تحریر: فضیل احمد ناصری
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
9 اگست کو دارالعلوم دیوبند نے اپنے احاطے میں الیاسی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی، اس فیصلے پر مثبت و منفی دونوں طرح کی رائیں منظر عام پر آئی ہیں، لکھنے والے لکھ رہے ہیں اور زورِ قلم لگا کر، کوئی تائید میں ہے اور کوئی تردید میں، مؤیدین اس قدغن کو استحسانی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، جب کہ غیرمتفق احباب اپنی ایڑی چوٹی کا زور یہ ثابت کرنے میں لگا رہے ہیں کہ دارالعلوم کا فیصلہ غلط، ناقابلِ تقلید اور عدمِ برداشت کا نمونہ ہے۔۔۔
★نویسنده داند کہ در نامہ چیست?★
سو اس سلسلے میں عرض ہے کہ دارالعلوم کا یہ فیصلہ خالص انتظامی ہے، جماعت کی دو دھڑوں میں تقسیم کے بعد اس سے وابستہ کارکنان کی قوتِ برداشت مثالی نہیں رہی، الناس علی دین ملوکہم، خرابی فرد میں ہو یا جماعت میں، اوپر سے ہی چلتی ہے، اوپر کی خرابی اوپر ہی رہے تو مسئلہ سنگین رخ اختیار نہیں کرتا، لیکن وہی خرابی اوپر سے گزر کر نیچے تک آجاے اور تنظیم کی رگ و پے میں سما جاے تو معاملہ تباہی کی صورت لے لیتا ہے، جامد گھی میں چوہا گر کر مرجاے تو گھی کا صرف وہی حصہ ناپاک ہوتا ہے جو اس کے جسم سے ملحق ہو، چوہے سمیت اس سے ملحقہ گھی کو بھی نکال دیا جاے تو گھی کی طہارت میں کوئی شک نہیں رہ جاتا، لیکن یہی "فویسقہ" (چوہیا) اگر سیال گھی میں گر کر دم توڑ دے تو سارے فقہا یہی کہیں گے کہ گھی کی طہارت ختم، اپنی خوردونوش کی اشیا میں اب کوئی بھی استعمال نہ کرے، الیاسی جماعت کا یہ اختلاف اوپر اوپر نہیں رہا، بڑھتا گیا، پھیلتا گیا اور نقصان پہونچاتا گیا، اس اختلاف نے مدارس کو بھی اپنی زد میں لیا، نتیجہ یہ کہ طلبہ بھی دو خیموں میں بٹ گئے، طنز کے تیر و تفنگ اور تلمیحات کی گولہ باریوں نے دونوں فریق کو چھلنی کیے رکھا، بات زبانی جنگ سے گزر کر دو دو ہاتھ تک پہونچ گئی، دارالعلوم غیر جانبدار تھا، کسی ایک فریق کے خلاف فیصلہ نہیں لے سکتا تھا، چنانچہ وہی کیا جو ایک حکیم. و دانا کرتا ہے، دونوں خیموں کو ممانعت کا پروانہ تھما دیا، لفافہ بند خط میں تحریر مواد کو لکھنے والا ہی جانتا ہے، طلبہ کے اندرونی خلفشار نے ماحول کو جیسا بگاڑا تھا کوئی کیا جانے? دارالعلوم نے جو کیا اسے اس کا حق تھا، تحفظِ ادارہ کے لیے اس سے بہتر فیصلہ ممکن نہیں تھا۔۔
اس فیصلے کے ساتھ ہی ایک سوال یہ ضرور کھڑا ہوا ہے کہ تشکیل وغیرہ کے لیے مرکز نظام الدین کا وفد (جو سالانہ امتحان کے موقعے پر تسلسل سے آتا رہا ہے) دارالعلوم میں اب آے گا یا نہیں? کیوں کہ اس پابندی کا مطلب یہ ہوا کہ دارالعلوم کا احاطہ اس تشکیل کی بھی اجازت نہ دے، اللہ جانے حقیقت کیا ہے?
