ازقلم: محمد سلمان دھلوی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس عنوان کا انتخاب بر ایں بنا کیا گیا ہے کہ آج امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ جھوٹ جھوٹ نہیں گردانتا ہے بلکہ اب تو جھوٹ کو سچ دکھانا اتنا آسان ہوگیا ہے کہ سچ کو سچ کہنے میں خوف خطر محسوس کیا جاتا ہے لیکن جھوٹ کو برجستہ سچ سمجھ کر کہدیا جاتا ہے اور مخاطب جھوٹ کو سچ بسہولت تسلیم کرتا ہے برخلاف اگر کوی سچ بولے تو اس کو ثابت کرنے کے لیے ہزارہاں ہزار دلیلیں دینی پڑتی ہیں.
جب کہ میرے آقا سرور کونین محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے
الصدق ینجی والکذب یھلك.
ترجمہ..
سچ بولنے والا نجات پاتا ہے اور جھوٹا ہلاک و غارت ہوتا ہے
لیکن کف دست یہ بات کہنی پڑ رہی ہے کہ ہم نے فرمان رسول اللہ کو پس پشت ڈال کر اپنی من چاہی گفت و شنید کو اگر سچ ثابت کرنا پڑے تو ایڑی سے چوٹی تک کی قوت کو صرف کردیتے ہیں اگر ہم اسی قوت کو سچای‘امانت ‘ و دیانتداری میں استعمال کریں تو امت بہت بڑیے خسارہ و نقصان سے بچ جائے گی
اسی بابت اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
لِیَجزِیَ اللَّہُ الصَّادِقِینَ بِصِدقِہِم وَیُعَذِّبَ المُنَافِقِینَ إِن شَاء أَو یَتُوبَ عَلَیہِم إِنَّ اللَّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیماً ::: تا کہ اللہ صِدق والوں کو اُن کے صِدق کی جزاء عطا فرمائے اور اگر چاہے تو منافقوں کو عذاب دے یا اُن کی توبہ قبول کرے بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے ( سورت الأحزاب/آیت 24، )
اللہ جل جلالہ کے اس فرمان سے یہ روشن و عیاں ہوجاتی ہے کہ مؤمن کہ شان میں سے ہے صدق ‘ اور جھوٹ منافق کی پہچان ہے‘ اور یہ کبھی نہی ہوسکتا ہے کہ صد وکذب ایک ساتھ جمع ہوں
اور منافق کو کل قیامت میں عتاب خداوندی کا شکار ہونا پڑےگا جبکہ سچ بولنے والے کو اللہ دنیا وآخرت دونوں جہاں سرخ روی اور کامیابی وکامرانی عطاء فرمایےگا. اور سچ بولنے پر محض ثووب کا دار و مدار نہیں رکھا بلکہ آخرت میں نجات کے اسباب میں سے ایک بنیادی سبب بنایا
جیساکہ خود رب کریم قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے.
ترجمہ..
قَالَ اللّہُ ہَذَا یَومُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدقُہُم لَہُم جَنَّاتٌ تَجرِی مِن تَحتِہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ ذَلِکَ الفَوزُ العَظِیمُ ::: اللہ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہہ رہے ہیں ، ان باغات میں یہ سچے لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ عظیم کامیابی ہے (سورت المائدہ / آیت 119، )
صدق کو عرفا لفظ سچای سے ہی لوگ شناخت کرتے ہیں اور اس کا مفہوم سچ بولنا لیاجاتا ہے جبکہ در حقیقت اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان ظاہری طور پر و باطنی طور پر سب کے سامنے ہو یا تنہا ہو اس کا قول اس کا عمل و کردار اس ظاہر و باطن سب ایک دوسرے کی تکذیب نہ کرتے ہوں تب وہ صادق و امین ہے ورنہ تو ظاہر کچھ باطن کچھ تو پھر اسی کا نام منافقت ہے اور منافق کا ٹھکانہ سیدھا جھنم ہے ‘ جس کے بارے قرآن کہتا ہے
وبِأس المصیر
کہ وہ بہت برا ٹھکانہ ہے
کہیں پر کہتا ہے .
مأواھم جھنم
قرآن کریم و احادیث شریف نے جا بجا جھوٹوں اور منافقوں پر لعنت کی ہے لیکن آج ہم مسلمانوں نے جھوٹ کو اپنے لیے لازم پکڑ لیا ہے اگر کوی بات کہو تو کہیں گے کہ اگر دنیا میں رہنا اور کارر بار کرنا ہے تو کچھ تو ملاوٹ (جھوٹ) کرناہی پڑےگا ورنہ تو کاروبار ختم ہوجایےگا لیک وہ قہر خداوندی اور وعید رسول علیہ السلام کو فراموش کردیتے ہیں.
اس بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے
اِیمان کے لیے اِخلاص لازمی صفت ہے اور صِدق اِخلاص کو اپنے اندر لیے ہوتا ہے ، یعنی ہرایک صاحب صِدق مُخلص ہوتا ہے لیکن ہر مُخلص صاحبِ صِدق نہیں ہوتا ، اور سچ بولنے والوں کو ایک انعام خداوندی یہ ملتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت عام کردی جاتی ہے‘ اور دوسرا انعام یہ عطا فرمایا کہ ، ان کی بہت ہی زیادہ سچے ہونے کی خبر ہر ایک اِیمان والے اور اِیمان والی کے دِل و دماغ میں راسخ کر دی اُس کی زُبان اور قلم پر رائج کر دی ، اور آخرت میں اس کا بہترین بدلہ یہ عطاء کیا جایےگا کہ( أَنعَمَ اللّہُ عَلَیہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَ۔ئِکَ رَفِیقاً ::: اور جو اللہ کی اطاعت کرے گا اور رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کی اطاعت کرے گا تو وہ (آخرت میں ) یقینا ، نبیوں اور صدیقوں اور شھیدوں اور نیکو کار لوگوں کے ساتھ ہو گا اور یہ ساتھی (تو) بہت ہی اچھے ہیں (سورت النساء / آیت69 ، )
اللہ سبحانہ و تعالیٰ یقینا یہ جانتا تھا کہ اُسکی مخلوق میں کچھ ایسے بد بخت بھی ہوں گے جنہیں اُس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پہلے بلافصل خلیفہ ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ کی یہ فضیلت بھی برداشت نہ ہو گی اس لیے اگلی ہی آیت میں ، ایمان والوں کی دِل جمعی کے لیے اور ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ سے بغض و عناد رکھنے والوں کے لیے عذاب کی خبر کے لیے اِرشاد فرمایا ( ذَلِکَ الفَضلُ مِنَ اللّہِ وَکَفَی بِاللّہِ عَلِیماً ::: یہ اللہ کی طرف سے فضل ہے اور اللہ (سب کے بارے میں) بہت اچھی طرح عِلم رکھنے والا کافی ہے ( سورت النساء /آیت (70)
اللہ رب العزت ہم سب کو سچای کی راہ پر چلنے کی سعادت نصیب فرمائے اور جھوٹ سے بچائے.
آمین ثم آمین