تحریر محمد عاصم اعظمی ریسرچ اسکالر حجة الاسلام اکیڈمی دارالعلوم وقف دیوبند
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علامہ شبلی نعمانی کی پیدائش اعظم گڑھ ضلع کے ایک گاؤں بندول جیراج پور میں 1857ء میں ہوئی تھی، ابتدائی تعلیم گھر پر ہی مولوی فاروق چریاکوٹی سےحاصل کی، 1876ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے ان کے والد نامی وکیل تھے ان کی چاہت یہ تھی کہ یہ بھی وکیل بنیں گویا ان کی چاہت کے مطابق وکالت کا امتحان بھی پاس کیا مگر اس پیشہ سے دلچسپی نہ تھی، علی گڑھ گئے تو سرسید احمد خان سے ملاقات ہوئی، چنانچہ فارسی کے پروفیسر مقرر ہوئے، یہیں سے شبلی نے علمی و تحقیقی زندگی کا آغاز کیا، شبلی حالی کے ہم عصر قلمکار مانے جاتے ہیں لیکن عمر میں حالیؔ سے 20 برس چھوٹے تھے، شبلی بیک وقت شاعر ، ادیب ،عالم، مفکر اور سوانح نگار سب کچھ تھے، شبلی کے اندر ادبی صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، سرسید احمد خاں کی صحبت نے ان صلاحیتوں کو مزید نکھارا اور ایک نئی راہ دکھائی مشہور دانشور و نقاد خلیل الرحمن اعظمی شبلی سے متعلق رقمطراز ہیں : ’’شبلیؔ کو علی گڑھ کی فضا نہ نصیب ہوتی تو ان کی جگہ مولانا فاروق چریاکوٹی اور فیض الحسن سارنگ پوری کی صف میں ہوتے اور اردو زبان شعر العجم ، سیرت النبیؐ اور الفاروق جیسے کارناموں سے محروم رہ جاتی، اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں سے دنیا ادب میں ایک تاریخ بنائی، مولانا شبلیؔ ادب کے ماہر شہ سوار تھے، انہوں نے بے شمار کتابیں لکھیں ، سینکڑوں کی تعداد میں ان کے مضامین ہیں چونکہ ان کے تصانیف کی تعداد بہت زیادہ ہے شبلی نے تاریخ اور فلسفہ جیسے خشک موضوعات کو بھی مزیدار اور دلچسپ بناتے ہوئے اپنی فنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا ہے، وہ اپنے مفہوم اور مطلب کو واضح کرنے کیلئے عربی اور فارسی کے لفظوں سے بھی گریز نہیں کرتے تھے، ان کی ہر تصنیف درجہ اول کے ادب میں شمار کی جاتی ہے، مولانا شبلی کی طرز تحریر صاف ، رواں اور سادہ ہوا کرتی تھی جو ایک عام قاری کو بھی بڑی آسانی کے ساتھ سمجھ میں آتی ہے ۔
سرسید احمد خاں کے انتقال کے بعد علامہ شبلیؔ نے علیگڑھ سے استعفیٰ دے دیا اور اعظم گڑھ چلے گئے، پھر مولوی سید علی بلگرامی کے اسرار پر حیدرآباد آئے اور ناظم محکمہ تعلیمات کی حیثیت سے حیدرآباد میں تین چار سال تک قیام کیا، اسی دوران انہوں نے الغزالی ، سوانح مولانا روم ، علم الکلام اور موازنہ انیس و دبیر جیسی تصانیف کو پہلی مرتبہ حیدرآباد سے ’’سلسلہ آصفیہ‘‘ کے تحت شائع کروایا، حیدرآباد سے واپسی پر شبلی نعمانی ندوۃ العلماء کی ترقی کیلئے اپنے آپ کو وقف کردیا.
1913ء میں لوگوں کی تنگ نظری اور تعصب پسندی سے تنگ آکر ندوۃ العلماء کو خیرآباد کیا اور اپنے وطن اعظم گڑھ آکر دارالمصنفین کی بنیاد ڈالی، اس کا مقصد یہی تھا کہ عمدہ مصنفوں کی ایک جماعت تیار ہوجائے، اس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی جائیداد تک بیچ ڈالی، علامہ شبلیؔ کی ان تمام باتوں کو ضبط تحریر میں لانے کا ایک ہی مقصد ہے کہ شبلی نے اپنی قوم کیلئے جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں، شبلی اور حالی کو نہ تو نام اور نمود سے مطلب تھا اور نہ ہی شہرت کے دلدادہ تھے
شاید کی یہی وجہ تھی کہ دارالمصنفین اور علامہ شبلی کے بارے میں (ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ ہند) لکھتے ہیں کہ مجھے یہ ادارہ جو قوم کی بیش بہا دولت ہے دل سے عزیز ہے دارالمصنفین کے مؤسس روحانی شبلی نعمانی کی گراں قدر علمی و ادبی خدمات نے بلا واسطہ ہندوستان اور بالواسطہ ساری دنیا کے تہذیبی سرمایے میں قابل قدر اضافہ کیا ہے .
اللہ تعالٰی ان کی لحد مبارک پر شبنم افشانی کرے.آمیــــن