے ان کے بہتے، گرم آنسوؤں کوپوچھا اور ان کے ہونٹوں پہ دوبارہ مسکان بحالی کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
فضائی آلودگی صحت وتندرستی کے لیے بہت زیادہ مہلک اور تباہ کن ہے، اس سے بچاؤ کے لیے گرد وغبار سے پاک، ایسی فضاؤں میں سانس لینا ضروری ہے جہاں پیڑ پودوں کی بہتات ہو، جس کے لیے آئے روز شجر کاری کی مہم چلائی جاتی ہے، یہ ادارہ ملک بھر میں چلائی جارہی شجرکاری مہم میں ہزاروں پیڑ پودے لگا کرایک مثال قائم کرنے میں کامیاب رہا۔
اگر اس ملک کے باشندگان گھر میں چین وسکون کی نیند لے رہے ہیں تو اس کی وجہ ہمارے نوجوانوں کی پہرہ داری ہے، آئے دن ہمیشہ سرحد پہ جنگ چھڑی رہتی ہے، گولیاں نوجوانوں کے جسم کو چھلنی کر رہی ہوتی ہے، نہ جانے کتنے بہادر نوجوان اپنے وطن سے بے انتہا محبت کی خاطر سرحد پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں، ان شہید نوجوانوں کے یتیم بچوں کی کفالت کاذمہ اس ادارے نے اپنے سرلے کر وطن سے محبت کاثبوت مانگنے اور ایک مخصوص طبقے کو ملک کا غدار ٹھہرانے والے شدت پسندوں کے منہ پہ زوردار طمانچہ مارا۔
علمی و سیاسی میدان میں مسلمان تنزل اور بے راہ روی کے شکارہیں، ان کو تعلیمی و ثقافتی انحطاط سے نکالنے کے لیے اس نے ایسے اداروں کی بنیاد ڈالنے کا عزم کیا جس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز باتیں اور زہر اگلنےوالوں کو دندان شکن جواب دیاجاسکے۔
اس ملک کی یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم کے لیے بہت زیادہ مالی اثاثہ خرچ کرنے کی نوبت پڑتی ہے، غریب ونادار بچوں کا اعلی تعلیم کے میدان میں قدم پڑتے ہی مفلسی کی بیڑیاں انہیں اپنے آہنی شکنجے میں دبوچ لیتی ہیں، جس کی وجہ سے ان کے پاؤں ڈگمگاجاتے ہیں اور تعلیمی مسافت کو طے کرنے سے عاجزآکر وہ مزدوری پیشہ اختیار کرلیتےہیں، اس ادارے نے ان کے تعلیمی اخراجات کو برداشت کرنے کاذمہ اپنے سر لے کر ان کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی بھرپور کوشش کی۔
فی الحال کرونا اور قفل بندی نے اس چمکتی، دمکتی دنیا کے چہرے کی رونق چھین لی ہیں، اسے بدصورت بنادیاہے، معیشت اور اکنامکس ٹھپ پڑچکی ہیں، دولت مند لوگ تو مستقبل کے لیے جمع کیے گئے پیسوں سے اپنا گزارا کررہے ہیں، لیکن ان مزدوروں اور کسانوں کاکیاہوگا جو ایک دن میں ایک ہی دن کی روزی روٹی اکٹھا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے، آخر مودی کے دور میں کوئی غیبی امداد بھی تو نہیں.....؟ ہاں انہیں بھی اس تنظیم نے اپنے سائبان تلے جمع کیا اور ان میں سے ہر ایک کے گھر غلے، اناج (اورمختلف النوع کی وہ چیزیں جن کی کھانے پکانے میں ضرورت پڑتی ہیں) پہنچائے۔
یاد رہے کہ ان تمام خدمات میں اس تنظیم نے وہ چہرے نہیں دیکھےجو مودی اور ان کی کابینہ دیکھتی آرہی ہیں، اس نے ہندؤوں کی دھوتی اور مسلموں کاکرتانہیں دیکھا........! دیکھا تو صرف اور صرف مستحقین کی پریشانیوں اور سراسیمگیوں کو دیکھا۔
اب اس تنظیم کے ذمہ داران جن میں سرفہرست مندرجہ ذیل حضرات ہیں۔
(صدر: شمس الضحیٰ خان
نائب صدر: محمدشاہدخان
جنرل سکریٹری: مولانا شمس الہدیٰ قاسمی
جنرل سپروائزر: حافظ عبیدالرحمن الحسینی
آفس سکریٹری: قاری ساجد حلیمی)
اسے وسعت دینا چاہتے ہیں، اسے بلندیوں پر پہنچانا چاہتےہیں،
اللہ کرے ان آنکھوں کو وہ دن بھی دیکھنانصیب ہو جب یہ رفاہی تنظیم ایک تناور درخت کی شکل اختیار کرلے اور اس کی ٹہنیوں کے سائبان تلے متحد ہوکر یہ قوم ترقی وعروج کی مسافت طے کرتی رہے۔
اللہ تعالیٰ حافظ شجاعت فیض عام چریٹیبل ٹرسٹ کو بام عروج نصیب کرے......آمین ثم آمین