اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…
Thursday, 15 December 2016
جلتا حلب مسلم حکمرانوں کی بے غیرتی کا منہ بولتا ثبوت !
ازقلم: سلیم صدیقی پورنوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج کل پوری قومِ مسلم جیسی ذہنی و جسمانی اذیت سے گذر رہی ہے ،ویسی شاید یہ امت مرحومہ کی حالت کبھی نہیں رہی ہوگی، آج جس طرح انصاف کا سینہ زخمی اور ظلم کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں ایسا تو تاریخ کی آنکھوں نے پہلے بہت کم ہی دیکھا ہوگا ، آج جس طرح انسانی درندے سینہ پھلا کر اور انسانی رکھوالے سر جھکا کر چلتے ہیں ایسا تو پہلے نہیں ہوا تھا.
تاریخ سقوط بغداد کا آئینہ بھی پیش کرے گی.
چنگیز و ہلاکو کی خونریز داستاں بھی بیان کرے گی، برما اور بھوٹان کی تباہی کی کہانی بھی بتائے گی ، چیچنیا اور بوسنیا کا درد ناک قصہ بھی سنائے گی.
مگر شام اور سیریا کی جلتی بہنوں اور ملبے میں دھنسے لاکھوں بے گناہ بھائیوں کا واقعہ سناتے ہوئے ہمت ہار جائے گی.
کیوں کہ!
دنیا جانتی ہے ہٹلر نے ایک کڑور دس لاکھ لوگوں کو تہ تیغ کیا مگر اپنی قوم کے ایک فرد کو بھی سزائے موت جلا کر خاکستر کرکے نہیں دی ،
اور یہ بھی جانتی ہے کہ ہلاکو اور چنگیز خان نے انسانی خون کی ندیاں بہادی مگر اپنی برادری کے کسی ایک شخص کو تلوار کی انی سے خراش تک نہیں پہنچنے دیا،
اور دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ انگریزوں نے لاکھوں ہندوستانی مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا مگر مورخین گواہ ہیں کہ انگریزی حکمرانوں نے ایک ایک انگریز کے بدلے میں سینکڑوں ہندوستانی عوام کا خون مزے سے پیا ۔
مگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ کسی جابر نے اپنے ہم مذہب لوگوں کی جانیں نہیں لیں،
مگر آج کا جابر و ظالم بشار الاسد اپنے ہی لوگوں کا خون بہت شوق سے ہی رہا ہے۔
خدا کی پناہ آج تو مرنے والے بھی مسلمان اور مرنے والے بھی مسلمان ، قاتل بھی کلمہ گو اور مقتول بھی کلمہ گو، فرق صرف یہ ہے کہ مرنے والے سنی اور مارنے والے شیعہ ہیں.
سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کس زبان سے قاتل کو قاتل لکھیں ،
اگر قاتل لکھ بھی دیں تو اس سے قاتلین کی کیا بگڑ جائے گی، جب کہ ! ہمارے مسیحا ہی لٹتی عصمتوں کو دیکھ کر بے غیرتی کا بھرپور مظاہرہ کررہے ہیں، زبان سے روایتی طور پر مذمت کرنے سے بھی عاری ہیں ،
ان کے سینوں میں دل کی جگہ بھاری بھرکم بتھر رکھے ہوئے ہیں جو انہیں احساس ہی نہیں ہونے دیتے کہ مرنے والے مسلک کے موافق نہ سہی شریعت کے موافق تو ہیں ہی ،
اقوام متحدہ میں کسی ایک یہودی کی فریاد حاتی ہے تو پوری یہودی کمیونیٹی بے چین ہو جاتی ہے، اور اس وقت تک چین کی سانس نہیں لیتی جب اپنے ایک فریادی کو انصاف نہ دلادے ،
مگر لاکھوں سنی مسلمان جل جل کر کباب ہوگئے ، ہزاروں معصوم بچے موت کے کڑوا گھونٹ پینے پر مجبور ہیں ،
شام جل رہا ہے ، حلب برباد ہوگیا ، ہزاروں بے قصور افراد نذر آتش ہوگئے ، لاکھوں بہنوں نے ردائے عصمت تار تار ہونے سے بچنے کیلئے خودکشیاں کرلیں ، ہزاروں مسلمانوں کو صرف سنی ہونے کی پاداش میں جینا دو بھر کردیا گیا ہے.
