اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…
Wednesday, 2 November 2016
مسئلۂ طلاق پر غیرمقلدین کب تک جھوٹ بولیں گے؟
از قلم: فضیل احمد ناصری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کل مسلم پرسنل لا بورڈ کے بینر تلے مسلم کہی جانے والی ساری جماعتیں متحد ہیں؛ یہ ایک اچھی، خوش گوار اور ہمت افزا بات ہے. لیکن اس اتحاد کے درمیان سے اختلاف کی شدید صدائیں بھی سنائی دی ہیں یہ صدائیں "غیرمقلدین بھائیوں "کی اٹھائی ہوئی ہیں موضوع پر آنے سے پہلے میں یہ واضح کردوں کہ "غیرمقلدین" کی اصطلاح تضحیک کے لیے نہیں ، بلکہ اظہارِ حقیقت کے لیے ہے یہ حضرات ائمۂ اربعہ میں سے کسی کی کامل تقلید نہیں کرتے، بلکہ تقلید کو شرک کہتے ہیں، اس لیے انہیں " غیرمقلدین" سے یاد کرنا حق بجانب ہے بعض لوگ انہیں " لامذہب "بھی کہتے ہیں، مگر میں انہیں "غیرمقلدیت "سے ہی موسوم کرنا چاہتا ہوں یہ حضرات خود کو اہلِ حدیث کہتے ہیں اور یہ "کذبِ مبین "ہے، اس لیے مجھ میں اس نام سے مخاطب کرنے کی ہمت نہیں ہے غیرمقلد بھائیوں سے درخواست ہے کہ اس نام کا برا نہ مانیں اب آگے بڑھتا ہوں غیرمقلدین کی طرف سے "ایک مجلس کی تین طلاق "پر ایک تحریر گردش کر رہی ہے اس میں یہ کہا گیا ہے کہ "ایک مجلس کی تین طلاقیں "عہد رسالت میں بھی ایک ہی مانی جاتی تھیں اس مضمون کے ذریعے اسی کذب بیانی کا پوسٹ مارٹم کرنا مقصود ہے آگے بڑھنے سے پہلے یہ ذہن میں رکھیے کہ یہاں دو مسئلے ہیں: ۱ پہلا یہ کہ ایک مجلس یا ایک سانس میں تین طلاقیں دینا جائز ہے یا نہیں؟ تو عرض ہے کہ ہم احناف کے یہاں اس طرح طلاق دینا جائز نہیں امام مالک بھی ہمارے ساتھ ہیں البتہ امام شافعی اور امام احمد کے یہاں اس طرح طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں، جائز ہے امام ابو حنیفہ اس حدیث کو بنیاد بناتے ہیں: اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً فقام غضباناً ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم؟حتی قام رجل وقال: یارسول اللہ الا اقتلہ؟ یہ حدیث صحابئ رسول حضرت محمود بن لبید سے مروی ہے اور امام نسائی نے اس کی تخریج کی ہے جرح و تعدیل کے مشہور امام: حافظ ابن الترکمانی اس حدیث پر حکم لگاتے ہوے فرماتے ہیں: حدیث صحیح صریح اس حدیث کا لبِ لباب یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کو بتایا گیا کہ ایک صاحب نے اپنی بیوی کو اکٹھے تین طلاقیں دے دی ہیں اس پر حضور شدید ناراض ہوے اور فرمایا: کیا میری زندگی میں ہی اللہ کی کتاب سے کھلواڑ کیا جاے گا؟ آپ کی ناراضگی دیکھ کر ایک صحابی نے درخواست کی کہ حضور! آپ اجازت دیں تو اس کی گردن اڑادوں
