ازقلم: ریان احمد متعلم مدرسۃ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
علم کے معنی ہے کسی چیز کی حقیقت اور ماہیت کو جاننا ۔
یعنی علم ایک روشنی ہے اور اس روشنی کے ادراک اور اس سے استفادے کا نام ہی علم ہے۔
وجود انسانی کیلئے علم ضروری ہے،علم کی مثال ایک سمندر کی سی ہے جس سے آدمی بقدر ہمت و حوصلہ جتنے موتی چاہے حاصل کرکے اپنا دامن مراد بھر سکتا ہے۔
علم ایسا نور ہے جس کے ذریعہ انسان تاریکیوں سے نکل کر اس سازگار فضا میں آجاتا ہے جس کے بغیر انسان کی زندگی تشنہ رہتی ہے اور علم کے ذریعہ ہی وہ سیراب اور راہ یاب ہوتا ہے اس کے اندر یہ قوت تمییز پیدا ہوتی ہے کہ وہ جان سکے کہ حق اور نا حق کیا ہے۔ حلال کیا ہے حرام کیا ہے۔
امام شافعی رح علم کے سلسلے میں بیان کیا: فَانَّ العِلمَ نور من اله، و نور الله لا يوتي لعاصى.(١)
بیشک علم اللہ کا نور ہے اور اللہ کا نور نافرمان کو نہیں دیا جاتا۔
اللہ تعالی سورہ علق میں اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتا ہے۔
إقرأ باسم ربك الذي خلق.خلق الانسان من علق.اقرأ وربك الاكرم.الذي علم بالقلم.علم الانسان ما لم يعلم.(٢)
پڑھو(اے محمد)اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔پڑھو تمہارا رب بڑے کرم والا ہے۔جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا۔اور انسان کو باتیں سکھائیں جن کا اس کو علم نہ تھا۔
مذکورہ آیات کے بین السطور سے علم اور تعلیم سے متعلق چار اہم نکات معلوم ہوتے ہیں۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ جو کچھ پڑھو اللہ کا نام لیکر پڑھو اور خدا کی اس ہستی کے استحضار کے ساتھ پڑھوجس نے پورے کائنات کی تخلیق کی ہے۔دوسرا اہم نکتہ یہ کہ پڑھو اور پڑھنے کے راستے میں جو بھی مصائب و مسائل حائل ہوں ان کی فکر مت کرو۔
کیونکہ تمہارا پرور دگار بڑا رحیم و کریم اور مددگار ہے۔وہ مشکلات میں تمہاری دست گیری کرے گا۔
تیسرا نکتہ یہ ہے کہ راز ہائے کائنات کو پالینے کی صلاحیت فطری طور پر انسان کے اندر ودیعت کردی گئ ہے۔
اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی فطری مخ۔۔مخفی صلاحیت کو کرید کر نکالنے اور اس سے بندگان خدا کو فائدہ پہنچاۓ۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہی آدم اور اولاد آدم کو دنیا کے سارے علوم سکھاۓ ہیں۔
آج علمی اعتبار سے دنیا کی اس محیر العقول ترقی کو اپنی حکمت و دانائ کا کرشمہ سمجھ کر خود کا ہنر نا سمبھے بلکہ اسے خدا کا تمام تر احسان اور عطیہ مان کر اسکے آگے شکر کا سجدہ کرتا رہے۔
اس سورہ میں بظاہر نبی سے خطاب ہے مگر درحقیقت نبی کے واسطے سے پوری انسان برادری کو خطاب کیا گیا ہے۔
نبی چونکہ قیامت تک پیدا ہونے والی انسانی برادری کیلۓ بھیجے گۓ اس لۓ انسانوں کے نمائندہ کے طور پر آپ سے بطور خاص خطاب ہوا ہے۔
علم کا حصول انسان کیلۓ اس لۓ بھی ضروری ہے کہ وہ ظلوم جہول ہے .
انه كان ظلوما جهولا(٣)
بیشک وہ(انسان)ظالم و جاہل ہے۔
علم ہی اسے جہل کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کے اجالے میں لاتا ہے۔اور علم ہی اسے ظلم و جبر کی روشنی سے ہٹا کر عدل و قسط کی شاہراہ پر قائم کرتا ہے۔ یہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے ہم اپنے خداۓ حقیقی اور کائنات میں اپنے مقام اور اپنی حیثیت کو پہچان سکتے ہیں اس کے بغیر ہماری مثال اس اندھے سی ہے جو ٹٹول ٹٹول چلنے کے باوجود قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا ہے۔
اللہ کے رسول نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا :
فانی قد تركت فيكم ما ان اخذتم به لن تضلوا بعده،كتاب الله:(٤)
میں نے تمہارے درمیان وہ چیز چھوڑ دیا ہے جب تک تم اس کو پکڑے رہو گے اس کے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔(وہ چیز)کتاب اللہ (قرآن ہے)
چاہیے یہ تھا کہ مسلمان اس نصیحت کو مضبوطی سے پکڑ کر تعلیم کو اس طرح عام کرتے جس طرح سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے عام کیا تھا مگر حال یہ ہے کہ خود علماء کرام باہمی ضد اور اختلافات کی دور رس گھاٹی میں پھنس کر اس بنیادی تعلیم کی آگہی سے غافل ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے آج مسلمان تباہی پر کھڑے ہیں آج ہماری بربادیوں کے مشورے سیاست کے ایوانوں میں ہورہے ہیں، باطل طاقتیں ہماری تاریخ کو مسخ کرنے کا عزم رکھتی ہیں، شریعت کے قوانین کی دھجیاں اڑانے کا عزم رکھتی ہیں، آج پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ اور یہ تمام مصیبتیں صرف تعلیم سے بے رغبتی کی وجہ سے جھیلنی پڑ رہی ہیں۔
اگر ہمارے بھائی کچھ تعلیم حاصل کر بھی لیتے ہیں تو انکا ذہن مغربی ذہن کے مترادف ہوجاتا ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا اپنا تیار کردہ نساب نہیں ہے ظاہر سی بات جس ذہن کا تیار کردہ نساب ہے اسی ذہن کے لوگ پیدا ہونگے اس مسلم سوسائٹی کو ذرہ برابر فائدہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلۓ سم قاتل سے کم نہیں ہے ۔
★حواشی★
۱:محاسن الشعر الجزء الاول ص 7 محمد اجمل ایوب اصلاحی ندوی۔
2:سورہ علق ۔پارہ نمبر 30۔
3: سورہ احزاب آیت 72 پارہ نمبر22۔
4:مجموعہ منتخبات من جمرة خطب العرب تاليف احمد ذكي صفوت ص 45 .