اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: یہ فتنہ بد دین خواتین کا ہے لیکن......

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Sunday, 6 November 2016

یہ فتنہ بد دین خواتین کا ہے لیکن......

ایم ودود ساجد نئی دلّی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ذہن ودل پر بڑا بوجھ ہے کہ آخر یہ کیا ہورہا ہے۔ٹی وی چینلوں پر ظاہری طورپربددین وبدعمل عورتیں قرآن وشریعت کی تشریحات کر تی پھررہی ہیں اورعلماء ومفتیان کرام درپیش مسائل پر مسکت وشافی دلائل نہیں دے رہے ہیں۔جنہیں سوال نہیں کرنا چاہئے وہ سوال کر رہے ہیں اور جنہیں جواب دینا چاہئے وہ جواب نہیں دے رہے ہیں۔قرآن وشرع اور فقہی وعائلی مسائل کے تعلق سے ہندوستانی مسلمانوں اور علماء پرایسا برا اور مکروہ وقت کبھی نہیں آیا تھا۔اس وقت بھی نہیں جب 80کی دہائی میں شاہ بانوکا معاملہ اٹھا تھا اور اس وقت بھی نہیں جب 80کی ہی دہائی میں ایک بد بخت نے قرآن کے تعلق سے کلکتہ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ میں قرآن وشرع اور فقہ کے معاملات میں اپنی ایک رائے ‘مسلک اور موقف رکھنے کے باوجودصحافی ہونے کے ناطے عوامی طورپراس کے اظہار کا قائل نہیں ۔یہ معاملات علماء پر چھوڑ دئے جانے چاہئیں۔جب شرعی مسائل میں عوامی اضطراب پایا جائے تو یہ ذمہ داری علما ء دین کی ہے کہ وہ مل کر بیٹھیں اورشریعت کے دائرہ میں رہ کردرپیش حالات کے تقاضوں کے مطابق کوئی متفقہ وموثر حل پیش کریں۔ہاں صحافی ہونے کے ناطے یہ کہنا انتہائی ضروری ہے کہ جب معاملہ مظلوم خواتین اور ان کے بچوں کی زندگیوں سے وابستہ ہوتوتمام مسالک سے آسان ترین راستے اور حل لے کراس پر اجماع کرلیا جائے۔کیا یہ عملاً ممکن اور درست نہیں؟جب آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ میں کم وبیش تمام مسالک کی نمائندگی ہے اور ہر مسلک کے علماء موجود ہیں توآسانی کے حصول ‘زندگیوں کی بقاء اورعوامی اضطراب کے خاتمہ کے لئے تمام مسالک سے استفادہ کیوں نہیں کیا جاسکتا؟زیر نظر سطور میں فقہی مسائل کی خوبیوں یا خامیوں کا جائزہ مقصود نہیں ہے۔اور نہ ہی میں خود کو اس کا اہل پاتا ہوں۔لیکن مفقودالخبر(لاپتہ ہوجانے والے)شوہروالے مسئلہ میں اس کی کیا معقولیت ہے کہ اس کی بدنصیب بیوی 90سال تک(یا اس سے کچھ کم) اس کا انتظار کرے؟کیا یہ عملاً ممکن اورفطری طورپر درست ہے؟علی ہذالقیاس دوسرے مسائل میں بھی علماء کوئی آسان اور خیر کا راستہ نکال سکتے ہیں۔بلاشبہ یہ راستہ قرآن وشرع پر ہی مبنی ہونا چاہئے لیکن جو بد دین عورتیں چینلوں پر قرآن وحدیث کی تشریحات کر تی پھررہی ہیں ان کا منہ بند کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ان کے مقابلے پر جو علماء چینلوں پر جاتے ہیں وہ (از راہ احتیاط یاکسی اور سبب سے) پلٹ کر یہ نہیں کہتے کہ اسلامی قوانین پر ان اسلام بیزاراور برہنہ سر خواتین کو بات کرنے کا کوئی بنیادی حق ہی نہیں۔اگر یہ کہنے کی اخلاقی جرات نہیں ہے اور اتنی ہی احتیاط مقصودہے تو پھر بہتر یہی ہے کہ ہمارے یہ علماء ایسی بحثوں میں نہ جائیں۔ مجھے اس موقع پرٹائمز ناؤ پر طلاق ثلاثہ پر ہونے والی بحث کا ایک منظر یاد آرہا ہے۔