اتحاد نیوز اعظم گڑھ INA NEWS: اچھا ہوا موبائل نہیں تھا!

اشتہار، خبریں اور مضامین شائع کرانے کیلئے رابطہ کریں…

9936460549, 7860601011, http://www.facebook.com/inanews.in/

Saturday, 22 July 2017

اچھا ہوا موبائل نہیں تھا!


ازقلم: حمزہ فضل اصلاحی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 موبائل نے ہم سے کیا چھینا اور کیا دیا ؟ یہ طویل اور تھکا دینے والی بحث ہے۔ اس پر بار بار ماتم کیا جاتا ہے کہ موبائل نے ہمیں حقیقت سے دور کر دیا ہے۔ دوسرے یہ جہاں تہاں اور جب تب موبائل کو برا بھلا کہنا خطرے سے خالی نہیں ہے ،کیونکہ کچھ لوگ موبائل کو دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں، وہ زبان حال سے کہتے ہیں : ’ ’ مو بائل کو کچھ نہ کہو، وہی تو ہماری تنہائی کا سہارا ہے، اسی کے ذریعہ تو ہم ہنس بول لیتے ہیں،کچھ کہہ سن لیتے ہیں، دل کا بو جھ ہلکا کرلیتے ہیں۔ ‘‘ خیر باتیں تو بہت ہیں ،اصل بات تو یہ ہے کہ بچپن میں میری نسل کے پاس موبائل نہیں تھا۔ موبائل نہ ہونے کا فائدہ کیا تھا ؟ بس اسی پر کچھ عرض کروں گا ۔
موبائل نہ ہونے کا ایک بڑا فائدہ یہ تھا کہ ہم وقت گزاری کے لئےکہانیاں پڑھتے تھے ۔ میرے گھر میں بچوں کے رسائل’ہلال‘ اور’ امنگ‘ پابندی سے آتے تھے ، کبھی کبھی نور اور پیام تعلیم بھی آتا تھا ، ہر کوئی نئے شمارے پر ٹو ٹ پڑ تا تھا اور ہر کسی کی خو اہش ہوتی تھی کہ نیا شمارہ پہلے وہ پڑھے ، اس پر بحث ہوتی، چھینا جھپٹی بھی، بعض  دفعہ جھگڑا بھی جس کو بھی شمارہ مل جاتا ، وہ ایک ایک کہانی پڑھ کر ہی اس کی جان چھوڑتا ۔ میں اپنی بہنوں سے چھوٹا تھا، اس لئے اگر امی یا ابو مداخلت نہیں کرتے تو میں اکثر ہار جاتا۔ پھر کیا ہوتا تھا، وہی کہ میں اپنی بہنوں کو ہلال اور امنگ پڑھتے ہوئے حسرت سے دیکھتا اور ان کے ارد گرد بے چینی سے چکر لگاتا ، جیسے ہی ختم ہونے کی خو شخبر ی ملتی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا ۔ ایسا لگتا تھا کہ بہت بڑا خزانہ ہا تھ لگ گیا ہے۔ پھر ایک ہی نشست میں کہانیاں ختم کرکے نئے شمارے کا انتظار کرتا۔ آپ کوئی ڈراما تو نہیں پڑھ رہے ہیں، پھر بھی میں یہ کہوں گا کہ پر دہ گرتا ہے ، منظر بدلتا ہے، میری بہنیں کسی کی ماں بن گئی ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ اب وہ بھی کتابیں نہیں پڑھتیں، وہ اپنے موبائل پر سیریل دیکھتی ہیں تو اُن کے بچے بھی ان کے ارد گرد منڈلاتے ہیں، موبائل خالی ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور موبائل خالی ہونے کے بعد وہ موٹو پتلو ، چھو ٹا بھیم اور بال ویر وغیرہ دیکھنے میں ایسا کھو تے ہیں کہ بس کیا بتاؤں؟ وہ گھر سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ مو ٹو پتلو دیکھ کر ہنستے ہیں تو پتہ چلتا ہےکہ و ہ بھی گھر میں ہیں۔ کھیلنے سے تو جیسے انہیں چڑ ہو گئی ہے۔ لو ڈو اور کیرم بھی موبائل پر کھیلتے ہیں، وہ بھی اکیلے اکیلے۔ ہمارےپاس مو بائل نہیں تھا. اس لئے کھیلنے کیلئے لاکھوں جتن کرتے تھے ، پاپڑ بیلتے تھے۔ گرمی میں جیسے ہی گیہوں کے کھیت خالی ہوتے تھے بس اس میں پچ بنانے کی دھن سوارہو جاتی تھی۔ پھر کسی بھی چیز کی پرو ا نہیں کرتے تھے، گھر والے روکتے تھے ، ڈراتے تھے ،پیسے کا لالچ دیتے تھے، بار بار کہتے تھے کہ دھوپ میں باہر مت نکلنا بیمار ہو جا ؤ گے ، یہ ہو جائے گا،وہ ہو جا ئے گا ۔ کبھی کبھی تو سزا بھی ملتی تھی ، ڈانٹ بھی پلائی جاتی تھی مگر کھیلنے کے سامنے کسی کی نہیں سنتے تھے، مو سم کی پروا نہیں کرتے تھے، چلچلاتی دھوپ رہتی تھی، لو چلتی تھی، سورج آگ برساتا تھا لیکن ہمارے جنون کی آگ اس پر پانی ڈال دیتی تھی۔ گاؤں کے باہر خالی کھیت کے قریب  ’ہینڈ پمپ‘نہیں ہوتا تھا ، ہم بہت دور سے بالٹی میں پانی لاتے تھے اور پیاسی زمین کو پلا دیتے تھے۔ اس طرح دن رات ایک کرکے پچ تیار ہوجاتی تھی۔ کھیل کے جنون کی کیا کہیں ؟ جو’کھر پی‘ چلانا نہیں جا نتا تھا، وہ پھاوڑا چلاتا تھا ، دوڑ دوڑ کر زمین برابر کرتا تھا۔ بعض دفعہ بڑے بوڑھے ہم پر ہنستے بھی تھے ، وہ کہتے تھے : ’’بیمار ہو جا ؤ گےتم لوگ! ، اوقات سے بہت زیادہ کام کررہے ہو ۔ ‘‘نک چڑھے بڑے بوڑھے حوصلہ شکنی بھی کرتے ، وہ کہتے :’’ گھر کا کام کرنا ہو تا ہے تو نا نی یا د آجاتی، یہاں کھیلنا ہے تو دیکھو کیسے دوڑ دوڑ کر پانی لا رہے ہیں؟‘‘ موبائل نہیں تھا توہم کبھی کبھی ریڈیو کی نشریات بھی سنتے تھے ، گویا جو بھی کام کرتے تھے ، اچھے سے کرتے تھے ، کچھ ادھورا نہیں چھوڑتے تھے ۔ کیا اس پر میں موبائل ایجاد کرنے والوں کا شکریہ ادا نہ کروں کہ انہوں نے ہمیں بچپن میں موبائل نہیں دیا ۔