الامان والحفیظ!
آج امت کی یہ حالت ہورہی ہے کہ بھائی اپنی بہنوں کے سلسلے میں ، شوہر بیویوں کے سلسلے میں، باپ بیٹیوں کے سلسلے میں یہ فتوی پوچھ رہے ہیں.
کیا اپنے ہاتھوں سے ان کو قتل کرسکتے ہیں؟
وہ شوق سے نہیں بلکہ ان کی غیرت برداشت نہیں کررہی ہے کہ ان کی نظروں کے سامنے ان کی بہن بیٹیوں کی عزت کا جنازہ نکالا جائے اور وہ دیکھتے رہیں.
مگر مسلم قوم کے نمائندوں کی بے حسی دیکھئے اور شرم سے ڈوب مرئیے!!
کہ ان کے حق میں آواز تک اٹھانے کیلئے تیار نہیں ہیں ، بشار الاسد کا پالتو کتا اقوام متحدہ میں بڑی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ ہم نے کوئی غلط نہیں کیا بلکہ عوام کے حق میں مفید کام کیا جارہا ہے،
اس عقل کے اندھوں سے کون پوچھے کہ معصوم بچوں اور بوڑھی ہڈیوں کو جلانا کون سا مفید کام ہے ؟
عالم اسلام کے حکمرانوں کے جسموں میں خون کی جگہ اسرائیلی کول ڈرنکس دوڑ رہی ہیں ۔
بھلا انہیں اس سے کیا غرض کہ کون مررہا ہے اور کون جل رہاہے؟ ، کس کی عزت پر شب خون مارا جارہا ہے اور کس بے گناہ ہڈیوں کو آگ میں جلایا جارہا ہے ۔
انہیں تو بس یہ فکر ہے کہ اسرائیل کی آگ کیسےبجھے، عیسائی اور یہودیوں پر کوئی آنچ نہ آنے پائے .
واہ رے مسلم ٹھیکیدارو!
اسرائیل میں مسلمانوں پر داغنے کیلئے بم بنایا گیا مگر غلطی سے خود حال میں اسرائیل پھنس گیا تو پوری مسلم دنیا کو انسانیت کا عظیم سبق یاد آگیا تھا مگر اب حلب جل رہا ہے تو نہ کسی میں وہ تڑپ کہ طیب رجب اردگان سے پوچھے کہ آج تمہاری انسانیت کہاں چلی گئی، اور نہ طیب اردگان کے لہو میں وہ حرارت کہ بشار الاسد کے کتوں سے یہ پوچھے کہ بے گناہوں بہنوں کی عزت لوٹنے کے بعد بے دردی سے شہید کردیتے ہو تمہیں یہ حق کس نے دیا ؟
کسی کے اندر اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ محمود مدنی اور ہندوستانی مسلم قائدین سے سوال کرے کہ جناب جب فرانس پر حملہ ہوا تو آپ نے مذمتی جلسوں کیلئے کڑوروں روپیے پھونک دیے ،
مگر آج حلب جل رہا ہے ، تو آپ کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے ، آپ کے حلق سے مذمت کے الفاظ کیوں نہیں نکل رہے ہیں ؟، فرانس پر حملہ انسانیت سوز تھا ہم بھی مانتے ہیں ،
تو کیا شام کے شہر حلب پر بم باری ،قتل و غارت گری انسانیت موافق ہے ؟؟؟
مگر کون پوچھے ؟،
جو بول اور پوچھ سکتا ہے وہ عین موقعے پر گونگا بہرہ اور اندھا ہو جاتا ہے اور جو بول نہیں سکتا اور گلہ پھاڑ کر چیخ رہا ہے مگر اس کی آواز کسی کے کان تک بھی نہیں پہنچتی چہ جائیکہ ایوان قاتلین میں انقلاب برپا کرے۔۔۔۔۔