اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…
Sunday, 11 December 2016
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ...
✍ ایم ودود ساجد نئی دلّی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بہت سے موضوعات پیش نظر ہیں۔لیکن کسی پر بھی لکھنے کو طبیعت مائل نہیں ہے۔ایک موضوع ایسا ہے کہ جس پر دوقسطیں لکھ چکا ہوں لیکن صورت حال یہی تقاضہ کر رہی ہے کہ اسی موضوع پر تیسری بار پھر لکھا جائے۔اب نہیں معلوم کہ یہ مضمون آج پورا بھی ہوگا یا نہیں۔اور پورا ہوبھی گیا تو کس پہلو پر منتج ہوگا۔بس خدا کا نام لے کر یہ سوچ کر لکھنا شروع کردیا کہ اس ہفتہ غیر حاضری نہ ہوجائے۔گوکہ ذہن حاضر نہیں اور دوسری مصروفیات دامن گیر ہیں لیکن اپنے قارئین کا خیال بھی ہے۔وقت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ پورا ملک پریشان ہے‘ ملک کی کئی ہائی کورٹوں میں بھی اس کا اظہار ہوچکا ہے‘یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں بھی کم سے کم اس پر اتفاق رائے ہے کہ اس وقت پورا ملک پریشان ہے اور خود عوام بھی ٹی وی چینلوں اور نجی گفتگو میں کہہ رہے ہیں کہ وہ پریشان ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آرہا ہے۔
حکومت کی بے حسی کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ بنکوں کی لائنوں میں لگ کر‘بے ہوش ہوکر‘مختلف پریشانیوں کا حل نہ پاکرصدمہ سے دوچار ہوکراور ’ہارٹ اٹیک‘کا شکار ہوکر مرنے والوں کی تعداداب 100 سے متجاوز ہوچکی ہے لیکن پارلیمنٹ میں حکومت ان کے لئے ایک سطری تعزیتی قراردادبھی پیش کرنے سے گریز کر رہی ہے۔دوسری طرف دیکھئے: تامل ناڈو کی آنجہانی وزیر اعلی جے جے للیتاکی پراسراربیماری سے لے کر ان کے انتقال کی خبر آنے تک اور اس کے بعد ان کی آخری رسومات کی ادائیگی تک‘وزیر اعظم اور ان کی پوری کابینہ نے کس شدت سے اظہار افسوس کیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جے للیتا اس ملک کے سیاسی منظر نامہ پر ایک بڑی شبیہ کی مالک تھیں لیکن ان کا انتقال ایک طویل بیماری اور اس کے شاندار سرکاری علاج کے بعد ہوا ہے۔جبکہ اپوزیشن پارٹیاں جن عام شہریوں کی اموات پر پارلیمنٹ میں ایک سطری تعزیتی قرارداد کامطالبہ کر رہی ہیں وہ پراسرارطورپرحکومت کے ذریعہ اٹھائے گئے ایک ’عاجلانہ‘قدم کے نتیجہ میں مرے ہیں۔ان میں سے ہر ایک کی موت ایک دکھ بھری کہانی کی عملی داستان سنا رہی ہے۔عام طورپر مرنے والے وہ ہیں جو اپنے گھر بار کا ذمہ اٹھائے ہوئے تھے۔یہ لوگ پیسے والے نہیں تھے۔یہ معمول کا روزگار کرنے والے لوگ تھے۔یہ امیرلوگ بھی نہیں تھے۔ان کے مرنے سے ایک ہی جھٹکے میں ملک کے سو سے زیادہ خاندان اجڑ گئے ہیں۔ان سو خاندانوں کے اجڑنے کے نتیجہ میں مزید کتنے ہزار لوگ متاثر ہوں گے ابھی اس کی کوئی رپورٹ نہیں آئی ہے۔
