اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: جہالت میں سویرا ہورہا ہے !

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 13 November 2016

جہالت میں سویرا ہورہا ہے !

ازقلم: ایم ودود ساجدنئی دلی ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 30مہینے قبل جس طرح16مئی 2014کو یہاں ہندوستان میں ایک انہونی ہوگئی تھی اسی طرح 9نومبر2016کوامریکہ میں بھی ایک انہونی ہوگئی ہے۔کچھ لوگ ہندوستان میں500اور ایک ہزارکے جاری نوٹوں کوبیک جنبش لب ‘بے کار قرار دئے جانے کوطلاق ثلاثہ‘یکساں سول کوڈ اوربھوپال انکاؤنٹرکی بحث سے توجہ ہٹانے کی سازش قرار دے رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ ایسا خیال ظاہر کرنے والے مسلمان ہی ہیں۔لیکن پڑھے لکھے ہندوطبقات میں یہ بحث جاری ہے کہ یہ دور‘ دائیں بازو یا سخت گیر عناصر کے ابھرآنے کا دور ہے۔نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے دیگر حصوں میں بھی شدت پسند یا سخت گیرعناصرعدیم المثال قوت پارہے ہیں۔ہندوستان میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کولوک سبھاکی288سیٹوں کا ملنا اور پھر امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کواسی تناسب کے ساتھ 276 الیکٹورل کالجوں سے فتح ملنا اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بین الاقوامی سطح پردوسرے خطوں میں بھی سخت گیر عناصرفروغ پارہے ہیں۔ان میں شام ‘ترکی اور عراق کے ساتھ دنیا کے سب سے بڑے بلیک میلر اور اسلام دشمن روس کا اتحادقابل ذکر ہے۔شام میں نام تو دہشت گردوں کا لیا جارہا ہے لیکن روس ‘ترکی اور شام کی اتحادی فوجوں کی بمباری کا شکار بے قصور شہری اور خاص طورپرخواتین ‘بچے اور بوڑھے ہورہے ہیں۔شام میں مسجدیں تک محفوظ نہیں ہیں۔اور اسلام کا سب سے بڑا علم بردارایران بھی اس گناہ کبیرہ میں کھلے طورپر شامل ہورہا ہے۔ترکی میں آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ کس طرح ’امیرالمومنین ‘رجب طیب اردوگان نے امن پسندفتح اللہ گلین کے حامیوں کا قلع قمع کرنے کے نام پر عام شہریوں پرظلم کی بارش کی ہے اور تعلیمی اداروں کوبیک جنبش قلم بند کردیا ہے۔ زیر نظر مضمون کی تمہید نسبتاً لمبی ہوگئی ہے۔عالم اسلام کے لئے کیا ہلیری اورکیاٹرمپ سب ایک جیسے ہی ہیں۔بالکل اسی طرح جس طرح ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے سبھی سیاسی پارٹیاں ایک جیسی ہیں۔ٹرمپ کی فتح پر صرف عالم اسلام یا ہندوستانی مسلمان ہی حیرت زدہ نہیں ہیں بلکہ عیسائی ممالک بھی اسی طرح متحیر ہیں۔ان ممالک کے عوام کو ہلیری کے ہارنے کا نہیں بلکہ ٹرمپ کے جیت جانے کادکھ ہے۔خود امریکہ کے تمام بڑے صوبوں اور شہروں میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔مظاہرین ہاتھوں میں جو بینر اٹھائے ہوئے ہیں ان پر لکھا ہے’’نہیں‘ٹرمپ ہمارا صدر نہیں ہے‘‘۔سوال یہ ہے کہ جب تین ماہ کی طویل مدت تک کئی مرحلوں پر مشتمل انتخابی عمل کے بعد ہلیری کلنٹن سے زیادہ ووٹ لے کر ٹرمپ منتخب ہوئے ہیں تو یہ مظاہرے کس امر کے خلاف ہورہے ہیں۔اگر واقعی ٹرمپ کے خلاف امریکہ میں یہ ماحول تھا تو ٹرمپ کو لوگوں نے ووٹ کیوں دیا؟اور اگر وہ ہلیری سے زیادہ ووٹ لے کر جیت گئے ہیں تو اب ان کے خلاف یہ مظاہرے کیوں؟ کیا ان مظاہرین کو امریکہ کے انتخابی طریقہ کار پر اعتماد نہیں ہے؟حالانکہ یہ خدشہ تو خود ٹرمپ نے الیکشن سے پہلے ظاہر کیا تھا کہ ہلیری کے حق میں الیکشن میں دھاندلی ہوسکتی ہے۔ ہندوستان اور امریکہ کو دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتیں قرار دیا جاتا ہے۔امریکہ ہندوستان کے مقابلہ میں بہت بڑا ہے۔یوں سمجھئے کہ پچاس ملکوں کا ایک ملک ہے۔یہ روئے زمین پر شاید واحد ملک ہے کہ جہاں چار ٹائم زون ہیں۔یہاں تک کہ ایک گوشہ سے دوسرے گوشہ تک' وقت میں چھ گھنٹے تک کا فرق بھی پایا جاتا ہے۔یعنی ملک میں کہیں صبح ہے تو کہیں دوپہرہے۔ہندوستان کا جو طرز انتخاب ہے امریکہ کا طرز انتخاب اس سے یکسر جداگانہ ہے۔ مگریہاں اس پہلو پر بحث مقصود نہیں ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ جمہوری طرز کے الیکشن میں جیتنے کے باوجودٹرمپ کے خلاف یہ عوامی اضطراب اور بے چینی کیوں ہے؟اس مشکل سوال کا آسان جواب پانے کے لئے یوروپی یونین کی کورٹ آف ہیومن رائٹس کے ایک جج جسٹس ونسنٹ ڈی گیٹانوکا یہ بیان کا فی ہوگا۔وہ کہتے ہیں کہ :’’مجھے میرے معاون نے بتایا تھا کہ‘ یوروپی یونین سے برطانیہ کی علاحدگی اور ڈونالڈ ٹرمپ کی فتح ایک ایسی دنیا میں لازمی طورپرقابل قیاس تھی جہاں جہالت غالب آرہی ہو اورمنافرت فروغ پارہی ہو۔‘‘ جسٹس ونسنٹ آج کل لکھنؤ میں منعقد ہونے والی انٹر نیشنل جیورسٹ کانفرنس میں شرکت کے لئے ہندوستان آئے ہوئے ہیں۔جسٹس ونسنٹ کی زبانی ان کے معاون کا یہ تبصرہ صرف برطانیہ اور امریکہ کے احوال پر ہی صادق نہیں آتابلکہ اس کا مصداق خود ہم بھی ہیں۔یہاں بھی یکساں طورپرجہالت اور منافرت غالب آگئی ہے۔ اضافی طورپریہاں دولت نے بھی اس صورت حال کو حقیقت کا جامہ پہنانے میں بڑا اہم کرادارادا کیا ہے۔ آئیے ذرا 16ویں لوک سبھا کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس میں کس پارٹی کے کتنے فیصد ممبران پارلیمنٹ کے خلاف مجرمانہ معاملات کا ریکارڈ پولس میں درج ہے اور یہ کہ کس پارٹی کے ممبران کے پاس کتنی دولت ہے۔’ایسو سی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارم ‘نامی ایک تنظیم کی رپورٹ کے مطابق اس لوک سبھا میں بی جے پی کے 35فیصد ممبران پارلیمنٹ کے خلاف پولس میں مجرمانہ معاملات درج ہیں۔واضح رہے کہ پچاس فیصد سے زیادہ سیٹیں بی جے پی کے پاس ہیں۔گو کہ راشٹریہ جنتا دل(آر جے ڈی ) کے 100فیصد ممبران مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں لیکن آر جے ڈی کے کل تین ممبران پارلیمنٹ ہیں۔اس اعتبارسے مجرمانہ معاملات میں ملوث سب سے زیادہ ممبران بی جے پی کے ہی ہیں۔ان کی کل تعداد90سے تجاوز کرگئی ہے۔اور آج کل بڑے تاجروں اورپارٹیوں کے بڑے لیڈروں کے علاوہ سب سے زیادہ کالا دھن انہی مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والوں کے پاس پایا جاتا ہے۔اس سے اندازہ لگالیجئے کہ 2014کے لوک سبھا انتخابات میں سب سے زیادہ پیسہ کس پارٹی نے خرچ کیااور سب سے زیادہ جرائم پیشہ اور مجرمانہ معاملات کا ریکارڈ رکھنے والوں کو کس نے ٹکٹ دئے۔کانگریس کے ایسے ممبران کی تعداد18فیصدبتائی گئی ہے۔لوک سبھا میں اس کے کل 44ممبران ہیں۔یعنی اس کے زیادہ سے زیادہ 8ممبران مجرمانہ معاملات میں ماخوذ ہیں۔اس لوک سبھا میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس ہی ہے۔اس لحاظ سے برسراقتدار پارٹی اور کلیدی اپوزیشن پارٹی کے مجرمانہ ریکارڈ والے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد میں (8-90)کاہمالیائی فرق پایا جاتا ہے۔بی جے پی کی جو دوسری اتحادی پارٹیاں ہیں ان میں بھی بڑی تعدادمیں ایسے ممبران موجود ہیں۔ان میں سب سے زیادہ شوسینا اور لوک جن شکتی کے بالترتیب 83اور 68فیصد ممبران مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔عام آدمی پارٹی کے چار ممبران پارلیمنٹ ہیں جن میں سے ایک کے خلاف بھی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے۔یعنی پارلیمنٹ میں 100فیصد صاف شبیہ والی پارٹی صرف عام آدمی پارٹی ہے۔