فضلاء مظاہر علوم سہارنپور کی خدمت میں حضرت شیخ العرب و العجم کی ایک وصیت...
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خلاق عالم اس دار الامتحان میں کچھ ایسی شخصیات پیدا کی ہیں، جن کا طرہ امتیاز خدمت احادیث ہوا کرتی ہے، ہر سمت ان کے علوم و معارف اور ان کے فیضان کا ڈنکا بجتا ہے.
اس فانی دنیا میں انسانوں کے پردۂ سماعت سے ہزاروں اموات کی خبریں ٹکراتی ہیں، اورٹکرائیں گی، ہر نکھرتی ہوئی صبح اور ہر ڈھلتی ہوئی شام کسی نہ کسی شخص کیلئے منتہائے زیست کا پیغام لاتی ہے،
★موت سے کس کورستگاری ہے. آج وہ کل ہماری باری ہے★
لیکن کچھ ہستیاں اور شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں، جنکی موت کی خبر سنتے ہی ہر آنکھ برسنے لگتی ہے، گرد و پیش کے احوال سوگوار نظر آنے لگتے ہیں، قلب و دماغ اور وجود میں لرزہ طاری ہو نے لگتا ہے، حواس معطل اور ہوش ناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے، چمن میں فضائی ماتمی اور سر پر یتیمی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے، انہیں نابغہ روزگار، یکتائے زمانہ شخصیات میں سے شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا مہاجر مدنی قدس سرہ العزیز کے شاگرد رشید، محدث جلیل، خادم حدیث، عاشق رسول، صاحب مستجاب الدعوات، استاذ الاساتذہ 🔷شیخ العرب والعجم حضرت مولانا محمد یونس صاحب جونپوری رح🔷 شیخ الحدیث مظاہر علوم کی تھی، جنہیں کل تک طول عمری، اور وسعت فیضان کی دعاء دی جاتی تھی، آج رحمت و مغفرت کی دعاء ہو رہی ہے، حقیقت ہے کہ تمام طلبہ مظاہر علوم و دیگر حضرات اللہ تعالی کے سامنے آہ و بکا کرتے تھے کہ خدایا حضرت سے بخاری پڑھنا نصیب فرما.
حضرت مظاہر علوم میں 57 سال سے علوم عالیہ کی خدمت میں مصروف تھے اور تقریبا 50 سال بخاری شریف کا درس دیا اور علم حدیث کی خدمات انجام دے رہے تھے، وہ ذات اقدس دائمی داغ فراق دے کر اللہ کے پیارے ہوگئے، حضرت کے وصال کی خبر احقر کو تاخیر سے ملی.
ناچیز ترمذی کے درس کے دوران صحاح کی تشریح کر رہا تھا اتنے میں مولانا نور حسن مظاہری صاحب کا فون آیا کہ حضرت شیخ کا وصال ہو گیا یہ سنتے ہی حواس معطل ہوگئے، اور بے ساختہ یہ کلمات زبان پر جاری ہوئے کہ اللہ حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے اور ان کی قبر کو *روضة من رياض الجنة* کا مصداق بنائے، قبر میں جنت کا بستر لگادے، حضرت کو جنت کا لباس پہنائے. آمـــین یا رب العالمین
★وصیت ★
دورہ حدیث کے طلبہ کو حضرت ہر سال درد مندانہ اور کبھی آب دیدہ ہو کر یہ وصیت کرتے تھے کہ میری وفات کے بعد میرے لئے اپنی وسعت کے مطابق صدقہ کرنا، اور یہ کہہ حضرت رو پڑتے کہ میری اولاد نہیں ہے تم ہی طلبہ میری اولاد ہو، اس وصیت کی یاد دہانی کے ساتھ تمام احباب سے درخواست ہے کہ حتی الوسع اس کو پورا کریں.