۲ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ایک مجلس یا ایک سانس میں دی جانے والی طلاقیں کتنی شمار ہوں گی؟ تین، یا ایک؟ اس مضمون کے ذریعے دراصل اسی سوال کا جواب دینا ہے اور اسی کے ضمن میں غیرمقلدین کے داغ دار، جھوٹے اور مکروہ چہرے سے نقاب بھی اٹھانا آپ نے اکثر غیرمقلدین کو یہ دعویٰ کرتے سنا، دیکھا اور پڑھا ہوگا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی مانی جاتی ہیں اور عہدِ رسالت میں بھی یہی طریقہ رائج تھا تین طلاقوں کو تین ماننے کا فیصلہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں کیا تھا، تاکہ لوگ بگاڑ سے بچ جائیں یہ خلیفۃ المسلمین کی طرف سے ایک تعزیری فرمان تھا، شرعی حکم نہیں تھا شرعی حکم تو یہی ہے کہ ایک ہی طلاق واقع ہو، نہ کہ تین حضور علیہ السلام کے مبارک ترین دور میں ایک ہی طلاق مانی جاتی تھی، تین نہیں غیرمقلدین دبے لفظوں میں گویا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضرت عمر نے حکومت چلانے کے لیے حکم شرعی کو بدل دیا تھا؛ لہذا تین طلاقوں کو تین ماننا "بدعتِ عمری "ہوئی آئیے! پہلے غیرمقلدین کی دلیلوں پر نظر ڈالتے ہیں:
۱ عن ابن عباس کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر و سنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیہم فامضاہ علیہم یعنی حضور علیہ السلام، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کے ابتدائی دو سال تک تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا، لیکن جلدبازی میں تین طلاقیں دیا کرتے تھے، اس لیے حضرت عمر نے تین طلاقوں کے نفاذ کا فیصلہ صادر فرما دیا یہ حدیث مسلم شریف میں ہے غیرمقلدین کی دوسری دلیل ملاحظہ ہو:
۲ طلق رکانۃ بن عبد یزید اخو بنی مطلب امرأتہ ثلاثاً فی مجلس واحد فحزن علیہا حزنا شدیدا قال فسالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف طلقتہا ثلاثا قال: فقال فی مجلس واحد؟ قال نعم، قال فانما تلک واحدۃ فارجعہا ان شئت قال فرجعہا .....
یہ حدیث مسند احمد میں ہے اور مفہوم یہ ہے کہ حضرت رکانہ نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں، بعد میں شدید صدمہ ہوا، حضور علیہ السلام سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کس طرح تم نے یہ تینوں طلاقیں دیں؟ تو انہوں نے کہا: ایک مجلس میں، آپ نے فرمایا کہ ایک طلاق رجعی واقع ہوئی اگر تم چاہو تو اس سے رجعت کر سکتے ہو، چناں چہ حضرت رکانہ نے رجعت کرلی اور بیوی کو اپنا لیا غیر مقلدین کے پاس اپنے دعوے پر یہی دو دلیلیں ہیں اور انہی کی روشنی میں ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ چوں کہ حضور علیہ السلام کے مبارک دور میں بھی ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی مانی جاتی تھیں، لہذا ایک ہی پڑے گی، تین نہیں لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ ان دونوں حدیثوں پر غیر مقلدین کا اپنے موقف کی عمارت کھڑی کرنا محض ہٹ دھرمی، علم سے لاتعلقی اور سڑی ہوئی بد دیانتی ہے وہ کیوں؟ تو آئیے! پہلی حدیث کو لیتے ہیں اس حدیث کا حال یہ ہے کہ یہ موقوف ہے، مرفوع نہیں دوسری بات یہ کہ راوئ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عمل خود اس کے خلاف ہے وہ اس حدیث کے خلاف ہی فتویٰ دیا کرتے تھے ابو داؤد شریف میں ہے: عن مجاھد قال کنت عند ابن عباس فجاءہ رجل فقال انہ طلق امرأتہ ثلاثاً قال فسکت حتی ظننت انہ رادھا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس! وان اللہ قال ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا وانک لم تتق اللہ فلا اجد لک مخرجا عصیت ربک وبانت منک امرأتک حضرت مجاھد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس کی خدمت میں تھا کہ ایک صاحب آے اور کہنے لگے: میں نے تین طلاقیں دے دی ہیں مجاھد کہتے ہیں کہ یہ سن کر ابن عباس خاموش رہے مجھے ایسا لگا کہ شاید حضرت اس کی بیوی سے رجعت کا فیصلہ سنائیں گے پھر ابن عباس غصے میں فرمانے لگے! لوگ بڑے عجیب ہیں، حماقت کر جاتے ہیں اور پھر دہائی دیتے ہیں: اے ابن عباس! اے ابن عباس! رحم کیجیے! میں کیا کروں؟ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو متقی ہوتا ہے، اسی کے لیے راہیں بنتی ہیں تم نے خلافِ تقویٰ کام کیا ہے تیرے لیے کوئی گنجائش نہیں تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے جاؤ تمہاری بیوی تم سے علحدہ ہوگئی تمہارا نکاح ختم ہو چکا ہے غور کیجیے! کیا راوی اپنے مروی کے خلاف فیصلہ دیتا ہے؟ جی نہیں! تو پھر ابن عباس نے کیوں فیصلہ دیا؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ابن عباس کی حدیث (جسے غیرمقلدین بڑے چاؤ سے پیش کرتے ہیں) کا وہ مطلب ہے ہی نہیں، جو ان غیرمقلدین نے لیا ہے، بلکہ اس کا مطلب کچھ اور ہے وہ یہ کہ اس حدیث کا تعلق عام عورتوں سے نہیں ، "غیر مدخول بہا" سے ہے-ابو داؤد شریف میں اس کی صراحت موجود ہے زمانۂ نبوی میں کسی شخص کی شادی ہوتی، ابھی اس نے اپنی بیوی سے جسمانی تعلق قائم نہیں کیا (صحبت نہیں کی) اور وہ اسے رکھنا نہیں چاہتا تو اس طرح طلاق دیتا: انت طالق انت طالق انت طالق چوں کہ یہ عورت غیر مدخول بہا ہے اور غیر مدخول بہا پہلے "انت طالق "سے ہی بائنہ ہو کر نکاح سے نکل جاتی ہے، عدت بھی اس پر واجب نہیں ہوتی، اس لیے بقیہ دو "انت طالق" لغو ہوگیا اسی کو یوں تعبیر کردیا گیا کہ "ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں "لیکن حضرت عمر کے دور خلافت میں لوگوں نے جلد بازی شروع کردی اور "غیرمدخول بہا" کو طلاق دینے کا طریقہ بدل دیا تھا اور وہ اس طرح طلاق دینے لگے "انت طالق ثلاثاً " حضرت عمر نے اس طرح طلاق دینے کو تین طلاقیں مان لیں ایسی صورت میں یہ عورت مغلظہ ہوجاے گی اور حلالہ کے بغیر بات نہیں بنے گی حضرت عمر کا بیان کردہ یہ مسئلہ غلط نہیں تھا، بالکل صحیح تھا، اسی لیے صحابہ میں سے کوئی بھی ان کے خلاف کھڑا نہیں ہوا اگر یہ مسئلہ غلط ہوتا تو ذی علم صحابہ ضرور ٹوکتے، جیسا کہ ان کا مزاج رہا ہے( نوٹ! اس حدیث کے اور بھی جوابات دیے گئے ہیں، انہیں میں نے طوالت کی بنا پر چھوڑ دیا ہے ) اب دوسری دلیل کا رد دیکھیے! غیرمقلدین "حدیث رکانہ "کو پیش کرتے ہیں اور خم ٹھونک کر اپنا موقف بیان کرتے ہیں ذرا اس حدیث کا حال بھی سن لیجیے! عرض ہے کہ اگرچہ اس حدیث میں طلاق کا تعلق "مدخول بہا "سے ہے ( وہ عورت جس سے صحبت ہو چکی ہو)، مگر اس حدیث میں کئی