تحـریر:محمد شمیــم بستـوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ماں کے دل میں اپنے اولاد کے لئے جو محبت ہوتی ہے اس کی گہرائی کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا ،ماں کی محبت انمول ہوتی ہے، ماں کی محبت پاکیزہ ہوتی ہے، ماں کی محبت میں خودغرضی نہیں ہوتی ہے وہ بے لوث ہوتی ہے، ماں کی محبت میں ریا شہرت کی امیزش نہیں ہوتی ، ماں کی محبت پرکشش ہوتی ہے، ماں کی محبت ہر شیریں شئ سے بھی زیادہ لذیذ ہوتی ہے، اس روئے زمین کے عاشق و معشوق کی محبت کو جمع کرلو ایک ماں کی محبت کے سامنے انکی ساری محبتیں ہیچ ہوجائیں گی ، دنیا کے تمام مصنفین اور دانشوروں نے ماں پر اتنا لکھا کہ ماں کی محبت پر انکی قلم ٹوٹ گئی سیاہی سوکھ گئی مگر ماں کی محبت کا حق ادا نہ کرسکے
کیونکہ ماں کی محبت ہی تو ایسی ہے جس کا کوئی ثانی نہیں ماں ہمیں اپنے پیٹ میں نو ماہ تک رکھتی ہے طرح طرح کی تکلفیں جھیلتی ہے مگر اف تک نہیں کرتی،
قربان جاؤں ماں کی ممتا پر کہ ہم جب پیدا ہوئے اس وقت ماں موت اور زندگی کے مرحلے کو عبور کرکے آئی اور جب ہمیں اس کی جھولی میں ڈالا گیا تو ماں کی دنیا جنت بن گئی اس کی خوشیوں میں چار چاند لگ گیا اس کے چہرے پرمسکراہٹ نمودار ہو گئی،کبھی اپنے سینے سے لگاتی کبھی اپنے ہونٹوں سے ہمارے معصوم چہرے کو چومتی، کبھی بدن کو چومتی، ماں کی محبت میں بڑی گہرائی ہوتی ہے،
وہ ماں کی محبت ہی تو ہے جو ہمیں گود میں لے کر جھولا جھولاتی پچکارتی، گرمیوں میں ہوا کا انتظام کرتی، سردیوں میں اپنے آنچل میں چھپا لیتی ،کبھی انگلی کے اشارے سے چاند تاروں کی سیر کراتی ، تو کبھی اللہ اللہ کی لوریاں سناتی ، ہماری ایک مسکراہٹ سے ماں کے چہرے پر خوشیاں بکھر جاتیں ،
کبھی ہم بیمار ہو جاتے تو ماں کا دل تڑپ جاتا ماں کا چہرہ غمزہ ہوجاتا راتوں کی نیند حرام ہو جاتی ، سب لوگ میٹھی نیند سوتے ماں اپنی گود میں لیکر اپنے آنچل میں چھپا کر ہماری صحت یابی کی دعائیں مانگتی اللہ سے منت سماجت کرتی ، جب تک طبیعت اچھی نہیں ہو جاتی ماں کا دل بے قرار رہتا تھا،
وہ ماں کی محبت ہی تو ہے جب ہم دودھ کی بار بار الٹی کر کے کپڑے کو خراب کر لیتے تو ماں تڑپ کر اس کو صاف کر دیتی دوسرے کپڑے تبدیل کر دیتی ، کبھی راتوں کو ہم بستر خراب کردیتے وہ پیاری ماں صبح کا انتظار نہیں کرتی اپنی نیند کو قربان کر کے ہمارے لئے دوسرے کپڑے اور سوکھے بستر کا انتظام کرتی، کبھی ہمارے خراب کئے ہوئے بھیگے بستر پر خود سو جاتی اور ہمیں سوکھے میں سلاتی تھی،
وہ پیاری ماں کی محبت ہی تو ہے کہ جس نے ہمیں بولنا سکھایا سیکڑوں بار ایک الفاظ کی گردان کراتی ماں کی میٹھی زبان سے نکلتا میرے لال بولو اللہ اللہ ہم اپنی توتلی زبان سے نہیں ادا کر سکتے تو پھر بولتی میرا سونا بولو اللہ اللہ ہم کوشش کرتے اور جب ہماری زبان سے اللہ اللہ نکلتا تو ماں کا دل مسرتوں سے بھر جاتا اور چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا،