★یہ پابندی دائمی نہیں★
تاہم یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ اس پابندی کی بنیاد "جماعتی اختلاف" ہے، جس دن یہ دونوں خیمے پھر ایک ہو جائیں گے، دونوں کی وابستگی پچھلی سی ہو جاے گی، ان کا حلقہ یاراں ریشم مزاج ہو جاے گا، ماضی سی سمع و طاعت اور ایامِ گزشتہ سا اخلاق ان میں پھر لوٹ آے گا تو دارالعلوم کے دروازے پھر سے کھل جائیں گے، طلبہ جماعتی سرگرمیاں پھر سے انجام دے سکیں گے، چلت پھرت، تفقد، گشت، مشورہ، تشکیل وشکیل دوبارہ چلنے لگے گی، اس کے لیے انجن کو ٹھیک ہونا پڑے گا، ایک جان اور دو قالب میں انہیں پھر ڈھلنا پڑے گا۔۔
★یہ طلبہ کا میدان نہیں★
یہ ہر گز نہ سوچیے کہ دارالعلوم کا یہ قدم طالبانِ علوم کے خلاف ہے، بلکہ یقین جانیے کہ ام المدارس کا یہ فیصلہ طلبہ کے مفاد میں ہے، مدارس میں طلبہ کی آمد تحصیلِ علم کے لیے ہوتی ہے، علم دین کی معیاری تحصیل "جوے شیر لانا" ہے، عربی کا مقولہ ہے:"العلم لا یعطیک بعضہ حتیٰ تعطیہ کلک" معیاری علم کے لیے خود کو جھونکنا پڑتا ہے تب کہیں اس کے دامن میں کچھ لعل و جواہر آتے ہیں، مدارس کا نصاب ایسا لگا بندھا اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ طلبہ کے لیے سر کھجانا بھی مشکل۔۔۔ دقیق عبارتیں، فنی مباحث، گنجلگ مقامات قدم قدم پر اس کی توجہ چاہتے ہیں، پڑھنے والے طلبہ کے لیے یہ نصاب ایک ایسی دنیا ہے جس سے باہر نکلنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا، ایسے ماحول میں دوسری سرگرمیوں کا چکر ان کے لیے بالیقین سم قاتل ہے، پچھلے ادوار میں ہمارے اکابر طلبہ کو اپنی خانقاہی مصروفیات سے اسی سبب دور رکھتے تھے، کیوں کہ ھو حق کی بزمیں ان کی منزلِ مقصود کی تحصیل میں رکاوٹ بن سکتی تھیں، سچ کہیے تو پڑھنے لکھنے کے علاوہ طلبہ کو وقت مل جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معیاری علم کی تحصیل ان کے اہداف میں نہیں، اردو شاعر کا یہ ملفوظ تازہ کر لیجیے:
جب کام میں کام اور چھیڑا
دونوں میں ہی پڑ گیا بکھیڑا
★طلبہ مدارس بھی اللہ کی راہ میں ہیں★
طلبہ کے لیے یہ بھی عرض ہے کہ جب تک آپ معیاری علم کی تحصیل میں لگے ہیں، آپ اللہ کے راہ میں ہی ہیں، اللہ کا یہ راستہ مشکلات سے بھرپور اور مجاھدات سے معمور ہے،لہذا اس کا ثواب بھی زیادہ ہے، یہ بھی ذہن نشین کر لیجیے کہ آپ اللہ کے منتخب بندے ہیں، اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ آپ تفقہ فی الدین حاصل کریں، آپ قطعی یہ نہ سمجھیں کہ اللہ کا راستہ بس وہی ہے جسے حضرت مولانا الیاس کاندھلویؒ نے دریافت کیا ہے، لاریب کہ وہ بھی اللہ ہی کا راستہ ہے، مگر اس کا مقام وہ نہیں جس کی رہ نمائی خود وحی نے کی ، معیاری علم کی تحصیل اللہ کا وہ راستہ ہے جس کی تعیین وحی نے کی ہے، لہذا افضل راستہ درس و تدریس ہی ہے، اگر کوئی طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ مدرسے کی زندگی اللہ کے راستے سے خارج ہے تو اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اس کی نظر میں معیاری علم کی کوئی قدر نہیں، اسے فوراﹰ سے پیش تر مدرسے سے نکل جانا چاہیے۔۔
★الیاسی جماعت باردو کے ڈھیر پر★