گڑبڑ ہے ایک تو یہ کہ یہ حدیث قابل اعتماد نہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے تلخیص الحبیر (ص، ۳۱۹ )میں لکھا ہے: ھو معلول ایضاً، یعنی اس میں پوشیدہ خرابی ہے علامہ ذہبی نے اس حدیث کو "داؤد بن الحصین "کے " مناکیر" یعنی انتہائی ضعیف روایات میں شمار کیا ہے امام نووی شارح مسلم کہتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے، اس کے راوی مجہول الحال ہیں ( دیکھیے نووی شرح مسلم، ج /۱ص/478 ) دوسرے یہ کہ روایات مختلف ہیں، تیسرے یہ کہ طلاق دینے والے صحابی کے نام میں اضطراب ( شک ) ہے : کہیں آتا ہے: طلق امرأتہ ثلاثاً "اور کہیں" طلق امرأتہ البتۃ "پہلی روایت مسند احمد میں ہے اور دوسری ابوداؤد میں امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں دونوں حدیثوں کو نقل فرماکر "البتۃ "والی روایت کو دو وجوہات سے ترجیح دی ہے، ایک تو یہ کہ یہ روایت حضرت رکانہ کے اہل خاندان سے مروی ہے دوسرے یہ کہ یہ روایت اضطراب سے خالی ہے، کیوں کہ اس روایت میں صاف طور پر حضرت رکانہ کا ہی نام لیا گیا ہے، جب کہ "طلق امرأتہ ثلاثاً "میں اضطراب ہے مسند احمد میں طلاق دینے والے صحابی کا نام "رکانہ "بتایا گیا ہے اور ابوداؤد کی دوسری روایت میں "ابورکانہ " تو کیوں نہ وہ حدیث لی جاے جو صاف ستھری، اضطراب سے خالی ہے اور اہلِ خاندان سے مروی ہے امام ترمذی نے اسی حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے: عن عبداللہ بن یزید بن رکانۃ عن ابیہ عن جدہ قال: اتیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقلت یا رسول اللہ انی طلقت امرأتی البتۃ فقال ما اردت بہا؟ قلت واحدۃ قال واللہ؟ قلت واللہ قال فھو ما اردت - حضرت رکانہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم علیہ السلام کی خدمت میں گیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو "طلاق البتۃ "دی ہے حضور نے پوچھا، تمہاری کیا نیت تھی؟ میں نے کہا: ایک طلاق دینے کی نیت کی تھی- آپ نے پوچھا: واللہ سچ کہہ رہے ہو؟ تو میں نے کہا واللہ سچ کہہ رہا ہوں آپ نے فرمایا کہ پھر تمہاری نیت کا اعتبار ہے، یعنی ایک طلاق بائن واقع ہوئی تمام محدثین نے ترمذی کی اس روایت کو اصل قرار دیا ہے اور ابن عباس کی روایت کو روایت بالمعنیٰ اس تنقیح سے کھل کر یہ حقیقت سامنے آگئی کہ حضرت رکانہ نے "طلاق ثلاثہ "نہیں، بلکہ "طلاق البتۃ "دی تھی اور "طلاق البتۃ "دینے سے نیت نہ ہونے کے وقت ایک ہی طلاق پڑتی ہے، اس لیے حضور علیہ السلام نے ایک طلاق بائن کا فیصلہ سنایا اور مسئلہ بھی یہی ہے ہاں اگر کوئی شخص "انت طالق البتۃ "بول کر تین طلاقوں کی نیت کر لے تو تین ہی پڑے گی چوں کہ "البتۃ "نیت کی صورت میں "تین طلاقوں" کو بھی شامل ہے، اس لیے حضرت ابن عباس نے اسے روایت بالمعنیٰ کرتے ہوے "طلق ثلاثاً "سے تعبیر کردیا غیرمقلدین کا عجیب حال ہے، جب کہیں پھنس جاتے ہیں تو ضعیف روایتوں کو بھی مضبوط پکڑ لیتے ہیں اضطراب والی حدیث سے بھی استدلال کرنا نہیں چھوڑتے اور صاف شفاف حدیث