قسط اول
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
مشرقی یوپی کی ممتاز،علمی،شخصیت استاذ العلماء حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی کا کاروان ہستی مدرسہ شیخ الاسلام شیخوپور میں
خیمہ زن ہوا تو اس کے جلو میں آنے والی بہاروں نے اس ادارے کو ایسی زندگی اور ایسی شادابی بخشی کہ نہ صرف اعظم گڈھ کا علاقہ اس کے علمی ،روحانی اور اصلاحی باد نسیم سے فیضیاب ہوا بلکہ پورے ملک کے اکثر خطوں میں موج ہوا کے ذریعے اس لہلہاتے ہوئے چمن زار کی خوشبو پھیلی، اعظم گڈھ کی سرحد سے متصل ضلع گورکھپور اور اس کے مضافات کا علاقہ انہیں خطوں میں ہے جس کے سینے پرشبنمی پھواروں کی طرح مذکورہ شخصیت کا فیضان برسا ہے'۔ اور شہر سے لیکر دور افتادہ مقامات اور کوردہ دیہات کی فضاؤں تک میں اس کے علمی،روحانی جلوے ستاروں کی طرح بکھرے ہوئے ہیں۔
ان ضیاء بار ستاروں میں ایک ممتاز نام رفیق محترم مولانا قمر الحسن قاسمی صاحب کا ہے'، مولانا ایک جید عالم باعمل ، حوصلہ مند،بصیرت ودانائی ،فہم و فراست، اور دینی ، ملی اور فکر ی اوصاف کا مجسمہ ہیں، مولانا کا وطن نیپال سے بالکل قریب مہراج گنج کی انتہا پر واقع قصبہ نوتنواں ہے ،شیخوپور میں ہی حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی کی تربیت میں ان کی زندگی کی تراش خراش ہوئی، یہیں انہوں نے عالمیت کے مراحل طے کرکے دارالعلوم دیوبند سے سند فراغت حاصل کی،مجھ سے ایک سال پیچھے تھے لیکن علم میں،مطالعے میں، ذہن وفراست میں کوسوں آگے، فراغت کے بعد شہر اعظم گڈھ کے معروف ادارے تعلیم الاسلام جامع مسجد میں تقریباً ایک دہائی تک علمی فیض پہونچایا، پھر ان کے علاقے میں واقع ایک قدیم مدرسہ اشرف العلوم جو مکمل طور پر زوال کا شکار ہوچکا تھا، اس کے ارباب حل و عقد کے اصرار پر اسے ارتقاء آشنا کرنے کے لیے چند سال قبل وہاں تشریف لے گئے اور ان تھک جد وجہد سے اسے ترقی کی راہوں پر کھڑا کردیا، حفظ وعربی کی تعلیم ایک بار پھر وہاں منظم طریقے سے ہونے لگی ،علماء وصلحاء کی آمد ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ادارہ بارشوں کے موسم میں سبزہ زاروں کی طرح شاداب ہوگیا۔
مولانا قمر الحسن نے تعلیمی انتظام کے استحکام کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی مرحوم کے علوم ومعارف کی تشریحات کی طرف بھی خصوصی توجہ کی،اوراپنے ادارے مدرسہ اشرف العلوم کرتھیا مہراج گنج سے مولانا مرحوم کی تصنیف کاروان حرم،اورخطبات اعجاز جلد دوم کی اشاعت بھی کی،اس کے علاوہ چھ ماہی مجلہ اشرف العلوم کا اجراء کرکے اپنے علاقے کی علمی خدمات کی نشر واشاعت کے علاوہ مولانا مرحوم کے معارف کی ترویج میں بھی سرگرم ہیں، اس رسالے کی مقبولیت کو دیکھ کر اب ان کا ارادہ ہے'کہ اگلا شمارہ حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور کارنامے پر نکلے۔اس کے لئے ابھی سے وہ تیاری میں ہیں اور اس مہم میں انھوں نے حضرت مولانا مرحوم کے انتہائی بصیرت مند اور باشعور صاحب زادے عزیز گرامی مولانا عرفات صاحب کو دست راست بنایا ہے'۔
مزاج کے لحاظ سے مولانا قمر الحسن اگرچہ علمی وتحقیقی ہیں لیکن ان کی طبیعت میں خشکی نہیں ہے، وہ بہت محبت کرنے والے، بااخلاق، خوش ذوق،ملنسار ،مہمان نواز اور زندہ طبیعت کے مالک ہیں، ان کی رفاقت میں طبیعت ذرا بھی بے کیف نہیں ہوتی ہے،ہونٹوں پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی ہے، میرے وجود میں کسی قسم کی جاذبیت نہ ہونے کے باوجود جانے کیوں ہمیشہ انھوں نے محبت کی نگاہ سے مجھے دیکھا ہے، میری تحریروں پر اس طرح حوصلوں کی بارش کی ہے جیسے سخت دھوپ میں اچانک گھٹا چھائے اور پیاسی زمینوں کو سیراب کرکے ہرسو زندگی کی بہار پیدا کردے،
