اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: تیرے دربار میں پہنچے....

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Monday, 7 November 2016

تیرے دربار میں پہنچے....

ایم ودود ساجد نئی دلّی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ انسانی فطرت کے عین مطابق الجھن یہ ہے کہ ان سطور کی ابتدا کہاں سے کی جائے؟بندوں سے یا بندوں کے خدا سے۔وجہ تخلیق کائنات حضور پرنو ر نبی اکرم ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ من لم یشکرالناس لم یشکراللہ ۔جو لوگ انسانوں کے شکر گزار نہیں ہوتے وہ اللہ کے شکر گزار بھی نہیں بنتے۔لہذامیرے اوپر واجب ہے کہ خالق کائنات کے سامنے پوری عاجزی کے ساتھ اظہار تشکرکے بعداپنے میزبان اور سعودی عرب کے حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعودکا بھی شکریہ ادا کروں۔اگرایک جملہ میں سعودی حکمرانوں کی اسلامی اور انسانی خدمات بیان کرنے کو کہا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر کے لاکھوں عازمین حج کی عدیم المثال خدمات کے حوالہ سے سعودی حکمرانوں کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔ میں مبالغہ آمیزی کو گناہ سمجھتا ہوں لیکن حرمین اور حاجیوں کی خدمات کے سلسلہ میں سعودی حکمرانوں نے جو مثالیں قائم کی ہیں ان کو بیان کرنے کے لئے مبالغہ کی اصطلاح بہت چھوٹی معلوم ہوتی ہے۔مملکت سعودی عرب کے قیام کی 8دہائیوں میں سعودی حکمرانوں نے جو تعمیری اور ترقیاتی کام قومی سطح پر انجام دئے ہیں اس سے زیادہ کام حرمین شریفین میں انجام دئے گئے ہیں۔80سال کی مدت ملکوں کی زندگی میں کوئی زیادہ نہیں ہوتی۔اس مدت میں ایک طرف جہاں ملک بھر کو بے آب وگیاہ صحرا سے گل گلزار بنادیا گیا ہے وہیں دوسری طرف حرمین شریفین کوروئے زمین پر موجودکسی بھی بڑے سے بڑے مذہبی مقام سے ہزار وں گنا زیادہ بلندووسیع بنادیا گیا ہے۔اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ تعمیری‘ترقیاتی اور توسیعی کام ہر سال حج کا سیزن ختم ہوتے ہی شروع کردئے جاتے ہیں اور اگلے سال کا حج آنے تک حرمین کا اور خاص طورپرکعبۃ اللہ کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔اگر سعودی حکمرانوں نے حاجیوں کی خدمت اور حرمین کی تعمیر وترقی کو اولیت نہ دی ہوتی تو اتنے بڑے پیمانے پرتوسیع ممکن ہی نہیں تھی۔ اس عمل کی ابتدا کو بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے۔یہ محض دودہائیوں کی بات ہے۔اور اتنے ہی عرصہ میںآل سعود نے جو تعمیری کارنامے انجام دے دئے ہیں ان کے لئے مثالی لفظ بھی چھوٹا پڑگیا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس مقام کوایک ہی وقت میں دنیا کے لاکھوں مسلمان ایک ساتھ کوچ کرتے ہوں وہاں کے انتظام وانصرام کے لئے کس حسن تدبراورزبردست معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہوگی۔شاہ فہد بن عبدالعزیزنے اور ان کے بعدشاہ عبداللہ اور اب شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے حسن انتظام وتدبراورزبردست معاملہ فہمی سے حرمین شریفین کی عمارتوں اوردیگر مقامات کو دنیا کی تاریخ میں اولین مقام دلوادیا ہے۔شاہ کی دعوت پر دنیا بھر سے ممتاز شخصیات کو حج کے موقع پر مدعو کرنے کی جو قابل قدر روایت دودہائی قبل شروع کی گئی تھی وہ نہ صرف یہ کہ جاری ہے بلکہ اس میں ہر سال بہتری آتی جارہی ہے۔