کو چھوڑ کر سواد امت سے کٹ جاتے ہیں جب کہ دوسروں کو تلقین کرتے پھرتے ہیں کہ "صحیح ، صریح اور غیرمعارض"حدیث کو دلیل بنایا کریں ایک مجلس کی تین طلاقوں" کے ایک ہونے پر غیرمقلدین کے پاس بس یہی دو دلیلیں تھیں، جن کا حال آپ پڑھ چکے ہیں جب کہ اہلِ سنت والجماعت کا موقف فیصلۂ رسول سے بھی ثابت ہے، اجماعِ صحابہ سے بھی اور قیاسِ صحیح سے بھی الحمدللہ اہل سنت کے دلائل میں کوئی جھول بھی نہیں ہے اب ان دلائل کو ملاحظہ فرمائیں جو اہل سنت والجماعت کی بنیاد ہیں ذہن نشین رہے کہ "ایک مجلس کی تین طلاقوں "کے تین ماننے پر چاروں امام ( ابوحنیفہ، شافعی، مالک، احمد) متفق ہیں کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں تمام صحابہ کی نظر میں بھی تین ہی پڑتی ہیں، نہ کہ ایک.
اب دلائل دیکھیے:
1 نسائی شریف( جلد دوم، ص، ۱۰۰) میں امام شعبی کی روایت ہے کہ صحابیہ حضرت فاطمہ بنت قیس نے حضور علیہ السلام سے شکایت کی کہ میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں بھیج دی ہیں میرا مطالبہ ہے کہ وہ مجھے نان و نفقہ اور مکان دے آپ نے فرمایا کہ نان و نفقہ اور مکان اس عورت کو ملتا ہے، جسے طلاق رجعی پڑے اس سے صاف واضح ہے کہ حضور علیہ السلام نے تین طلاقوں کی صورت میں شوہر کو رجعت کا حق نہیں دیا.
2. عن عائشۃ ان رجلاً طلق امرأتہ ثلاثاً فتزوجت فطلق فسئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل للاول؟ قال لا، حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الاول رواہ البخاری ( ج، ۲ ص، ۷۹۱) یعنی ایک شخص نے اپنی بیگم کو تین طلاقیں دے دیں، عورت نے کہیں شادی کر لی اور صحبت سے قبل ہی طلاق پا گئی آپ سے پوچھا گیا کہ یہ عورت اپنے شوہر سابق کے لیے حلال ہوگئی؟ آپ نے فرمایا: نہیں، جب تک کہ شوہر ثانی صحبت نہ کر لے.
3.حضرت عبداللہ ابن عمر نے اپنی اہلیہ کو حالت حیض میں طلاق دی اور حضور علیہ السلام سے پوچھا: یا رسول اللہ لوطلقتہا ثلاثاً کان لی ان اراجعہا قال: اذاً بانت منک وکانت معصیۃ یعنی اگر میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دے دوں تو حقِ رجعت باقی رہے گا؟ فرمایا: نہیں، عورت کا رشتہ ختم ہو جاے گا اور حالت حیض میں طلاق دینے کی وجہ سے گناہ ہوگا..... یہ حدیث امام طبرانی نے نقل کی ہے ( مجمع الزوائد، ج 4, ص، ۳۳۶ )
4. معجم طبرانی میں حضرت عبادہ ابن صامت کی روایت آئی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میرے کسی باپ دادا نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاقیں دے دیں ان کے بیٹے حضور علیہ السلام کے پاس آے اور صورت حال بتا کر پوچھا کہ اب کوئی راستہ بچا ہے؟ آپ نے فرمایا "ان اباکم لم یتق اللہ تعالیٰ فیجعل لہ من امرہ مخرجاً بانت منہ بثلاث علی غیرالسنۃ و تسع مائۃ وسبع و تسعون اثم فی عنقہ" تمہارے ابا نے تقویٰ کی راہ اختیار نہیں کی، اس لیے کوئی صورت نہیں رہی عورت تین طلاقوں سے ہی رشتے سے الگ ہوگئی اور بقیہ نو سو ستانوے طلاقوں کا گناہ طلاق دینے والے کی گردن پر ہوگا.
5. حضرت سوید ابن غفلۃ کہتے ہیں کہ عائشہ خثعمیہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں حضرت علی شہید ہوگئے تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا: خلافت مبارک ہو!! حضرت حسن نے کہا: کیا تم میرے والد کی شہادت پر خوشی منا رہی ہو؟ جاؤ، تجھے تین طلاق راوی کہتے ہیں کہ عورت ان سے علحدہ ہو گئی عدت گزر گئی تو حضرت حسن نے بقیہ مہر اور دس ہزار درہم بطور صدقہ بھجوایا جب قاصد اس کے پاس آیا تو عورت نے کہا: متاع قلیل من حبیب مفارق جدا ہونے والے محبوب کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ بے حد کم ہے یعنی دوبارہ شادی کرلیں یہ بات جب حضرت حسن تک پہونچی تو رونے لگے اور فرمایا "لولا انی سمعت جدی یقول ایما رجل طلق امرأتہ ثلاثاً عندالاقراءاو ثلاثاً مبھمۃ لم تحل لہ حتی تنکح زوجا غیرہ لراجعتہا" رواہ البیہقی ( سنن الکبریٰ، ج 7، ص، 336) اگر میں اپنے نانا کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا تو اس سے رجوع کر لیتا نانا جان نے فرمایا تھا: جو شخص اپنی بیوی کو حیض کے وقت تین طلاقیں دے تو یہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی، جب تک کہ وہ دوسری جگہ شادی نہ کر لے میں نے اہل سنت کی صرف پانچ دلیلیں بیان کی ہیں، ورنہ تو ہمارے پاس اپنے موقف پر متعدد دلائل ہیں ان دلائل سے آپ ضرور اس نتیجے پر پہونچے ہوں گے کہ تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا فیصلہ خود حضور علیہ السلام نے دیا ہے اور غیرمقلدین صاف جھوٹ بول رہے ہیں کہ تین کو تین کہنے کا سلسلہ فاروقی دور سے شروع ہوا اس ڈھٹائی کا کیا جواب ہو ! مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے درس ترمذی جلد سوم میں دس مضبوط دلائل پیش کیے ہیں غیرمقلد احباب سے میری اپیل ہے کہ سواد امت سے کٹ کر الگ راہ نہ چلیں آپ کی اس غلط روش نے زنا کو ایک نیا آہنگ دے دیا ہےلوگ اکٹھے تین تین طلاقیں دے کر آپ کے مردود فتوے کی روشنی میں بغیر حلالہ کیے ہی ساتھ رہ رہے ہیں گویا یہ فتویٰ غیرمقلدین کی تعداد بڑھانے کے لیے ہی دیا گیا ہے
یاد رکھیے!
پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا تھا" لاتجتمع امتی علی الضلالۃ" میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوسکتی آپ کا سواد امت کے خلاف چلنا اور سبیل المومنین چھوڑ دینا بتا رہا ہے کہ امت محمدیہ گم راہی پر جمع ہو گئی... آپ کے اس فیصلے کی زد صحابہ، سلف صالحین کے ساتھ خود پیغمبر علیہ السلام پر بھی پڑ رہی ہے
خدارا ! ضد چھوڑیں اور سبیل المؤمنین پر چل کر امت کو انتشار سے بچائیں.