اسی طرح باقی تمام ممبران کے(فی ممبر) اوسط اثاثے14کروڑ کے بتائے جاتے ہیں۔جبکہ عام آدمی کے چاروں ممبران پارلیمنٹ محض تین کروڑ کے مالک ہیں۔ اب اس تفصیل کے بعد کیا یہ سمجھنا مشکل ہے کہ بی جے پی نے 2014کا الیکشن جیتنے کے لئے جہاں "جہالت اور منافرت" کا استعمال کیا وہیں اس نے کس بڑے پیمانے پرداداگیری اور دولت کا بھی استعمال کیا۔کیا اس کے ممبران پارلیمنٹ کے پاس صرف وہی دولت تھی جوانہوں نے امیدواری کے فارم میں الیکشن کمیشن کو لکھ کر دی تھی؟یقین کرنا مشکل ہے۔تو پھر سوال یہ ہے کہ 500اور ایک ہزار کے نوٹ بند ہونے سے بی جے پی والے کیوں پریشان نہیں ہیں اور باقی دوسری پارٹیاں خاص طورپریوپی میں سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے لوگ کیوں پریشان ہیں؟اس سلسلہ میں ہمیں از خود کوئی جواب دینے کی بجائے دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے قائداروند کجریوال کے اس الزام پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ ’’بی جے پی والوں نے اپنا انتظام کرلیا ہے۔وہ یوپی اور پنجاب میں الیکشن لڑنے والی ہے۔میری کئی لوگوں سے بات ہوئی ہے۔وہ بتارہے ہیں کہ کالے دھن والوں کی تو سیٹنگ ہوچکی ہے۔15-20فیصد کمیشن لگے گا اور بڑے بڑے کالے دھن والوں کے گھر نئی کرنسی کے نوٹ پہنچ جائیں گے۔‘‘کجریوال نے یہ بھی پوچھا کہ ملک بھر میں بنکوں کے سامنے لگنے والی لمبی لمبی قطاروں میں کیا آپ کو کوئی بڑا تاجر‘لیڈریا کوئی اور بڑا آدمی بھی ملا؟۔سپریم کورٹ کے سینئروکیل پرشانت بھوشن نے بنک میں پیسہ جمع کرنے والی ایک سلپ بھی ٹویٹ کی ہے ۔اس سلپ پر یہ اکاؤنٹ نمبردرج ہے: 554510034-۔اس میں کلکتہ کے اوپی جھا نے 8نومبر کودوبار60لاکھ اور40لاکھ روپیہ نقد جمع کئے۔اوپی جھا کو بی جے پی کا ممبر بتایا جاتا ہے۔ایک ہی دن میں اتنی موٹی رقم وزیر اعظم کے اعلان سے چند گھنٹوں قبل ہی جمع کرائی گئی ہے۔ اب ایک بات ’اپنوں‘ سے بھی کہنی ہے۔مختلف پلیٹ فارموں پریہ بات زوروشور کے ساتھ جاری اور نشر کی جارہی ہے کہ مودی حکومت نے طلاق ثلاثہ‘یکساں سول کوڈ اوربھوپال انکاؤنٹرکی بحث اور 15نومبرکوطلاق ثلاثہ کے تعلق سے سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی رٹ سے توجہ ہٹانے کے لئے پرانے نوٹ بند کئے ہیں۔اور یہ کہ اس کا سب سے برا اثر مسلمانوں پر ہی پڑے گا۔مسلمانوں سے یہ اپیل بھی کی جارہی ہے کہ’ نوٹوں کو بدلنے کاچکر چھوڑ کر مسلم پرسنل لاء کو بچانے میں لگ جاؤ۔‘مجھے حیرت ہے کہ رٹ دائر کرنے والے اس کی تیاری کر رہے ہیں‘اس کا عام مسلمانوں سے کیا تعلق؟اور یہ کہ کیا سپریم کورٹ طلاق ثلاثہ اور کامن سول کوڈ سے متعلق رٹ قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردے گی کہ چونکہ اب 500اور ایک ہزار کے پرانے نوٹ بند ہوگئے ہیں اس لئے آپ کی رٹ مسترد کی جاتی ہے؟کیا احمقانہ دلیل ہے!میری عرض یہ ہے کہ اس دور میں جہاں دوسروں کی جہالت غالب آرہی ہے خود اپنوں میں بھی کم جہالت نہیں بڑھ رہی ہے۔میں اس موضوع کو کسی اور ہفتے قدرے تفصیل سے بیان کروں گا لیکن آج ایک اشارہ دینا ضروری ہے ۔قوم کی ایسی گریجویٹ بیٹیاں تعلیمی غرض سے میرے پاس آتی ہیں جنہیں نہ صرف یہ کہ اردو زبان نہیں آتی بلکہ انہوں نے قرآن پاک بھی نہیں پڑھا ہے۔کہنے کو ان کے ماں باپ مسلمان ہیں لیکن ان کی یہ اولاد‘جس کے لئے مسلم پرسنل لابورڈ اس قدر متفکرہے‘اسلام اور اس کی تعلیمات سے شرمناک حد تک بے بہرہ ہے۔ایسے میں ناعیش حسن اور ذکیہ سومن جیسی خدا بیزار عورتیں انہیں استعمال کرکے سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے خلاف اور کامن سول کوڈ کے حق میں رٹ دائر نہیں کرائیں گی تو کیا کرائیں گی؟