جے للیتا تنہا اور مجرد(غیر شادی شدہ) تھیں۔وہ ایک کامیاب سیاستداں اورایک ریاست کی وزیر اعلی تھیں۔ان کے خاندان کا کوئی قریبی فردبھی اس دنیا میں نہیں ہے۔(اسی لئے ان کی قریبی سہیلی ششی کلا سے پارٹی کی کمان سنبھالنے کی درخواست کی گئی ہے)۔کم وبیش تین ماہ تک ہونے والے ان کے علاج میں بظاہر کوئی کوتاہی بھی نہیں برتی گئی۔38سینئر ڈاکٹروں کا ایک پینل ان کی نگرانی پر مامور تھا۔ان کی بیماری کے آخری ایام میں لندن تک سے ایک مشہورماہر امراض قلب کوبھی بلالیا گیا تھا۔ان کو پیسے کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ان کو کسی لائن میں بھی نہیں لگنا پڑا تھا۔لیکن اس کے باوجودوزیر اعظم ان کی آخری رسومات کی ادائیگی میں شریک ہوئے اور ان کے جانشین پنیر سلوم سے مل کر کتنے جذباتی ہوگئے۔دوسری طرف یہ مجبورومقہور لوگ ہیں جو نہ جانے کن کن حالات کا شکار ہوئے اور حکومت کے ایک فیصلہ کی بدولت اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ان کے لئے حکومت کے پاس تعزیت کے دو جملے بھی نہیں ہیں۔اپوزیشن کا مطالبہ غلط نہیں ہے۔ایوان میں اس کی روایت ملتی ہے کہ حادثات یا سانحات کے نتیجہ میں اجتماعی طور پرشہریوں کی اموات پر وہاں تعزیتی قرار داد پیش کی جاتی رہی ہے۔لیکن چونکہ یہاں معاملہ مختلف ہے‘اور یہاں یہ لوگ حکومت کی حماقت سے جاں بحق ہوئے ہیں اس لئے حکومت اخلاقی طورپرخود کو کنگال پاتی ہے اور وہ اتنی ہمت نہیں کر پارہی ہے کہ ان اموات پر پارلیمنٹ میں اظہار افسوس ہی کردے۔
وزیر اعظم ایوان سے باہر ملک بھر میں خطاب کر تے پھر رہے ہیں لیکن ان اموات پر باہر بھی وہ کسی دکھ کا اظہار نہیں کر رہے ہیں۔آج انہوں نے گجرات کے مختلف مقامات پر ریلیوں میں تقریر کرتے ہوئے جو کہا اس سے بھی ان کی رعونت اور جمہوریت کے تئیں ان کی نفرت کا ثبوت ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ’اپوزیشن مجھے لوک سبھا میں بولنے نہیں دے رہی ہے لہذ ا میں نے فیصلہ کیا کہ میں جن سبھا میں بولوں گا۔‘یعنی ان کی نظر میں لوک سبھا کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔پچھلے تین ہفتے حکومت نے ایوان میں ڈرامہ کرتے ہوئے گزار دئے ہیں۔اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم ایوان میں آکر بیٹھیں اور اپوزیشن کی بحث سن کر اس کا جواب دیں۔لیکن شروع کے دو ہفتے تک تو وزیر اعظم ایوان میں ہی نہیں آئے اور 8/نومبر کو 500 اور 1000کے نوٹ بند کرنے کا اعلان کرکے جاپان کے دورہ پر چلے گئے۔اس کے بعد جب ایوان میں آئے تو کچھ وقت خاموش بیٹھ کر بحث میں حصہ لئے بغیر چلے گئے۔اپوزیشن کی اس دلیل میں مضبوطی ہے کہ جب اتنا بڑا اعلان وزیر اعظم نے کیا ہے تو اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والے حالات پر ایوان میں ہونے والی بحث کا جواب بھی وہی دیں۔ظاہر ہے کہ ایک طرف جہاں ان کے پاس اپوزیشن کے سوالوں کا جواب نہیں ہے وہیں دوسری طرف وہ یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ایوان میں بی جے پی کے سینئر لیڈرلال کرشن اڈوانی کی اسپیکر اور حکومت پر ناراضگی بھی حکومت کی آمرانہ روش کا ایک بڑا ثبوت ہے۔
گجرات فسادات کے دوران مجھے یاد ہے کہ جب اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری باجپائی احمد آباد گئے اور ایک پریس کا نفرنس کے دوران اپنے پاس بیٹھے ہوئے وزیر اعلی کو ’راج دھرم نبھانے‘کا مشورہ دیا تو وزیر اعلی نے انتہائی تحقیر آمیزاور کڑوی مسکراہٹ کے ساتھ خفیف سی آواز میں جو کہا وہ یقینی طورپروزیر اعظم کی بے حرمتی اور بے قدری کے سوا کچھ نہیں تھا۔انہوں نے کہا تھاکہ”و ہی تو نبھارہے ہیں‘۔یہ منظر ٹی وی کیمروں نے بھی قید کیا تھا۔ان کی نظر میں راج دھرم یہ ہے کہ بے گناہ شہریوں کی مارکاٹ نہ روکی جائے اور جب ان سے کوئی پوچھے کہ اتنے سارے شہری آپ کی ریاست میں‘ آپ کے دور حکومت میں قتل کردئے گئے اور آپ کو کوئی افسوس نہیں تو وہ کہہ دیں کہ میری کار کے پہیے کے نیچے کوئی پلا(کتے کا بچہ)بھی آجائے تب بھی مجھے افسوس ہوتا ہے۔تو جب انہیں دوہزار بے گناہ شہریوں کے قتل وغارت پر کوئی افسوس نہیں ہوااور جب انہوں نے اس قتل وغارت گری پر واضح طورپرسوال کا جوب نہیں دیا تو آج جو لوگ انہی کے فیصلے کے سبب اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ان پر وہ پارلیمنٹ میں کیسے تعزیتی قرارداد پیش کریں گے۔اپوزیشن کا یہ اندیشہ بے بنیاد نہیں ہے کہ حکومت ڈکٹیٹرشپ کی طرف جارہی ہے۔ایسے میں اپوزیشن کا کردار بہت اہم ہوجاتا ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن بھی ہر مسئلہ پر متحد نہیں ہے۔مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی کی صدا پر چند پارٹیاں ہی ان کے ساتھ آئیں۔بہار کے وزیر اعلی نیش کمارنے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا اور مودی حکومت کے خلاف ’بند‘کے فیصلہ کی تائید نہیں کی۔سب کے اپنے اپنے علاقائی سیاسی مفادات اور مجبوریاں ہیں۔
ایسے میں یہ سن کر اور دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک باہم تصادم کی راہ پر ہیں۔کچھ نہ سہی جنید جمشید کی حادثاتی موت پر ہی ایک طبقہ خوشیاں منارہا ہے۔ایک طبقہ جمعیت علماء کے ذریعہ اجمیر میں منعقد اجلاس کو ہی بہانے بناکر ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنارہا ہے۔اردو کے ایک روزنامہ نے چند ہزار کے لالچ میں دارالعلوم دیوبند‘اس کے اکابراور جمعیت علمائے ہند کے خلاف کئی صفحات کے اشتہارات ہی شائع کردئے۔مسلمانوں کی ایک خالص اصلاحی تحریک ’تبلیغی جماعت‘بھی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گز ررہی ہے۔عدالتوں نے مسلم عائلی مسائل پر رنگ دکھانا شروع کردیا ہے۔حکومت تو پہلے ہی مسلم خواتین کی مصنوعی ہمدردی میں مسلم پرسنل لاپرتاک لگائے بیٹھی ہے۔ایسے میں مسلمانوں کا انتشار در انتشارشرپسندوں کے ہدف کو آسان سے آسان تر بنارہا ہے۔جس طرح اس آمروسفاک حکومت سے قومی سطح پر ایک مضبوط وموثرسیاسی اپوزیشن کے بغیر لڑنا آسان نہیں ہے اسی طرح متحد ہوئے بغیر مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی مسائل کا حل بھی ممکن نہیں ہے۔