انہیں کا حکم تھا کہ میں ان کے دولت کدے پر حاضری دوں،
غالباً ایک سال قبل ممبئی میں ملاقات کے دوران ان کی طرف سے دعوت تھی مگر جانے کی کوئی سبیل نہیں نکل رہی تھی،ادھر فون پر گفتگو کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ میں وطن شیخوپور آنے والا ہوں تو انہوں نے اپنی خواہش کا ذکر کیا اور یہ بھی کہا کہ مولانا عرفات وغیرہ کا سفر آج ہی کل میں ہے انہیں کے ساتھ سفر ہوجائے تو بہتر ہے اس کے لئے انہوں نے مذکورہ حضرات سے بات کرکے ان کے سفر کو ملتوی کرادیا اور خود مجھ سے بھی مولانا عرفات سے اس سلسلے میں بات ہوئی اور پھر عید الاضحی کے بعد سفر طے ہوگیا۔
چوبیس جولائی کو راقم التحریر ممبئی سے گھر پہونچا حالیہ قرنطینی قانون کے مطابق عید سے قبل نکلنے کا سوال ہی نہیں تھا،اس لئے برادر عزیز مولانا عرفات کے پروگرام کے مطابق عید الاضحی کے چوتھے روز 4/اگست کو پانچ افراد پر کا ایک قافلہ صبح کے وقت نوتنواں کے لئے روانہ ہوگیا، جو مولانا راشد قاسمی الاعظمی صاحب زادہ استاذنا المعظم حضرت مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا عرفات اعظمی صاحب زادہ حضرت مولانا مرحوم،مولانا حسین قاسمی غازی پوری، مولانا توقیر قاسمی الاعظمی اور راقم الحروف پر مشتمل تھا۔
مولانا عرفات صاحب اعظمی جدید نسل کے بہترین عالم دین، وسیع النظر ادیب ،خوبصورت مضمون نگار، اور متبحر محقق ہیں،حضرت مولانا کے صاحبزادوں میں علمی و ادبی وسعت اور زبان وبیان پر قدرت کے لحاظ سے انہیں امتیازی حیثیت اور تفوق حاصل ہے'، طبقہ علماء کی تصنیفات کے ساتھ ساتھ قدیم وجدید ادباء،شعرا،اور دانشوروں کے نظریات وخیالات اور ان کی منظوم ومنثور تخلیقات پر ان کی قابل رشک حد تک گہری نظر ہے، میں پورے وثوق سے اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ کہ سکتا ہوں کہ علمی و ادبی وسعت کے حوالے سے اس وقت کم لوگ ان کے ہم پلہ ہیں، انھوں نے اپنے والد اور شیخ کے علوم ومعارف کی تحفیظ واشاعت میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، ان کے بکھرے ہوئے مضامین کو اکٹھا کرکے دو جلدوں میں علوم و نکات کے نام سے شائع کیا ہے'، مختلف لوگوں کے پاس سے ان کے خطوط حاصل کرکے،،اعجاز نامے،،کے نام سے جمع کیا ہے'، ان کے قرانی دروس کو قلمبند کرکے دنیا کے سامنے انتہائی مفید علمی تحفہ پیش کیا ہے'، ان کے خطبات جو بھی صوتی شکل میں دستیاب ہوسکے انہیں حروف کی کائنات پر پھیلایا ہے۔
انہیں کی توجہ اور کوششوں سے آپ کی سوانح ناچیز کے قلم سے وجود میں آسکی ہے'، اور اس وقت بھی وہ مکمل تندہی سے اپنے نصب العین میں سرگرم ہیں۔
اس سفر کا اہم مقصد یہ بھی تھا کہ حضرت مولانا مرحوم کی زندگی پر آنے والے مجلہ اشرف العلوم کو وقیع اور معیاری بنانے کے سلسلے میں مولانا قمر الحسن صاحب سے مشاورت بھی کی جاسکے، مولانا عرفات صاحب راقم سے بہت محبت اور بے لوث الفت رکھتے ہیں، ان کا معاملہ میرے ساتھ ہمیشہ ایک بھائی کا سا رہا ہے آج بھی الحمدللہ اسی جذبے کے ساتھ قائم ہے، اللہ تعالیٰ حشر تک اس کو دوام آشنا کردے آمین۔
مولانا محمد راشد صاحب اعظمی۔