اس سال دنیا بھرکے 51 ممالک سے 2400مہمانوں کو بلایا گیا تھا۔پچھلے سال یہ تعداد 1400تھی۔اس سال ایک اضافہ یہ کیا گیا کہ اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے ایک ہزارفلسطینیوں کے ورثا کو بھی شاہی دعوت میں شریک کیا گیا۔یہ ایک بڑی تبدیلی تھی اور اس کا ایک بڑا پیغام گیا۔اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں نے مشرق وسطی اور خاص طورپرفلسطین سے متصل عرب ملکوں میں جس طرح کے حالات پیدا کردئے ہیں ان میں عام فلسطینیوں کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ معمول کا طریقہ کار اختیار کرکے حج کی سعادت حاصل کرسکیں۔اس عمل سے حکومت سعودی عرب نے دنیا کو ایک واضح پیغام یہ بھی دیدیا ہے کہ اس کی فلسطین پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے بلکہ اس کے لئے آج بھی مشرق وسطی میں سب سے اہم اشوفلسطین کا ہے۔ خانماں برباد فلسطینیوں کو اس شاہی دعوت حج میں شامل کرنا اس اعتبار سے بھی اہم ہے کہ نائن الیون کے قضیہ کے بعدامریکہ نے فلسطین کی مددکرنے والے ممالک کو جس طرح زیر اثر لینے کی کوشش کی اور جس طرح ظالم اسرائیل کا ساتھ دیا اس سے فلسطینیوں کی عالمی امدادپر کافی اثر پڑا۔اس ضمن میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عالمی نقشہ پر سعودی عرب واحد ملک ہے جس نے فلسطینیوں کی بھاری عملی مددکی ہے اور ان کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں ان کا ساتھ دیا ہے۔اب تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑے ممالک اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کے آگے سرنگوں ہوگئے ہیں اور فلسطین پالیسی میں انہوں نے انقلابی تبدیلی کرلی ہے۔ایسے میں سعودی حکمراں شاہ سلمان کی ضیافت میں ایک ہزار ستم رسیدہ فلسطینیوں کا حج کرنا اپنے اندر بڑے دوررس سیاسی اور سفارتی مضمرات رکھتا ہے۔اس سال شاہ سلمان نے افریقی عرب ممالک سے سیاہ فام مسلمانوں کو بھی بڑی تعدادمیں بلایا تھا۔ان میں بہت سے ایسے ممالک بھی شامل تھے جو بنیادی طورپرغریب ہیں اور ان کے عوام کی ایک بڑی تعدادغربت کے سبب حج کی استطاعت نہیں رکھتی۔ اسی طرح دنیا بھر سے آنے والے ان 2400مہمانوں میں مسلکی توازن کا بھی خیال رکھا گیا ۔لہذا ہندوستان‘پاکستان اور بنگلہ دیش کے بریلوی مکتب فکر کے علماء کو بھی شاہی حج کے پروگرام سے استفادہ کا موقع دیا گیا۔ اس ضمن میں سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل شیخ نے بھی بتایاکہ حج کی شاہی ضیافت کے اس انتظام سے اصل مقصد دنیا بھر کے مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر اور مختلف رنگ ونسل کے مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی اور اخوت ویگانگت پیدا کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے حکمرانوں کو اپنی اسلامی اور انسانی خدمات کے عوض کسی شکریہ کا انتظار نہیں رہتاکیونکہ وہ یہ کام خالصتاً اللہ کی رضا اور اللہ کی مخلوق کی فلاح کے لئے انجام دیتے ہیں۔ اس سفر مقدس کے بہت سے نکات ہیں۔لیکن مجھے خوف ہے کہ اس ایک مضمون میں ان سب نکات کا احاطہ نہیں ہوسکے گا۔اس لئے اس ہفتہ کے مطابق جو نکات اہم ہیں انہی پر اکتفا کرکے بات ختم کرتا ہوں۔