از قلم: حافظ ثاقب اعظمی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مچھلیاں پانی میں ذرے خاک میں برگ وشجر
نیک عالم کو دعا دیتے ہیں ہر شام و سحر
خالق ارض و سماء کی حکمت ومشیت سے مشرقی یوپی کا علاقہ صدیوں سے خادمانِ دین، علماء کاملین اور صوفیا و مصلحین کا گہوارہ رہا ہے بارہویں صدی ھجری سے عصرِحاضر تک تمام دینی وعلمی اور دعوتی واصلاحی سر گرمیوں اور برِّ صغیر میں اسلام کے حقیقی احیاء و بقا کا عظیم کام دراصل اسی نواح کے فضل وکمال اور ارباب دعوت وعزیمت سے اللہ پاک نے لیا ہے، ان ہی بابرکت مقامات میں سے ایک مردم خیز خطہ ضلع اعظم گڑھ بھی ہے، اس ضلع کے سگڑی تحصیل کے تحت ایک موضع " انجان شہید " ہے جہاں پر آج سے تقریبا 14 /سال قبل جامعہ شیخ الہند 2002 مطابق 1423میں قائم ہوا، الحمدللہ جامعہ ھٰذا میں درجہ حفظ وتجوید کے علاوہ درجہ فارسی، عربی اول تا عربی پنجم،پرائمری درجہ اول تا پنجم اور بچیوں کے لے علاحدہ عالمیت تک کی معیاری تعلیم کا نظم ہے یہاں سے ہر سال طلبہ کی ایک خاصی تعداد مادرِ علمی دارالعلوم و دارالعلوم وقف دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے جامعہ شیخ الہند کو اپنی نیک خواہشوں کے ساتھ الوداع کہتی ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے اکثر طلبہ مادر علمی سے تعلیم حاصل کر کے ملک کے گوشہ گوشہ میں تلاش معاش کے ساتھ ساتھ دین کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں انہیں طلبہ میں سے 2011 میں بھی ایک جماعت نے جامعہ کو نم آنکھوں کے ساتھ الوداع کہا تھا اور آج وہ ملک و بیرون ملک میں طلب معاش کے ساتھ دین کی خدمت انجام دینے میں مشغول ہیں
یہ راقم الحروف کی جماعت تھی جس میں احقر حافظ ثاقب اعظمی کے علاوہ مولانا ایوب قاسمی نیپالی، مولانا ضمیرالدین قاسمی شیرازی، مولوی فرحان قاسمی، مولوی ابودرداء، مولانا عتیق الرحمٰن، مولانا طاہرقاسمی، مولوی عبد العزیز قاسمی، مولانا سرور قاسمی، مولوی عبدالقیوم قاسمی، مولوی رضوان اعظمی شامل ہیں، رب قدیر نے ہم سب کو ظلمت وتاریک کی نگری سے نکال کر اسی پر سکون ماحول میں رہنے کا انتخاب فرمایا جسے آج لوگ جامعہ شیخ الہند کے نام سے جانتے ہیں اس علمی فضا میں مشفق و مکرم اساتذہ کی زیر نگرانی علمی پیاس بجھاتے رہے خصوصاً ناظم اعلیٰ حضرت مولانا فرقان بدر اعظمی قاسمی مدنی نے جس شفقت ومحبت کا نقش قائم کیا وہ ہم کبھی نہ بھولینگے اور جامعہ کے اساتذہ و خیر خواہان جامعہ کے بے پناہ تعاون کو نظر انداز نہ کر پائیں گے جامعہ ھذا کے اراکین کا ہم جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے کیوں کہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جذبات ایک عالم اکبر ہے الفاظ کی دنیا چھوٹی سی
اظہار تشکر کیوں کر ہو یہ جرأت جرأتِ بیجا ہے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تاآنکہ ازہر ہند دارالعلوم دیوبند جانے کا وقت مسعود آگیا ہم سب مغموم و مسرور،ایک طرف جامعہ شیخ الہند چھوٹنے کا غم، اور دوسری طرف مادرعلمی دارالعلوم دیوبند جانے کی خوشی، غم ومسرت کی انھیں ملی جلی کیفیات کے ساتھ ہم مادرعلمی میں آئے اللہ نے ہم سب کو مادرعلمی میں قبول فرماکر دین کی خدمت کے لئے منتخب فرمایا.
دعاہے کہ اللہ تعالی دونوں اداروں مادر علمی جامعہ شیخ الہند اور مادر علمی دارالعلوم دیوبند کو دن دونی اور رات چوگنی ترقیا ت سے نوازے اور ہرطرح کے شروفتن سے محفوظ رکھے، آمین
*مادر علمی تجھے سلام*
پسند فرمودہ: مولانا محمد عابد اعظمی
استاد جامعہ شیخ الھند اعظم گڑھ