یہ مولانا عرفات صاحب سے عمر میں بڑے ہیں ،خوش مزاج، اور مرنجا مرنج طبیعت کے حامل ہیں،نہایت ذکی اور ذہین، حضرت مولانا مرحوم کے چہیتے اور رازداں، ان کے تمام دنیوی امور اور پروگراموں اور انتظامات کے منتظم تھے، شیخوپور سے مکتب،حفظ اور عالمیت کی تعلیم مکمل کرے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہیں سے فضیلت کی سند حاصل کی ۔والد محترم کی طرح بااخلاق ،فیاض اور مہمان نواز ہیں
حضرت کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داریوں کو تدریسی امور کے ساتھ ساتھ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہیں، جہانا گنج اعظم گڈھ کے قریب چھپرا موضع حضرت مولانا کی مستقل سکونت کے بعد سے والدہ محترمہ اور مولانا عرفات صاحب کے ساتھ اسی کوردہ مقام پر استقامت کے ساتھ مقیم ہیں اور یہیں تدریسی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں ،انہیں بھی مجھ سے تعلق خاطر ہے، والد مکرم کے علوم کی ترویج واشاعت میں ہمہ وقت فکر مند اور اس سلسلے میں تدبیر وسائل کی دستیابی میں بھی سرگرم رہتے ہیں،
مولانا حسین غازی پوری۔۔۔
شیخوپور میں ہی انھوں نے مولانا اعظمی کے سایہ تربیت میں رہ کر عالمیت مکمل کی بعد ازاں دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کی، عمدہ عالم دین اور نیک و صالح شخص ہیں' ،مولانا اعظمی کے شیدائی اور ان کے صاحبزادوں کے بہترین
رفیق اور مخلص دوست، فراغت کے بعد اپنے دیار کے تقاضے کے مطابق زمانیہ میں ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی اور تادم تحریر اس ادارے کے کامیاب مہتمم ہیں'، علمی قیادت کے ساتھ ساتھ فور ویلر گاڑیوں کے بھی ماہر ڈرائیور اور قائد ہیں۔دارالعلوم سے تعلیم کی رسمی تکمیل کے بعد اب جاکر اس سفر میں ملاقات ہوئی ۔چہرے پر وہی رونق،وہی شادابی، اور وہی مزاج وطبیعت اور وہی اخلاق وکردار، نظر آیا جو زمانہ طالب علمی میں ان کے وجود کا حصہ تھا،
مولانا حسین صاحب نے فجر کے بعد اپنی گاڑی جو جدید طرز کی مہندرا کمپنی کی ہے لیکر چھپرا حاضر ہوئے اور مذکورہ برادران کو ساتھ لے کر پروگرام کے مطابق ساڑھے نو بجے انجان شہید حاضر ہوئے،یہاں مولانا توقیر صاحب کے ساتھ میں منتظر تھا،ممبئی سے آنے کے بعد یہیں ان حضرات سے ملاقات ہوئی،
مولانا توقیر صاحب قاسمی۔
یہ شیخوپور سے تین کلومیٹر مغرب کی سمت میں واقع جگمل پور کے رہنے والے ہیں، مجھ سے کئی سال جونیئر مولانا عرفات کے درسی ساتھی، سنجیدہ،کم گو، بااخلاق اور ملنسار ہیں'، شیخوپور میں ہی عالمیت مکمل کرکے دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی سند لی
اس وقت شیخوپور میں استاذ ہیں، مولانا عرفات کے مخصوص اور مخلص دوستوں میں ہیں، ان کے اکثر پروگرام کا حصہ ہوتے ہیں اور اہم نصب العین کے معتمد رکن۔ ان کے تعلقات مجھ سے واجبی سے تھے اس لیے کہ کبھی طویل ساعتوں پر مشتمل دیر تک ساتھ رہنے کا اتفاق نہیں ہوا اس سفر میں اندازہ ہوا کہ وہ انتہائی خوبصورت طبیعت کے مالک ہیں۔ بے لوث اور ملنسار بھی ہیں اور باذوق وخوش مزاج بھی، انہیں کے ساتھ ان کی موٹر سائیکل سے انجان شہید آیا اور انہیں کے ساتھ پھر گاڑی میں سوار ہوا۔۔
کیف ونشاط کے ماحول میں یہ قافلہ منزل کی طرف رواں ہوا بازار کے آخر میں گاڑی رکی معلوم ہوا کہ مولانا عامر صاحب ملاقات کے لیے کھڑے ہیں، دیکھ کر دل میں عجیب سی خوشی ہوئی ،مصافحہ کے ساتھ معانقہ ہوا تھوڑی دیر تک ظریفانہ ماحول میں ایک دوسرے کے احوال کی معلومات کا تبادلہ رہا، پھر قافلہ خوبصورت شاہراہ پر محو سفر ہوگیا۔مولانا عامر صاحب ذہانت وذکاوت،اور فہم و فراست کے ساتھ انتہائی ظریفانہ طبیعت کے مالک ہیں ،ہر سوال کا ظریفانہ جواب حاضر،اس طرح کہ مخاطب کی زبان یکلخت بند ہوجائے، قدرت کی طرف سے انہیں اس حوالے سے بے پناہ مہارت حاصل ہے'، جس محفل میں مولانا عامر صاحب ہوں اس میں رنج و اداسیوں کی ہواؤں کا گذر ہوجائے،ممکن نہیں، شیخوپور اور دارالعلوم سے فارغ ہونے کے بعد جامعہ شیخ الہند میں تدریس کے فریضے پر مامور ہوئے تو آج تک پوری استقامت سے جمے ہوئے ہیں، یہیں اہل وعیال کے ساتھ مستقل سکونت اختیار کرلی ہے اور کامیاب مدرس ہیں۔۔
برحل گنج میں۔۔
بازار جین پور ہوتے ہوئے برق رفتاری کے ساتھ علم کا یہ کارواں مسافت کو سمیٹتا ہوا اعظم گڈھ اور گورکھپور کی سرحد پر واقع قصبہ برحل گنج پہونچا،یہاں مولانا مکرم صاحب منتظر تھے،
مکرم صاحب کا پورا گھرانا مولانا اعظمی کا گرویدہ اور معتقد ہے'،
اور آج بھی پورے اخلاص کے ساتھ مولانا کے اہل خانہ کے ساتھ قدر دانی کا معاملہ کررہا ہے'، گیارہ بج چکے تھے دھوپ تیز تھی اس لیے مکرم صاحب کے عالیشان گھر میں بڑی عافیت محسوس ہوئی انھوں نے پر تکلف ناشتے سے ضیافت کی۔مکرم صاحب کی تعلیم بھی شیخوپور سے ہوئی ہے'اس وقت وہ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں میڈیکل لائن سے،بی یو ،ایم، ایس، کے طالب علم ہیں،ان کے بڑے بھائی بھی اور چھوٹے بھائی بھی کامیاب ڈاکٹر ہیں اور یہیں پر پریکٹس کررہے ہیں۔
آدھے گھنٹے کے یہاں سے ہم رخصت ہوئے، اور مرکزی شاہراہ خراب ہونے کی وجہ سے غیر معروف راستے سے ہوکر
موضع بیلی پار جو چالیس کلومیٹر کی مسافت پر ہے وہاں ہم لوگ'پہونچے،
یہاں میرے درسی ساتھی اور شیخوپور میں مولانا مرحوم کے فیض یافتہ مولانا محمود حسن اور مولانا فہیم قاسمی ایڈیٹر المناضر منتظر تھے، یہاں جس وقت ہم پہونچے تو ایک بج چکا تھا
گرمی سخت تھی، مولانا محمود الحسن نے عمدہ ناشتے کا انتظام کررکھا تھا، ہلکا سا ناشتہ کرکے کچھ لوگوں نے ٹھنڈے مشروب سے اپنی پیاس بجھائی اور کچھ لوگوں نے چائے نوشی سے، مولانا محمود صاحب متوسط استعداد کے عالم ہیں، طبیعت میں شوخی ہے'، مزاج میں ظرافت ہے'، زمانہ طالب علمی میں مزاح کا جو مزاج تھا اب بھی اس میں تبدیلی نہیں ہوئی،وہی بے تکلفانہ گفتگو،وہی رنگ مزاح،اور وہی ہنسنے ہنسانے کا ظریفانہ عمل، ان سے ایک عرصہ کے بعد ملاقات ہوئی تھی اس لیے خوشی بھی فطری تھی، فراغت کے بعد بیلی پار میں ہی گھر کی کپڑے کی دکان پر لگ گئے،زمانہ طالب علمی میں آیا تھا تو ایک متوسط سی دکان تھی اب تو بہت زبردست اور جدید انداز کی بڑی سی مارکیٹ معلوم ہوتی ہے'، انھوں نے اہتمام سے ضیافت کی اور رخصت کے وقت گرمی میں استعمال کرنے والا ایک گمچھا بھی مجھے مولانا عرفات صاحب اور مولانا راشد صاحب کو ہدیہ کیا۔۔
مولانا فہیم صاحب بھی جب تک ہم یہاں تھے ضیافت میں مولانا محمود کے ساتھ ساتھ رہے، اور اپنی محبت والفت نثار کرتے رھے، مولانا دارالعلوم دیوبند کے فاضل ہیں، بہت باذوق،سخن فہم اور ادب درویش ہیں،مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم کی تحریروں کے عاشق ہیں، اس وقت شیخ الہند انجان شہید کے معزز استاذ ہیں اور یہیں سے علوم مناظر کی ترویج واشاعت کے لئے ایک برقی ماہنامہ ،،المناظر ،نکال رہے ہیں،جس میں ناچیز کی تحریریں بھی اہتمام سے شائع کرتے ہیں۔