سلیم صدیقی پورنوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کتابوں کا مطالعہ اہل علم ، دانشوروں اور قلم کاروں کیلئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ انسانی زندگی کی بقا اور نشو و نما کیلئے دانا پانی اور عناصر اربعہ کی ضرورت پڑتی ہے، یعنی جس طرح دانا پانی کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا ٹھیک اسی طرح مطالعہ کے بغیر علم باقی نہیں رہ سکتا ، کیوں کہ مطالعہ علم کی کنجی ہے جس کے بغیر ذہن و دماغ پر لگا تالا نہیں کھولا جا سکتا، اور سوچ و فکر پر جمے گرد و غبار کو مطالعۂ کتب کی مدد سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے ،
اہل عقل و دانش کیلئے مطالعہ ایسا دوربین ہے جس کے ذریعے وہ دنیا کے چپے چپے اور گوشے گوشے کو دیکھتے اور مشاہدہ کرتے ہیں ، اسی لئے کسی دانشور کا کہنا ہے کہ مطالعہ کے بغیر لکھاوٹ ایسی ہوتی ہے جیساکہ روح کے بغیر مجسمہ ، اور جس کا مطالعہ جتنا وسیع ہوگا اس کے علم کا اتنا ہی سوتا پھوٹے گا ، اور قاری ان کی تحریر سے اتنا ہی مستفید بھی ہوگا ،
انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے اور وقت کے مفکرین ، مصنفین، مدبرین، محققین ، مفسرین، محدثین، مناطقہ ، فلاسفر ، اور سائنس دانوں کے بارے میں جانکاری حاصل کرنے سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ ہر ایک کی زندگی میں انقلاب لانے کا سب سے اہم سبب مطالعہ ہی ہے،
اور میں نے کسی محقق، اور مدبر کو ایسا نہیں دیکھا جس نے اپنے علمی میدان میں مطالعہ کے بغیر مقام و مرتبہ حاصل کرلیا ہو،
علامہ انورشاہ کشمیری علیہ الرحمۃ کی شخصیت علمی دنیا علمی دنیا میں ڈھکی چھپی نہیں ہے ، ان کا علمی قد کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، یہ وہ ذہین فطین شخص ہیں جن کے بارے میں مشہور ہے کہ جو چیز ان کی نظر سے گذرتی وہ یاد ہوجاتی تھی ، اور انہوں نے بذات خود فرما یا تھا جس چیز کو میں ایک بار یاد کرلیتا ہوں وہ تا عمر نہیں بھولتا، اور جس چیز کو میں یاد نہ کرنے کی نیت سے پڑھتا ہوں وہ چالیس سال تک یاد رہتی ہے ،
جس کے بارے میں ایک مصری عالم شیخ رشید رضا مصری نے کہا تھا کہ اگر میں یہ قسم کھا لوں کہ محمد انور شاہ امام ابوحنیفہ سے بڑا فقیہ ہے تو میں اپنی قسم میں حانث نہ ہوں گا ، اور ان کی وفات پر علامہ اقبال رح نے تعزیتی پروگرم میں کہا تھا علامہ انور شاہ کشمیری جیسا کوئی انسان پانچ سو سال کے طویل عرصے میں پیدا نہ ہوا ،
ان کے مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ وہ ایک رات میں پانچ سو صفحات کا مطالعہ کرتے تھے ، اور یہ روزانہ کا معمول تھا،
اور ان کے فرزند ارجمند علامہ انظر شاہ کشمیری رح کو علی گڈھ یونیورسٹی کے کسی خاص جلسے میں اناؤنسر نے دعوت خطاب دیتے ہوئےکہا تھا ،
دنیا کا ہر شخص بولتے وقت یہ سوچتا ہے کہ اب کون سا لفظ استعمال کروں ؟
مگر ان کے سامنے الفاظ خود صف بہ صف قطار در قطار کھڑے ہوکے یہ التجا کرتے ہیں حضرت مجھے استعمال کیجیے ، اردو ادب و انشاء کی ایک بہت ہی نامور شخصیت تھی، ان کو مجھ گنہ گار نے دیکھا ہے ان کی گردن ایک جانب جھکی ہوئی تھی، ایسا صرف ایک جانب ٹیک لگا کر مطالعہ کرنے کی وجہ سے ہوا تھا.
الغرض !
مطالعہ ایک بہترین دوست اور ساتھی ہے جو اپنے فاعل کو ہمیشہ بلندی اور عروج پر گامزن رکھتا ہے ،
عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مطالعہ انسان کا ایسا ساتھی اور رفیق ہے جو کبھی دھوکہ نہیں دیتا ،
اور فارسی کا مشہور مقولہ ہے
" ہم نشینی بہ از کتاب مخواہ کہ مصاحب بودگاہ و بے گاہ"
ترجمہ:
کتاب سے بہتر کوئی ہم نشین اور دوست تلاش کرنا فضول ہے،
سقراط کا کہنا تھا کہ "جس گھر میں کتاب نہ ہو وہ گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے بلکہ وہ زندہ مردوں کا قبرستان ہے "،
اور کارلائل کا مطالعہ اور کتابوں کے بارے میں کہنا ہے کہ "اچھی کتابوں کا مجموعہ دور جدید کی سچی یونیورسٹی ہے "
اور مشہور فلسفی ایمرسن کا کہنا ہے کہ اچھی کتاب "بے مثال دوست ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کا صلاح دیتا ہے "
نیز مطالعہ جس طرح ذہنی توانائی کا باعث ہے اسی طرح جسمانی نشو و نما کا ذریعہ بھی ہے.
ابھی حالیہ تحقیق سے یہ حقیقت ثابت ہوئی ہے کہ "مطالعہ دماغ کے ساخت کو مسلسل بدلتا رہتا ہے ، اور اس کے فاعل عمر گذرنے کے باوجود فعال رہتے ہیں ، اور مطالعہ کرنے والوں کی دماغی تنزلی مطالعہ نہ کرنے والوں کے مقابلے میں 32فیصد تک کم ہوتی ہے"۔
حوالہ ڈان نیوز 18 مئی 2015
نوٹ:
جس طرح مطالعہ نہ کرنا علم اور صحت کیلئے مضر ہے اسی طرح فحش اور گندے لیٹریچروں کا مطالعہ بھی اذہان و افکار کے کیلیے مضر ہے ،
اس لیے کسی بھی دینی ادبی اور دیگرکتب کے مطالعہ سے پہلے اپنے کسی خیر خواہ سے مشاورت ضرور کر لینی چاہیے .