رپورٹ: صابر علی
ـــــــــــــــــــــــــــ
اعظم گڑھ(آئی این اے نیوز 16/اگست 2017) صبح کے تقریباً ساڑھے آٹھ بجے میں حافظ قاری ظفر صاحب حقی کے ساتھ جامعة الطیبات طویٰ گیا، ہم آدھے راستے ہی پہونچے تھے کہ بارش کی ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی، ہم تو ڈر ہی گئے !!!
★کس لئے ؟؟؟★
ارے ڈر یہ لگ رہا تھا کہ کہیں یہ کپڑا جسے ہم نے ماڑی مار مار کر تین چار روز سے استری پر استری کیا ہے کہیں اس کا کچومر نہ نکل جائے، خیر خدا خدا کر کے بارش سے چھپ چھپا کر ہم آگے نکل گئے، تھوڑی دیر بعد جب منزل مقصود یعنی جامعہ پہونچے تو دیکھا کہ صدر دروازے پر وطنی تین رنگی غبارے اڑ اڑ کر فضا میں اٹکھیلیاں کر رہے تھے اور ہر غبارے کی یہی خواہش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اونچائی پر جائے اور دل کھول کر جشنِ آزادی منائے ۔
اور اندر گئے تو پھولوں کی چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں جن کے ہاتھ میں ان کی بساط کے مطابق جھنڈے دیئے گئے تھے وہ بھی غباروں کی طرح بلکہ ان سے کہیں زیادہ خوش و خرم تھیں اور اچک اچک کر جھنڈے کو پھہرا رہی تھیں، اور تو اور بارش نے تو آزادی ہند کی خوشی میں صبح صبح ان معصوم جھاڑیوں کو اتنا نہلا دیا تھا کہ بچاری ٹھنڈ کے مارے سکڑی ہوئیں تھیں، لیکن ٹھنڈ لگنے کے باوجود ان کے اندر اتنا پاس و لحاظ تھا کہ انہوں نے اپنے جھنڈے کو کبھی جھکنے نہ دیا، بعض مرتبہ ہوا کے شریر جھونکوں نے چاہا کہ جھنڈا ان کے ہاتھ سے چھوٹ جائے اور وہ اسے جھٹ لے بھاگیں، لیکن یہ کہاں ممکن تھا ۔ ۔ ۔ ۔
چند قدم آگے بڑھا تو دیکھا کہ گلابوں کے سینکڑوں پودے صف بستہ کھڑے ہیں، جن میں سے اکثر پودے ایسے تھے جنہیں دیکھ کر لگتاتھا کہ کسی نے ان کی بھی چوٹیاں کاٹ لی ہیں، کچھ تو شاید بارش کے چلبلے قطروں نے گلابوں کی پنکھڑیوں سے شرارت کی تھی، بقیہ کچھ پنکھڑیاں شاید جھنڈا پھہرانے کی نذر ہوگئیں تھیں ۔
بہرحال! پنکھڑیاں چاہے لوگوں نے چھینی ہو یا بارش کے قطروں نے، دونوں نے بڑی ہی نزاکت سے نومولود بچے کے بال کاٹنے کی طرح بال اتار کر اسے گنجا اور چکنا کردیا تھا، بلکل ایئرپورٹ کے رن وے کی طرح، گلاب کے پھول میں صرف اور صرف اس کا مغز ہی بچا تھا، اسی طرح فضا، پیڑ پودے، پھولوں کی کیاریاں، انکے مسکراتے پھول انکی کھلکھلاتی کلیاں اور ان میں منڈلاتی رنگ برنگی تتلیاں سب جشنِ آزادی کی خوشیوں میں مشغول و مصروف تھے، تو ہم نے سوچا کیوں نہ ہم بھی اب اپنا فرض ادا کریں، کیوں نہ ہم بھی جشنِ آزادی کے قصیدے گائیں.
لہذا 15 : 9 بدست حاجی عمر صاحب ( نائب صدر سوسائٹی )حاجی ہشام الدین صاحب، حاجی احسان صاحب، مولانا اصغر علی اصلاحی (ناظمِ جامعہ)، مولانا عتیق الرحمٰن صاحب اصلاحی ( مہتتم جامعہ ) ، مولانا دلشاد صاحب اصلاحی ( صدرِ جامعہ ) پرچم کشائی کا فریضہ انجام دیا گیا، پرچم کشائی کے فوراً بعد تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے پوری فضا گونج اٹھی، اسکے بعد جب ہم جھنڈے تلے سے ہٹنے لگے تاکہ ترانہ آزادی پڑھا جائے تو پاس کھڑی چھوٹی چھوٹی بچیوں نے بیک زبان سلامی داغی۔
دفعة ان کی سلامی پر میں چونک اٹھا، پھر دل کو تسلی دی کہ
نہیں نہیں، کوئی بات نہیں، بچیوں نے سلام کیا ہے.
پرچم کشائی کے وقت قرب و جوار سے آئے ہوئے کثیر تعداد میں مہمانان کرام موجود تھے، ہم مہمانوں کی فہرست میں آئیں یا نہ آئیں لیکن لڈو خور کی فہرست میں سرفہرست تھے ۔
بعدہ ترانہ آزادی علامہ اقبالؒ ,گروپ کی شکل میں کئی بچیوں نے پیش کیا، ترانہ آزادی کے بعد باقاعدہ پروگرام کا آغاز خوش لہن تلاوتِ کلام الله سے کیا گیا، تلاوتِ کلام اللہ کے بعد حمد و نعت پیش کی گئی جس نے دلوں معطر و مسرور کر دیا ۔
طالبہ ششم کی " جشنِ آزادی " کے عنوان سے پیش کی جانے والی تقریر نے تو جیسے دل ہی جیت لیا ہو، اسی طرح طلبہ سوم کی طالبہ نے بعنوان " جشنِ آزادی اور ہم " پر جو کلام پیش کیا تو مانو کہ آنکھوں نے اشکوں سے کئی کئی بار وضو کیا، ان کی تقریر میں اتنی تاثیر تھی کہ ہر لفظ ایک لہر کی طرح پورے جسم میں ڈور جاتا اور روئیں روئیں کانپ جاتے، کئی جملے ایسے تھے جنہیں سنہرے حرفوں سے لکھنے کی ضرورت تھی ان میں سے مثلاً "ہم مرتے ہیں تو غسل کرکے مٹی میں دفن ہوتے ہیں، ہم تو ملک کی مٹی کو بھی ناپاک نہیں کرتے"، اسی طرح تمام شرکاء پروگرام نے نت نئے انداز، الگ الگ لہجے، الگ الگ عنوان سے تقاریر پیش کیں.