پیاری ماں کی محبت ہی تو ہے جب ہم اس عمر کو پہنچ گئے کہ مکتب جانا شروع کر دئیے ماں ہمیں سلیقے سے تیار کرکے مکتب میں بھیجتی اور ہماری راہ دیکھتی جو کچھ اچھی کھانے کی شئ ہوتی اسے چھپا کر رکھتی میرا لال آئے گا تو اسے دوں گی کھانے کے لئے ہم مکتب سے گھر پہنچتے تو ماں ہمیں دیکھ کر خوش ہو جاتی اور ہاتھ منہ دھلاکر کھانے کی اشیاء پیش کر دیتی تھی،
پیاری ماں کی سب سےعظیم خوشی کا دن وہ ہوتا ہے جب ہم شادی کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں ماں کے دل میں بڑے ارمان ہوتے ہیں کہ اب میرے بیٹے کی شادی ہوگی اس کے لئے میں نیک سیرت اور حسین و جمیل لڑکی بیاہ کر لاؤں گی میرے گھر میں شہنائی بجے گی میرے گھر میں خوشیوں کے ترانے گائے جائیں گے میرا گھر سرسبز وشاداب ہو جائے گا ایسے خوشیوں کے ارمان دل میں لیکر پیاری ماں دلہن کو لاتی ہے اور گھر آباد ہو جاتا ہے
بیٹے کی شادی ہونے کے بعد مختلف قسم کے حالات پیاری ماں کے سامنے پیش آتے ہیں سب سے پہلے تو ایک فرماں بردار بیٹے کی محبت تقسیم ہو جاتی ہے، پہلے صرف جو محبت ماں تک محدود تھی اب بیوی میں منقسم ہوجاتی ہے، فطری طور پر ہر ماں کے دل پر ضرب لگتی ہے لیکن وہ اپنے بیٹے کی خوشی کے لئے اس کڑوے گھونٹ کو آب حیات سمجھ کر پی جاتی ہے کہ میرا بیٹا خوش ہے اسی میں میری بھی خوشی ہے، اگر دلہن حسن اخلاق خدمت گزار وفاشعار مل جاتی ہے تو گھر جنت کا نمونہ بن جاتا ہے اور سب مل کر پرلطف زندگی گزر بسر کرتے ہیں،
اس کے برعکس کچھ ایسی مائیں ہوتی ہیں جن کو دلہن کے روپ میں ناگن مل جاتی ہے، گھر میں آنے کے کچھ ہی دنوں بعد دلہن اپنے زہریلے فن کا مظاہرہ کرتی ہے اور پیاری ماں کے خلاف بیٹے کے دل میں نفرت انگیز باتیں بھرنا شروع کر دیتی ہے، دیکھو نا جی ماں مجھے بہت تنگ کرتی ہے مجھے برا بھلا کہتی ہے مجھے دیکھ کر جلتی ہے شوہر سنتا رہتا ہے نظر انداز کر دیتا ہے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کر تا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں پر انسان بری طرح سے الجھ کر رہ جاتا ہے اہلیہ کی چال کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ہے اور ماں کے خلاف باتوں کو اپنے دل میں جمع کر کے رکھتا ہے، ہم لوگوں میں کچھ ایسے بھی عقل کے کورے ہوتے ہیں جو زن مرید ہوتے ہیں اور صرف اہلیہ کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں ماں کی محبت کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں،