مجھ سے ایک ہندوستانی صحافی نے دوران انٹرویو کہا کہ آپ تو شاہی مہمان تھے‘آپ کو کہاں زحمت ہوئی ہوگی۔میں نے ان سے کہا کہ یہ درست ہے کہ ہم شاہی ضیافت میں تھے اور خدا کاشکر ہے کہ شاہی کارندوں نے حد سے زیادہ اور توقعات سے آگے ہمارا خیال رکھا لیکن حج کے پانچ ایام تو ہمیں خود ہی گزارنے پڑے اور تمام مناسک حج تو خود ہی اسی جم غفیر کے ساتھ ادا کرنے پڑے ۔حج کے ان پانچ ایام میں ایک ہی جگہ ایک ہی وقت میں جب لاکھوں لوگ ایک ساتھ آگے بڑھیں گے اور ایک ساتھ مناسک ادا کریں گے تو یقینی طورپردشواریاں آئیں گی۔لیکن حکومت سعودی عرب نے جدہ ایرپورٹ سے مکہ تک‘منی کے خیموں سے مزدلفہ اور رمی جمرات کے خیموں تک اور پھر طواف سے لے کر سعی اور دوسرے ارکان کی ادائیگی تک جو سہولتیں دستیاب کرادی ہیں وہ ناقابل تصور ہیں۔ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ اگر رام لیلا گراؤنڈ میں منعقد ہونے والی ریلی میں ایک لاکھ لوگ آجائیں تو پوری دہلی کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔سیکیورٹی کے ہمالیائی انتظامات کئے جاتے ہیں۔اس کے باوجودپوری دہلی کا کیا حال ہوجاتا ہے۔لیکن خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں لاکھوں لوگ ایک ساتھ جمع رہتے ہیں ‘طواف اور سعی کرتے ہیں‘رمی جمرات میں حصہ لیتے ہیں لیکن ایک نکسیر نہیں پھوٹتی‘اور سکون واطمینا ن کے ساتھ تمام مناسک انجام پاجاتے ہیں۔وہاں کی پولس کا حال یہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں نہ لاٹھی ہے اور نہ ڈنڈا ہے۔نہ کوئی بندوق ہے۔اس کے باوجود مختلف المزاج لاکھوں کی مخلوق کو کس خوش اسلوبی کے ساتھ کنٹرول کرتے ہیں۔میں نے ناپسندیدہ حالت میں بھی کسی پولس والے کو حاجی سے سختی کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ان کی زبان پر صرف دو ہی جملے رہتے ہیں۔حاجی صاحب راستہ دیجئے‘یا حاجی صاحب صبر کیجئے۔ حرمین میں اور خاص طورپر کعبۃ اللہ میں جابجا زمزم پلانے والی مشینیں اور ٹنکیاں لگی ہوئی ہیں۔ایک اندازہ کے مطابق حج کے دوران ہر روزتیس لاکھ لیٹرٹھنڈازمزم استعمال ہوتا ہے۔اس کے لئے پچاس لاکھ سے زیادہ ڈسپوزیبل گلاس استعمال ہوتے ہیں۔پانچ کلومیٹر کے رقبہ میں پھیلے ہوئے حرم کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے بڑے پیمانے پرایرکنڈیشنڈ کے پلانٹ لگے ہوئے ہیں۔حرم میں آسان داخلہ اور اخراج کے لئے جس خوبصورتی کے ساتھ نظام بنایا گیا ہے وہ عام انسانی تصور سے باہر ہے۔ظاہر ہے کہ اس حسن انتظام میں خدائے وحدہ لاشریک کی مددہی شامل حال ہے لیکن خدا کی مددبندوں کی نیتوں کے حساب سے آتی ہے۔سعودی حکمرانوں نے حاجیوں کی خدمت کے لئے جس طرح خود کو وقف کر رکھا ہے اس کے لئے صرف مالی وسائل ہی کافی نہیں ہیں بلکہ اس کے لئے ہمالیائی جذبہ اورخلوص کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ جذبہ اور یہ خلوص کوئی باہری اکائی‘ طاقت کے زور پر یا کسی دنیاوی لالچ کے تحت پیدا نہیں کرسکتی۔بعض سیاسی طاقتیں سعودی عرب اور اس کے حکمرانوں کو لعن طعن کرتی ہیں اور اس کے خلاف عالمی پیمانے پرسازشیں کرتی رہتی ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ سعودی عرب جس انداز سے ترقی کر رہا ہے وہ حاجیوں کی خدمات کے صدقہ میں کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دشمنوں کی کوئی سازش ان کے خلاف کارگر نہیں ہورہی ہے۔