اس بحث میں بی جے پی کی خدا بیزاررکن شاذیہ علمی اورنام نہاد اسلامی اسکالرزینت شوکت علی بھی شامل تھیں۔ان کے مقابلہ پر‘حاجی علی درگاہ کے ٹرسٹی مفتی منظور ضیائی‘مسلم پولٹکل کونسل کے چیرمین ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی اورممبئی کے سابق پولس کمشنرشمشیرخان پٹھان موجود تھے۔ٹائمز ناؤ کے ایڈیٹرارنب گوسوامی نے کہا کہ آخر عورتوں کو تین طلاق دینے کا حق کیوں حاصل نہیں ہے؟اس کا جواب بحث میں شامل عالم دین کو دینا چاہئے تھا۔لیکن وہ خاموش رہے۔مگر شمشیر خان پٹھان نے جو جواب دیا اس نے ارنب گوسوامی کو برافروختہ کردیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ شمشیر خان کوذلیل کرکے بحث سے نکال دیا گیا۔گوکہ میں ایسی غیر اخلاقی مسابقتی بحث کی تائید نہیں کرسکتا لیکن جب اصل ذمہ دار خاموش ہوں تو پھرجذبات میں ڈوبے ہوئے عام لوگ ہی ایسے احمقانہ سوالات کے جواب دیں گے۔شمشیر خان نے کہا کہ عورتوں کو کس نے روکا ہے۔ بحث میں موجودان دوعورتوں سے ہی شروعات کرتے ہیں۔شاذیہ علمی اور زینت شوکت علی کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہروں کو طلاق دیدیں۔اس کے بعد ارنب گوسوامی کو جو جنون چڑھا وہ دیکھنے کے لایق تھا۔ طلاق ثلاثہ اور مزاروں اور مسجدوں میں عورتوں کے داخلہ سے متعلق ٹائمز ناؤ نے اب تک ایک درجن سے زائد بحثیں منعقد کی ہیں۔ان میں پرسنل لابورڈ کے نمائندوں سمیت بہت سے علما نے بھی حصہ لیا ہے لیکن افسوس کہ کسی نے بھی مسکت جواب نہیں دیا۔ان بحثوں میں مسلم خواتین کے حقوق کی نام نہاد علمبردارناعیش حسن (معلوم نہیں کہ ناعیش کس زبان کا لفظ ہے)اور حاجی علی درگاہ میں عورتوں کے داخلہ کے تعلق سے مہم چلانے والی ذکیہ سومن بھی شامل رہیں۔ذکیہ سومن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک غیر مسلم شوہر کی بیوی ہیں اور ان کے بچے تونام کے بھی مسلمان نہیں ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان بحثوں میں جانے والے یہ بات کیوں نہیں کہتے کہ اسلامی اصول اور شرعی مسائل ان پر لاگو ہوتے ہیں جو انہیں بخوشی لاگو کرنا چاہتے ہوں۔جن کا عملی اسلام اوراسلامی عمل سے کوئی تعلق نہ ہو انہیں آخر فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟یہ ٹی وی چینل بددین اور بد عمل مسلم خواتین کو اسٹوڈیوز میں بٹھاکرپرسنل لابورڈ کے نمائندوں سے کہتے ہیں کہ مسلم خواتین کی نمائندگی آپ نہیں یہ عورتیں کر تی ہیں۔ایسے میں جب پرسنل لابورڈ کے نمائندے خاموش رہیں گے تو شمشیر خان پٹھان جیسے لوگ وہی کہیں گے جو انہوں نے کہا۔اور پھر اس کے بعد وہی ہوگا جو ٹائمز ناؤ پر ہوا۔ پچھلے ایک ماہ سے جاری اس تکلیف دہ بحث میں ایک نیا اور راحت رساں موڑ اس وقت آیا جب آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی رکن خواتین نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس کو خطاب کیا۔اس میں ڈاکٹر اسماء زہرا نے وہی بات کہی جو میں نے اوپر بیان کی۔انہوں نے ٹی وی چینلوں پر اسلام اور قرآنی احکام کی غلط تشریحات کرنے اور مسلم پرسنل لاکو کالعدم قرار دے کر یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کی وکالت کرنے والی ان بددین خواتین کے بارے میں کہا کہ انہیں اس کا کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اسلام کے عائلی قوانین پر بات کریں کیونکہ نہ تووہ خوداسلامی احکام پر کاربند ہیں اور نہ ہی انہیں اسلامی احکامات کا کوئی علم ہے۔چینلوں پر جانے والے ہمارے علماء کو بھی یہی بات کہنی چاہئے تھی۔ایک دوسری کمی یہ ہے کہ بورڈ کے جن علماء کومسائل پر دسترس حاصل ہے ان میں سے زیادہ ترکو انگریزی نہیں آتی اور جنہیں انگریزی آتی ہے انہیں موثر جواب دینے کا ہنر نہیں آتا۔لہذا دونوں قسم کے ترجمان ارنب گوسوامی جیسے بدزبان صحافی کے گورکھ دھندے میں الجھ جاتے ہیں اور وہ بدعمل خواتین ان کا اور مذہبب اسلام کا مذاق اڑاتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہمارے علماء دین اس صورتحال سے نپٹنے سے کیوں قارص ہیں۔ہمارے علماء نے سخت سے سخت مواقع پر بھی ہمیں ثابت قدم رکھا ہے اور مسلمانوں کی عائلی زندگیوں پر آنے والی افتاد سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔آج آخر انہیں کیا ہوگیا ہے۔کیا انہوں نے خود خاموشی اختیار کرلی ہے یا انہیں خاموش کردیا گیا ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوا ہے کہ اب فقہی سیمناروں سے وہی’ مفتیان‘خطاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جنہیں مختلف چینلوں نے کبھی اسٹنگ آپریشن میں فتوے فروخت کرتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ہفتوں تک ان کے کارنامے ٹی وی پر دکھائے تھے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ ایک طرف جہاں یہ ’ایمان فروش‘بے حیا ہوگئے ہیں وہیں خودہم عام مسلمان بھی بے حس ہوگئے ہیں۔ہماری اور اسلام کی نمائندگی اب اسلام کو فروخت کرنے والے کر نے لگے ہیں۔ان کے پاس علم ہے مگر وہ تقوی اور خلوص وللہیت سے خالی ہیں۔وہ مکاری اور عیاری کا لبادہ اوڑھ کر ہماری مذہبی قیادت کر رہے ہیں اور وہ علماء خیرجن کے آگے تقوی اپنی آنکھیں بچھاتا ہے کہیں روپوش ہوگئے ہیں۔مجھے احمد بخاری کی یہ بات بھلی لگی کہ ہمارے ذمہ داروں کو عدالت میں قابل اعتراض ‘ناقص اور مہمل حلف نامہ دائر کرنے اور جلسے جلوس کرنے کی بجائے ان مسلم عورتوں سے بات کرکے ان کے مسائل کا حل نکالنا چاہئے تھا جنہوں نے طلاق کے مسئلہ پر عدالت میں رٹ دائر کی تھی۔آج صرف طلاق کی ہی ماری ہوئی نہیں بلکہ ناکارہ اور ازکار رفتہ شوہروں کی ماری ہوئی نہ جانے کتنی نوجوان بہو بیٹیاں ظلم سہہ رہی ہیں لیکن ہمارے پاس ان کے دکھ کا کوئی مداوا نہیں ہے۔ان دارالقضاؤں میں بیٹھے ہوئے ’قاضی‘صاحبان بھی شکایت لے کر آنے والی مظلوم عورت کا سہارا نہیں بنتے بلکہ ظالم شوہر اور اس کے اہل خانہ کی ہی راحت کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔میرے پاس ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ جب دارالقضاء میں سات سات سال تک ازکار رفتہ شوہر کا ظلم سہنے کے بعدبیوی نے شکایت کی کہ جیسی میں سات سال پہلے اس گھر میں آئی تھی آج تک ویسی ہی ہوں توقاضی صاحب نے اس کی شرعی مددکرنے کی بجائے ظالم شوہر اور اس کے گھر والوں کو ہی بچنے کے مواقع دئے۔آپ اپنی خامیوں کو درست کئے بغیرمعاشرہ کو نہیں سدھار سکتے اور معاشرہ کو درست کئے بغیران بددین اور نام نہاد مسلم خواتین کے فتنہ سے نہیں بچ سکتے۔