اسی لئے ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ ماں کے سامنے اونچی آواز میں زن مرید کہتا ہے کہ ماں تو اب بوڑھی ہو گئی ہے تجھے سمجھ میں نہیں آتا ہے، کیوں میری اہلیہ سے تو تو میں میں کرتی رہتی ہے میں اپنی اہلیہ کوسمجھا کر تھک گیا ہوں، لیکن وہ یہی کہتی ہے کہ تمہاری ماں کی غلطی ہے میں کتنا برداشت کروں، بیٹا ماں پر دلخراش الفاظ کی بارش کر رہا ہے، اور اہلیہ محترمہ دل میں خوش ہو رہی ہے کہ کام بن گیا آج ماں کی سرزنش کی گئی، بیٹا کہتا ہے ماں ہماری زندگی ایک ساتھ میں گزر بسر نہیں ہوسکتی ہے میری اہلیہ اور میں کہیں الگ مکان کا بندوبست کر لیں گے آپ کے ساتھ نہیں رہیں گے، بتاؤ اس ماں کے دل پر کیسا غموں کا پہاڑ ٹوٹا ہوگا کیسا دل دکھا ہوگا کہ جس فرزند کی میں نے بچپن سے پرورش کی آج یہ مجھے بوڑھی کہتا ہے میرا ساتھ چھوڑ کر جا رہا ہے،احباب زندگی ایسے دوراہے پر لاکر کھڑی کر دیتی ہے جہاں پر انسان کی عقل ختم ہو جاتی ہے سوچنے سمجھنے کا مادہ باقی نہیں رہتا ہے اور پیاری ماں کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے، ایسے حالات اگر پیدا ہو جائیں تو بڑے بزرگوں اور علماء کو گھر پر مدعو کرکے اس بات کو سلجھانا چاہیے اللہ کے سامنے گریہ زاری کرنا چاہیے، پیاری ماں کا دل نہیں دکھانا چاہئے ایسے لوگوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اہلیہ اور بھی مل سکتی ہے لیکن ماں نہیں مل سکتی ہے
اس میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی صحیح تربیت نہیں کی جاتی ہے انہیں بڑے بزرگوں کی عزت و احترام کرنا سکھایا نہیں جاتا ہے انہیں شادی سے پہلے یہ بات ذہن نشین نہیں کرائی جاتی ہے کہ ساس بھی تمہاری ماں ہی ہے اس کے دل میں تمہیں بیٹی کی جگہ بنانی ہے، اس کے حکم کو ماننا ہے اس کے ساتھ محبت ہمدردی سے پیش آنا ہے ماں سمجھ کر اس کی خدمت کرنا ہے سرپر تیل کی مالش اور ہاتھ پاؤں بھی دبانا ہے، اگر کسی بیٹی میں یہ خوبیاں پیدا ہو جائیں تو وہ جہاں جائے گی وہ گھر جنت کا نمونہ بن جائے گا اس کی وجہ سے گھر میں رونق آجائے گی،
ساس بہو کے جھگڑے میں اکثر مائیں بے قصور ہوتی ہیں،اور حق پر ہوتی ہیں،ان کے افکار و خیالات بڑے اعلی ہوتے ہیں، وہ بہو کو اپنی بیٹی سمجھتی ہیں ایسی ماؤں کے گھر میں چہار جانب خوشیاں بھری رہتی ہیں، اس کے برعکس کچھ ایسی مائیں بھی ہوتی ہیں جو بہو کو بیٹی کا درجہ نہیں دینا چاہتی ہیں اپنی بیٹیوں کو سرکا تاج سمجھتی ہیں اور بہو کو پیر کی جوتی سمجھتی ہیں ان کے گھر میں غموں کا ماتم ہوتا ہے، جہاں پر ایک بہو کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ساس کو اپنی ماں سمجھ کراس کی خدمت کرے وہیں پر ماں کا حق بنتا ہے کہ بہو کو اپنی بیٹی سمجھ کر اس کی دلجوئی کرتی رہے اس مثبت سوچ سے ساس بہو کا جھگڑا ختم ہو جائے گا،
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی ماں سے پوری زندگی سچی محبت اور ان پر اپنے جان و مال کو صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمیـــن