ازقلم: سلیم صدیقی
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
مومن کی زندگی کا ہردن عید ، ہررات شب برأت، ہر وقت وقتِ قبولیت اور ہر لمحہ لمحہ رمضان ہے، اسے خوشی و مسرت کے اظہار کیلئے کسی مخصوص دن کی ضرورت نہیں پڑتی، اس کیلئے دن کا جو لمحہ اللہ کی رضا مندی میں گذر جائے وہ ہی عید ہے ، اور جو ساعت نافرمانی میں گذرے وہ ہی ماتمی ہے ، اور مومن کا اس پر بھی ایمان ہوتا ہے کہ سبب حقیقی ہرچیز کا اللہ ہی ہے، سال کے بدلنے ، جنوری کے آنے اور دسمبر کے گذرنے سے کچھ نہیں ہوتا،
ہم بھی ادنی درجے کے ہی سہی مومن تو ہیں ، عقائد اسلام پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں یہ الگ بات کہ عمل کتنا کرتے ہیں؟
اس لیےہم سال کو کوسنے کے بجائے اس بہانے پرانی یادوں کو تازہ کرلیں گے-
ہم جنوری کو لالچ بھری نظروں سے نہیں دیکھتے اور نہ ہی دسمبر کو کوستے ہیں کہ تو تو آگیا مگر میرے محبوب کو نہیں لایا؟
یہ بیچارا خود حکم کُن کا محتاج ہے یہ بھلا خوشی اور غم کیوں کر لا سکتا ہے ؟
مگر انسان کبھی کبھار حالات اور وقت سے متأثر ہوکر کچھ باتیں ایسی کہ جاتا ہے ، جسے سننے اور پڑھنے والا اس کو اسی وقت اور مہینے سے جوڑ کر دیکھتا ہے
بہر کیف ۔۔۔۔۔۔۔
جسب سابق 2016 کا سال بھی بڑے آب و تاب کے ساتھ آیا ، اور اپنے جلو میں خوشی و غم کو سمیٹے ہوئے آیا ، انسانی فطرت ہے کہ خوشی کے لمحات جلدی بھول جاتا ہے اور غم کا ایک لمحہ بھی برسوں یاد رہتا ہے،
اور میرے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے کہ خوشیاں کیسے آئیں؟ کب آئیں؟ کیسے گئیں؟ اور کب گئیں؟ کچھ پتہ نہیں ،ہاں کچھ لمحات خوشیوں کے ضرور آئے تھے۔
اس سال کے آغاز میں دل میں تمنا و احساسات کے بادل خوب منڈلائے کبھی ملیشیا تو کبھی سعودی جانے کی خوش کن خبر قوت سماعت کیلیے سامان راحت ثابت ہوئی مگر کاتب تقدیر نے میری کتاب زندگی کے اوراق میں ایسا کچھ لکھا ہی نہیں تھا ، تو بھلا میں کیا کرسکتا تھا.
مگر سال رواں کے جو تکلیف دہ لمحات ہیں وہ من و عن یاد ہیں ، ذہن سے محو ہونے کا نام لے رہے ہیں، یہ تو حقیقت ہے کہ انسان کا زخم مندمل نہیں ہوتا البتہ وہ اسے سہنے کا عادی ہوجاتا ہے اور زخم کو پردے میں کردیتا ہے ، مجھے بھی کئی زخم آئے جسے میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا اور نہ ہی وہ زخم کبھی بھریں گے،
اور ہاں یہ سال مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کیوں کہ سال رواں میں میرے کئی احباب مجھ سے جدا ہوگئے، کئی شعراء آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے ، کئی ادباء عالم فنا سے عالم بقاء کی طرف کوچ کرگئے، عالم اسلام کی کئی اہم شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں ، جن میں محمد علی کلے ،جنید جمشد، حنیف محمد ، شاکر شجاع آبادی، ندا فاضلی، خلیق انجم ،بیکل اتساہی ، اور دیگر مشاہیر امت ہیں،
مگر میں ذہنی طور پر سب سے زیادہ دو مرتبہ پریشان ہوا جس کا اثر آج تک باقی اور شاید آخری سانس تک باقی رہے گا، ایک مرتبہ تو میرے محترم استاد علامہ حسن باندوی دارالعلوم وقف دیوبند جو تقریبا 55سال تک درس حدیث دیتے رہے،سینکڑوں پیاسوں کے شراب علم سے مخمور کیا اور پھر ملک الموت کے ہمراہ میخانے سے سینکڑوں روحانی اولاد کو بلکتے چھوڑ کر "کل من علیہا فان" کی تفسیر بن گئے،اور دوسری مرتبہ 26رمضان کو میری ہمشیرہ محض 15سال کی عمر میں مجھ سے ہمیشہ ہمیش کیلئے الگ ہوگئی-
گویا ہمارے غم کا سال 28جنوری ندافاصلی سے شروع ہوا اور 30دسمبر شیخ عبد الحق اعظمی کی شکل میں مکمل ہوا،