اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Wednesday, 15 March 2017

مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تیری رہبری کا سوال ہے!


از قلم: محمد ساجد
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اتر پردیش کے اسمبلی نتائج نے سب کو حیران کر دیا  کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہی تھی کہ بی جے پی 325 سیٹیں حاصل کر لے گی ہر کسی کے ذہن میں ایک سوال ہے، مبصرین اور تجزیہ نگار حیرت و استعجاب کے سمندر میں غرق ہیں کہ آخر بی جے پی کو اتنی بڑی کامیابی کیسے ملی ؟؟؟
نہ ہی اکھلیش کے ترقی و وکاس کا اثر دکھا  اور نہ ہی سپا و کانگریس کا اتحاد کام آیا مودی کی سنامی سب کو بہا کر لے گئی سبھی پارٹیوں کو کراری شکشت سے دو چار ہونا پڑا  لیکن اس میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا جہاں یوپی میں کسی وقت 80 اراکین اسمبلی  ہوا کرتے تھے اب انکی تعداد صرف 25تک محدود ہو گئی ہے.
ہر آدمی اس نتیجہ کو الگ نظریہ سے دیکھ رہا ہے مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہے طرح طرح کے شکوک وشبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کوئ اسے مسلمانون کی بد اعمالیوں کا نتیجہ بتا رہا ہے تو کوی مسلم تنظیموں پر سوال اٹھا رہا ہے کوی اسے EVM مشین کی کرامت بتا رہا ہے اسکے کئی  اسباب و وجوہات ہو سکتے ہیں.
لیکن اس بات سے بھی  انکار نہی کیا جا سکتا کہ مسلمانوں کی اس حالت زار میں مسلم قیادت کا بہت بڑا دخل ہے  مسلمانوں کی سیاسی و سماجی حالت دیکھ کر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مسلم قیادت کی روح پرواز کر چکی ہے.
صرف سالانہ رسمی جلسے جلوس سے قوموں کی تقدیر نہیں بدل سکتی اس کے لیے منصوبہ بندی، حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے .
آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کی  کوئی سیاسی پارٹی نہیں ہے
کبھی یہ ہاتھ کا ساتھ دیتے ہیں، کبھی سائکل کی سواری کرتے ہیں جب اس سے دل بھر جاتا ہے تو ہاتھی کی طرف للچای ہوئی نگاہوں  سے دیکھتے ہیں .
یوپی انتخاب میں یہی سب کچھ  دیکھنے کو ملا  مسلم رہنماوں کے متضاد بیانوں سے امت کا شیرازہ بکھر گیا کسی نے بسپاکی حمایت کا اعلان کیا تو کسی نے سپا کو ووٹ ڈالنے کی اپیل کی  جس سے مسلم ووٹ بکھر گیا اور جس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہوا.
کاش کہ ان قائدین کی سوچ وفکر میں اتحاد ہوتا حکمت ومنصوبہ بندی ہوتی تو نقشہ کچھ اور ہوتا.
 سرزمین دیوبند جہاں ہمارے اکابر نے  ملک کو  انگریزوں سے  آزاد کرانے کی منصوبہ نبدی کی تھی.
 آج وہاں اسمبلی کی ایک سیٹ بچانے کی حکمت عملی تیار نہی کی جا سکی  اگر دیوبند کی سیٹ کا  جائزہ لیں تو یہ بات روز زوشن کی طرح عیان ہو جاتی ہے مسلمانوں کے ووٹوں  کے انتشار کی وجہ سے یہ سیٹ ہمارے ہاتھ سے نکل گی.
 جب ہر طرف بی جے پی کی آندھی تھی تو ایسے نازک وقت میں  چاہیے تھا کہ ہمارے  قائدین امیدواروں میں مصالحت کروا کے صرف ایک  مسلم امیدوار کھڑا کرتے
اگر یہ ممکن نہی تھا تو کم از کم مسلمانوں سے صرف ایک پارٹی کو ووٹ ڈالنے کی اپیل کی کرتے
تو بڑی آسانی سے جیت حاصل کی جا سکتی تھی، کیونکہ دونوں مسلم امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی  مجموعی تعداد 128299تھی  جس میں معاویہ علی کو 55385اور ماجد کو 72844 ملے تھے، جبکہ بی جے پی امیدوار نے صرٍف 102244 حاصل کیے تھے مسلم امیدواروں  کے پاس 25985ووٹ زائد تھے اگر یہ ووٹ کسی ایک امیدوار کو مل جاتے تو فتح یابی یقینی تھی.
آپ کے ذہن میں یہ سوال جوش مار رہا ہوگا کہ اس میں قائدین کی کیا غلطی ہے اس میں وہ کیا کردار ادا کر سکتے تھے؟؟؟؟؟؟؟
تو جناب میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جن کی ایک آواز پر جلسوں میں لاکھوں لوگ جمع یو جاتے ہیں وہ دیوبند کے ہندو مسلم عوام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع نہی کر سکے؟؟؟؟
جس طرح دوسری جماعتوں نے الیکشن جیتے کے لیے رات دن کوششیں کی کیا آپ نے بھی اس طرح محنت کی؟؟؟
کیا آپ نے بھی لوگوں سے ملاقاتیں کی؟؟؟
کیا آپ بھی لوگوں کے در پر گیے؟؟؟
اگر  کوشش کی ہوتی تو نتیجہ کچھ اور ہوتا!!!
 ہمارے قائدین کو اور تمام مسلمانوں کو  اس سے سبق حصل کرنا چاہیے اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے اور ٹھوس منصوبہ بندی اور حکمت عملی تیار کرنی چاہیے.