اس حقیقت سے کوئی آگاہ ہو یا نہ ہو، مگر تسلیم کرنا ہوگا کہ جماعت اس وقت بارود کے ڈھیر پر ہے، اس جھگڑے نے صرف ملکی مسلمانوں کو متاثر نہیں کیا، بلکہ اس کی نحوست نے عالم اسلام پر مہیب اثرات چھوڑے ہیں، نتیجہ یہ ہے کہ دونوں کے مراکز علیحدہ ہوتے جا رہے ہیں، مسجدیں تنازعات کی آماجگاہ بن رہی ہیں، محراب و منبر سے اپنے حریف پر سب و شتم کی بوچھاڑ ہے، ایک دوسرے پر گمراہی کے فیصلے ہیں، تفسیق ہے، تضلیل ہے، آمنا سامنا کے بھی روادار نہیں، حضرت الاستاذ مولانا ارشد مدنی مدظلہ نے صحیح ہی کہا ہے کہ جماعت اس وقت شدید بحران سے دوچار ہے، اس کی قیام گاہیں اور گزر گاہیں آتشیں سمندر کی زد میں ہیں۔۔
★اس اختلاف کو مٹانا ہوگا★
جماعت کا یہ اختلاف ابھی پرانا نہیں ہوا، اس پر ابھی سال بھی نہیں گزرا ہے، اختلاف تازہ ہو، دوری نئی ہو، کبیدگی نوزاد ہو تو اسے ختم کرنا آسان ہے، لیکن زخم جوں جوں کہنہ ہوتا ہے، زہرناکی بڑھتی جاتی ہے، اختلاف کی یہ خلیج ابھی پاٹی جا سکتی ہے، مگر جب مدت گزر جاے گی تو بڑے سے بڑے دانا اور بینا بھی اس کھائی کو ہموار نہیں کر سکتے۔۔۔
اس جھگڑے کی سنگینی ہی تھی کہ ہمارے اکابر نے اس کے خاتمے کی تحریکیں چلائیں، پاکستان کے جلیل القدر عالم دین، محدثِ وقت حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحبؒ نے اس کے لیے حضرت الاستاذ مولانا ارشد مدنی مدظلہ اور مدرسہ مظاہر علوم کو خطوط لکھے، ان خطوط میں ان کا سوزِ دروں حرف حرف سے نمایاں تھا، ان کی للہیت ہی تھی کہ حضرت الاستاذ دہلی پہونچے اور ذمہ داران سے مل کر مصالحت کی کوشش کی، دارالعلوم نے بھی باقاعدہ اس سلسلے میں مکتوب بھیجا، مگر نہ جانے کیوں، سنی ان سنی کردی گئی، پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا، جماعت دو نیم ہو گئی، جماعتی احباب کا شیرازہ بکھر گیا، امیر مامور، متکلم مخاطب اور منبر و محراب تک دو لخت ہو کر رہی۔
★جماعت کی نگرانی علماے راسخین کریں★
یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ الیاسی جماعت ہماری ہی جماعت ہے، اس کا اجرا ہمارے اکابر نے کیا ہے، یہ بات اور ہے کہ جماعت کی علما سے ناوابستگی کے سبب اس میں خرابیاں در آئیں، خرابیوں کو دیکھ کر شے کی نفی کرنا درست نہیں ہے، کمالِ دانشمندی یہ ہے کہ ان خرابیوں کو دور کرکے شے کی اصلاح کی جاے، جماعت میں کچھ چیزیں غلط آگئی ہیں جو علما کو کھلتی ہیں، مثلاﹰ جماعت کا امیر غیر عالم کو منتخب کرنا، تقریر کے لیے غیر عالم کو کھڑا کرنا، ائمہ مساجد کو جماعتی سرگرمیوں میں حصہ لینے پر مجبور کرنا، غیر جماعتی عالم کو لائقِ استفادہ نہ جاننا، غلو کرنا، یہ ایسی باتیں ہیں جن کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں، علما کے سامنے اس وقت کئی مسائل ہیں، پہلا تو یہی کہ جماعتی اختلاف کو ختم کیا جاے، دوسرا یہ کہ جماعتی احباب میں درآئی خامیوں کو دور کیا جاے، تیسرا یہ کہ جماعتی مراکز میں قابل اعتماد علما کا تقرر کیا جاے، چوتھا یہ کہ ملک کی صفِ اول کے اہل علم پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل پاے جو امیر جماعت کے مواعظ و ملفوظات کی وقتاً فوقتاً جانچ کرے، یہ کام ہو جائیں تو ان شاءالله یہ جماعت ایک بار پھر افادیت کی راہ چل پڑے گی۔